جو شخص تکلیف میں مسکرا سکے ، زخموں سے ڈرتا نہ ہو اور
وقت آنے پر کوئی بھی قربانی دے سکے تاریخ اسے بہادر کہتی ہے . بہادری کا
معیار کیا ہے ؟ بہادری اور جاں فشانی کیا ہوتی ہے ؟ قربانی دینے والے کون
ہوتے ہیں ؟ یہ کون لوگ ہیں ؟ یہ کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے ؟ بہت سے
ایسے سوالات جولائی / اگست کے مہینوں میں میرے ذہن میں آتے ہیں جب میں ان
دنوں کا سوچتا ہیں جب کارگل کا محاذ گرم تھا اور ہر دوسرے روز خبر آتی تھی
کہ کوئی ایسا ہی بے مثال شخص تاریخ میں اپنا مقام حاصل کر کہ سرخرو اپنے
گھر کو لوٹ رہا ہے . یہ عظیم شہدائے کارگل تھے جنھیں ہم سے بچھڑے ایک دہائی
سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا ہے مگر آج بھی وہ ذہنوں اور سوچوں میں انمٹ نقوش
کی طرح تازہ ہیں . وہ عظیم بیٹے ، بھائی اور سپاہی تھے جن کی مثال نہیں
ملتی . ہر شہید عظیم ہے اور کارگل کے بعد سے اب تک ہزاروں ایسے شہید مادر
وطن کی عظمت کی بنیادوں میں اپنا لہو شامل کر کہ عظیم تر مقام کو پہنچے ہیں
کہ ان کی عظمت اور بہادری کو چند الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل کام ہے . اﷲ
کے علاوہ کسی سے ڈرے بغیر کسی بھی حالت میں اﷲ رب العزت کی حدود کا احترام
کرنے کا عزم دکھانا بہادری ہے ، بہادری وہ فضیلت ہے جو ایمان سے پیدا ہوتی
ہے ۔
ہر سال اگست کا مہینہ میرے لیے ایک عجیب روحانی تجربہ ثابت ہوتا ہے . مجھے
ایسے لگتا ہے جیسے ایک بہت بڑے جشن کی تیاری ہو رہی ہے اور اس میں عظیم
شہدائے اسلام موجود ہیں اور یہ سب اپنی صفوں میں شامل ہونے والے ایک اور
سپاہی کے استقبال کے منتظر ہیں . شائد کچھ ایسا ہی منظر تھا جب 5 اگست 1999
کو بٹالک سیکٹر میں پاک فوج کا ایک عظیم توپچی اور مادر وطن کشمیر کا ایک
عظیم سپوت کیپٹن جاوید اقبال شہید شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوا’’انہیں
جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو خود اﷲ تعالیٰ کی ملکیت
ہیں اور ہم اس کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘ (البقرا)
|
|
میرا اور شہید کپتان کا رشتہ بہت پرانا ہے جو آج تک ویسے ہی قائم اور دائم
ہے جیسا اگست 1999 سے پہلے تھا . جونیر کیڈیٹ اکیڈمی منگلا سے کاکول اور
لاہور سے نوشہرہ کا ذکر ہو یا پھر کوئٹہ سے مستونگ یا راولپنڈی سے کارگل تک
کا سفر ہو میں ان کی تمام پوسٹنگز اور کورسز کے احوال سے واقف رہا کیونکہ
شائد میرے ذمے اﷲ پاک نے اس شہید کی سوانح عمری لکھنے کی ذمہ داری سونپنی
تھی . توپ خانے کی ایک مایہ ناز یونٹ میں جب ایک نوجوان سیکینڈ لفٹین لاہور
میں حاضر ہوا تو شائد اﷲ نے اس کے لیے عظیم مقام کا انتخاب کر دیا تھا اسی
لیے اس یونٹ کا نام ہی "جنتوں کی جنت 47 فیلڈ تھا " . جنت کا یہ شہسوار جس
جذبے کے ساتھ فوج میں آیا وہ مثالی تھا . برطانیہ کے دارالحکومت سے کوئی
تیس میل کی دوری پر رہنے والا راجہ جاوید اقبال تعلیم ، کھیل اور دیگر امور
زندگی میں ایک مثالی نوجوان تھا مگر اس کی منزل یورپ نہیں اس کا اپنا وطن
کشمیر تھا کہ جس کی آزادی میں اس کے افلاس کا خون شامل تھا اور جس کی
بنیادوں سے اس کی روح جڑی تھی .
