تعلیم کی افادیت سے کسی کا انکار نہیں، لیکن جیسے ترقی
پذیر ملک میں اس کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے شہری اور دیہاتی علاقے مل کر
اپنے ملک کو مکمل بناتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی آبادی شہری اور یہائی علاقوں
میں منقسم ہے1998ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی 66فیصد آبادی دیہات
میں اور32فیصد لوگ شہروں میں آباد ہیں۔ شہری اور دیہاتی زندگی ایک ہی سکے
کے دو رخ ہیں ان سے راہ فرار ممکن نہیں۔ لیکن ان میں بڑھتا ہوا فرق نقل
مکانی کو جنم دیتا ہے۔ شہروں میں تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقع عوام کی
شہروں کی جانب ہجرت پر مائل کرتے ہیں۔ حصول روزگار شہروں اور دیہات دونوں
میں یکساں مسئلہ ہے لیکن شہروں میں تعلیمی میدان میں ترقی حوصلہ افزاء ہے۔
دیہاتیں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں۔ ایک وہ جو زمینوں کے مالک ہوتے ہیں۔ دوئم
مزدور یا محنت کش طبقہ اول الذکر محض شوق کی بنا پر تعلیم حاصل کرتے ہیں
کیونکہ وسائل کی فراوانی ہوتی ہے اور پیدائش ہے لڑکوں کے ذہن میں یہ بات
بٹھادی جاتی ہے وہ ایک بڑی جاگیر کے مالک ہے ۔ جبکہ لڑکیوں کی تعلیم کو
اہمیت نہیں دی جاتی ۔ چھوٹے زمیندار بھی مزدور طبقات میں شامل ہیں۔ ان کی
آمدنی اتنی قلیل ہوتی ہے کہ گزر بسر ہی مشکل سے ہو پاتی ہے۔ ان کے بچے
پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیتوں میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔یہ عنصر
انہیں تعلیم سے دور کرتا ہے۔ بچے شوق ہونے کے باوجود جو مناسب وقت اور
سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے برابر ہوجاتے ہیں۔ تعلیم کے لیے اساتذہ کی
موجودگی لازمی جزو ہے۔ اگرچہ دور دراز علاقوں میں سکول تو قائم ہیں لیکن
اساتذہ کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ اس کمی کا بنیادی سبب سہولیات کا فقدان ہے
۔ جس کی وجہ سے کوئی بھی شخص گاؤں میں رہنے سے گریز کرتا ہے۔ جب استاد ہی
موجود نہ ہوگا تو تعلیم کا خواب کیونکر شرمندہ تعبر حاصل کر بھی لیتے ہیں
تو ان پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بدستور بند رہتے ہیں۔ دیہاتی علاقوں میں
کالجزنہ ہونے کے برابر ہے۔ جہاں کالجز موجود ہے وہاں حالات نسلی بخش نہیں
ہے۔ سالہا سال اساتذہ کی نشتیں خالی رہتی ہیں۔ یہ امر لڑکیوں کی اعلی تعلیم
کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جبکہ والدین کی بھاری اکثریت لڑکوں کو بھی شہر
بھیجنے پر تیار نہیں ہوتی۔ حکومتی سطح پر تعلیم معنتکرنے کے باوجود شرح
تعلیم میں خاطر خواہ اضافہ دیکھتے ہیں نہیں آیا۔ ایک سروے کے مطابق آج ہی
اڑھائی کروڑ بچے بنیادی تعلیم کی وجہ سے محروم ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ شعور
کا نہ ہونا ہے۔ اگر کچھ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت تعلیم حاصل کر بھی لیتے ہیں
تو وہ بھی لوگوں کے ذہنوں میں تعلیم کی اہمیت بٹانے سے قاصر ہیں۔ دیہات میں
حالات اور بھی دگرگوں ہیں ۔ بچے بغیر کسی مقصد کے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اور
پھر عدم مقصدیت کی بنا پر تعلیم ادھوری چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں نکل
پڑتے ہیں ۔ تعلیم یافتہ افراد کے لیے مناسب روزگار نہ ہونا بھی ایک مسئلہ
ہے۔ جب تعلیم یافتہ نوجوان روزگار کے لیے دہکے کھاتا ہے تو معاشرے پر اس کے
معنی اثرات پڑتے ہیں ۔ بچوں کی بڑھانے کی بجائے کام سکھانے کو ترجیح دیتے
ہیں تاکہ مستقبل میں وہ اپنے ہنر سے روزگار کمانے کے قابل ہو سکیں۔
پنجاب میں جاگیرداری نظام، سندھ میں وڈیرراج ، بلوچستان اور خیبر پختوان
خواہ میں رائج قبائلی نظام بھی تعلیم کی راہ میں مائل ہے۔ ان تمام عوامل کے
علاوہ اور بھی بہت سے عناصر ہیں جو ترقی کرنے سے روکتے ہیں۔ اٹھارویں ترمیم
کی منظوری کے بعد16سال کی عمر تک تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ جس کے
آنے والے دنوں میں خوش آئندہ نتائج متوقع ہیں۔ لیکن حکومتی کوششوں کے ساتھ
ساتھ ہمیں اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے تعلیم کے فروغ کے لیے
کوشش کرنی چاہیے۔ پر تعلیم یافتہ شخص کو ایک ایک بچے کوی سرپرشی کرتے ہوئے
اعلیٰ تعلیم تک رہنمائی کرنی چاہیے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ دیہاتوں میں
بنیادی ضروریات کو سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے تاکہ پڑھے لکھے لوگ
اپنے علاقوں میں رہنے کے ترجیح دیں اور ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ |