بچوں کو نہیں والدین کو احتیاط کی ضرورت ہے

وہ زمانے گئے جب والدین اپنے بچوں کے ساتھ جذباتی ڈائیلاگ کا استعمال کیا کرتے تھے اور بچے بھی سر جھکا کر ہر حکم بجا لے آتے تھے- آپ اکثر یہ جملہ سنتے رہتے ہیں کہ آج کل کے بچے انتہائی چالاک اور ذہین ہیں اور والدین کو ان سے بات کرنے کے لیے نت نئے راستے تلاش کرنے پڑتے ہیں- ایسے نظارے آج کل ہمیں تقریباً روز ہی دیکھنے کو ملتے ہیں- آج کے دور میں والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں سے بات کرتے ہوئے انتہائی محتاط رویہ اختیار کریں کیونکہ آپ جو بھی کہتے ہیں وہ بچوں کے معصومانہ ذہن پر ہمیشہ کے لیے گہرے اثرات چھوڑ جاتا ہے- مندرجہ ذیل میں چند ایسے نکات کا ذکر کیا جارہا ہے جن سے والدین کو اپنے بچوں سے روزمرہ کی بات چیت کے دوران گریز کرنا چاہیے-
 

مجھے معلوم ہے تم اس سے زیادہ بہتر کرسکتے ہو:
اگرچہ آپ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ آپ کے بچے میں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں نبھانے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے- لیکن آپ اس حقیقت سے بھی واقف ہیں آپ کا بچہ کارکردگی کے معاملے میں سست روی کا شکار ہے- اگر آپ اسے اس بات کا یقین دلائیں گے کہ “ وہ پہلے سے زیادہ اچھی کارکردگی دکھا سکتا ہے“ اور اسے بتائیں گے کہ آپ کی اس سے کیا امیدیں وابستہ ہیں؟ تو اس طرح اس کی حوصلہ افزائی ہوگی اور وہ آسانی سے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر لے گا- اس طرح بچے پر آپ کا کچھ اضافی وقت تو ضرور لگے گا لیکن یہ وقت بےنتیجہ نہیں ہوگا-

image


کیا تمہیں واقعی ایک اور چاکلیٹ چاہیے:
اکثر والدین اپنے بچوں کی بہتر صحت کے لیے فکر مند ہوتے ہیں- لیکن اگر آپ اپنے بچے کو کوئی غیر صحت مند کھانا کھاتا دیکھیں تو اسے گھور کر نہ دیکھیے اور نہ ہی سخت الفاظ استعمال کیجیے- اس کے علاوہ بچے کو کسی دعوت وغیرہ میں بھی اس طرح کے جملے مت کہیے جیسے کہ “ کیا تمہیں واقعی ایک اور چاکلیٹ چاہیے؟ “ بلکہ بچے کو آرام سے اکیلے میں سمجھائیے کہ کونسا کھانا اس کی صحت کے لیے اچھا ہے اور کونسا نہیں؟ والدین کو چاہیے کہ وہ خود ایک صحت مند طرزِ زندگی اپنائیں تاکہ بچوں پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں اور وہ بھی اسی طرزِ زندگی کی پیروی کریں-

image


تم ہمیشہ یہی کرتے ہو --- یا --- نہیں کرتے ہو:
والدین کو بچوں کو کوئی بھی جملہ یا بات بولتے ہوئے انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے٬ جو دماغ میں آئے فوراً نہیں بول دینا چاہیے اس طرح وہ بات یا جملہ بچے کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کرسکتا ہے- بچے کے کسی بھی غلط کام پر اس طرح کے جملے ہرگز نہ بولیں جیسے کہ “ تم ہمیشہ یہی کرتے ہو یا پھر تم یہ ہرگز نہیں کرتے ہو-یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے بچے پر مایوس کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی ہمیشہ کے لیے مہر ثبت کردی جائے- والدین کا بہت زیادہ سخت الفاظ بچوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں اور زندگی بھر کے لیے اپنا اعتماد کھو سکتے ہیں-