پاک فوج میں شمولیت کے بعد سے ( بلکہ پی ایم اے کے دنوں سے) اپنی شہادت تک
جس انداز سے کیپٹن جاوید اقبال شہید نے خود کو ثابت قدم رکھا وہ خود میں
ایک طویل داستان ہے اور آج بھی ان کے کورس میٹ ، دوست اور رشتے دار جب
انھیں یاد کرتے ہیں تو بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ ان کے منہ سے یہی الفاظ
نکلتے ہیں ........."He was the best" اس سال جب میں اپنے اس عظیم ہیرو کی
داستان شجاعت لکھ رہا ہوں تو میرے سامنے کچھ یاداشتیں ہیں جو شہادت کے بعد
مجھے کیپٹن جاوید شہید کی سوانح عمری لکھتے وقت موصول ہوئیں . پڑھنے والوں
میں اگر کوئی حاضر سروس فوجی یا سابقہ فوجی ہے تو اسے علم ہو گا کہ ایک
فوجی افسر کی زندگی میں اسکے قریب ترین شخص اس کا اردلی ہوتا ہے . سپاہی
نصیر احمد نے کیپٹن جاوید اقبال شہید کے ساتھ ایک طویل وقت گزارا اور نیچے
کی سطور انہی یاداشتوں کا حصہ ہیں جو سپاہی نصیر احمد نے لکھیں .
نصیر لکھتے ہیں " میری فوجی زندگی کے ابتدائی ایام میں مجھے بھی ایک ایسا
شخص ملا جس کی خدمت عقیدت و محبت میں بدل گئی۔ وہ شخص ایک نیک سیرت اور سچا
انسان تھا جس سے میری ملاقات فروری 1994 میں ہوئی۔ اس وقت میں یونٹ میں نیا
نیا ریکروٹ آیا تھا اسی دن شامی روڈ لاہور میں واقع آفیسرز میس ڈی میں مجھے
سیکنڈلیفٹیننٹ راجہ جاوید اقبال کے ساتھ بطور اردلی بھجوا دیا گیا۔ اس سے
قبل میں نے کسی افسر کے ساتھ کام نہیں کیا تھا اس لئے میں پریشان تھا۔ میں
جب آفیسر زمیس پہنچا تو عصر کا وقت ہو چکا تھا اور ڈی میس کی دوسری منزل پر
جاوید صاحب اپنے کمرے میں بیٹھے کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے اور ساتھ ٹیپ پر
انگلش گانا بھی بج رہا تھا۔جب میں نے اپنی آمد کی اطلاع دی تو سیکنڈ
لیفٹیننٹ جاوید اقبال صاحب نے کتاب اور ٹیپ کو بند کیا اور مجھے پاس بلا کر
کہا کہ آپ میرے بھائی ہیں اور یہاں پر میرا کوئی کام نہیں ہے۔ آپ کا کام
مجھے صبح جگانا ہوگا کیونکہ میں رات کو دیر سے سونے کا عادی ہوں۔ بعد میں
پتہ چلا کے وہ رات گئے تک کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔یہ میری جاوید صاحب سے
پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھایا۔چائے پلائی اور
کہا کہ شاید کل سے رمضان شروع ہو جائے۔ اب آپ عصر کی نماز پڑھیں اور آرام
کریں۔ اگر رات کو نماز تراویح پڑھی گئی تو آپ میرے پاس آنا اور دونوں اکٹھے
مسجد چلیں گے۔ وہ نماز روزے اور نماز تراویح کے بڑے پابند تھے۔ اگر کبھی
رمضان میں ان کو سحری نہیں بھی ملی تو پھر بھی وہ پانی پی کر روزہ رکھ لیتے
تھے۔
لاہور میں یونٹ کی طرف سے انہوں نے ہر کھیل میں حصہ لیا وہ ہاکی فٹ بال اور
کرکٹ کے بہترین کھلاڑی تھے۔ انہوں نے چارکور کی طرف سے فٹ بال ٹیم میں بھی
حصہ لیا۔ آرمی فٹ بال کے میچ ملتان میں کھیلے گئے تو میں ان کے ساتھ ملتان
