1122 کے قیام کی کاوش
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
خر کار خدا خدا کرکے 1122
کی سروس کیلئے کام شروع ہو ہی گیا ڈسٹرکٹ آ ٖفیسر ریسکیو 1122 ڈاکٹر ماجد
اور اسسٹنٹ کمشنر کہروڑپکا چودھری ظفر اﷲ عاصم کی مشترکہ کوششوں سے تحصیل
کیلئے 1122کا پرپوزل تیار کیا جارہا ہے جو کہ نہایت ہی خو ش آئند اور اہل
علاقہ کیلئے ایک بڑی خوشخبری ہے کیونکہ سانحہ وحادثہ کسی وقت بھی ہو سکتا
ہے اور اس میں یقینا مشیت ایزدی بھی شامل ہوتی ہے ۔اب حادثے کے بعد متاثرین
کو بروقت طبی امداد باہم پہچانے کا مسئلہ آڑے آتاہے اور اس طرح کے کئی حا
دثات میں بر وقت طبی امداد نہ ملنے کی بنا پر اموات بھی ہوچکی ہیں لہذا
1122 کی سہولت انسانی جان کو بچانے میں نہایت حد تک معاون و مددگار ثابت
ہوسکتی ہے۔سروس اور امداد کا بروقت پہنچنے کیلئے اس کا سینٹر اور لو کیشن
بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔اس مسئلے کو اسسٹنٹ کمشنر چودھری ظفراﷲ عاصم نے
حل کردیا اورشہرکے بیچوں بیچ ٹی ایم اے کی ملکیت بس سٹینڈ والی جگہ جو کہ
تقریباً چار کنال پرمشتمل ہے اس کا وزٹ کرایا گیااور اسے منتخب کردیا
گیا۔ماہرین کی نظر میں یہ جگہ ریسکیو1122 کیلئے بالکل فٹ ہے یہاں سے اپنی
ٹائمنگ سات منٹ کے دورانیے میں شہر کے کسی بھی حصہ میں پہنچا جاسکتا ہے
قارئین کرام پچھلے سال بجٹ میں بھی 1122 کیلئے رقم مختص کی گئی لیکن جگہ کی
عدم دستیابی کی بناپر Laps ہوگئی اس مرتبہ بھی ایک خطیر رقم alocate کی گئی
اور حسب معمول یہ بھیLaps ہوجانی تھی لیکن چوہدری ظفر اﷲ عاصم کی، دوسرے
کاموں جیسا کہ پارک کی تراش خراش، روڈز اور سیوریج کے نظام کی درستگی ٹی
ایچ کیو ہسپتال کے عملے کی گاہے بگاہے انسپکشن اور سرزنش،میں دلچسپی
اوراخلاص نیت سے انشاء اﷲ یہ کام مکمل کو پہنچ جائے گاویسے بھی اخلاص سے
نیت سے ہونیوالہ عمل اپنے اندر برکتیں سموئے ہوئے ہوتا ہے۔پرخلوص فعل
انسانی دل ودماغ کی تازگی اورفرحت کاا یک ذریعہ اور عمل بھی ہے جب عمل سے
دکھاوا اورریاکاری کو نکال باہر کیا جائے تو اس میں اﷲ کی رضااور خوشنودی
حاصل ہوتی ہے۔دل و دماغ کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔جبکہ ریاکاری بدنیتی اور
دکھاوے سے عمل کی تکمیل مشکوک ہوجاتی ہے۔ عمل سے لطف وسرور غائب ہو جاتاہے
ہمارے نیک اعمال کرنے میں تسکین،لطف اور اطمینان قلب کا حاصل نہ ہونا بھی
ہماری بدنیتی اور دکھاوے پردلالت کرتاہے۔
قا رئین کرام! آپ یقینا بہتر جانتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کو ہمیشہ سے محروم
رکھا گیا ہے اور اسکی محرومیوں کوبڑھانے میں سیا سی زعما اورشخصیا ت کا
کردار کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔درحقیقت ہماری اشرافیہ اور سیاستدانوں کو
اپنی سیاست سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی ملک و قوم سے کوئی سروکار۔ انکی
اپنی ترجیحات ہیں اپنے معاملات اور معمولات ہیں۔ انہیں نہ تو شرح خواندگی
کے نشیب و فراز سے واسطہ ہے اور نہ کی صحت کے بگڑتی صورت حال سے ۔ ان کے
بچوں نے نہ تو یہاں تعلیم حاصل کرنا ہے اور نہ ہی ان کا علاج پاکستان میں
ہونا ہے۔ان کا مطمع نظر صرف اور صرف اپنا اور اپنے قبیل کے لوگوں میل ملاپ
اور استفادے پر منحصر ہوتا ہے۔ عوام جائے بھاڑ میں۔یہی وجہ ہے کہ2014-15کی
ADPمیں ضلع لودھراں کے لئے بہت سی سکیمز آئیں اور ایک خطیر رقم مختص کی
گئی۔مگر شو مئی قسمت کہ ان میں سے دس فیصد پر بھی کام نہ ہوسکا۔اکثرسکیمز
کیلئے تو رقم ریلیز ہی نہ ہو سکی۔اور صرف اعلانات کی حد تک عوام کو خوش کیا
گیا۔چند ایک کیلئے اعلان کردہ رقم میں سے کچھ حصہ ریلیز کیا گیا اور اس کا
بھی دس سے پندرہ فیصد استعمال ہو سکا جبکہ بقیہ اپر پنجاب کیلئے واپس کر
دیا گیا۔کیو نکہ وہ ایم این اے، ایم پی اے، افسر حکومت کی نظر میں اچھا اور
گڈبک میں شمار ہوتا ہے جوکہ گرانٹ کو کم سے کم خرچ کرتا ہے جبکہ بقیہ کو
delay کرکے ناقابل استعمال بنوانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔عوام کو فنڈز
کی کمی کا ٹوپی ڈرامہ دکھایا جاتا ہے اور اگلے سال وہی گرانٹ دوبارہ سے
اعلان کردی جاتی ہے جس پر بے عقلی عوام تحسین و ستائش کے ڈونگرے برسارہی
ہوتی ہے۔ اب بھی ایسا ہی کچھ کیا گیا ہے لیکن اب عوام کو چاہئے کہ وہ کوئی
ہلچل پیدا کریں باتیں مٹھارنے ، دوسروں پرتکیہ کرنے کی بجائے عملی طور پر
میدان میں آئیں اور اپنے حقوق اور آپ کو ملنے والی گرانٹ کے بھرپور اور
مناسب استعمال کیلئے آمدورفت کا سلسلہ بنائیں اے سی ظفر اﷲ عاصم کہروڑپکا
اور ڈی سی او لودھراں شاہد نیاز جیسے افسران تک اپنی آواز پہنچائیں اور
اپنے حقوق کو اپنے علاقے کی فلاح و بہبود کیلئے اپنا حصہ ملائیں اسی میں
علاقے کی بہتری اور ترقی ہے۔ |
|