چھ ستمبر کی جنگِ آزادی کا احوال

اللہ پاکستان کی مدد کرے ، اللہ پاکستا ن اور پاک فوج کی حفاظت کرے ، آمین !
چھ ستمبر کی جنگِ آزادی کا احوال
’’محمود غزنوی کا اٹھارہواں حملہ اور روحانی اجمال !‘‘
پاکستان کی پُوری قوم نعرۂ تکبیر لگاتی سڑکوں پر نکل آئی
پاکستان کی فوج وہ واحد فوج ہے جس میں ’’ Officer Casuality‘‘ کی شرح سب سے زیادہ ہے
انڈین آرمی یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ پاکستانی مُسلے ، تلواروں اور خودوں اور زرہ بکتروں کے ساتھ کیوں لڑتے ہیں ،
دیکھا کہ حضور ﷺ ’ جنگی لباس‘ میں اصحابِ بدر کے ساتھ پاکستانی فوج کی مدد کے لئے تشریف لے جارہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ پاکستان پر حملہ ہوا ہے ، ہمیں اُس کا دفاع کرنا ہے
آقا ﷺ کی فوج کا مقابلہ کرنا کچھ سہل ہے ؟
مزاحمتی شہید ہورہے تھے اور دیوانوں نے اپنے آپ کو دشمن کے ٹینکوں کے سامنے ڈال دیا تھا ،اُنھیں روکنے کے لئے
جب بھی مسلمان اللہ اور رسول ﷺ کے نام پر کھڑے ہوں گے ، اس پاک سر زمین کی حفاظت کے لئے، تو اللہ کی تائید اُن کے لئے آئے گی ۔۶۵ء کی جنگ کی سب سے خوبصورت مثال ہے ہمارے سامنے
’’لا الہ الااللہ ، محمد الرسول اللہ !‘ ،اسی کلمے نے ہمیں ایک سیسہ پلائی دیوار ثابت کردیا تھا
اللہ پاکستان کی مدد کرے ، اللہ پاکستا ن اور پاک فوج کی حفاظت کرے ، آمین !
معروف روحانی اسکالر پروفیسر مجیب ظفر حمیدی کی خُون آشام تحریر
’’ایک بزرگ پروفیسر کی داستانِ حیات ‘‘
یادداشتیں : پروفیسرڈاکٹرسید مجیب ظفرانوارحمیدی
مجھے ٹھیک طرح سے یاد نھیں اور نہ ہی کہانی کہنے کا فن آتا ہے، نہ ہی پاس وہ حوصلہ کہ، مرزاغالب نے جس کے بارے میں کہا :
؂ کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہوئے
ہماری تاریخ کے عظیم ترین دنوں میں سے ایک یہ چھ ستمبر کا دن ہے ،اگر آپ کے اذہان میں چھ ستمبر ۱۹۶۵ء کی وہ تقریر ہو جواُس وقت کے صدرِ پاکستان ، جناب ایوب خان نے کی تھی ، ریڈیو پاکستان پر وہ تقریر کی گئی ، کہ :
’’ لا الہ الااللہ کے ماننے والوں پر ہندُستا ن نے
حملہ کردیا ہے ،میری قوم کے ہم وطنو ، جنگ شروع
ہوچکی ہے ، اُٹھو اور دُشمن پر ٹُوٹ پڑو ۔۔۔۔ ! ‘‘
پاکستان کی پُوری قوم نعرۂ تکبیر لگاتی سڑکوں پر نکل آئی ۔ ہندُستان نے چھ ستمبر کی صبح فجر سے کچھ پہلے لاہور شہر پر حملہ کیا اوراُن کے جرنیل نے بڑک ماری تھی ، کیا نام تھا اُس کا، کہ، ہم گیارہ بجے تک لاہور جمخانہ میں بیٹھ کر شراب پئیں گے اور بدمعاشی کی محفل سجائیں گے ۔دشمن کی طاقت کو کچھ اندازہ نھیں تھا ، دیکھئے ! دشمن پانچ گُنا بڑا تھا ، اور ایک دم اتنا بڑا حملہ کرتا ہے جس کہ ایک ایک حملے میں پانچ پانچ سو ٹینک استعمال کئے جاتے ہیں ،پانچ سو ٹینک کے قریب لاہور ، پانچ سو ٹینک کے قریب سیال کوٹ پر حملہ ہوتا ہے اور یہ دونوں سرحدی شہر ہیں ہمارے۔حال یہ تھا جو مطلب حسین سید نے جناح کی سوانح میں لکھا کہ :
''Pakistan was in totally Surprised ....''
نئی نسل کو واقعات بتاتا ہوں اگر اُن کے پاس وقت ہو تو ، واقعات اگر سُن لیں تو، اُس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ چھ ستمبر کا دن ہم کیوں اتنے رومینٹک طریقے سے مناتے ہیں ؟ ائر مارشل نُور خان کی دلیری اور جرأ ت دیکھئے کہ انھوں نے کہا کہ یہ کرافٹ (جنگی جہاز ) نھیں جائیں گی ، جب تک میں یہ خود نہ دیکھ لوں کہ یہ کتنی خطرناک ہیں ہمارے پائلٹوں کے لئے ،دنیا کی تما م فوجوں کی تاریخ میں پاکستان کی فوج وہ واحد فوج ہے جس میں ’’ Officer Casuality‘‘ کی شرح سب سے زیادہ ہے اس لئے کہ ہمارے آفیسر آگے بڑھ کر ’’راہ نمائی ‘‘ کرنا جانتے ہیں ۔پاکستان نیوی کے پاس ایک آبدوز تھی ، ’’غازی ‘‘ اور اُس آبدوز نے دشمن کا ناطقہ بند کیا ہوا تھا ۔اُس زمانے میں کالم ، کتابیں لکھے گئے کہ:’’ سومناتھ پر محمود غزنوی کا سترہ حملوں کے بعد یہ اٹھارہواں حملہ تھا۔۔۔‘‘ ،
اور پاکستان کی نیوی آگے بڑ کر سمندروں میں گئی ،’دوارکہ‘ تک گئی ، قلعے کوتباہ کیا شیلنگ کرکے اور پھر نکل کر واپس آئی ۔
میرے والد ڈیفنس کے افسر تھے اور لاہور ہی میں مقیم تھے ،سیالکوٹ میں اُن کی سرکاری رہائش گاہ کے آس پاس توپیں لگی ہوئی تھیں ،پاکستانی فوج جوابی حملہ شروع کررہی تھی دشمن کے خلاف ،ایسے ایسے معجزات دیکھنے کو ملے میڈم ہماری توپوں کی آخری رینج سے بھی آگے دشمن فوجوں کی توپیں اور ٹینکر تھے ،اور جب مدد مانگی گئی ، حساب لگایا گیا تو پتا چلا کہ ہماری توپوں کے گولے دشمن تک نھیں پہنچ سکیں گے اور صورت حال یہ تھی کہ اگر اُس وقت مدد نہ دی جاتی سیالکوٹ فرنٹ لائن کو تو سیال کوٹ پر، پورے شہر پر دشمن قبضہ کرلیتا اللہ نہ خواستہ ،
یقین کریں کہ اللہ کے توکل پر افسروں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انھوں نے اللہ پر بھروسہ کرکے ، اللہ کے آسرے پر دشمن کی طرف ،توپوں کا منہ کرکے فائر کئے اور ناقابلِ یقین بات ہے کہ گولہ تقریباً ڈھائی تین منٹ لیتا ہے فائر ہونے کے بعد ٹارگٹ تک پہنچنے کے لئے ،مجھے یاد ہے کہ تین منٹ کے بعد ریڈیو سے نعرۂ تکبیر کی آوازیں آنے لگتیں کہ اللہ اکبر ، ہماری توپوں کے گولے ٹھیک ٹھیک دشمن ٹینکوں کے درمیان میں گررہے تھے، جوفاصلہ ہماری رینج سے کئی میل آگے تھا ۔
یہاں فاصلوں کی زیادتوں سے عنایتوں میں کمی نھیں
کوئی دُور رہ کے اویسؓ ہے کوئی پاس رہ کے بلالؓ ہے
بَلَغَ الُعلیٰ بِکَمالِہ ٖ کَشَفَ الدُجیٰ بِجمالہٖ
حَسُنَت جمیع ُ خصالِہ ٖ صَلُّ علیہٖ وَ آلہٖ
انڈین آرمی یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ پاکستانی مُسلے ، تلواروں اور خودوں اور زرہ بکتروں کے ساتھ کیوں لڑتے ہیں ، سارے عرب ہیں ، اُس پر طارق عزیزبولا : لگتا ہے شہیدانِ احد ساتھ دے رہے ہیں ہم لُٹے پُٹوں کا ۔نہ اُس سے پہلے توپوں نے اتنی دور فائر کیا تھا اور نہ کبھی بعد میں اتنی دور فائر کیا (میرے بیان کو فوج کے ریکارڈ سے درست کیا جاسکتا ہے ) ۔
بس ! نیک لوگوں کو اُس وقت ضرورت تھی تو اللہ کی طرف سے تائید آگئی تھی ، میں یہ سمجھتا ہوں ،ہزاروں واقعات ایسے ہیں ۔یہ باتیں بزرگوں نے کتابوں میں بھی لکھی ہیں ، مجھ سے میرے ’’پی ایچ ڈی‘‘ کے استاد ڈاکٹر حسن وقار گُل ؔ صاحب نے مقالے میں بھی لکھوائی ہیں ۔آپ ممتاز مفتی صاحب کی کتابیں اُٹھا کر دیکھ لیجئے ، ’’الکھ نگری‘‘ میں پڑھئے ،’’ تلاش‘‘ دیکھئے ، اُس زمانے کے تما م اخباروں میں یہ واقعات چھپے ہیں ۔
ممتاز مفتی اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں جب ۶۵ء کی جنگ شروع ہوئی تو مسجد نبوی ﷺ شریف میں اللہ کے بندوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی زیارت فرمائی ، دیکھا کہ حضور ﷺ جنگی لباس میں اصحابِ بدر کے ساتھ پاکستانی فوج کی مدد کے لئے تشریف لے جارہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ پاکستان پر حملہ ہوا ہے ، ہمیں اُس کا دفاع کرنا ہے ۔یہ باتیں ممتاز مفتی نے ’’لبیک ‘‘ میں لکھی ہیں ، کتابوں میں ، اخباروں میں چَھپی ہیں ۔اپنی طرف سے ہم نھیں بنارہے ۔یہ باتیں کہ دشمن کے طیاروں کو ہدایت دی گئی کہ ناگرانی کے پُل پر بمباری کریں اور پھرجب وہ پائلٹ پکڑا گیا تواُس سے پوچھا گیا کہ پُل تو تمہارے سامنے تھا ،تم نے بمباری کیوں نھیں کی تو وہ ناس پیٹا بولا کہ ہمیں کہا گیا تھا وہاں ’’ایک‘‘ پُل ہے ، مجھے’’ چھ پُل‘‘ نظر آرہے تھے ( آقا ﷺ کی فوج کا مقابلہ کرنا کچھ سہل ہے ؟) ۔
یہ باتیں دشمن کے سپاہیوں نے کہی ہیں جن کو گرفتار کیا گیا تھا کہ وہ ہاتھی گھوڑوں والی فوج کون تھی اور جن کی تلواروں اور لباسوں سے شُعلے نکلتے تھے ، اللہ اکبر ، آقا ﷺ کی فوج کا مقابلہ کچھ سہل نھیں ۔دشمن کے پائلٹس نے یہ باتیں کہی ہیں کہ ہم بم گراتے تھے ، پینتیس ، چالیس کے قریب بم پنڈی پر گرے ،اُن میں سے پانچ بم پھٹے ، وہ بھی کہیں ویرانے میں ۔باقی بم پھٹے نھیں ۔’’فضائے بدر‘‘ پیدا کرو تو ملائکہ آج بھی مدد کے لئے آجائیں گے ۔جنگِ بدر میں ہوا تھا نہ ایسا ہی کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے مسلمانوں کی مدد کے لئے ملائکہ نازل کئے ۔یہ باتیں چودہ سو سال پہلے تک محدود نھیں ہیں بلکہ جب بھی مسلمان اللہ اور رسول ﷺ کے نام پر کھڑے ہوں گے ، اس پاک سر زمین کی حفاظت کے لئے، تو اللہ کی تائید اُن کے لئے آئے گی ۔۶۵ء کی جنگ کی سب سے خوبصورت مثال ہے ہمارے سامنے ۔
ہم ایک واقعہ سناتے ہیں جو ہمارے بچوں نے کسی کتاب میں نھیں پڑھا ہوگا صاحب کہ جب لاہور پر انڈیا کی فوج نے حملہ کیا تو انڈین جرنیل اپنے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے کہہ رہا تھا کہ لاہور اب بس صرف تین میل دور رہ گیا ، چار میں دور رہ گیا ، بس تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے ، تھوڑا سا آگے بڑھو اور لاہور تمہارے قبضے میں ہے ۔
مزاحمتی شہید ہورہے تھے اور دیوانوں نے اپنے آپ کو دشمن کے ٹینکوں کے سامنے ڈال دیا تھا ،اُنھیں روکنے کے لئے ۔اُس کیفیت میں لاہور تقریباً چودہ میل دُور تھا نرجس ملک صاحبہ اور حمیرا اطہر صاحبہ ، تو وائرلیس پر پاکستانی جوانوں نے ایک آپشن یہ سُنا کہ دشمن کا جرنیل اپنے سپاہیوں سے یہ کہہ رہا ہے کہ لاہور صرف تین یا چار میل دور ہے جبکہ لاہوراُس وقت چودہ میل دُور تھا تو اُس وقت ہمارا ایک زخمی آفیسر اپنے کاک پٹ سے نکلا ہے اور سڑک کے کنارے پر جو کتبہ لگا تھا جس پر لکھا تھا : ’’ لاہور چودہ میل ‘‘ ، اُس افسر نے اُس کتبے کو اُکھاڑا ہے، وہاں سے اوراُس کتبے کو انڈیا کی طرف مزید دو فرلانگ آگے لے کر گیا ہے اوروہاں اُس نے وہ کتبہ لگایا ہے اور اُس پر اپنے خُون سے ’’پوائنٹ نمبر ٹُو ‘‘ ( نکتہ نمبر دو ) لکھا ہے کہ :’’ 14.2 Bloody Miles Lahore‘‘ ،
’’چودہ اعشاریہ دو میل دور ہے لاہور‘‘ ، چنانچہ دشمن اُس کو پار نھیں کرسکا ۔جب شہدا ء نے پہنچنا شروع کیا ہے تو اُن زخمیوں نے شہدا ء کو نرسوں کے حوالے کیا کہ آپ اِن شہیدوں کو رکھیں ، رسومات وغیرہ کے بعد ان کو تدفین کے لئے لے جایا جائے گا،کام کا پریشر ہی اتنا تھا کہ وہ نرسیں بے چاریاں جو زخمیوں کی دیکھ بھال کررہی تھیں ، اب شہدا کے سرہانے بیٹھ گئیں ۔آنے والے جوانوں نے جب یہ دیکھا کہ بہنیں اور بیٹیاں شہیدانِ پاکستان کو ’’ Recieve‘‘ کررہی ہیں تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، واپس اپنی رجمنٹوں میں گئے اور اعلان کیا کہ ، شیرو، دلیرو، سینوں پر گولیاں کھانا ، پیچھے تمہاری بہنیں ، مائیں تمہیں ہاتھوں ہاتھ لے رہی ہیں ۔(یہ لہو داستاں مجھے کیوں یاد دلادی آپ نے ؟ ) ، ایسا نہ ہو کہ وہ عورتیں تمہاری پُشت دیکھیں اور کہیں کہ یہ بے غیرت پُشت پر گولی کھا کر آیا ہے ، یعنی ، یہ جذبہ تھا جوانوں کا ، نہ انڈین فلمیں تھیں اور نہ گیت لبوں پر مچلتے تھے ،میڈم نُور جہان اپنی دودھ پیتی بچّی کو ساتھ لاتیں اور ترانہ ریکارڈ کراتیں ۔ ’’ یہ پُتر ہٹاں دے نئیں وکدے ! ‘‘ ۔
’’اے وطن کے سجیلے جوانو ، میرے نغمے تمہارے لئے ہیں !‘‘
وہ جوان یہ کہتے تھے کہ ہمیں دفن کرنے کے لئے پیچھے ہماری بہنیں کھڑی ہیں ۔
یہاں فاصلوں کی زیادتوں ،سے عنایتوں میں کمی نھیں
کوئی دُور رہ کے اویسؓ ہے ،کوئی پاس رہ کے بلالؓ ہے
بَلَغَ الُعلیٰ بِکَمالِہ ٖ کَشَفَ الدُجیٰ بِجمالہٖ
حَسُنَت جمیع ُ خصالِہ ٖ صَلُّ علیہٖ وَ آلہٖ
اور سب نے قسمیں کھائیں کہ ہم گولی سینے پر کھائیں گے ،یہ وہ باتیں ہیں جو پینسٹھ کے فوجیوں کے سینوں میں دفن ہیں ، یہ باتیں کسی کتاب میں نھیں ملیں گی ،ایسے بھی مواقع آگئے جب دشمن کے ٹینک ہمارے توپ خانے کے اتنے نزدیک پہنچ گئے کہ براہِ راست ٹینکوں اور توپ خانے کی لڑائی شروع ہونے والی تھی ، کہا جاتا ہے دوسری جنگِ عظیم کے بعد سیالکوٹ میں یہ ٹینکوں کی دوسری سب سے بڑی لڑائی تھی ،باقاعدہ ایک آرٹلری آفیسر نے’’ کمانڈ‘‘ دی کہ’’ ہائی شیل‘‘ نکال دو اور’’ اربن شیل‘‘ لگاؤ کیونکہ اب توپ اور ٹینکوں کی براہِ راست لڑائی شروع ہونے والی ہے اور میں کیڈٹ کالج میں’’کیڈٹس ‘‘ کو یہ بتاتا تھا، بچوں کو، کہ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب معاملہ آر یا پار ہوتا ہے ، اور ایسے موقع پر اللہ عزو جلَ جلالہٗ نے ’’دھند ‘‘ بھیج دی ، بِیچ میں وہ دھند آگئی جس نے دشمن کے ٹینک روک دئے اور جیسا میں نے پہلے کہا تھا کہ یہ بھی اللہ کی مدد تھی کہ دشمن پر خوف طاری کردیا اللہ نے ۔یہی وہ روحانی اور نظریاتی پاک احساسات تھے میرے پاکستانیو !کہ جس نے دشمن کے دانت کھٹے کردئے ، وہ کیا چیز تھی ؟ وہ یہی کلمہ تھا کہ :
’’لا الہ الااللہ ، محمد الرسول اللہ !‘‘
اسی کلمے نے ہمیں ایک سیسہ پلائی دیوار ثابت کردیا تھا اور روتا ہوا بھاگا تھا دشمن ۔ ، ابھی جو میرے دس ہزار بچے شید ہوئے ہیں ،پشاور میں وطن کے دفاع کے لئے ، کشمیر سے لے کر وزیرستان تک وطن کے دفاع میں ، اکیس ، بائیس ، تیئیس ، چوبیس سال کے خوبصورت جوان ، اپنے بچوں ، بیوی کو چھوڑ کر جو شہید ہوئے ہیں ،جنہوں نے شہادتیں دی ہیں ، وہ رضاکارانہ طور پر شہید ہوئے ہیں ، کہہ کر شہید ہوئے ہیں ۔
