نور اعلیٰ نور - قسط ۱۷

انسان مٹی اور روح کا مرکب ہے۔ انسان کا جسم مٹی سے بنا اور پھر اس مٹی کے پتلے میں روح پھونکی گئی۔
یہ مٹی کا جسم مادہ پرست ہے اور روح اﷲ والی ہے……

جسمانی خواہشات ہمیشہ انسان کا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔ ان خواہشات کا کوئی اختتام نہیں…… ایک ختم ہو تو دوسری ، دوسری ختم ہو تو تیسری خواہش جنم لیتی ہے۔ ان خواہشات کو لگام دینا ہے…… انہیں بے لگام ہر جگہ منہ مارنے کے لئے نہیں چھوڑ دینا…… یہی تزکیہ نفس ہے…… دوسری طرف انسان کے اندر ایک روحانی چراغ روشن ہے…… یہ روح اﷲ کی ہے …… جب بھی ہم سوتے ہیں اﷲ اسے اپنے پاس بلا لیتا ہے، پھر جس کی موت لکھی ہوتی ہے اس کی روح اپنے پاس ہی روک لیتا ہے اور جن کی زندگی کی مدت ابھی پوری نہیں ہوئی ان کی روح واپس بھیج دیتا ہے۔ مگر یہ روح پاک ہے اور نیکی کی طرف انسان کو راغب کرتی ہے۔اسی کھینچ تان کو کہا گیا ہے معرکہء روح و بدن…… یعنی اچھائی اور برائی کی آپسی کشاکش…… کبھی انسان نیکی کی طرف پیش قدمی کرتا ہے اور پھر کبھی اسی انسان کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔ (سورۃ ۳۹ آیت ۴۲)

ذولفقار بھی اپنی زندگی کے اس مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے جب نہ تو اس کے نفس کو لگام ہے اور نہ ہی اس کی روح اسے بے لگام چھوڑنے پر راضی ہے……

’’چچ……کیسا آدمی ہوں میں…… توبہ…… یہ کیا کیا میں نے……‘‘ یونیورسٹی سے نکل کر سارے راستے ذولفقار سوچتا رہا۔
’’ کس طرح آرام سے میں یہ سب کر بیٹھا……‘‘
’’ چچ…… یا اﷲ! ……استغفر اﷲ……مجھے معاف کر دینا……‘‘ اسے بار بار اپنی حرکت یاد آ رہی تھی۔ وہ بار بار اپنے سر پر اپنا ہاتھ مار رہا تھا کہ اتنی بڑی غلطی کیسے کر بیٹھا……
گھر آ کر بھی ساری رات ذولفقار اپنی شرمناک حرکت کے بارے میں سوچتا رہا جو اس نے نیلوفر کے ساتھ کی۔
’’ اف! کیسے میں نے……‘‘ ذولفقار کے ذہن میں کسی فلم کی طرح سب کچھ چل رہا تھا۔ کیسے نیلوفر آئی، کیا باتیں ہوئیں، کس طرح……
’’کیسے میری معافی ہو گی؟؟؟‘‘
’’اﷲنے مجھ پر کتنا فضل کیا اور میں…… میں یہ سب کر تا پھروں گا؟؟؟‘‘ ذولفقار اپنی حرکت پر بہت شرمندہ ہو رہا تھا۔
فدائیل اور سومائیل فرشتے یہ سب مشاہدہ کر رہے تھے۔

دوسرے روز بڑا بد دل ہو کر ذولفقار یونیورسٹی گیا۔مر مر کر اپنے لیکچرز دئیے اور ذیادہ وقت اپنے آفس میں ہی گھسا رہا۔وہ نیلوفر کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ نیلوفر بھی کہیں آس پاس نظر نہیں آتی تھی۔
چند ایک دن ایسے ہی گزر گئے۔ پھر اچانک اسے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا۔
’’ میں اس دن کے لئے بہت شرمندہ ہوں۔آئی ایم رئیلی سوری۔مجھے ہر وقت آپ کا خیال آتا رہتا ہے ۔ ):‘‘
نیلوفر نے میسج کے آخر میں اداس سی صورت بنا کرذولفقار کو بھیجا ۔ وہ بار بار اس کا میسج پڑھتا اور اپنے آپ سے لڑتا……بار بار اپنے موبائیل پر کچھ میسج ٹائپ کرتا پھر مٹا دیتا پھر ٹائپ کرتا پھر مٹا دیتا……
نیلوفر جیسی لڑکی کو کون چھوڑنا چاہتا تھا؟؟؟
رات گئے تک اس کی یہی کیفیت رہی۔
’’اٹس اوکے‘‘ آخر کار اس نے بھی ایک میسج لکھ کر نیلوفر کو بھیج دیا۔
۔۔۔۔۔۔

ذولفقار اور نیلوفر سمندر کے کنارے چہل قدمی کر رہے تھے۔ ان کا ملنا ملانا پھر شروع ہو گیا تھا۔بڑا پیارا موسم تھا۔کراچی کے ساحل پر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔یہ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ،دنیا والوں سے بے خبر ،بڑی بے نیازی سے ان لمحات کا مزہ لے رہے تھے۔ مغرب ہو گئی تو عام لوگ گھروں کو واپس جانے لگے ۔ مگر ان کا گھر کو لوٹنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آ رہا تھا۔

وہ دونوں ساحل پر ایک ویران سی جگہ جا بیٹھے۔آس پاس کوئی نہیں تھا۔ چپ چاپ بیٹھے یہ سمندر کی لہروں کا شور سن رہے تھے۔ایک دوسرے سے کچھ نہیں کہہ رہے تھے۔ اچانک نیلوفر نے اپنا سر ذولفقار کے کاندھوں پر رکھ دیا…… ذولفقار نے بھی فوراََاسے اپنی بانہوں میں بھر لیا…… اورپھر وہی سب ہوا جس کے بعد وہ بہت پچھتاتا تھا۔

نیلوفر کے ساتھ گزارا ہر پل ذولفقار کے لئے ایسے تھا جیسے وہ کسی جنت میں گزاررہا ہو۔جب وہ اس کے ساتھ ہوتا تو سب بھول بھال جاتاکہ اس کی منگنی ہوئی ہوئی ہے، اس کی کچھ ذمہ داریاں ہیں، کوئی اس سے کتنی امیدیں لگائے بیٹھا ہے…… مگر پھر اس کا ضمیر پھر اسے ملامت کرتا…… اس کے اندر ایک جنگ سی چل رہی تھی……
وہی اچھائی اور برائی کی قدیم جنگ……
۔۔۔۔۔۔۔

کہتے ہیں آدم ؑ کا آدھا حسن اﷲ نے یوسف ؑ کو عطا کیا تھا۔ جب وہ مصر میں اﷲ کے حکم سے غلام بنا لئے گئے اور ان کے آقا کی بیوی زلیخا نے ان سے اپنا ناجائز مطلب حاصل کرنا چاہا تو انہوں نے اﷲ کے حکم کے آگے اس کی فرمانبرداری کرنے سے انکار کر دیا۔ جواباَََ زلیخا نے پوسف ؑ پر تہمت لگا دی کہ وہ زلیخا سے زبردستی کرنا چاہتے تھے۔ مگر حق چھپا نہیں بلکہ ایک شیر خوار بچہ جو بول نہیں سکتا تھا اﷲ کے حکم سے بول پڑا اور اس نے یوسف ؑ کی پاک دامنی کا ثبوت مہیا کیا۔

زلیخا اپنے حلقہ احباب میں بدنام ہو گئی کہ ایک شادی شدہ مصری اشراف زادی ہونے کے باوجود وہ ایک عبرانی غلام سے جسمانی تعلقات کی خواہاں ہے۔ اس نے سوچا کہ باتیں بنانے والوں کا منہ بند کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ مصر کی عورتوں کو یوسف کا دیدار کروا دیا جائے۔ پھر سب خود ہی مان جائیں گے کہ یوسف کے حسنِ بے مثال کے آگے کوئی اپنے جزبات پہ قابو نہیں رکھ سکتا ……

’’جب (ذُلیخا نے) ان (مصری عورتوں ) کی مکارانہ باتیں سنیں تو (انہیں) بلا بھیجا۔ اور ان کے لئے ایک تکیہ دار مجلسِ ضیافت کا اہتمام کیا اور ہر عورت کے سامنے ایک ایک چھری رکھ دی ۔
(پھر عین اس وقت جب وہ پھل کاٹ کاٹ کر کھا رہی تھیں تو) یوسف ؑکوپکارا ’’ذراباہر…… اِن کے سامنے توآؤ‘‘۔
تو جب ان عورتوں کی نگاہ یوسفؑ پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور (پھل کا ٹتے کاٹتے ) اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں ۔ وہ بے ساختہ پکار اٹھیں ’’حاش ا ﷲ ! یہ شخص انسان نہیں ہے…… یہ تو کوئی معزز فرشتہ ہے‘‘۔
(زلیخا) بولی’’ دیکھ لیا! یہ ہے وہ شخص جس کے بارے میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں‘‘۔
’’بے شک میں نے اسے رجھانے کی کوشش کی!!!‘‘۔ ’’ مگر یہ بچ نکلا‘‘
’’اب بھی اگر یہ میرا کہا نہ مانے گا ……(اور مجھ سے تعلق نہیں قائم کرے گا)…… تو قید کیا جائے گا…… اور ذلیل ہو جائے گا‘‘
(یہ سب دیکھ کر) یوسفؑ بولا ’’اے میرے رب! جس حرکتِ نا شائستہ کی جانب یہ (عورتیں) مجھے بلا رہی ہیں…… قید میں رہنا مجھے اس سے کہیں ذیادہ پسند ہے……‘‘
’’……(اے اﷲ!) اگر ان کی چالوں کو تو نے مجھ سے دفع نہ کیا تو میں اس حرکت کی طرف مائل ہو جاؤ گا …… اور جاہلوں میں سے( ایک )ہو جاؤ گا……‘‘

ذولفقار نے سورۃ یوسف کی یہ آیات پڑھیں تو اسے اپنی اور نیلوفر کی حرکتیں یاد آگئیں ۔
’’کیسے اﷲ کو بھلا کر گندے کاموں میں پڑ گیا ہوں…… اپنی خواہشات کو اپنا خدا بنا لیا ہے میں نے……‘‘وہ بہت دُکھی ہو رہا تھا۔
’’اپنے اﷲ کے حُکموں کی کوئی پرواہ کئے بغیر بس برائی کی طرف کھچا چلا جاتا ہوں……‘‘ وہ اپنے آپ پر افسوس کرنے لگا۔
’’بالکل بھی اپنے آپ کو برائیوں سے بچانے کی کوشش نہیں کرتا……‘‘ اسے بہت رونا آ رہا تھا۔
’’اے اﷲ ! میرا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے……مجھے بھی تو یوسف ؑ کی طرح برائیوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچا لے!!!‘‘
’’میں بہت کمزور ہوں اﷲ! کس طرح دعوی کروں کے گناہوں سے بچا رہوں گا؟؟؟‘‘
’’اے اﷲ! تو مدد کر…… مجھے بھی یوسف (ع) کی طرح گناہوں میں پڑنے سے بچا لے‘‘۔ ’’آمین‘‘۔

فرشتوں نے اس کی دعا رب کے حضور پیش کی اور اﷲ نے اپنا فیصلہ سنایا۔
۔۔۔۔۔۔۔


ذولفقار آج اپنے عام وقت سے ذرا پہلے اٹھ کر یونیورسٹی جانے لگا۔ وہ روز کی طرح کراچی کی مصروف سڑکوں پر اِھر ُاھر دیکھتا آرام آرام سے آگے بڑھ رہا تھا۔ ایک روڑ پر آ کر ٹریفک کچھ ذیاہ ہی سُست ہو گئی۔
’’یہ آج کیا ہو گیا ہے؟؟؟‘‘ ذولفقار کے منہ سے بیزاریت میں نکلا۔
ٹریفک بہت ہی سست ہو گئی جیسے کہ رُک ہی گئی ہو۔لوگ اپنی اپنی گاڑیوں سے اتر کر آس پاس منڈلانے لگے تا کہ معلوم ہو کہ کیا ہوا ہے۔

