پولیس والوں نے ایک بڑے سے کمرے میں سب کو ٹھونس دیا۔
لائٹ نہیں تھیں۔ کمرے میں ذیادہ لوگ ہونے کی وجہ سے گھٹن سی پیدا ہو گئی
تھی۔ لائٹ نہ ہونے کی وجہ سے اندھیرا بھی ہو رہا تھا۔ وقت بھی شام کا ہونے
کو تھا۔ آہستہ آہستہ سب لوگ کمرے کی دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئے اور اپنے
آس پاس کے لوگوں سے چہ مگوئیاں کرنے لگے۔ تقریباََ سب لوگ ہی داڑھی والے
تھے…… نوجوان سے لے کر بوڑھے تک ہر عمر کے لوگ…… سب لوگ بڑے مہذب اور پڑھے
لکھے لگ رہے تھے۔
’’راہِ حق میں یہ سب بہت چھوٹی چیزیں ہیں‘‘۔
’’کتنے لوگوں سے جیل بھریں گے…… جیلیں کم پڑ جائیں گی‘‘
یہ لوگ اپنے جیل میں آنے پر خوش ہو رہے تھے اور ایک دوسرے کو اسی قسم کے
جملے کہتے ہمت بندھا رہے تھے۔
’’پتہ نہیں یہ فائرنگ کس نے کی!!!‘‘ ذولفقار کے ساتھ بیٹھا ایک شخص بولا۔
ذولفقار کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس بات کا کیا جواب دے۔ وہ تو
نہایت خاموشی سے دیوار کے ساتھ دبک کر بیٹھا تھا کہ نا جانے اب کیا ہو گا۔
اسے کیا پتہ تھا کہ ایک دن وہ جیل کی ہوا بھی کھائے گا۔ اس کا ذہن کسی بھی
سوچ سے خالی تھا۔ وہ تو بس انتظار کر رہا تھا کہ آگے آگے دیکھے ہوتا ہے کیا!!!
’’غیر ملکی ایجنٹوں نے کروائی ہے فائرنگ…… اور کس نے کروائی ہے……‘‘ ایک
دوسرے شخص نے جواب دیا۔ ’’ تا کہ احتجاج ناکام ہو جائے……‘‘ ’’……اور حکومت
پابندی لگا دے احتجاجوں پر……‘‘
’’اگر احتجاج ہم نے کیا تھا تو اس کی سیفٹی اور سیکیورٹی کی ذمہ داری بھی
ہم پر ہی ہوتی ہے……‘‘
’’ارے !!! ہم پر کیسے…… ساری دنیا میں پروٹیسٹس ہوتے ہیں…… جو کہ عوام کا
بنیادی حق ہے…… امن و امان کی ساری ذمہ داری حکومت پر عائیدہوتی ہے‘‘۔
لوگ ایک دوسرے سے بحث کرنے لگے۔ ذولفقار اکتا سا گیا اور ایک طرف کو منہ
پھیر کر بیٹھ گیا۔
اچانک ذولفقار کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ اس کے اندر ایک جان سی آگئی۔
انہیں دیکھتے ہی ذولفقار کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔
وہ فوراََ اپنی جگہ سے اٹھا اور ان کی طرف بڑھنے لگا۔وہ اپنی آنکھیں بند
کئے جیل کے کمرے کی ایک دیوار کے ساتھ مطمئین بیٹھے تھے۔
’’دادا جان!‘‘ ذولفقار نے انہیں مخاطب کیا۔ دادا جان کے کانوں نے ایک جانی
پہچانی آواز سنی۔ وہ واپس اس دنیا میں آنے لگے اور آخر کار آنکھیں کھول
دیں۔
’’ذولفقار بیٹا تم!!!‘‘ دادا جان نے حیرت سے کہا اور اپنی جگہ سے اٹھنے کی
کوشش کرنے لگے۔ذولفقار نے فوراََ انہیں روکا اور جلدی سے خود ان کے سامنے
نیچے بیٹھ گیا۔
’’کیا آپ بھی اس احتجاج میں تھے؟؟؟‘‘ ذولفقار نے حیرت سے پوچھا۔ دادا جان
نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