بہت بھاری قربانیوں کے بعد یہ پاکستان آپ کے حوالے کیا گیا ہے میرے بچو، اس پرچم کو گرنے نہ دینا ، وہ جو ناہید اختر نے گایا تھا :
’’ ہمارا پرچم ، یہ پیارا پرچم ، یہ پرچموں میں عظیم پرچم ، عطائے ربِ کریم پرچم !‘‘
کلام غالباً سیف زُلفی صاحب کا تھا، موسیقی خلیل احمد مرحوم کی تھی ۔ اِس پرچم کی خاطر پاک فوج اور جیالوں نے سب کچھ قربان کیا ہے ہمیشہ ، اس کی مٹی میں ہمارے بزرگوں کا خُون شامل ہوگیا ہے نا ،جو اس مٹی کو چھوڑ کے جارہے ہیں وہ بد نصیب ہوتے جارہے ہیں ۔میرے دوستو ، اپنے قدم مضبوطی سے اپنی مٹی پر جماؤ ،
پروفیسر اقبال عظیم بھائی نے لکھا تھا :
’’ ؂ اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے‘‘
جو اس پاکستان میں بستا ہے ، وہ ’’سایہۂ خدائے ذو الجلال ‘‘ ہے ۔’’پاکستان اللہ کے رازوں میں سے ایک ’راز ‘ ہے‘‘ ، اس پر قربان ہوجاؤ ، یہ سب سے اعلا سودا ہے ۔پاکستانی فوج کے بیٹے جو آج بھی قربان ہوتے ہیں ، اُن کی اعلا سوچ ہوتی ہے کہ آج وطن کو ہماری مدد کی ضرورت ہے جبکہ ہم شہری جوان ’’شراب خانوں‘‘ میں بیٹھ کر قہقہے لگارہے ہوتے ہیں ۔لیکن بخدا ! آج بھی انشا اللہ ایسے بیٹے پاکستانی فوج کر رُوپ میں ہمارے پاس ہیں ،
میں بہک سکوں یہ مجال کیا، میرا راہ نما کوئی اور ہے
مُجھے خُوب جان لیں منزلیں ، یہ شکستہ پا کوئی اور ہے
یہاں فاصلوں کی زیادتوں ،سے عنایتوں میں کمی نھیں
کوئی دُور رہ کے اویسؓ ہے ،کوئی پاس رہ کے بلالؓ ہے
بَلَغَ الُعلیٰ بِکَمالِہ ٖ
کَشَفَ الدُجیٰ بِجمالہٖ
حَسُنَت جمیع ُ خصالِہ ٖ
صَلُّ علیہٖ وَ آلہٖ
میری التجا ہے یہ دوستو کبھی تم جو سُوئے حرم چلو
تو بنا کے سر کو قدم چلو ،کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
بَلَغَ الُعلیٰ بِکَمالِہ ٖ ، کَشَفَ الدُجیٰ بِجمالہٖ
حَسُنَت جمیع ُ خصالِہ ٖ ، صَلُّ علیہٖ وَ آلہٖ
اللہ پاکستان کی مدد کرے ، اللہ پاکستا ن اور پاک فوج کی حفاظت کرے ، آمین !

Prof Dr Syed Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi
About the Author: Prof Dr Syed Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi Read More Articles by Prof Dr Syed Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi: 14 Articles with 17362 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.