قوموں کی زندگی میں ایک ہی غلطی
کو بار بار دہرایا جائے تونفرتیں اور دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔اور ان غلطیوں
کا مداوا جلد نہ کیا جائے تو غلطیوں کا خمیازہ قوموں اور وطن کی تقسیم کی
صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ایسا ہی کچھ آج سے 67 سال قبل جنت ارضی کشمیر کے
ساتھ ہوا۔ جب کشمیردو حصوں میں تقسیم ہوا تو پاکستان کے پاس آنے والے حصے
کو مزید دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا۔جن میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر
شامل ہیں۔اس المیہ (جب کشمیر کا ایک حصہ انڈیا اور ایک پاکستان کے پاس آ
گئے) کے بعد کشمیر کے اس حصے کو متحد رکھنا کشمیر کی سیاسی قیادت کی ذمہ
داری تھی لیکن اس وقت کشمیری قیادت نے نا اہلی کا ثبوت دیتے ہوئے گلگت
بلتستان کو آزاد کشمیر کے ساتھ رکھنے کی بجائے پاکستان کے حوالے کیا اور
پھر پاکستان نے 1949 میں کشمیر کی سیاسی قیادت کی نااہلی اور گلگت بلتستان
کی پاکستان حوالگی کا تحریری ثبوت لیا جس پر پاکستان کی طرف سے اس وقت کے
وزیر بے محکمہ مشتاق احمد گورمانی اور کشمیرکی طرف سے صدر مسلم کانفرنس
چوہدری غلام عباس اوربانی صدر آزاد کشمیر سردار محمد ابراہیم نے دستخط
کیے۔جس کے مطابق ریاستی قیادت میں کے پاس اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ وہ گلگت
بلتستان کو بھی سنبھال سکیںلہذا پاکستان کے حوالے کر دیا گیا۔لیکن پاکستان
نے گلگت بلتستان کو کوئی سیاسی یا انتظامی سیٹ اپ نہیں دیا اور حقوق سے
محروم رکھا۔جبکہ آزاد کشمیر کو ریاستی سیٹ اپ دیا گیا۔(تا کہ جب حالات
سازگار ہوں تو رائے شماری کروائی جائے)جبکہ مقبوضہ کشمیر کو انڈیا نے پہلے
ریاستی پھر صوبائی سیٹ اپ دیا۔لیکن گلگت بلتستان کو بے آئین سر زمین رکھا
گیا۔لیکن 25 سال بعد ایک مرتبہ پھر جب پاکستان میں 1973 کے آئین کا نفاذ
ہوا تو آزادکشمیر کی سیاسی قیادت نے پاکستان سے آئینی حقوق کا مطالبہ کیا
تو کشمیر کو پاکستان کے آئین میں خصوصی حیثیت دیکر ریاستی سیٹ اپ دیا
گیا۔اس وقت ایک مرتبہ پھر سے کشمیری قیادت نے غلطی کو دہراتے ہوئے گلگت
بلتستان کو کشمیر سے دور رکھنے کا عندیہ دیا جس کی توثیق کی دستاویز ایکٹ
1974کی صورت میں موجود ہے۔ایکٹ 74 نے جہاں ایک طرف گلگت بلتستان کو کشمیر
سے دور کیا دوسری طرف آزاد کشمیر اسمبلی کو کٹھ پتلی (بے اختیار) حکومت کی
حیثیت حاصل ہوئی اور یہ کشمیر کی سیاسی قیادت کی نااہلی کا ایک بڑا ثبوت
تھا۔ 1949میں شایدآزادکشمیر کے پاس وسائل کی کمی ہوئی ہو گی لیکن 23 سال
بعد 1974 میں اسی غلطی کو دہرانا سمجھ سے بالا تر ہے۔یوں ایک ہی غلطی کو
آزادکشمیر کی قیادت نے دوسری بار دہرایا۔ لیکن پاکستان نے پھر سے گلگت
بلتستان کو سیاسی اور انتظامی حقوق سے دور رکھا۔جسکی وجہ سے گلگت بلتستان
کے عوام کو معمولی کاموں کے لیے بھی وزارت امور کشمیر (اسلام آباد)کے چکر
کاٹنے پڑتے اور سیکڑوں میل کا مشکل سفر اور اخراجات کر نے پڑتے۔اس سارے کے
باوجود گلگت بلتستان کے با غیور عوام نے کشمیر کی وحدانیت کے لیے قربانی
دیتے رہے لیکن آخر کب تک؟بلا آخر 62 سال کے طویل عرصے بعد محرومی کابننے
والا یہ لاوا پھٹ پڑااور ایک تحریک کے نتیجے میں 2009 میں صدارتی آرڈیننس
کے تحت گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کا درجہ دیا گیا اورصوبائی اسمبلی تشکیل
دی گئی۔اور ان پانچ سالوں میں گلگت بلتستان کو 67سال میں پہلی مرتبہ آئینی
حقوق ملے۔جسمیں انہوں نے آسانیاں دیکھیں اور اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے
لیے گلگت بلتستان اسمبلی نے پاکستان کا صوبہ بننے کی قرارداد منظور کر لی
اور 2014 میں وفاق نے اٹھارویں ترمیم کے مطابق نگران حکومت قائم کر لی۔ تب
آزاد کشمیر حکومت کو ہوش آیاکہ ہمارا حصہ ہم سے جدا ہو رہا ہے اور
آزادکشمیر کی اسمبلی میں گلگت بلتستان کو سیاسی حقوق دینے کی مخالفت میں
قرارداد منظور کی گئی
” اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ©“