گیا وہیں پر انہوں نے لیفٹیننٹ سے کیپٹن کے عہدے کے لئے پر وموشن کا امتحان
بھی دیا۔ فارغ وقت میں وہ مجھے لے کر ملتان میں واقع تاریخی مقامات اور
بزرگان دین کے مزارات دیکھتے اور پھر اپنی نوٹ بک پر کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے۔
وہ اکثر اپنی بڑی بہن جن سے انہیں بے حد پیار تھا کے لئے چھوٹی چھوٹی چیزیں
بھی خریدتے۔ ان دنوں ملتان میں شدید گرمی تھی اور رات کو پنکھے کے نیچے
سونا بھی مشکل تھا۔ ان کے کمرے میں اے سی لگا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا نصیر
میں صبح جب کھیلنے چلا جاتا ہوں تو آپ اسے آن کرکے سو جایا کریں۔ گرمی اور
مچھر کی وجہ سے بیرکوں میں پنکھے کے نیچے آ پ کو نیند نہیں آتی ہوگی۔ میں
نے عرض کی کہ سر جب نیند آتی ہے تو گرمی سردی کا پتہ بھی نہیں چلتا۔
جاوید صاحب جب کیپٹن بنے تو ان کو یونٹ ایڈجوٹنٹ کی ڈیوٹی دے دی گئی۔ وہ
رحم دل انسان تھے مگر جو آدمی جھوٹ بولتا اور غلط بیانی کرتا اس کے ساتھ
غصے سے پیش آیا کرتے تھے۔ اگر کسی کے ساتھ ان سے کوئی زیادتی ہو جاتی تو
غصہ ٹھنڈا ہونے پر اس آدمی سے معذرت کر لیا کرتے تھے۔ کیپٹن جاوید اقبال
شہید بچوں، بوڑھوں اور معذوروں سے پیار کرتے تھے۔ ایک دن وہ اپنے کزن راجہ
ذوالقرنین صاحب کو لاہور اسٹیشن پر چھوڑنے گئے واپس آرہے تھے کہ دوبئی چوک
کے قریب صدر گلی سے اچانک ایک ضعیف آدمی روڈ پر آگیا۔ کیپٹن صاحب موٹر
سائیکل چلایا کرتے تھے۔ جب موٹرسائیکل اس ضعیف شخص کے بالکل قریب آیا اور
کیپٹن صاحب کے کنٹرول کرنے کے باوجود قابو سے باہر ہو گیا تو انہیں یقین ہو
گیا کہ ضعیف شخص موٹر سائیکل کی زد سے نہیں بچ سکے گا۔اس سے پہلے کہ موٹر
سائیکل بوڑھے پر چڑھ دوڑتا۔ کیپٹن صاحب نے فوراً موٹر سائیکل الٹا دی اور
خود قلابازیاں کھاتے ہوئے موٹر سائیکل سے کافی دور جا گرے۔ اس طرح جاوید
صاحب نے ضعیف آدمی کو اپنی جان پر کھیل کر بچا لیا اور اس حادثے میں انہیں
بڑی شدید چوٹیں آئیں جو زیادہ تر کہنیوں اور گھٹنوں پر تھیں۔ میس میں آکر
یہ واقعہ مجھے سنایا تو میں نے کہا کہ سر آپ کو کچھ ہو جاتا تو انہوں نے
جواب دیا نصیر مجھے بزرگوں سے زیادہ محبت ہے میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ بابا
جی میری موٹرسائیکل سے ٹکراتے اور انہیں کوئی تکلیف ہوتی انہوں نے کہا کہ
مجھے اﷲ تعالیٰ پر پورا پوارا یقین ہے۔ ہر شخص کی موت کا وقت مقررہے اور اس
وقت تک موت خود انسان کی حفاظت کرتی۔ زندگی کی حفاظت ضروری ہے مگر دوسروں
کا خیال بھی فرض ہے۔ کیپٹن جاوید شہید اپنی جیب میں درود شریف ضرور رکھا
کرتے تھے۔ جب وہ سفر میں ہوتے یا پھر کبھی کمرے میں فارغ ہوتے تو درود شریف
کا ورد کرتے رہتے۔ انہوں نے اپنے کمرے میں ایک فریم میں آیت الکرسی لگا
رکھی تھی۔ جب وہ صبح وردی پہن کر آفس جانے کے لئے تیار ہو جاتے۔ تو آیت
الکرسی کو اس کے سامنے کھڑے ہو کر سلوٹ کرتے اور اپنی آنکھوں کے ساتھ لگاتے