image


دیگر بہن بھائیوں سے موازنہ کرنا:
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ اکثر والدین اپنے ایک بچے کا موازنہ اس کے دیگر بہن بھائیوں سے کرنے لگتے ہیں- مثال کے طور پر اکثر والدین بچے کو یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ “ تم اپنے بھائی کی طرح اے گریڈ کیوں نہیں لاسکتے یا پھر اس کی طرح تم بھی فلاں کام کیوں نہیں کرسکتے“- یہ ایک انتہائی غلط رویہ ہے کیونکہ اس طرح کے جملوں سے والدین بچے کو یہ باور کروا رہے ہوتے ہیں کہ بچے میں صلاحیت ہی موجود نہیں اور دوسری جانب بچہ بھی اس بات کو قبول کرلیتا ہے کہ واقعی وہ اپنے بہن بھائیوں سے بہتر نہیں بن سکتا- یہ تمام طرز عمل بچے کو پوری زندگی کے لیے اعتماد کی کمی کا شکار بنا دیتا ہے-

image


اسکول کا پہلا دن اور والدین کا پریشان ہونا:
اگر آپ کے بچے کا اسکول میں پہلا دن ہے اور پریشان ہے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے- بس آپ کو اس کے سامنے اسی حوالے اپنی پریشانی ظاہر نہیں کرنی ہے کیونکہ اس طرح وہ مزید پریشان ہوگا- اس کے علاوہ بچے کو اس طرح کے الفاظ بھی نہ کہیں کہ “ وہاں رونا نہیں “ ٬ “ غصہ مت کرنا “ یا ٹیچر کچھ نہیں کہے گی وغیرہ کیونکہ اس طرح بھی بچے کی پریشانی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھے گی- آپ بچے کے سامنے بالکل پرسکون رہیں اور اسے یہی محسوس کروائیں کہ یہ سب کچھ ایک نارمل زندگی کا حصہ ہے- بچے میں اعتماد بحال کرنے کے لیے اسے کہیں کہ وہ اپنی پریشانی آپ سے شئیر کرے اور اس حوالے ذہن میں موجود سوالات کرے-

image


مجھے وہ بچہ بالکل پسند نہیں ہے:
عموماً والدین کو اپنے بچے کے کچھ دوست یا کوئی ایک دوست پسند نہیں ہوتا اور وہ اس حوالے سے تحفظات کا شکار ہوتے ہیں- لیکن والدین کو چاہیے کہ وہ اس بات کا اظہار اپنے بچے کے سامنے ہرگز نہ کریں کہ “ مجھے تمہارا وہ دوست پسند نہیں ہے یا تم اس سے دوستی چھوڑ دو “- اس طرح بچے کے بعد ذہن پر گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں- سب سے پہلے والدین کو چاہیے کہ وہ اس دوست کو ناپسند کرنے کی معقول وجہ تلاش کریں- اگر واقعی اس ناپسندیدگی کی کوئی مقعول وجہ نہیں ہے اور یہ صرف ایک دلی خواہش ہے تو پھر والدین اپنی خواہش ترک کردیں- لیکن اگر مذکورہ دوست میں واقعی کوئی ایسی برائی پائی جاتی ہے جس میں بچہ بھی مبتلا ہوسکتا ہے تو پھر بچے سے اس بارے میں اطمینان کے ساتھ اور دوستانہ ماحول میں بات چیت کیجیے اور اسے اس دوستی کو ترک کرنے پر آمادہ کیجیے-

image
YOU MAY ALSO LIKE:

Gone are the days when mothers used those emotional dialogues to make children obey their commands. You must have heard the phrase that kids these days are getting smarter and you need to find better ways to talk to them. This phenomenon is very much applicable these days. Parents should be careful when they talk or scold their children. Whatever you express to them definitely leaves deep imprints on their innocent minds.