ذولفقار کو کچھ شور سا دور سے آتا سنائی دینے لگا۔ ’’کیا ہو رہا ہے پتا نہیں!!! اﷲ خیر کرے……‘‘۔ وہ بھی گاڑی سے نیچے اتر آیا۔ کراچی کے حالات تو پل پل بدلتے ہیں۔
کچھ آگے ایک مجمع سا لگا تھا۔ کئی لوگوں نے ہاتھوں میں بینرز اٹھائے ہوئے تھے۔ وہ اور نزدیک گیا۔ کوئی احتجاج ہو رہا تھا۔
’’اوہ……‘‘۔ ذولفقار نے جان لیا کہ کیا ماجرا ہے۔
کسی یورپ کے اخبار میں حضور ﷺ کے تحقیر آمیز خاکے شائع کئے گئے تھے۔ دنیا کے کونے کونے میں احتجاج ہو رہے تھے۔پاکستان میں بھی کئی مذہبی تنظیمیں اور مختلف جماعتیں غیر مسلموں کی اس حرکت پر احتجاج کر ر ہیں تھیں۔
بینرز پر مختلف قسم کے نعرے لکھے تھے۔ لوگ خوب جوش میں تھے اور نعرہ بازی کر رہے تھے۔
’’گستاخِ رسول ﷺ کی سزا موت ہے‘‘
’’غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے‘‘
’’ڈینمارک سے سفارتی تعلقات ختم کئے جائے‘‘
وہ چلتا جا رہا تھا اور نعروں کی آوازیں تیز ہوتی جا رہی تھی۔
اچانک ذولفقار کے دل میں ہول سے اٹھنے لگے۔ اسے عجیب گھٹن سی محسوس ہو نے لگی۔ اس نے انٹرنیٹ پر رسول ﷺ پر بنائے گئے گستاخانہ خاکے دیکھے تھے۔ اسے وہ یاد آنے لگے۔
’’گستاخِ رسول ﷺ کی سزا موت ہے‘‘ جوش اور بڑھ چکا تھا۔ آوازیں اور اونچی ہو چکی تھیں۔
اسے لگا جیسے اس کے اندر کوئی چیز پھٹنے والی ہے۔سارا ماحول جوشیلا تھا۔ نعروں کی آوازیں زور پکڑ رہی تھیں۔
’’ نا منظور !!!نا منظور!!!‘‘ ذولفقار چنگھاڑا۔ اگر کوئی اسے اس وقت دیکھتا تو کبھی نا مانتا کہ یہ ذولفقار ہی ہے۔ اس کا رنگ ڈھنگ بدل گیا تھا۔ اسے خود پر بھی یقین نہ ہو کہ کبھی وہ ایسے کسی معاملے میں سڑک پر نعرے بھی مار سکتا ہے۔ وہ احتجاج میں شامل ہو گیا اور والہانہ احتجاج کرنے والوں کا ساتھ دینے لگا۔
’’گستاخِ رسول ﷺ کی سزا موت ہے‘‘
’’غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے‘‘

مجمع بہت بڑا تھا۔آس پاس حفاظت کے لئے پولیس کی گاڑیاں بھی آ گئیں تھی۔احتجاج اپنے عروج پر تھا کہ کوئی آیا اوریک دم فائرنگ شروع کردی۔
اُف!!!
قیامت آگئی…… لوگ ڈر کے مارے بِنا کہیں دیکھے ایک دوسرے کو دھکے دیتے بھاگنے لگے۔ ایک دوسرے کو پیروں تلے روندھتے……کچلتے……گرتے پڑتے مرتے……ایسا منظرکہ بیان سے باہر ہے……
ایسے میں پولیس کیا کر تی؟؟؟ بس ان کا ہاتھ جس کے گریبان پر گیا اسے انہوں نے پکڑ پکڑکر گاڑیوں میں بھر نا شروع کر دیا۔ ذولفقار اُن ہی بدقسمتوں میں سے ایک تھا۔

’’میری دعا پوری ہو گئی‘‘۔ ذولفقار پولیس کی وین میں بیٹھا دل ہی دل میں ہنس پڑا۔
 

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 86248 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More