اور اس کو چوم کر دفتر چلے جاتے۔ کیپٹن جاوید شہید نے کبھی کسی کے ساتھ
فضول بات نہیں کی اور نہ ہی کبھی فون پر بیٹھے ہوئے دیکھے گئے۔ ہاں جب کبھی
انگلینڈ سے فون آنا ہوتا یا ان کی بہن کا فون آتا اس کو سننے ضرور جاتے۔ ان
کی بہن دن میں ایک دو بار ان کا ضرور پتہ کرتیں۔ اگر کبھی فارغ نہ ہوتے تو
میری ڈیوٹی لگاتے کہ نصیر آپا کا فون آئے گا تم سن لینا۔ کیپٹن صاحب کو
اردو لکھنی پڑھنی نہیں آتی تھی۔ ایک دفعہ گھر سے ان کی بیگم نے انہیں اردو
میں خط لکھا تو وہ خط میں نے انہیں پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد کبھی ان کی طرف
بیگم کا خط نہیں آیا۔ انہیں صرف ان کے بھانجے شہر یار کے خط آتے جو انگریزی
میں ہوتے۔
کیپٹن جاوید شہید دوسروں کی مدد کرنا اپنا فرض عین سمجھا کرتے تھے جب وہ او
ایم ٹی کورس کرنے نوشہرہ گئے تو ایک کیپٹن صاحب کے پیسے گم ہو گئے ان کے
پاس خرچ کے لئے بھی کچھ نہ بچا۔ جب جاوید صاحب کو پتہ چلا تو بغیر مانگے
انہیں دو ہزار روپے دیئے جاوید صاحب کی شہادت کے بعد کیپٹن صاحب نے وہ رقم
مجھے بھیج دی تاکہ ان کے گھر بھجوادوں۔ لاہور سے ہماری یونٹ کوئٹہ آئی اور
پھر کوئٹہ سے ہم پنج گور مردم شماری کے لئے چلے گئے۔ جاوید صاحب ہیڈ
کوارٹربیٹری کے ساتھ گیجک گئے جہاں ہر دوسرے دن جوانوں کے ساتھ بیٹھ کر
کھانا کھایا کرتے تھے اور جوانوں کو خوش رکھنے کے لئے انہیں تاریخی واقعات
سنایا کرتے تھے پنج گورجانے سے پہلے وہ مسروربیس کراچی کورس پر گئے۔ کلاس
سے فارغ ہو کر وہ کراچی کی سیر کرتے اور بطور ترجمان مجھے بھی ساتھ رکھتے۔
وہ روانی سے اپنی مادری زبان پہاڑی اور انگریزی ہی بول سکتے تھے اردو بولنے
میں انہیں دقت ہوتی۔ ایک دن وہ مجھے اپنے ساتھ عبداﷲ شاہ غازی کے مزار پر
لے گئے اور بڑی دیر تک وہاں مراقبے کی حالت میں رہے۔ کیپٹن صاحب کی ان
باتوں سے کوئی گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ نو عمر سجیلا جوان انگلینڈ
میں پیدا ہوا اور وہیں پڑھا اور پلا ہے۔ یہ پشتوں سے امیر گھرانے کا چشم و
چراغ ہے اور اسے کبھی کوئی دکھ یا پریشانی نہیں ہوئی۔ ایسے شخص کا دیندار
رحمدل اور پاکباز ہونا اس کی عظمت کی دلیل تھی اور شہادت کا رتبہ حاصل کرنا
اس کا حق تھا۔جب ہم کراچی سے کوئٹہ کے لئے روانہ ہوئے تو دونوں ایک ہی گاڑی
میں سوار تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ راستے میں لسبیلہ آکر
ایک ہوٹل پر رکے وہاں ہم نے چائے پی اور ساتھ بسکٹ بھی کھائے وہ بسکٹ بڑے
شوق سے کھایا کرتے تھے۔ مجھے انہوں نے بسکٹ کھانے کو کہا مگر میں نے کہا کہ
نہیں میں بسکٹ نہیں کھاتا۔ تھوڑی دیر گاڑی رکنے کے بعد وہاں سے چل پڑی اور
تقریبا ایک یا دو کلومیٹر چلنے کے بعد گاڑی خراب ہو گئی۔میں گاڑی چلتے ہی
سو گیا اور پوری رات خراب گاڑی میں سویا رہا۔ میری سیٹ پیچھے کی طرف کھل
