کیا چاند کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے (پہلی قسط)

برطانیہ و یورپ میں چاند کی روئت اور دو عیدوں کا مسئلہ روز بروز پیچیدہ اور پریشان کن صورت حال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جب عید قریب آتی ہے تو یہ مسئلہ بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زیر بحث آتا ہے۔ اس سے متعلقہ خبریں اور مضامین اخبارات کے صفحات کی زینت بنتے ہیں۔ گھروں، مسجدوں، دفتروں اور کوچہ و بازار میں یہی ایک ہی موضوع عید سے پہلے اور دو دن بعد تک زیر گردش رہتا ہے ۔لیکن بعد ازاں علماء اور عوام الناس دونوں ہی اسے اگلی عید تک کیلئے خیرآباد کہ کر دیگر کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ راقم الحروف نے اس مسئلہ کی نزاکت اور اپنی کم علمی کی وجہ سے اس سے قبل کبھی اس اہم موضوع پر قلم اٹھانے کی جسارت نہیں کی۔ ناگزیر حالات اور لوگوں کی پریشانیاں دیکھ کر صرف اس لئے یہ جرئت کر رہا ہوں کہ کہیں یہ خاموشی مجرمانہ خاموشی نہ بن جائے۔ اس بات کا بھی شدت سے احساس ہے کہ شاید بڑے بڑے بزرگ جن کے ہاتھوں یہ گتھی سلجھ سکتی ہے وہ ہماری اس کمزورسی آواز اور حقیر سی کاوش کو قابل توجہ ہی نہ سمجھیں۔ کیونکہ اس اہم اور حساس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے اس سے پہلے کئی بیٹھکیں اوربہت سی کوششیں ہو چکی ہیں لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے۔ بہرکیف مایوسی گناہ ہے اور ہم ابھی بھی پر امید ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اب صورت حال تبدیل ہو تی جا رہی ہے۔ذرائع ابلاغ خصوصا سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں میں آگہی اور شعور پیدا ہوا ہے۔ عوام الناس تنگ آکر جارحانہ انداز میں احتجاجی پروگرام تشکیل دے رہے ہیں۔ برمنگھم کے نوجوانوں نے ایک مہم کا آغاز کردیا ہے کہ دو عیدوں کی صورت میں عید کے دن کسی بھی مسجد کو فطرانہ اور چندہ نہ دینے کی بھرپور مہم چلائی جائے گی۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات اس مسئلہ کے شریعت اسلامیہ کے مطابق حل کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ ہم ان تمام علماء اور اصحاب فن کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس موضوع پر تحقیق کی اور بہت کچھ لکھا ہے ۔ ا ن سب نے اپنے اپنے موقف کی تائید میں دلائل و براہین اکٹھی کر نے میں خوب کاوشیں کیں اور داد و تحسین وصول کی۔ ہمیں کسی کی نیت پہ شک ہے نہ عمل پہ بے جا اعتراض۔ہماری کوشش یہ ہے کہ بجائے فریق بننے کے غیر جانبدارانہ انداز میں دونوں نظریات کے حامل مفکرین کو قریب تر کر کے اس تکلیف دہ اور پریشان کن مسئلہ کا اجتمائی اور پائیدار حل تلاش کیا جائے۔ یہ مسئلہ خالص مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی سماجی زندگی پر بھی دور رس نتائج مرتب کرتا ہے۔ جب مسلمان دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہ رہے ہوں تو بے اتفاقی کی صورت میں جگ ہنسائی اور بدنامی کا باعث بھی بنتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب دو عیدوں کے امکانات ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں تو پوری مسلمان کمیونٹی میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ عام لوگ اس مسئلہ کی پیچیدگی اور گہرائی سے تو واقف نہیں البتہ ان مواقع پر دونوں نظریات کے علماء کو خوب ہدف تنقید بناکر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ عوام الناس کے دلوں کی آواز ایک ہی ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک ہی چاند بنایا ہے۔ ایک افق پر ایک وقت میں ایک ہی دن دکھائی دے سکتا ہے۔ لھذا علماء کو چاہیے کہ ایک دن عید کرکے اس الجھن سے ہماری جان چھڑائیں۔ان مواقع پر کچھ لوگ اس مسئلہ کو بریلوی دیوبندی یا وہابی و سنی کا رنگ دے کر اک نئی الجھن پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ مجالس میں زیر لب اس بات کو بھی اچھالا جاتا ہے کہ یہ مسلکی اختلافات کا شاخسانہ ہے۔ حالانکہ حقائق یہ بتاتے ہیں کہ اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے کچھ لوگوں کی یہ خود ساختہ غلط فہمیاں ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ یا پھر اس کا سبب کم علمی اور صورت حال سے ناواقفیت ہے۔اصل میں یہ مسلکی نہیں بلکہ ایک علمی اور نظریاتی اختلاف ہے۔ اگر یہ مسلکی اختلاف ہو تا تو بریلوی مکتبہ فکر کے جملہ علماء و مشائخ، حزب العلماء کے سینکڑوں دیوبندی علماء، دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ خصوصا شیخ الحدیث سعید احمد پالنپوری ، جماعت اسلامی کے سکالرز، دیوبندی مکتبہ فکر کا مذہبی ٹی وی چینل اور شیعہ علماء سعودی اعلان کی پیروی میں عید کرنے کی بجائے امکان روئت کے موقف پر ہم آواز نہ ہوتے۔ اسی طرح اگر یہ اختلاف مسلکی ہوتا تو ریجنٹس پارک مسجد کے حنبلی اور شافعی مقلد علماء عرب ، اہلحدیث مکتبہ فکر کے غیر مقلد مذہبی سکالرز اور ڈیوز بری مرکز کے تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے دیوبندی حنفی علماء فقط سعودی اعلان کی پیروی کرکے عید کرنے میں کبھی ہم خیال نہ ہوتے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ مسلکی اختلاف ہر گز نہیں ہے۔ چاند کا مسئلہ ایک فقہی مسئلہ ہے۔ بریلوی، دیوبندی اور جماعت اسلامی سب ہی تو فقہ حنفی کے پیروکار ہیں۔ جید علماء احناف کے فتاویٰ اور مستند کتب فقہ کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل یقینی طور ممکن ہے۔ علاوہ ازیں اہلحدیث اور شیعہ مکاتب فکر کے روئت ہلال کے اصول بھی فقہ حنفی سے حد درجہ قریب تر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ، بنگلہ دیش، مراکش اور دیگر ممالک کی روئت ہلال کمیٹیوں میں سالہاسال سے جملہ مکاتب فکر کے علماء کرام اکٹھے نظر آتے ہیں اورچاند دیکھنے کیلئے ایک ہی اصول استعمال کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک افق کے اعتبار سے غیر معتدل ہیں۔ لیکن پھر بھی اسلامی شرعی اصولوں کے مطابق وقت، حالات اور ماحول کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یقینا اجتماعی طور پر کوئی قابل عمل حل نکال کر اپنی قوم کے مرجھائے چہروں پر مسکراہٹ لائی جا سکتی ہے اور ٹوٹے دلوں کو جوڑا جا سکتا ہے۔ تحقیق و جستجو کے بعد کوئی ایسا فارمولا ضرور بن سکتا ہے جس پر سب متفق ہوں۔ ہمارے اسلاف علم فلکیات کے موجد ہیں۔ جب یورپ اندھیروں میں ڈوبا تھا تو اس وقت اندلس کی رسد گاہوں میں بیٹھے مسلمان ماہرین فلکیات ستاروں کی گزرگاہوں کے نشان راہ بتا رہے تھے ۔ لیکن آج اکیسویں صدی میں فلکیات سے استفادہ کرکے اپنے ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے اگر اس علم کی اہمیت پر ہی سوالیہ نشان لگا دیں تو اسے بد قسمتی اور کم فہمی کے سوا کیا کہیے؟ دنیا چاند پہ پہنچ کر واپس آنے کی دعویدار ہے جبکہ ہمیں اسکے دکھائی دینے میں ہی دشواریاں در پیش ہیں۔چاند کا مسئلہ کوئی لا ینحل عقدہ نہیں بلکہ یقینا یہ مسئلہ بآسانی حل ہو سکتا ہے۔ اپنے موقف پر اڑے رہنے کی بجائے حق تک پہنچنے اور  اسے پہچاننے کیلئے مسلسل جستجو اور تگ و دو کی ضرورت ہے۔ فرض روزہ کے دن عید یا عید کے دن روزہ ایک انتہائی نازک اور سنگین مسئلہ ہے۔ اگر ہماری کوتاہی کی وجہ سے کسی کا روزہ ضائع ہوتا ہے تو کل میدان محشر میں جوابدہ بھی ہم ہی ہوں گے۔ دونوں اطراف کی علمی و نظریاتی شخصیات کی خدمت میں یہ مودبانہ گزارش ہے کہ اس مسئلہ کی نزاکت اور اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشرتی خلفشار کو ہرگز نظر انداز نہ کریں۔ خدا کیلئے چاند کے مسئلہ کو انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے مل بیٹھ کر اخلاص نیت کے ساتھ کوئی پائیدار حل تلاش کریں۔ آپ اس حوالے سے اپنی آراء اور تجاویز اس ای میل ایڈریس پر ارسال کر سکتے ہیں
(جاری ہے
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 240953 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More