لیکن بہت دیر ہو چکی تھی کیونکہ 2012 سے قبل کشمیر کے کسی حکمران نے گلگت
بلتستان کا دورہ کیا تھا نہ کبھی سرکاری وفود کا تبادلہ ہوااور نہ ہی کسی
نے ان دوریاں ختم کرنے کے بارے میں سوچا پہلی مرتبہ آزاد کشمیر کی طرف سے
2012 میں صدر آزاد کشمیر سردار محمد ےعقوب خان نے بحیثیت صدر گلگت بلتستان
کا دورہ کیا اور بھر پور کوششوں سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملانے
کے لیے ایک بڑے منصوبے شونٹھر ٹاپ (مظفرآباد تا استور روڈ) کا آغاز کروایا
یہ آج تک کا پہلا اور آخری واقعہ ہے کہ کسی کشمیری سیاستدان نے دونوں حصوں
کو ملانے کی کوشش کی۔اس کے علاوہ 2009 میںجب گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کا
درجہ ملا تو اس کے بعد بھی آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت خاموش رہی حتی کہ
مسئلہ کشمیر اور کشمیر کی وحدانیت پر کام کرنے والی کسی تنظیم یا جماعت نے
کوئی کام کیا، دلچسپی لی اور نہ ہی کوئی ایسی پالیسی تیار کی گئی جس سے
گلگت بلتستان کو کشمیر سے ملانے کے لیے کوئی پیش رفت ہو سکتی یا دوریاں ختم
کرنے کے حوالے سے کام ہو سکتا لیکن اس کے باوجود بھی گلگت بلتستان کے عوام
کشمیر کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں انہوں نے کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملانے
کی بات کی، گلگت بلتستان کی پوری کابینہ نے آزاد کشمیر کا دورہ کیااور گلگت
بلتستان کونسل کے ممبران بالخصوص عطا اللہ شہاب نے کشمیر کونسل اور گلگت
بلتستان کونسل کے چیرمین کشمیر و جی بی کونسل (وزیر اعظم پاکستان)کی زیر
صدارت جوائنٹ سیشن کروانے کی بارہا رائے دی لیکن ابھی تک ممکن نہیں ہو
سکا۔دسمبر 2014 میں جب گلگت بلتستان کی سابقہ اسمبلی نے جب قرارداد منظور
کی کہ گلگت بلتستان کو آئینی صوبے کا درجہ دیا جائے تو اس وقت آزادکشمیر
حکومت نے اس کی مخالفت میں ایک قرارداد منظور کی جس میں گلگت بلتستان کی
قرارداد کی مخالفت کی گئی تھی (جبکہ اس وقت گلگت بلتستان اور آزادکشمیر
دونوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی)اور اب جبکہ گلگت بلتستان میں اسمبلی
کو اختیارات دینے اور ان کو عبوری آئینی صوبہ بنا کر قومی اسمبلی اور سینٹ
میں نمائیندگی دینے کی باتیں کی جا رہی ہیںاور گلگت بلتستان کے عوام کی طرف
سے اس مطالبہ کو تقویت مل رہی ہے اس وقت کشمیر سیاسی قیادت کی طرف سے
بیانات سامنے آ رہے ہیں کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے سے مسئلہ
کشمیر کو نقصان پہنچے گا۔اس وقت کشمیری قیادت میں بھی تفریق کا شکار نظر
آتی ہے,کشمیر کی کچھ جماعتوں کی طرف سے گلگت بلتستان کو سیاسی حقوق دینے
اور مسئلہ کشمیر کے حل تک آئینی حقوق دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ،اس وقت
جب گلگت بلتستان کو ان کے سیاسی اور بنیادی حقوق مل رہے ہیں ان میں روڑے
اٹکانا کسی طور درست نہیں ۔یہ درست ہیکہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا عبوری
آئینی صوبہ بنانے سے مسئلہ کشمیر کو نقصان ہو گا اس پر پاکستان کے پالیسی
ساز اداروں کو سوچ بچار کرنا چاہئے اور گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ
بنانے کی بجائے آزادکشمیر طرز کا سیٹ اپ دیا جائے اور وہاں کی اسمبلی کو
امپاور کیا جائے تاکہ وہان کے عوام کیلئے سہولتیں میسر ہو سکیں ۔اگر ایسا
نہیں ہو سکتا تو پھر پاکستان کو چاہئے کہ کشمیر اور گلگت بلتستان کو ایک
یونٹ بنا کر اسمبلی بنائی جائے تاکہ 70 سال کی غلطیوں اور دوریاںکا سد باب
ہو سکے اورمسئلہ کشمیر کو بھی نقصان نہ ہو۔
دوسری طرف کشمیر کی قیادت کی گلگت بلتستان کے حوالے سے بیان بازی ایک
سوالیہ نشان ہے۔ کیا آج بھی کشمیری قیادت ہوش کے ناخن نہیں لے گی؟ کشمیر کی
سیاسی قیادت اور پالیسی بنانے والے ادارے اب بھی ان دوریوں کو ختم کرنے اور
کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملانے کے لیے صرف بیان بازی کرتے رہیں گئے؟یہ
سوالیہ نشان میرے لیے اور کشمیری عوام کے لیے ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟
|