جاتی تھی اور جاوید صاحب کی سیٹ نہیں کھلتی تھی انہوں نے پوری رات بیٹھے
بیٹھے گزاری اور صبح چار بجے جب سحری کا وقت ہوا تو انہوں نے مجھے جگایا
اور کہا سحری کر لو میں نے کہا کے سر خضدار آگیا ہے انہوں نے جواب دیا ابھی
تک گاڑی وہاں ہی کھڑی ہے جہاں شام کو ہم لوگوں نے چائے پی تھی۔ اب یہاں پر
ہوٹل بھی نہیں تھا ، انہوں نے دوبسکٹ کھانے کے بعد باقی سارے بسکٹ مجھے
کھلا دیئے جب میں کھا چکا تو مجھے مذاق سے کہنے لگے نصیر آپ تو بسکٹ نہیں
کھایا کرتے تھے۔ پھر بولے اگر آپ بْرانہیں منائیں تو آپ میرے والی سیٹ پر
آجائیں بیٹھ بیٹھ کر میری کمر درد کرنے لگی ہے میں بھی تھوڑا آرام کر لوں۔
اس طرح گاڑی صبح تک ٹھیک نہ ہو سکی اور جاوید صاحب وہاں سے آئل ٹینکر پر
بیٹھ کر خضدار آئے۔ وہاں پر ان کے بہنوئی کرنل محمد ایوب صاحب کی یونٹ تھی
لیکن کرنل صاحب ابھی تک خضدار نہیں پہنچے تھے۔ وہ خضدار میں کچھ دیر میجر
قاضی فاروق صاحب کے ساتھ رہے جن کا تعلق آپ کے گاؤں سے تھااور پھر وہاں سے
بذریعہ بس کوئٹہ پہنچے۔ جب وہ آفیسر میس پہنچے توآذان ہو چکی تھی۔ اس دن
انہوں نے صرف پانی پی کر روزہ رکھا۔ جاوید صاحب شب برات، شعبان اور شوال کے
روزے بھی رکھا کرتے تھے۔ زندگی کے آخری سال میں وہ شب برات کا روزہ نہ رکھ
سکے ان دنوں وہ بارہ کور اتھیلیٹکس ٹیم کے ساتھ بہاولپور گئے ہوئے تھے اور
میں چھٹی پرگیا تھا۔ جب میں واپس آیا تو انہوں نے افسوس کیا اور کہا کہ
نصیر اس دفعہ آپ نہیں تھے تو مجھے شب برات کا پتہ نہیں چلا جس کی وجہ سے
میں روزہ نہیں رکھ سکا۔ چند روز پہلے میری بیگم نے انگلینڈ سے فون کیا اور
پوچھا کہ شب برات کیسے گزری تو میں نے کہا کہ مجھے تو پتہ نہیں کہ شب برات
کب گزری ہے۔آخری بار کیپٹن صاحب اپنے والدین بیگم اور بچوں سے ملنے انگلینڈ
گئے وہ اپنے بچوں بہن بھائیوں اور والدین کو بہت یاد کرتے تھے۔ اس بار
انہیں چھٹی بڑی مشکل سے ملی تھی حالانکہ پہلے کبھی ایسے نہیں ہوا تھا۔ وہ
اپنے بیٹے حمزہ کو دیکھنے کے لئے بے تاب تھے جن کی پیدائش ابھی انگلینڈ میں
ہوئی تھی۔ وہ اکثر کہتے اس بار امی ابو بہت یاد آرہے ہیں جاوید صاحب اکثر
پریشان ہو جاتے چونکہ انہیں منافقت جھوٹ اور چالبازی سے شدید نفرت تھی۔ اگر
کوئی ایسا واقعہ ان کی نظر سے گزرتا تو کہتے اس دفعہ ڈیڈی سے پوچھ کر آوں
گا اور استعفیٰ دے کر واپس چلا جاو ں گا۔ان کی یہ بات سن کر میں کہتا سر
میرا کیا بنے گا تو کہتے تمہیں بھی ساتھ لے جاو ں گا۔ پھر کہتے میں واپس
چلا گیا تو آپا پھر اکیلی رہ جائیگی اور اب میرے والدین کی خوشی بھی اسی
میں ہے کہ میں فوج میں ہی رہوں۔ میں ان کی خوشی کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہوں
مجھے ہمت نہیں پڑتی کہ ان سے فوج چھوڑنے کا پوچھوں۔ ہو سکتا ہے کہ میرے
والدین میری اس بات پر مجھ سے ناراض ہو جائیں میں تو صرف اپنے والدین کو
