حکومت لوگوں کو بیوقوف بنا رہی ہے

شاید جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر اپنا عذاب نازل کرنا چاہتے ہیں تو اس کی ایک حالت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس قوم کے دل و دماغ سے احساس سودو زیاں ختم کر دیتے ہیں۔ اور اگر اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہم بھی اسی طرح کے عذاب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

روزانہ سینکڑوں لوگ ملک بھر میں دہشت گردی کی نذر ہو جاتے ہیں، لیکن مجال ہے جو اعلیٰ حکام یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کان پر جوں تک بھی رینگتی ہو۔ ہاں مذمتی بیانات آجاتے ہیں سب کے۔ لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ان بیانات سے دہشت گردی ختم ہو جائے گی؟ وہ جانیں جو اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئی ان کا ازالہ ہو جائے گا؟ تو یہ مذمتی بیانات دینے کا مقصد ؟

میں تو حیران ہو ں کی جن کے اپنے پیارے اس دہشت گردی کا شکار ہوتے ہیں وہ اس کے خلاف احتجاج تک بھی نہیں کرتے، کیا اتنے بے حس ہو گئے ہیں ہم؟ یا ہمارے ذہنوں کو بھی دہشت گردوں کی طرح ’’برین واش ‘‘ کر دیا گیا ہے؟ کہ جو مرضی ہو جائے، جیسا بڑھا مرضی سانحہ ہو جائے، کسی نے بھی کوئی احتجاج نہیں کرنا، بس چپ چاپ ظلم سہتے رہنا ہے۔

ابھی کل کا ہی حادثہ دیکھ لیں، آر ۔اے بازار میں درجنوں لوگ اپنی زندگی سے محروم ہوگئے، سینکڑوں زخمی ہوئے۔ کس کی وجہ سے؟ کس کی نااہلی تھی؟ یہ حکومت اور قانون نافذ کر نے والے ادارے کہاں تھے اس وقت، حادثہ ہو جانے کے بعد ’’بڑھکیں ‘‘ مارنے کا کیا فائدہ مزہ تو تب ہے کہ حادثے سے پہلے اس کا کوئی سدباب کیا جائے۔

درحقیقت ان دہشت گردوں کے سامنے ہماری پولیس اور سیکورٹی ایجنسیز مجھے تو مفلوج نظر آتی ہیں۔ اگر یہ اتنے قابل ہوتے تو کیا آج پاکستان کا دل لاہور یوں لہو میں ڈوبا ہوا ہوتا؟اگر ہماری سیکورٹی فورسز واقعی ملک و ملت کے ساتھ مخلص ہیں تو یہ پھر یہ دہشت گرد کہاں سے بچ بچا کر آجاتے ہیں؟ شہر کے اس قدر حساس علاقوں میں اتنا بارود لیکر پھر نے والے لوگوں کو چیک کیوں نہیں کیا جاتا؟ آخر یہ اتنی سیکورٹی کے باوجود بچ کر کیسے نکل جاتے ہیں اور اپنا ٹارگٹ حاصل کر لیتے ہیں؟ کیا ہماری پولیس اور ایجنسیز سے زیادہ یہ دہشت گرد چوکس ہیں؟

اور حکومت؟ حکومت کو تو بس ایک ہی کام ہے مذمت کا بیان دیا اور بات بھول گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ اور تو اور یہ حکومتی عہدیدار ان دکھ بھر ے لمحات میں بھی مبالغہ آرائی سے باز نہیں آتے ، اب کراچی کا 10محرم کا واقعہ ہی لے لیں۔

اعلیٰ حکام کی طرف سے بیان جاری ہوا کہ حملہ خود کش تھا اور حملہ آور کا سر مل گیا ہے ۔ اور سیکورٹی والوں نے تو حد ہی کر دی انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ خود کش حملہ آور کو ہمارے جوانوں نے روکنے کی کوشش کی تو اس نے بلاسٹ کر دیا جس سے جوان شہید ہو گیا۔ لیکن بعد کی تحقیقات سے حکومتی اور سکیورٹی اداروں کی مبالغہ آرائی بھی سامنے آئی اور ساتھ ساتھ ان کی انتہائی نااہلی بھی۔ کہ کس طرح وہ قرآنی اوراق کے ڈبے کو چیک ہی نہیں کیا گیا۔ اور دہشت گردوں نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے، درجنوں افراد کو خاک و خون میں نہلا دیا۔

ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جس میں ہماری سیکورٹی فورسز مکمل طور پر فیل نظر آتی ہیں۔ جہاں کہیں بھی بلاسٹ ہوتا ہے، حکومتی و سکیورٹی اداروں کی طرف سے بلا تحقیق اسے خود کش حملہ قرار دے دیا جاتا ہے، اور مدعا طالبان پر ڈال کر بس چپ سادھ لی جاتی ۔ آخر ہماری سوچ ان طالبان سے آگے کیوں نے نہیں جاتی ؟ یہاں اور کسی غیر ملکی ایجنسیاں ورک کر رہیں ہیں ہم ان پر کیوں نے شک کرتے اور ہاتھ ڈالتے ؟

اور عوام ! عوام کے تو کہنے ہی کیا ہیں، عوام اس کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں جو یہ سوچتا ہے کہ آنکھیں بند کر لی ہیں تو اب خطرہ ٹل گیا ہے بلی اسے نہیں کھائے گی، لیکن نہیں بلی نے تو اسے ہر صورت کھانا ہی کھانا ہے۔ آخر کب تک ہم یوں آنکھیں بند کر کے خود کو ان دہشت گردوں کے سامنے پیش کرتے رہیں گے؟ کب تک؟ کب تک ہم حکومت کے ہاتھوں بیوقوف بنتے رہیں گے؟

خدارا جاگ جائیے، ورنہ یہ حکمرانوں جنہوں نے ہمیں آٹے، چینی، بجلی، گیس سے فارغ کر ہی دیا ہے، آہستہ آہستہ ہمیں ہماری زندگیوں سے سے محروم کر دیں گے، اور وہ دن دور نہیں جب یہ ہماری غیرت بھی بیچ ڈالیں گے۔
Mudassir chaudhry
About the Author: Mudassir chaudhry Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.