گناہ گاروں کی حضوری
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
صحت کا کھو جانا دولت کا کھو
جانا خوشیوں کا روٹھ جانایقینی طور پر انسانی زندگی پر بہت بھاری ہوتے ہیں۔
یوں جو درد ملتا ہے وہ اُس درد کے سامنے کچھ بھی نہیں جو درد احساسِ زیاں
کے کھو جانے سے ملتا ہے۔درد پھر درد نہیں رہتا،اِس درد کی حدت سے عشق کو جو
تمازت میسر آتی ہے وہ آشنائی سارئے دُکھوں کو مرہم دیتی ہے اور یوں آہستہ آ
ہستہ درد ہی علاج کا سبب بن جاتا ہے ۔عشق پھر ہاتھ باندھے کھڑا رہتا ہے۔درد
کی تاثیر وجد بن جاتی ہے۔پگڈنڈی کے ساتھ ساتھ بہت سی جھاڑیاں، چھوٹے چھوٹے
پودئے، مٹی کے ڈھیلے ہوتے ہیں لیکن راہی کو تو بس اُسی پگڈنڈی پر ہی اپنے
سفر کو رواں رکھنا ہوتا ہے۔ کہیں سے پگڈنڈی ایک دم سے غائب ہوجاتی ہے لیکن
پھر نمودار ہو جاتی ہے ۔ راہی پگڈنڈی کے ایک دم ختم ہونے سے سفر ترک نہیں
کر دیتا بلکہ وہ جھاڑیوں ، مٹی کے ڈھیلوں اور چھوٹی چھوٹیجڑی بوٹیوں کو
روندتا ہوا منزل کے جانب چلتا رہتا ہے۔ پگڈنڈی ہماری زندگی کی وہ ساعتیں
ہیں جو ہم لمحہ لمحہ گزارتے جارہے ہیں اور جنہوں نے لوٹ کر نہیں آنا۔جڑی
بوٹیاں ہماری زندگی کے وہ نشیب وفراز ہیں جن کا نام ہی زندگی ہے ورنہ زندگی
اگر سکوت کی حامل ہو جائے تو پھر موت اور زندگی کے معنی ایک ہو جائیں گے
لیکن رب کی راہ پر چلنے والا صوفی زندگی اور موت کو ایک کیفیت سے زیادہ کچھ
نہیں سمجھتا۔ وہ زندگی اور موت دونوں کو رب کی عطا سمجھتا ہے اور شاکر ہو
جاتا ہے ۔مادیت کا لین دین صوفی نے نہ تو اِس دنیا میں کرنا ہوتا ہے اور نہ
اُس دنیا میں۔رختِ سفر باندھا ہے یا نہیں عشق کی آگ بجھی ہے یا نہیں دردنے
گھر کیا ہے کہ نہیں آہوں کی شدت، روح کی بے چینی بدل بدل کے ارادئے دل کو
یونہی بدنام کیا ہیخود سے خود کوپشیمان کیا ہے ہجر کے موسم کی خبر رکھی ہے
ہر دم وصال کی ساعتوں کو کیوں بُھلا دیا ہے دریا میں ڈوبنے والے کو کنارئے
کی تمنا کی خواہش اتنی شدید ہوتی ہے کہ وہ کنارئے کو پکڑنے کو اپنی زندگی
کا حاصل گردانتا ہے۔کنارئے تک پہنچنا ڈوبنے والے کو آگہی ادراک فہم سے
آگاہی کی کیفیات سے گزارتا ہے۔اِس ساری تگ و تاز میں ڈوبنے والے کو کہیں سے
اپنی دستگیری کی امید ہوتی ہے ۔ اِسی امید کا سہارا ڈوبنے والے کو مصلحتوں
کا سہارا لینے کی بجائے اِس طرح خود کو بچانے کی سعی کرتا ہے کہ شاید اب
باقی کچھ بھی نہیں بچا۔دستگیری کی امید ہی خالق پر مکمل بھروسے کی راہیں
کھول دیتی ہے اور پھر خالق اپنے بندئے کی ان تھک خواہش اور خودپربے پایاں
بھروسے کا بھرم رکھ لیتا ہے۔ اور ڈوبنے کا عمل کنارئے تک پہنچنے میں بدل
جاتا ہے اور مخلوق کو خالق اپنی رحمتوں نعمتوں کا اسیر بنا لیتا ہے۔ڈوبنے
والا اپنے وجود کو پھر علحیدہ تصور نہیں کرتا بلکہ کنارئے تک پہنچنے کا عمل
اُس کے اندر اپنے رب کی دی ہوئی استطاعت سے اُس کی من کی دنیا بدل دیتا
ہے۔غم کو رب کی جانب سے آنے والی آزمائش مان لینے سے انسان اکیلا نہیں رہتا
بلکہ جس نے اُسے آزمائش میں ڈالا ہوتا ہے وہ اُس کا مددگار ہوجاتا ہے۔جب جب
راستے میں رکاوٹیں آتی ہیں تب تب خالق اپنے دامن میں اپنے بندئے کو سمو
لیتا ہے۔ خالق بندئے کی آنکھ بن جاتا جس سے بندہ دیکھتا ہے ۔ مخلوق کی آنکھ
پھر اُس کی آنکھ نہیں بلکہ خالق کی آنکھ بن جاتی ہے۔درد کی دولت ملنا تو
خالق کا اپنی مخلوق سے قریب تر اور قریب تر ہونے کا سبب ہے۔لامکاں کے مکین
کے سامنے سارئے مکاں ہیچ ہیں ۔ وسیع و عریض کائنات کُن فیکون کے پردئے میں
سے ظہور پذیر ہوا جو وجود میں آگیا اُس کا خالق بھی لامکاں خالق ہے۔جتنا
مخلوق کے ادراک و فہم میں سمو جاتا ہے وہ مکاں۔خالق تو لا مکاں اور مکاں ہر
جگہ ہر ساعت ہر لمحہ موجود ہے۔افضل البشرنبی کریمﷺ کو مکاں کے مدار سے
لامکاں لے جانا اِ امر کا اظہار ہے کہ نبی پاک کائنات میں رب کے بعد سے سے
افضل ترین ہستی ہیں۔لامکاں والے کا مکاں کے مکیں کو جنت دوزخ کا حوال
دیکھانا،تمام انباء اکرامؑ کی امامت فرمانا۔ جہاں فرشتوں کی حدِ پروازختم
اُس سے آگے بھی مکاں کے مقیم کی کا لامکاں کی حضوری کا شرف پانا۔لُٹ گئی جس
کی شام و سحرایسے عاشق کی فریاد کو ن سنے ظلمتوں نے ویرانیوں کو جنم دیا ہے
اُجرئے ہوئے لوگوں کو آباد اب کون کرئے ہوئے ہیں جو صیاد کے ہمنوا اُن کے
جینے کی دُعا کون کرئے راہزنوں کی لوٹ مارکا کو ئی بھی دکھ نہیں محافظوں کے
شب خون پہ نوحہ خوانی کون کرئے۔رفتار کی بات نہیں بات تو یہ ہے کہ کس طرح
کا چال چلن ہے خالق کو چھوڑ کر جب بندہ کسی چوہدری کسی وڈیرئے کا بندہ بن
جاتا ہے یا زر کی غلامی اختیار کر لیتا ہے تو پھر خالق کی توجہ سے محروم ہو
جاتا ہے ۔خلاق بندئے کو رزق صحت تو عطا کرتا ہے لیکن حضوری نہیں مل پاتی
حضوری کے لیے بندئے کو اپنے رب کے محبوب نبی پاکﷺ کا غلام بننا پڑتا ہے ۔
نفرتیں، جھوٹ، کینہ، بغض، عناد، کو دیس نکالا دینا پڑتا ہے۔ جھوتی آن شان
کو الوداع کہنا پڑتا ہے۔ بندئے کا خالق کے ساتھ تعلق اتنا مضبوط ہو جاتا ہے
کہ خالق پھر بندئے کی رضا کو اپنی رضا بنا لیتا ہے۔ |
|