خوش دیکھنا چاہتا ہوں انگلینڈ سے واپسی پر وہ میرے لئے ایک گھڑی لے کر آئے۔
وہ اکثر مجھے دعا کرنے کو کہا کرتے تھے،ان کو دعا پر بڑا یقین تھا۔ وہ اکثر
کہتے کہ فوجی افسر دعاؤں ہی کے سہارے چلتا ہے۔ 1995 کا واقعہ ہے کہ لاہور
میں نماز عصر کے بعد دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو میرے منہ سے نکلا" یا اﷲ
جاوید صاحب کو شہادت کی موت دے"۔پھر یہ الفاظ بار بار نکلنے لگے۔ میں نے
بڑی کوشش کی کہ اپنے والدین اور عزیزوں کی بخشش کی دعا کروں مگربار بار یہی
الفاظ دہراتے ہوئے میں مسجد میں گر گیا۔اس واقعہ نے کئی روز تک مجھے پریشان
رکھا۔ میں جب بھی جاوید صاحب کو دیکھتا تو ایسے لگتا جیسے یہ واقعی شہید ہو
کر جنت میں جانے والے ہیں۔
|
|
میں اکثر خواب میں انہیں شہدا کی صف میں دیکھنے لگا تو میری پریشانی بڑھ
گئی۔ مجھے اداس دیکھ کر کیپٹن صاحب نے مجھے پاس بلایا اور وجہ پوچھی تو میں
نے اپنی دعا کا واقعہ سنایا۔ یہ سن کر کہنے لگے نصیر یہ تو بڑی سعادت کی
بات ہے مگر ہماری اتنی اچھی قسمت کہاں شہادت کے لئے اﷲ اپنے نیک بندوں کا
ہی انتخاب کرتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد نماز عصر کی دعا کا واقعہ پھر پیش آیااور
جو الفاظ لاہور میں میری زبان پر بار بار آتے تھے پھر جاری ہو گئے میں نے
کہا کہ سر آج پھر آپ کے لئے بار بار و ہی لاہور والی دعا ادا ہو رہی ہے سر
اب اﷲ تعالیٰ آپ کو شہادت کے درجے سے نوازیں گے۔ ان کو اکثر میں شہید کے
درجات اور جنت کی نعمتوں کے بارے میں حدیث شریف سنایا بھی کرتاتھا۔ جب وہ
نوشہرہ لوکیٹنگ کورس پر گئے تو انہوں نے سکول آف آرٹلری کی لائبریری سے
اپنے نام پر مجھے ایک کتاب خطبات محمد ﷺ لے کردی۔ اس سے ہر روز میں ان کو
حضورﷺ کے پیارے پیارے خطبات پڑھ کر سنایا کرتا۔ وہ صبح صبح ڈیک پر قاری
عبیدالرحمان کی آواز میں سورۃ الرحمان سورۃ یٰسین اور سورۃ نور کی تلاوت
سنتے تھے جب انہوں نے ایک آیت کریمہ کا ترجمہ سنا کہ جنت میں سبز رنگ کے
قالین ہوں گے تو انہوں نے اپنے کمرے میں بھی سبز رنگ کی قالین بچھائی اور
کھڑکیوں پر سبز رنگ کے پردے لگا دیئے۔
کیپٹن جاویداقبال شہید درود شریف کثرت سے پڑھا کرتے تھے ایک دن میں نے درود
مقدس کے فائدے بتائے اور بتایا کہ اگر انسان کو پڑھنے کا موقع نہ ملے تو
ایک بارسن بھی لے تو بڑی فضیلت ہے۔ انہوں نے مجھ سے درود مقدس سنا جب عصر
کی نماز کے بعد ان کے لئے شہادت کی دعا بار بار میرے منہ سے نکل رہی تھی تو
میں نے کہا کہ سر آپ نے شہید ہو جانا ہے آپ کی تقدیر میں یہی لکھا ہے۔انہیں
دنوں آپ کو نوشہرہ کورس پر جانا تھا اور آپ اس کی تیاری میں مصروف تھے کہ
اچانک آپ کا نام کارگل جانے کے لئے آگیا۔مجھے بلا کر کہا اب نوشہرہ کو
چھوڑو میں محاذجنگ پر جا رہا ہوں زندگی رہی تو واپس آ کر کورس پر جاؤں گا
کسے پتہ تھا کہ غلامان جنت ان کے منتظر ہیں۔ میں نے بے خودی سے کہا سر اب