رات ہو گئی تھی۔ ذولفقار کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ کبھی اس کی زندگی کی
ایک رات جیل میں بھی گزرے گی۔ مگر دادا جان کے ساتھ ہونے کی باعث وہ بالکل
فکر مند نہیں تھا۔ اس نے اور دادا جان نے موبائیل سے فون کر کے گھر والوں
کو اس معاملے کی اطلاع دے دی تھی۔ ظاہر ہے وہ سب پریشان ہو گئے تھے۔ جو
افراد بھی یہاں بند تھے سب ہی عزت دار اور شریف پڑھے لکھے لوگ تھے۔ یہ سب
کسی جرم میں تھوڑی یہاں آئے تھے۔ یہ تو راہِ حق میں مشکلیں اٹھا رہے تھے۔سب
ہی کے دوست احباب ان کی رہائی کے لئے بات چیت کر رہے تھے۔ ان کی رہائی ہو
بھی جانی تھی……
آج ذولفقار نے داداجان سے جی بھر کر باتیں کئیں۔ اسے اپنی زندگی کی اگلی
پچھلی سب سنا دی۔ اپنا کالج کا زمانہ، گھر کے حالات، نیلرفر، اپنا تنظیم
میں آنا جانا غرض دل کی ساری باتیں ان سے کہہ دیں۔ خاص طور پر ذولفقار نے
ڈاکٹر سراج الدین اور تنظیم کے دینی فلسفے کا ذکر دادا جان سے کیا۔
’’کبھی کبھی تو……‘‘ ذولفقار کہتے کہتے رکا۔ شاید اسے اپنی بات کہنے کے لئے
صحیح الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
’’کبھی کبھی تو …… عجیب سا لگنے لگتا ہے…… ‘‘ رات کے ڈھائی رہے تھے سوائے
داداجان اور ذولفقار کے سب قیدخانے میں بیٹھے بیٹھے سو گئے تھے۔
’’کیا ٹھیک ہے…… کیا غلط…… سب اتنا …… سب اتنا پیچیدہ سا ہے……‘‘ذولفقار
ادھر ادھر ہوا میں دیکھتا یہ باتیں کہہ رہا تھا۔ جیسے کوئی اپنے آپ سے ہی
باتیں کر رہا ہو۔ دادا جان اس کی باتوں کو بہت غور سے سن رہے تھے۔
’’کوئی کیا کہتا ہے کوئی کیا……‘‘ ۔
’’کیا ہم صحیح رستے پہ ہیں؟؟؟‘‘ وہ اپنی دین سے متعلق سمجھ پر الجھن کا
شکار تھا۔
’’آخر کون ہمارا سچا رہنما ہے؟؟؟‘‘ اس نے بے زاری سے پوچھا۔
دادا جان کی آنکھوں میں نا جانے کیوں نمی سی آ گئی۔ شاید وہ اس دور کی بے
اعتباری اور بے یقینی پہ رو رہے تھے۔
’’تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اَسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ بر حق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئنے میں تجھ کو دکھا کے رُخِ دوست
زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساسِ زِیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے‘‘
(علامہ محمد اقبال رحمت اﷲ علیہ)ـ
’’آہ……‘‘ وہ یہ اشعار پڑھ کر رونے لگے۔ ذولفقار ان جیسی با رعب شخصیت کی
آنکھوں سے آنسو نکلتے دیکھ کرسہم گیا۔ ’’ہائے !کیسا نرم دل ہے ان کا……‘‘
شاید وہ اس دور کی افراتفری اور دھندھلے پن پہ رو رہے تھے۔جس نے حق کے
متلاشیوں کا کام بہت ہی مشکل بنا دیا تھا۔ ہر کوئی بے اعتباری اور بے یقینی
کی سی کیفیت میں مبتلا تھا۔
اچانک لاک اپ کے باہر کئے لوگ پولیس والوں کے ساتھ آگئے۔ان میں کئی اسلامی
