اسلام میں عورت کو مرضی کے نکاح کا حق
(Advocate Rana Shahzad, Lahore Cantt)
عورت کو جس طرح زندگی کے اہم
معلوملات میں بولنے کا ھق نہیں تھا اسی طرح وہ اپنی شادی اور نکاح کے بارے
میں بھی زبان نہیں کھول سکتی تھی۔ اس کے ماں باپ یا خاندان کے بزرگ جس شخص
کے ساتھ اس کا رشتہ کردینے اس سے انکار کی اسے محال نہ تھی اس معاملہ میں
اس کا زبان کھولنا سخت ناپسندیدہ اور معبوب سمجھا جاتا تھا۔ اور سوسائٹی
اسے طرح طرح کے معنی پہنانے لگی تھی اپنے رشتہ کے بارے میں اظہار خیال کرتا
اور اپنے بڑوں کے منتخب کردہ رشتہ کو رد کرنا اور آوارگی کی علامت تصور کیا
جاتا ہے۔
کیا جاتا ہے لڑکی کو نکاح کا اختیار دے دینا خود اس کے مفاد کے خلاف ہے، وہ
اپنی کم سمجھی اور نا تجربہ کار ہی کی وجہ سے غلط فیصلہ کر سکتی ہے۔ لڑکی
کے ماں باپ یا اس کے سرپرست اس سے زیادہ تجربہ کار اور معاملہ فہم ہوتے ہیں
اس لیے ان سے غلطی کا امکان کم ہے۔ اس کے ساتھ وہ لڑکی کے خیر کواہ ہوتے
ہیں۔ بہر حال اسے دھو کہ نہیں دے سکتے۔
اس میں شک نہیں کہ یہ بات بڑی حد تک صیح ہے کہ لڑکی کے سرپرست اس کے لیے
بہتر رشتہ تلاش کر سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا
جاسکتا کہ بعض اوقات سر پرستوں کی طرف سے زیادتی بھی ہوتی ہے۔ وہ اسے اپنے
ذاتی مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بھی بنا بیٹھے ہیں۔ کم از کم اس سے انکار
نہیں کیا جا سکتا کہ اوقات سرپرست کے سامنے وہ معارات نہیں ہوتے جنہیں خود
لڑکی کی اہمیت یتی ہے اس لیے لڑکی کے نکاح کا اختیار ہالکلہ اس کے رسپرست
کو دے دینا صیح نہیں ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی عورت اور مرد کا رشتہ نکاح میں منسلک ہو نا ان کے
لیے بڑا ہم واقعہ ہے۔ اس سے دونوں ایک نئی زندگی کا آغاز کر تے ہیں۔ اس لیے
یہ رشتہ ان کی باہم رضا مندی سے ہونا چاہیے۔ یہ بات معوقل نہ ہوگی کہ عورت
پر اس کی مرضی کے خلاف نکاح کا فیصلہ مسلط کر دیا جائے۔
اسلام نے نکاح کے معاملے میں بڑ کے دلی اور سرپرست کو اہمیت ضروری ہے لیکن
اس کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ نکاح اس کی اجازت سے ہوگا۔ اگر عورت بیوہ یا
مطلقہ ہے تو مراحت سے ان پر رضامندی کا اظہار کرے گی۔ اور باکرہ ہے تو اس
کی خاموشی کو اس کا اتفاق سمجھا جائے گا۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ
رسول نے فرمایا"بیوہ یا مطلقہ کا نکاح نہیں کیا جائے گا ۔ جب تک کہ اس کی
رائے نہ معلوم کر لی جائے ۔ دوشیزہ کا نکاح نہیں ہوگا جب تک کہ اس سے اجازت
نہ لے لی جائے۔
صحابہ نے عرض کیا"باکرہ تو شرم حیا کی وجہ سے بولے گی نہیں اس سے اجازت
کیسے لی جائے۔
آپﷺ نے فرمایا اس کا سکوہی اس کی اجازت ہے۔
اگر کسی عورت کا ولی اس کا نکاح کردے اور وہ اسے تسلیم نہ کرے تو نکاح کا
لعدم سمجھا جائیگا۔ چنانچہ خنساء بنت خذام کا نکاح ان کی مرضی کے خلاف ان
کے باپ نے کر دیا تو رسولﷺ نے یہ نکاح ختم کرادیا۔
اس سلسلے کے اور بھی واقعات حدیث کی کتابوں میں ملتے ہیں ، نابالغ لڑکی کا
نکاح اس کی ولی اور سرپرست کر سکتا ہے۔ لیکن فقہانے لکھا ہے کہ بلوغ کے
بعداسے اختیار ہو گا کہ وہ چاہیے تو اسے قبول کر لے یا رد کر دے۔ |
|