آپ کا وقت نزدیک آچکا ہے آپ جلدی ہی مجھ سے جدا ہونے والے ہیں۔ یہ سن کر وہ
بولے نصیر تم دعا کرتے رہنا۔ میرے متعلق جی ایس او تھری کیپٹن انوار تارڑ
کو بتایا کہ میں واپس نہیں آؤں گا میں نے انشااﷲ تعالیٰ شہید ہو جانا ہے۔
کیپٹن تارڑ جذباتی ہو کر اونچھی آواز میں بولے ـــــــــــ"جاوید چپ کرو
تمہیں کون یہ خبریں دیتا ہے تم واپس آؤ گے تم شہید نہیں ہو سکتے" انہوں نے
کہا کہ مجھے نصیر کی دعاپر پورا پورا یقین ہے۔ نصیر جھوٹ نہیں بول سکتا
انشااﷲ مجھے شہادت ضرور ملے گی۔ کیپٹن جاوید شہید اکثر کہتے کہ اﷲ تعالیٰ
نے انہیں سب کچھ دیا۔ اب اگر شہادت کی موت بھی دے دی تو اور کیا چائیے۔ پھر
کہتے میری اتنی تیاری نہیں کہ میں اﷲ تعالیٰ کو حساب دے سکوں میں چاہتا ہوں
بغیر حساب کے جنت مل جائے شاید وہ تین بجے والی گھڑی کیپٹن صاحب کے لئے
قبولیت کی گھڑی تھی۔25 جون 1999کو جاوید صاحب گھر جانے لگے تو مجھے کہا
نصیر میری شہادت کے بعد میرا سامان میرے گھر پہنچا دینا میں نے کہا سر میری
بھی یہی خواہش ہے اگر پہلے میں اس دنیا سے چلا گیا تو انہوں نے جواب دیا
میرے اور اپنے سامان پر چٹ لگا دینا تاکہ یونٹ والے چٹ پڑھ کر ہمارا سامان
گھر بھیج دیں۔ میں نے کہا کہ سر آپ سے پہلے میں دنیا سے چلا گیا توآپ ہر
نماز کے بعد ایک دفعہ سورۃ فاتحہ اور تین بار سورۃ اخلاص پڑھ کر اس کا ثواب
مجھے بخش دینا وہ ہنس کر کہنے لگے مجھ سے نمازوں میں اکثر کوتاہی ہوجاتی ہے
لیکن آپ کے لئے ہر روز بغیر نماز کے ہی پڑھ لیا کروں گا لیکن آپ میرے ساتھ
وعدہ کریں آپ کو میرے لئے ہر نماز کے بعد یہی پڑھنا ہوگا اور اﷲ تعالیٰ سے
میری بخشش طلب کرنا ہوگی۔ میں نے کہا سر سنا ہے شہید اپنے رشتہ داروں کی
شفاعت کا ذریعہ بنتا ہے۔آپ نے روز قیامت میری شفاعت کرنی ہوگی۔ انہوں نے
کہا کہ اگر اﷲ تعالیٰ نے مجھے شہادت نصیب کی تو ضرور آپ کی سفارش کروں گا۔
میں نے ہنس کر کہا سر آپ بھول جائیں گے تو کہنے لگے ایسے نہیں ہو سکتا تم
میری خدمت کرتے رہے ہو اب تم میرے ہی خاندا ن کا حصہ ہو، وہ دنیا اور ہے
وہاں بھول جانا آسان نہیں۔وعدہ رہا پہلے تمہاری سفارش کروں گا ہاں وعدہ کرو
اگر تم شہید ہو گئے تو پھر مجھے جنت میں لے جانا۔
کیپٹن صاحب جب گھر جا رہے تھے تو کمرے کے باہربر آمدے میں کیپٹن انعام اﷲ
قمر کھڑے تھے ان کو جاویدصاحب نے کہا کہ میں جا رہا ہوں نصیر کا خیال رکھنا
یہ میری امانت ہے آپ کے پاس چھوڑے جا رہا ہوں کچھ عرصہ تک کیپٹن صاحب نے ان
کے حکم کی تعمیل کی اور جاوید صاحب کی شہادت کے بعد میرا ویسے ہی خیال رکھا
پھر میری شادی ہو گئی تو میں ان کی خدمت نہ کر سکا۔ 2جولائی 1999 کوکیپٹن
جاوید شہید نے مجھے اپنے گھر دعوت پر بلایا ، میں نے اس روز ان کے ساتھ دن
کا کھانا کھایا ،کچھ دیران کے ساتھ ان کے گاؤں میں وقت گزار کر میں نے
اجازت چاہی میری ان کے ساتھ یہ آخری ملاقات تھی۔ جب میں ان کے گھر سے نکلا