تنظیموں کے رہنما بھی تھی۔ نا جانے کیا معاملات کر کے ان کی رہائی ہو گئی
اور ایک رات جیل میں کاٹنے کے بعد انہیں رِہا کر دیا گیا۔ مگر یہ ایک رات
اسے ایک نئی زندگی دے گئی۔
ذولفقارہ اپنے آپ کو بہت طاقتور محسوس کرنے لگا۔ جیسے اب جو بھی ہو سو ہو……
وہ سب سہنے کے لئے تیار ہے۔ جیسے کسی نے اس کے اندر لگی کوئی گِرہ کھول دی
ہو۔ پرانی باتیں ذہین سے محو ہو گئیں…… جینے کا اصل مقصد مل گیا ہو…… اس نے
اپنے آپ کو اپنے مقصد کے لئے وقف کر ڈالا…… اﷲ والا مقصد……
۔۔۔۔۔۔۔
ذولفقار کو اس کے گھر والوں نے خوب سنائیں…… کہ کیا ضرورت تھی اس طرح
احتجاج میں شرکت کرنے کی وغیرہ وغیرہ……
مگر وہ سب کی باتوں پر ہنستا رہتا…… اور انہیں سمجھاتا کہ اس نے دین کی
خاطر آواز اٹھائی تھی کسی غلط مقصد کے لئے نہیں……
…… اور دادا جان بھی تو اس کے سا تھ تھے…… دادا جاان کے آگے کون بول سکتا
تھا……
ایک دن اس نے یونیورسٹی کی چھٹی کر لی اور پھر دوسرے دن یونیورسٹی گیا۔
’’واہ بھئی تم تو بڑے ہیرہ بن گئے ہو……!!!‘‘ نیلوفر نے اسے دیکھتے ہی جملہ
کَسا۔ ذولفقار نے اسے نظر انداز کرنا چاہا اور مشکل سے ہلکا سا ہنس دیا۔
’’ہاں بھئی اب تو آپ کے تیور ہی بدل گئے ہیں……‘‘ نیلوفر نے پھر اسے چھیڑا۔
ذولفقار تھوڑا ہنس دیا۔
’’اچھا…… ابھی میری کلاس ہے…… پھر ملتے ہیں……‘‘ نیلوفر نے اس کا بدلہ ہوا
انداز خوب جانچ لیا تھا۔
ذولفقار کی کوئی کلاس نہیں تھی۔ اس نے تو بس نیلوفر سے جان چھڑائی تھی۔
وہ اپنے آفس میں بند ہو کر کچھ سوچنے لگا۔ اس نے تحیہ کر لیا تھا کہ اب وہ
نیلوفر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھے گا۔ آخر اس کی منگنی ہو چکی تھی۔ زیبا
اسے پسند تھی۔ وہ اس سے شادی کرنے والا تھا۔
’’ نفسانی خواہشات تو تمام عمر مجھے برائی کی طرف بلاتی ہی رہیں گی۔ اس کا
یہ مطلب نہیں کہ میں ہر خواہش کے ساتھ بہہ جاؤں……‘‘ وہ اپنے آپ کو سمجھا
رہا تھا۔
اس نے کچھ سوچا اور زیبا کو فون ملایا۔
’’ہیلو!‘‘ ذولفقار کا نمبر موبائیل پر دیکھ کر زیبا فوراََ چہک اٹھی۔
’’ہیلو! کییسی ہیں آپ؟؟؟‘‘ ذولفقار کبھی کبھار ہی اسے فون کیا کرتا تھا۔
’’میں ٹھیک ہوں…… آپ کیسے ہیں؟‘‘
’’الحمد اﷲ……‘‘
’’…… وہ اصل میں…… ‘‘ ذولفقار جھجھک رہا تھا۔
’’ اصل میں…… کچھ دن میں ہماری یونیورسٹی میں ایک چھوٹی سی پارٹی ہے……
منگنی کے بعد لوگ آپ سے ملنا بھی چاہ رہے تھے……‘‘
’’ کیا آپ آ سکیں گیٖ؟؟؟‘‘
یونیورسٹی میں کوئی دعوت نہیں تھی۔ ذولفقار صرف زیبا کو یونیورسٹی لانا
چاہتا تھا۔ اسے لگا کہ نیلوفر سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اس سے بہتر
اورکوئی طریقہ نہیں کہ سب لوگوں میں اپنی منگنی اور شادی کا چرچا کرنے لگے۔
دوسرے دن وہ مٹھائی کے دو ڈبے بھی یونیورسٹی لے گیا اور سب کو خوشی خوشی
اپنی منگنی کی مٹھائی کھلائی۔
لنچ کا ٹائم تھا۔ سب ذولفقار کو منگنی کی مبارک باد دینے لگے۔ نیلوفر کے
لئے یہ سارا ماحول برداشت سے باہر ہو رہا تھا۔ مگر وہ کسی کے سامنے کیا
کہتی…… کیا کرتی…… بن بن کر بڑی مشکل سے اس نے ایک مٹھائی کھائی اور
خونخوار نظروں سے ذولفقار کو دیکھتی رہی۔
سب ہی کے لئے نیلوفر تماشہ بن گئی تھی۔ کیونکہ سب ہی اس کی اور ذولفقار کی
حرکتوں سے واقف تھے۔
نیلوفر کو جیسے چپ سی لگ گئی تھی۔ وہ سب کی نظروں سے بچتی اپنے آفس میں ہی
گھسی رہی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ خود ذولفقار کے پاس
جانا یا اسے کال کرنا تو اس کی انا کو گوارہ نہیں تھا۔ اسے ایسا لگا کہ
گویا ایک ہی لمحے اس کا سارا کھیل بگڑ گیا ہو۔ کئی مرد اس کی زندگی میں آئے
تھے…… گئے تھے…… مگر ہمیشہ اس کا اپنا ہی دل ان سے بھر جاتا تھا……کوئی اور
اس جیسی حسین لڑکی کو کیوں چھوڑتا……
اس نے ٹھان لیا کہ وہ ایسے ذولفقار کا پیچھا نہیں چھوڑنے والی۔
۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دنوں میں ذولفقار زیبا کو بھی یونیورسٹی لے آیا اور سب سے اس کا تعرف
کروانے لگا۔
اب تو جیسے نیلوفر کے دل پر کسی نے چھرا گھونپ دیا ہو۔ وہ غصے میں بپھری
ہوئی تھی۔ تمام لوگوں میں ایک تماشہ بن گئی تھی۔ زیبا ایک دو گھنٹے میں
یونیورسٹی سے چلی گئی۔
’’یہ سب کیا ہے ذولفقار؟؟؟‘‘ نیلوفر ذولفقار کے آفس میں اس کے پیچھے کھڑی
تھی۔ ذولفقار اس سے منہ موڑے ہوئے تھا۔
’’وہی ہے جو تم دیکھ رہی ہو……‘‘ ذولفقار کے لئے یہ سب کرنا بڑا مشکل تھا۔
مگر ہمت کر کے کہا۔
’’کیا مطلب!!!‘‘ نیلوفر سب مطلب سمجھتی تھی۔
’’مطلب یہی ہے کہ تم بھی شروع سے جانتی ہو کہ میری منگنی زیبا سے ہو رہی
ہے…… اب ہماری منگنی ہو بھی چکی ہے……چچ…… ‘‘ ذولفقار نے بیزاری میں اپنا
جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’بس کرو اب! آج تک تم نے میری زیبا سے منگنی پر کوئی اعتراز نہیں کیا…… تم
بس یہ کھیل کھیلنا چاہتی تھی…… اور میں بھی کھیلتا رہا……‘‘
‘‘ مگر اب بہت ہو گیا…… میں اب ……‘‘ ذولفقار نے پھر اپنی بات نا مکمل چھوڑ
دی۔
’’جو کچھ بھی ہوا بھول جاؤ…… میں اب تم تے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا……‘‘
’’آئی ایم سوری!‘‘
نیلوفر نے کچھ نہ کہا اور تیزی سے گھوم کر کمرے سے نکل گئی۔ اگلے کچھ دن
یونیورسٹی میں بڑے کھچے کھچے سے گزرے۔ ذولفقار کا دل ہی نہیں چاہتا تھا کہ
یونیورسٹی جائے کہ مبادہ وہاں نیلوفر سے سامنا ہو جائے……
مگر اس کی مشکل خود بخود ہی آسان ہو گئی جب نیلوفر نے یونیورسٹی سے ریزائن
کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔ |