کہتے ہیں کہ آج کا کام کل پرمت
چھوڑو ۔ یہ سنہری بات تو ہر جگہ اور ہر کام کے لیے ضروری ہے مگر جب اجتماعی
فائدے کا کام ہو تو اور کام بھی اس مسائل میں گھری ہوئی قوم کے لیے تو
پھرتو کبھی بھی کل پر نہیں چھوڑنا چاہیے مگر لگتا کچھ ایسا ہے کہ میاں صاحب
کے اعصاب پر جوڈیشنل کمیشن ایسا حاوی تھا کہ انھوں نے جوڈیشنل رپورٹ آتے ہی
ملک و قوم کے مفاد کے لیے ہونے والے اقتصادی راہ داری کے اہم اجلاس کو
ملتوی کر دیا اور جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ پر خوشی کا اظہار کرنے کے لیے قوم
سے خطاب کرنے کی تیاری شروع کر دی ۔خطاب کیا تھا ملک کی تاریخ پر نظر رکھنے
والے حب الوطن افراد جانتے ہیں کہ میاں صاحب جو بول رہے تھے وہ خود ان نقاط
پر کتنے کاربند رتھے اور رہے ہیں ۔ سب الفاظ کا ہیر پھیر تھا اور انگلیوں
کا وہ کھیل تھا جو دوسروں کی طرف تو شان و شوکت سے اٹھتی ہوئی دکھائی دیتی
ہیں مگر اپنی طرف مڑی ہوئی انگلیاں اوجھل سی لگتی ہیں ۔
بہرحال میاں صاحب کے قوم سے خطاب پر کچھ لکھنے سے پہلے اقتصادی راہ داری کی
اہمیت پر معلومات بہم پہنچانا ماضی کو جلد بھول جانے والی اس قوم کو بتانا
لازمی ہے تاکہ اس قوم کو یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کہ حکمران ملک و قوم
کے ساتھ پرخلوص ہیں یا اپنے اقتدار کے ساتھ ، مگر مذکورہ بالا اقدام یعنی
اقتصادی راہ داری کے اہم اجلاس کو جوڈیشنل کمیشن پر ترجیح دینا حکمرانوں کے
ملک و قوم کے ساتھ خلوص کو واضح کرتا ہے مگر محاسبہ کون کرے وہ قوم کے جو
اپنے گھر کے سامنے گلی پکی کروانے کے لیے ایک ایسے عوامی نمائندے کو ووٹ دے
دیتی ہے جس کا ماضی و حال کرپشن سے بھرا ہوتا ہے ۔بہرحال اقتصادی راہ داری
کیا ہے اور اس کی اہمیت پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے کتنی ہے ملاحظہ
کریں :
’’پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ جنوبی ایشیا میں گیم چینجر کے طور پر
دیکھا جارہا ہے ۔اس منصوبے کی بنیادیات پر چینی علاقے کاشغر سے شروع ہونے
والا یہ تجارتی راستہ پاکستانی بندرگاہ گوادر تک پہنچے گا ، اس راستے کو
بنانے میں چین کی دل چسپی اتنی ہے کہ وہ آبنائے ملاکہ جو انڈونیشیا او
رملائیشیا کو علیحدہ کرتی ہے اور چین سے لے کر ویت نام ، ہانگ کانگ سے
تائیوان اور جنوبی کوریا سے جاپان تک تما ممالک کا تجارتی راستہ ہے اس پر
انحصار کم کر کے ایک چھوٹا تجارتی راستہ بنایا جاسکے تاکہ دنیا بھر میں
چینی مصنوعات کم خرچے اور کم وقت میں پہنچ سکیں ، آبنائے ملاکہ چینی تجارتی
سامان یورپ اور دیگر منڈیوں تک پہنچنے میں پینتالیس دن لگتے ہیں جب کہ
کاشغر تا گوادر اقتصادی راہ داری کی تکمیل کے بعد یہ سفر کم ہو کر دس دن کا
رہ جائے گا ، پاکستان کو اس راہ داری سے یہ فائدہ ہو گا کہ دہشت گردی اور
بے امنی کا شکار یہ ملک تجارتی شرگرمیوں میں شامل ہوکر معاشی ترقی کر سکے
گا اور ترقی پذیر سے ترقی تافتہ ملک تک کا سفر تیزی سے طے ہوگا ، چین نہ
صرف گوادر تا کاشغر اقتصادی راہ داری کی تکمیل چاہتا ہے بل کہ بنگلہ دیش
اور سری لنکا کے ساتھ مل کراسی طرح کے سمندری تجارتی راستے بھی کھولنا
چاہتا ہے ، پاک چین اقتصادی راہ داری کی تکمیل معاشی استحکام کے علاوہ
پاکستان کے صوبے بلوچستان اور چینی صوبے سنکیانگ میں جاری علیحدگی کی
تحریکوں کے لیے بھی زہر قاتل ثابت ہوگی کیوں کہ معاشی استحکام آنے سے ان
صوبوں میں جاری تحریکیں خود بخود دم توڑ جائے گی‘‘
اقتصادی راہ داری کی اہمیت اور مختصراً سی تفصیل لکھتے ہوئے کوشش کی گئی کہ
الفاظ کا چناؤ اتنا مناسب اور آسان ہو کہ ہر نفس باخوبی اور آسانی سے سمجھ
جائے اس لیے اس تفصیل کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا کہ یہ پراجیکٹ پاکستان اور
پاکستانیوں کے لیے اقتصادی لحاظ سے کتنی اہمیت کا حامل ہے ،مشکل نہیں ہے
۔اسی پراجیکٹ سے متعلق ایک اہم اجلاس کو میاں صاحب نے ملتوی کر کے جوڈیشنل
کمیشن کی آنے والی رپورٹ پر جوش میں آکر پاکستانیوں سے خطاب کر کے یہ ناکام
کوشش کی کہ وہ محب وطن پاکستانی ہیں اور ان کا دن رات پاکستان کی خدمت میں
صرف ہوتا ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو میاں صاحب ملکی مفاد میں آکر جوڈیشنل
کمیشن کی رپورٹ پر خطاب پھر کسی دن کر کے اقتصادی راہ داری کے اجلاس میں
شرکت کو پہلی ترجیح دیتے مگر ترجیح بتاتی ہے کہ میاں صاحب کو ملک و قوم کا
مفاد زیادہ عزیز ہے یا اپنا تخت شاہی۔
وزیر اعلیٰ سے تین بار وزیر اعظم بننے والے اور تجربہ کار ٹیم کے راہبرنے
اپنے خطاب میں پرانی سہی مگر ایک بات کو پھر دھرایا کہ سب فیصلے یا مسائل
پارلیمنٹ میں حل کیے جائیں ۔یہ بات تو ٹھیک ہے ایسا ہی ہواگر ہونا ہے کیوں
کہ جمہور نے جمہوریت کی پاس داری کے لیے جن عوامی نمائندوں کو منتخب کیا ہے
وہ پارلیمنٹ میں ہی برجمان ہوتے ہیں تو عوام کے مسائل یہ عوامی نمائندے
پارلیمنٹ میں ہی بیٹھ کر حل کریں تو اچھا ہے مگر کون سی پارلیمنٹ کہ جس کا
کورم کبھی شازو نادر ہی پورا ہوتا ہے ، وہ پارلیمنٹ جس میں ایک دوسرے کی
پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں ، وہ پارلیمنٹ جس میں دوپٹے پھینکے جاتے ہیں ، وہ
پارلیمنٹ جس میں نیند پوری کی جاتی ہے ، وہ پارلیمنٹ جس میں سیلفیاں بنائی
جاتی ہیں ، وہ پارلیمنٹ جس میں ایک بار عوامی نمائندہ جب گھس کر عوامی خدمت
کا حلف اٹھاتا ہے پھر وہی نمائندہ اس حلف کی پاسداری کرنے کے لیے عوام کو
بھول کر عوام او راپنے درمیان ایک وسیع اور مضبوط دیوار بنا لیتا ہے۔خیر یہ
عوام کا اپنا ہی بویا ہے کہ جو ایسے نمائندے منتخب کرتے کہ وہ پارلیمنٹ میں
جا کر مذکورہ بالا ایشوز جوش و جذبے سے سرانجام دیتے ہیں مگر عوامی حقیقی
ایشوز کو بھول جاتے ہیں شاید تب ہی یہ عوامی نمائندے پارلیمنٹ میں ایک بار
گھس جانے کے بعد عوام سے ملنے میں تھوڑی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں ۔ عوام بھی
اگر ووٹ ڈالتے وقت ایسے عوامی نمائندوں کو ووٹ دیتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرے
تو حقیقی عوامی نمائندے منتخب ہو ہی جائیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ عوام بہت جلد
ماضی کو بھول جاتی ہے اگر عوام کا یہ طرہ امتیاز نہ ہوتا تو آج عوام
باآسانی جان جاتی کہ کس کی ترجیحات ملکی و عوامی خدمات ہیں جب کہ کس کی
ترجیحات تخت و تاج ہیں ۔ |