تو وہ ہاتھ ہلا ہلا کر مجھے رخصت کر رہے تھے جب میں ان کی نظروں سے گم ہونے
والا تھا تو انہوں نے مجھے آواز دی نصیر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو انہوں
نے دونوں ہاتھ اوپر کئے اور کہا اﷲ حافظ۔ وہ منظر مجھے کبھی نہیں بھول سکتا۔
وہ منظر ہر وقت میرے ذہن میں گھومتا رہتا ہے اور بہت ہی ستاتا ہے۔یہ وہ
منظر ہے جس وقت میرے محسن نے مجھے آخری بار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خدا حافظ
کہا۔کیپٹن جاوید اقبال شہید نے محاذ جنگ پر جانے سے پہلے مجھے چند وصیتیں
کی تھیں انہوں نے کہا کہ نصیر میرے گھر والوں کو بتا دینا کہ میری قبر کچی
رکھیں اور میری خواہش ہے جنید حافظ قرآن بنے اور حمزہ آرمی میں کمیشن لے
میری شہادت کے بعد تم میرے گاؤں کی مسجد میں آذان پڑھنا میں سنوں گا۔کیپٹن
جاوید اقبال شہید کی محبتوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کو ہر کوئی اچھے الفاظ سے
یاد کرتا ہے میرے گاؤں والوں نے انہیں کبھی دیکھا نہیں مگر اس کے باوجود ان
کی شہادت کی خبر جب میرے گاؤں پہنچی تو پورے گاؤں میں اداسی چھا گئی۔ میرے
گاؤں کی مسجد کے امام محمد یوسف خان صاحب ہر جمعہ کی نماز کے بعد جاوید
صاحب کے درجات کی بلندی کی دعا مانگتے ہیں ہماری یونٹ کا دھوبی چچا سرور
اکثر کیپٹن صاحب کو یا د کرتا ہے اور انکی یاد میں غمگین ہو جاتا ہے۔
یونٹ کے نائیک نصیر احمد عباسی اورغلام مرتضیٰ ستی ہر نماز کے بعد بلند
آواز جاویدصاحب کے لئے دعا کرتے ہیں تو ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ کون
ہے جس نے اس مرد مجاہد کو ایک بار دیکھا ہو اور وہ انہیں بھول جائے۔ ہر شخص
ان کے درجات کی بلندی ان کے بچوں کی درازی عمر کے لئے دعا گو ہے۔ ہماری
یونٹ کے کرنل امتیاز صاحب نے انگریزی اخبار میں جاوید صاحب کے متعلق مضمون
لکھا اور دعا کی کہ اﷲ ہمیں اتنی زندگی دے کہ حمزہ جاوید اسی شان سے ہیون
آف دی ہیونز میں آئے اور اپنے باپ کی کرسی پر بیٹھے۔ دعا ہے کہ ہر پاکستانی
افسر اور جوان کیپٹن جاوید جیسا ہو اور کوئی میلی آنکھ اس ملک کی سرحدوں کی
طرف دیکھنے کی ہمت نہ کرے (آمین)" سپاہی نصیر احمد- ہیون آف دی ہیونز.
کوئٹہ 20مئی2001 ۔
سپاہی نصیر احمد نے اپنا وعدہ پورا کیا اور 8 اگست 1999 کی شام نصیر نے
کیپٹن جاوید شہید کے گاؤں کی مسجد میں آ ذان دے کر اپنے کمانڈر کے حکم کی
تعمیل کی . ہر سال کیپٹن جاوید شہید کی برسی کے موقع پر ان کے گاؤں اور
والدین کے گھر برطانیہ میں دعا کا اہتمام ہوتا ہے ، ہر سال اس تقریب میں
بہت سے لوگ ویسے ہی آتے ہیں جیسے کوئی کسی شاہی جلوس میں جاتا ہے . عظیم
ہیں وہ مائیں کہ جن کے نور نظر ایسے وطن کے کام آتے ہیں . اﷲپاکستان کی
حفاظت کرے اور ان عظیم بیٹوں کی قربانیوں سے جلنے والے چراغوں کی روشنی کو
کم نہ ہونے دے ( آمین )
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی |