زندگی زندہ دلی کا نام ہے

تحریر: فائزہ اسلم
ہر شخص ایک زندگی جی رہا ہے۔ صبح اور شام کے رد و بدل کا نام زندگی ہے۔ سب سے پہلے تو نظر ڈالی جائے زندگی کی تعریف کیا ہے۔ بہت سے لوگ زندگی کو آسان سمجھ کر گزار رہے ہیں۔ مگر شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے اس لفظ کی اور اس کے معنی کی گہرائی معلوم ہو۔شاعر نے تو اپنے الفاظ میں زندگی کو دو جملوں میں بیان کردیا ہے۔
عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئی دو انتظار میں

سب کی طرح میری نظر میں بھی زندگی کے کچھ مفہوم ہیں۔ زندگی ایک روپ کا نام ہے ، کبھی چھاؤں تو کبھی دھوپ، کبھی یہ ایک ساحل ہے تو کبھی ایک عجب نا سلجھنے والی پہلی۔ کبھی یہ منزل کا پتہ دیتی ہے تو کبھی راہ میں ہی تنہا چھوڑ جاتی ہے۔ شاید زندگی زندہ دلی یعنی شگفتہ مزاجی یا زمانوں پر محیط ایک لمبی داستان کے جیسی ہے۔

عموما لوگ اپنی طرز کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کوئی اچھے سے تو کوئی تنگ سے۔ ایک نسل سے دوسری نسل تک، بوڑھے سے لے کر جوان تک ، امیر سے لے کر غریب تک سب اپنے طریقے سے جی رہے ہیں۔ مگر زندگی کی حقیقت کو بہت کم لوگ ہی پہچانتے ہیں۔ شاید اصل زندگی وہ ہے جسے ہم جی جیتے ہیں۔ جسے ہم گزارتے ہیں۔ جو گزر تی ہے اس کا نام زندگی نہیں ہے۔ زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔ رویوں کا نام ہے ۔ جن قدروں کو ہم کھو چکے ہیں اور جن منازل کو ہم بھول چکے ہیں آج ہم ان میں اپنی زندگی ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔

ایک وقت تھا کہ جب زندگی محسوس ہوا کرتی تھی۔ ہماری رگ رگ اس زندگی کا احساس دلا یا کرتی تھی۔ اگر ہم ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیں اور ان بیتے دنوں کا مبہم سا نقشہ کھینچے تو پتہ چلتا ہے کہ ہم زندہ تب ہوا کرتے تھے۔ صبح کے وقت خاندان کے خاندان ایک ساتھ دسترخوان سجاتے تھے۔ٹھنڈی شاموں میں دکھ سکھ بانٹتے تھے، ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے تھے۔ ایک دوسرے کے لیے چوکھٹ کے کیا دلوں کے دروازے بھی کھولے رکھتے تھے ۔ ان کے نزدیک تہذیب سکھانا زندہ دلی سمجھا جاتا تھا، دل کی گھرائیوں سے رسمیں نبھانا زندہ دلی کی مثال ہو کرتاتھا۔

مشکل گھر پر آتی یا فرد پر ڈٹ کر مل کر مقابلہ کرنا اور مل کر حل نکالنا ہی زندہ دلی ہوا کرتا تھا۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ کو بانٹ کر ہی وہ اپنے ہونے کا احساس دلایا کرتے تھے۔ مایوسیوں کو پیچھے چھوڑ دینا، غیر کو بھی اپنا سمجھنا، کسی کے دل دکھانے کو بھی اپنے آپ کے لیے قتل کے مترادف جاننا ، اپنا احتساب کرنا یہ سب چیزیں ایک زندگی ہوا کرتے تھے۔ زندگی احساس کا نام ہے جو ہم ایک دوسرے کے لئے رکھتے ہیں۔ جب تک احساس باقی رہتا ہے تب تک ہم زندہ ہوتے ہیں۔

پہلے دنوں کی زندہ دلی حقیقت میں آج بھی قائم ہے۔ اس وقت کے لوگوں سے آج کے لوگ کہیں زیاہ بہتر ہیں۔ آج کے زمانے اور معاشرے میں جیسے جیسے ہم ترقی کی طرف بڑھ رھے ہیں نئی سے نئی ٹیکنالوجی کی سمت قدم بڑھا رہے ہیں ویسے ویسے ہمارے رویوں میں تبدیلی آتی جارہی ہے۔ ہمارے لیے ماں باپ رشتے داروں سے زیادہ اہم ہمارے دوست ہیں۔ کوئی سوشل رابطوں کی ویب سائٹس پر ہم جو تہذیب و تمدن سیکھ رہے ہیں اس کا ہمارے خاندان کی تہذیب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہیں وجہ ہے کہ بچوں کا انداز اور رویہ اب گھر والوں کے لئے اجنبی ہوتا جارہا ہے۔ نہ ان کو اپنے والدین بزرگوں کی باتیں سمجھ آتی ہیں اور نہ والدین کو بچوں کا لب و لہجہ سمجھ آرہا ہے۔ چار دیواری میں ہمارا رویہ غیر شائستہ ہوگیا ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کے لئے زندہ دلی اور زندگی کھلے اور آزاد ماحول کا نام ہے۔ لیٹ نائٹ پارٹیز کو زندہ دلی سمجھا جاتا ہے، مہنگے ترین کپڑوں اور کھانوں کو زندہ دلی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ناجانے ہم کیسے بھول گئے ہیں کہ ہماری زندگی کی حقیقت کچھ اور تھی۔ ہمارا معاشرہ ، ہمارا کلچر وہ نہیں جو سمندر پار لوگوں کا ہے۔ ہم مغرب نہیں بلکہ مشرق ہیں۔ ہمیں اپنے پڑوسیوں کے بارے میں خبر تک نھیں ھوتی ، راستے میں کسی سے ٹکر ھو جائے تو معاف کیجئے کی بجائے کیا مصیبت ہے۔ جیسے القابات ادا ہوتے ہیں۔

آج ہماری محدود سوچ کی وجہ سے ہم اپنی زندگی سے بھاگتے پھر رہے ہیں۔ جو بات ہمیں اپنے گھر میں مشاورت کے ساتھ حل کرنی ہوتی ہے وہ ہم اپنے مفاد پرست دوستوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں جس کا نتیجہ ہمیں منفی ہی ملتا ہے۔ غیر حقیقی لفظوں کے غلام ہو کر ہم موت کو گلے سے لگانے کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں، من پسند جاب نا ملنے پر خودکشی جیسے فیصلے کرلیتے ہیں،چند روپوں کے عوض اپنے ایمان کا سودا کر لیتے ہیں۔ کچھ پل کے لئے اگر ہم بیٹھ کر سوچیں تو ہمیں اندازاہوگا کہ جس کے پیچھے ہم بھاگ رہے ہیں، جو تہذیب و تمدن ہم اپنا رہے ہیں اس میں کہیں بھی زندگی نہیں ہے، کہیں بھی زندہ دلی نہیں ہے۔
زندہ دلی تب ہے کے آپ اپنے مہنگے کھانے میں سے چار نوالوں کو ہی کسی غریب کے ساتھ بانٹ لیں۔ زندہ دلی یہ ہے کہ آپ دوہری شخصیت کے مالک ناہوں، آپ صرف اپنا نہیں اسکا بھی سوچیں جو آپ سے منسلک ہے، زنہ دلی تو تب ہو گی جب آپ اپنے فرائض ایمان کے بلند ترین درجے پر ادا کریں۔

آپ کی راہ میں کتنے ہی پتھر کیوں نا آ جائیں ، زندہ دلی تو تب ہو گی جب آپ مایوسی کو آپنے پاس بھی نا بھٹکنے دیں۔ جب آپ غیر ضروری پارٹیز کو چھوڑ کر وقت کی اہمیت کو سمجھنے لگیں گے، جس نے موت اور حیات دی ہے اس مالک کے لئے وقت نکالیں گے تو حقیقی زندگی کا احساس ہوگا۔ یقین جانئے زندگی کے ہر روپ کو شگوفتہ مزاجی سے گزارنے کا راز اسی وقت سمجھ آتاہے، جب ہم اپنا تعلق سب سے جوڑنے کے ساتھ ساتھ اﷲ رب العزت کے ساتھ مظبوط ترین تعلق جوڑ لیں گے، کیوں کہ زندگی کو انسانیت کے اولین درجے پر ہی گزارنا ہی اصل زندہ دلی ہے ۔ اﷲ ہمیں حقیقی زندگی گزارنے کی توفیق اور زندہ دلی عطا فرمائے، آمین !
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141806 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.