پاکستان میں پھر سیلاب کی تباہ کاریاں....ذمے دار کون؟
(عابد محمود عزام, karachi)
گزشتہ کئی سالوں کی طرح
امسال بھی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب نے ملک کے مختلف علاقوں میں
تباہی مچائی ہوئی ہے۔ سیلاب سے جنوبی پنجاب، خیبرپختونخوا، سندھ اور دیگر
علاقوں میں اربوں روپے مالیت کی کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ سیکڑوں دیہات
زیر آب، ہزاروں مکانات تباہ اور لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں ۔ بارشوں
اور سیلاب سے چترال کے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ کیلاش، گرم
چشمہ اور مستوج جانے والی تمام سڑکیں مکمل طور پر بند ہیں۔ درجنوں رابطہ
سڑکیں اور پل بہہ جانے کی وجہ سے ہزاروں افراد محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔
اسکردو کے علاقے روندو میں سیلابی ریلا آنے سے متعدد رابطہ پل تباہ ہوگئے
ہیں، تازہ ترین لینڈ سلائڈنگ سے گلگت اسکردو روڈ تین مقامات پر بند ہوگیا
ہے۔ جنوبی پنجاب میں بھی بارشوں کی وجہ سے کوہ سلیمان سے نکلنے والے برساتی
ندی نالوں میں شدید طغیانی ہے۔ دریائے جہلم میں ہیڈ رسول اور منگلا کے مقام
پر نچلے درجے کا سیلاب ہے۔ دریائے چناب میں مرالہ، قادر آباد، چنیوٹ برج،
تریموں اور پنجند پر پانی کا بہاو ¿ معمول کے مطابق ہے، تاہم خانکی پر نچلے
درجے کا سیلاب ہے۔ بھارت نے چناب میں 46 ہزار کیوسک کا ریلا چھوڑ کر سیلابی
تباہ کاریوں میں مزید اضافہ کردیا ہے، جبکہ بھارت نے آبی جارحیت کا مظاہرہ
کرتے ہوئے دریائے ستلج میں بھی پانی چھوڑ دیا، جس کی وجہ سے نالہ ڈیک میں
طغیانی آگئی اور پانی مزید بپھر گیا ہے، جبکہ بھارتی آبی جارحیت کے نتیجے
میں بند ٹوٹنے سے رحیم یار خان میں مزید آٹھ بستیاں زیر آب آگئی ہیں۔
محکمہ آبپاشی سندھ نے سکھر بیراج پر اونچے درجے کے سیلاب کا اعلان کیا ہے۔
تین اگست تک گڈو اور سکھر بیراج پر انتہائی اونچے درجے کی سیلابی صورتحال
ہوسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گڈو اور سکھر بیراج پر پانی کی سطح سات
لاکھ کیوسک سے بھی بڑھ سکتی ہے۔ محکمہ آبپاشی کی جانب سے پانی کے اضافے کے
پیش نظر 46 بندوں کو حساس اور 9 بندوں کو انتہائی حساس قرار دے دیا گیا ہے۔
سیلابی پانی داخل ہونے سے سکھر، گھوٹکی اور خیرپور کے 1800 دیہاتوں کا
شہروں سے زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے، جس میں سے 300 دیہات مکمل طور پر زیر
آب آچکے ہیں اور ساڑھے 3 لاکھ افراد محصور ہیں۔ گڈو اور سکھر بیراج کے ڈاون
اسٹریم میں پانی کی سطح میں اضافے کے باعث کچے کی 4 لاکھ 36 ہزار ایکڑ
اراضی پر کھڑی فصل کو نقصان پہنچا ہے۔ دریائے سندھ میں تربیلا، کالاباغ ،
جناح ، تونسہ اور چشمہ بیراجوں پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔ سندھ میں
سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے پاک بحریہ کی ٹیمیں بھی امدادی سرگرمیوں میں
مصروف ہیں۔ پاک بحریہ کی ٹیموں کا کیمپ سکھر میں قائم کیا گیا ہے۔ دوسری
جانب کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاو ¿ن میں واقع لٹھ ڈیم میں شگاف پڑنے سے اطراف
کی آبادیوں کے زیر آب آنے کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ڈیم میں شگاف کی صورت
میں گلستان جوہر، صفورہ چورنگی کے اطراف کے علاقے خصوصاً سن لے کاٹیجز سمیت
کئی علاقے پانی میں ڈوبنے کا خدشہ ہے۔ اس سلسلے میں ابھی تک حکومت کی جانب
سے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے، جبکہ اسٹنٹ کمشنر گڈاپ کا دعویٰ ہے کہ حکومت
لٹھ ڈیم میں پانی کی سطح پر نظر رکھی ہوئی ہے۔
پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی
کے مطابق ملک بھر میں سیلاب اور بارشوں سے جاں بحق ہونے والے افراد کی 69
تک پہنچ گئی ہے۔ این ڈی ایم اے کی جانب سے پیر کو جاری کردہ اعدادوشمار کے
مطابق صوبہ پنجاب اور سندھ میں سیلاب متاثرین کی تعداد 3 لاکھ کے لگ بھگ
ہے۔ ادھر صوبہ خیبر پختونخوا میں آفت زدہ قرار دیے جانے والے پہاڑی ضلع
چترال کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ صرف اسی ضلع میں متاثرین کی تعداد ڈھائی
لاکھ ہے۔ این ڈی ایم اے کی جانب سے جو اعدادوشمار جاری کیے گئے ہیں، ان کے
مطابق خیبر پختونخوا میں سیلاب سے 34، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں
15، پنجاب میں8، بلوچستان میں 7 اور گلگت بلتستان میں 5 افراد جاں بحق ہوئے
ہیں اور 36 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ دیہات کی تعداد 635
ہے، جہاں 1855 مکانات متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ سیلابی ریلے سے ایک ہزار
648 مکانات اور 451 دیہات شدید متاثر ہوئے، 2 لاکھ 33 ہزار ایکڑ سے زاید
رقبے پر کھڑی فصلیں سیلابی ریلے میں بہہ گئیں، جبکہ ہلاک ہونے مویشیوں کی
تعداد بھی سیکڑوں میں ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں
جاری ہیں، جن کے تحت اب تک ایک لاکھ 23 ہزار کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا
گیا، جن میں 23 ہزار 757 خیمے، 20 ہزار 486 ٹن اشیاءخوردونوش اور 121 ٹن
پینے کا پانی بھجوایا جا چکا ہے۔
واضح رہے ملک میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک ادارہ موجود ہے، اس کے
باوجود ہر سال سیلاب کی وجہ سے ملک کو بے بہا جانی و مالی نقصان ہوتا ہے،
لیکن یہ ادارہ سیلاب کے دنوں میں بھی کہیں متحرک نظر نہیں آتا۔ ماہرین
محکمہ موسمیات کے پاس موسم کی پیش گوئی کرنے والے جدید اور طاقتور آلات نہ
ہونے کو بھی نقصانات کی بڑی وجہ قرار دے رہے ہیں۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے
لیے ملک میں این ڈی ایم اے کے نام سے ادارہ توہے، لیکن اس کے پاس اختیارات
اور مالی وافرادی قوت نہیں ہے۔ حکمرانوں اوراین ڈی ایم اے کی نظریں پاک
آرمی، اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں اور بین الاقوامی ڈونرایجنسیوں کی جانب
سے کسی متوقع امداد کے منتظرہیں۔ ذرایع کے مطابق قومی اہمیت کے حامل ادارے
این ڈی ایم اے کے لیے سالانہ بجٹ میں حکومت کی جانب سے کوئی ترقیاتی فنڈ
مختص ہی نہیں ہوتا۔ صرف ملازمین کی تنخواہوں اور دفتری امور کی انجام دہی
کے لیے سالانہ پونے 2 ملین کے قریب فنڈ مختص کیے جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں
نہ تو این ڈی ایم اے کے پاس سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوری ریسکیو
اینڈ ریلیف آپریشن کی صلاحیت ہے اور نہ ہی محکمہ موسمیات کے پاس لانگ ٹرم
فورکاسٹ اور پہاڑی علاقوں میں فلش فلڈ کی پیش گوئی کرنے کے لیے جدید ٹیلی
میٹری نظام موجود ہے۔ حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں کی روک تھام کے لیے
حفاظتی منصوبوں کے لیے فنڈزفراہم کرنے کے لیے تیارنہیں ہوتے۔ ماہرین کے
مطابق گزشتہ 10 سال کے دوران سیلابی تباہ کاریوں کے نتیجے میں پاکستان کو
26بلین ڈالر سے زاید کا نقصان پہنچا ہے، تاہم اس کے باجودملک کے ذمے داران
سیلابی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار کرنے میں ناکام
ہیں۔ دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ موثر منصوبہ بندی اور مربوط نظام کے
فقدان کے باعث نہ صرف ہر سال سیلاب اور دیگر قدرتی آفات آتے ہیں، بلکہ اس
کے نتیجے میں ہونے والے بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصانات کو بھی کم نہیں
کیا جاسکا ہے۔ پاکستان میں ہر سال لوگ قدرتی آفات کا نشانہ بنتے ہیں اور
بڑا واویلا بھی کیا جاتا ہے، لیکن جب خطرہ ٹل جاتا ہے تو اس کے بعد پھر سے
ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے۔ قدرتی آفات آنے کے بعد حکومت ہر سال بحالی اور
تعمیر نو پر بڑی رقم خرچ کرتی ہے لیکن اگر اس رقم کا آدھا حصہ بھی پہلے خرچ
کرکے مسائل کے روک تھام پر توجہ دی جائے تو کافی حد تک نقصانات کو کم کیا
جاسکتا ہے۔ پشاور یونیورسٹی میں سینٹر فار ڈیزاسسٹر پریپیرڈنس اینڈ منجمینٹ
کے ڈائریکٹر اور حیاتیاتی سائنس کے شعبے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر امیر نواز
خان کے مطابق خیبرپختونخوا میںسیلاب کا جدید وارننگ نظام ہی موجود نہیں ہے،
جس سے بارشوں اور سیلاب کا پہلے سے پتہ چل سکے۔ پروفیسر ڈاکٹر امیر نواز
خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے جو ادارے قائم
ہیں، وہاں پیشہ ور ماہرین کی بھی شدید کمی پائی جاتی ہے، جس سے مسائل پر
قابو پانے کے لیے مربوط منصوبہ بندی نہیں ہو رہی۔ اگر جنگلات کو ختم نہ کیا
جائے، دریاو ¿ں کے کناروں پر قبضہ نہ کیا جائے ، پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے
مناسب انتظام کیا جائے اور مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کی جائے تو ایسی
صورتحال میں پھر ہر قدرتی آفت سے آسانی سے نمٹا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں
حکومت کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، ورنہ ہر سال یہ نقصانات مزید بڑھ
سکتے ہیں۔
پاکستان کو 1956، 1976، 1986 اور 1992 اور بعد میں آنے والے سیلابوں کی وجہ
سے بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ ایک اندازے کے مطابق 1950ءسے 2013ءکے دوران
شدید نوعیت کے 21 سیلابوں کی تباہی کی وجہ سے پاکستان کو مجموعی طور پر 37
بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ 2010 میں ملک کی تاریخ کے
بدترین سیلاب نے 20 ملین لوگوں کو متاثر کیا اور ہزاروں افراد کی جانوں کو
نگل لیا۔ تباہ شدہ مکانات، تعمیرات کی تعداد 16 لاکھ 8184، مالی نقصان 10
بلین ڈالر، 17ہزار 553 دیہات زیرآب آئے۔ ایک لاکھ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر
رقبہ متاثر ہوا۔ ملک میں تقریباً ہر سال سیلاب مختلف علاقوں میں زبردست
تباہی مچاتا ہے۔ لہلاتی کھڑی فصلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔ ہزاروں افراد
ہر سال سیلابوں میںہلاک یا زخمی ہو جاتے ہیں، لیکن ہمارے حکمران ہر سال صرف
ایک فوٹو سیشن کروا کے خود کو ہر ذمہ داری سے بری سمجھتے ہیں۔ اگر حکمران
چاہیں تو نہ صرف اتنے بڑے نقصانات سے بچاجاسکتا ہے، بلکہ پانی کے اس قیمتی
خزانے کو محفوظ کر کے ملکی ترقی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر حکمران
پانی کو محفوظ کرنے کے لیے چھوٹے بڑے ڈیمز بنائیں تو ایک طرف سیلاب کی تباہ
کاریوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، جبکہ دوسری جانب بجلی کی قلت کو پورا کیا
جاسکتا ہے، بنجر زمینوں میں پانی پہنچا کر لہلاتی فصلیں پیدا کی جاسکتی
ہیں، لیکن ہمارے حکمران صرف نااہلی و کاہلی کی وجہ سے قدرت کی اس انمول
نعمت کو ملک بھر کے لیے باعث زحمت بنا لیتے ہیں۔ اگر ڈیمز ملکی ضروریات کے
مطابق بنا دیے جائیں تو تند رو پانی اور بارشوں کے سیلابی ریلے زحمت کی
بجائے رحمت کا روپ دھار سکتے ہیں، لیکن ہمارے حکمرانوں نے کبھی اس طرف توجہ
ہی نہیں دی اور ہمیشہ اس معاملے میں خطرناک حد تک پسپائی اختیار کی ہے۔ اگر
حکمران مزید ڈیمز بناتے تو ہر سال ملک پانی میں ہر گز نہ ڈوبے۔ |
|