اسلامی سزائیں اور انسانی فطرت
(مولوی سید وجاہت وجھی, karachi)
اسلامی سزاؤں کا بغور جائزہ لیا
جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سزاوں کے پیچھے بنی نوع انسان کے لئے کتنی
خیریں اور بھلائیاں ہیں ،ہم صرف ظاہری صورت دیکھتے ہیں کہ اسلامی سزائیں
سخت ہیں بعض لوگ تو ان سزاوں کا وحشیانہ تک کہہ دیتے ہیں (نعوذباللہ) اگر
سزا اور جزا کے نظریے پر غور کیا جائے تو ایک طالب علم کے ذھن میں بنیادی
سوالات یہی اٹھتے ہیں کہ سزائیں کیوں دی جاتی ہیں؟ کسی مجرم کو سزا دینا
کیونکر ضروری ہے؟ کیا سزا و جزا کے بغیر انسانی معاشرہ قائم رہ سکتا ہے؟ تو
ان سب جوابات کے لئے ہمیں انسانی فطرت کا مطالعہ کرنا ہوگا کہ انسانی کی
طبعیت اس سے کن کن چیزوں کا مطالبہ کرتی ہے۔
اگر قرآن مجید کا بغور مطالعہ کیا جائے تو انسان کی فطرت بالکل سامنے
آجاتی کہ کہ خلاق عالم نے اس حضرت انسان کو کس فطرت پر پیدا فرمایا، انسان
کی فطرت میں یہ چیز داخل ہے کہ وہ غموں اور دکھوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش
کرتا ہے اور خوشیوں، مسرتوں کی تلاش میں رہتا ہے،
ایک جگہ اللہ تبارک و تعالٰی نے فرمایا کہ
﴿وَكانَ الإِنسـٰنُ عَجولًا (سورة الاسراء) "اورانسان بہت جلد باز ہے"
ایک دوسرے مقام پر فرمایا
﴿إِنَّ الإِنسـٰنَ لَظَلومٌ كَفّارٌ ٣٤ ﴾... سورة ابراهيم "بے شک انسان
بڑا ظالم ناشکرا ہے"
اور ایک مقام پر فرمایا کہ یہ انسان بہت جھگڑالو ہے ﴿خَلَقَ الإِنسـٰنَ مِن
نُطفَةٍ فَإِذا هُوَ خَصيمٌ مُبينٌ ٤ ﴾.(سورة النحل)
"انسان نطفے سے پیدا کیا گیا، پھر یکایک جھگڑالو بن بیٹھا"
اسی طرح فرمایا ﴿إِنّا عَرَضنَا الأَمانَةَ عَلَى السَّمـٰوٰتِ
وَالأَرضِ وَالجِبالِ فَأَبَينَ أَن يَحمِلنَها وَأَشفَقنَ مِنها
وَحَمَلَهَا الإِنسـٰنُ ۖ إِنَّهُ كانَ ظَلومًا جَهولًا
"ہم نے امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اسے اُٹھانے
سے اِنکار کردیااور ڈر گئے اور انسان نے اسے اُٹھا لیا، بیشک وہ بڑا ظالم
نادان ہے
تو انسان فطری طور پر آسائش پرست خوشیوں کا متلاشی ،جلدباز،ناشکرا،جاہل و
نادان ہے تو انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے اور فطری جلدبازی کی بناء
پر بہت جلد جرائم کی طرف مائل ہوجاتا ہے اگر اسے سنگین سزا سے ڈرایا نہ
جائے تو وہ جرائم سے بآسانی باز نہیں آسکتا،تو اگر سزا کا مقصد لوگوں کو
جرائم سے روکنا ہے اور دوسروں کے جان و مال کا تحفظ مقصود ہے تو دیکھ لیا
جائے کہ مغرب نے جو سزا و جزا کا نظام دیا ہے کیا اس سے یہ مقاصد حاضل
ہورہے ہیں؟ بلکہ مقاصد حاضل ہونا تو دور کی بات اس نظام کی وجہ سے تو اور
جرائم میں اضافہ ہورہا ہے ،معمولی چور جیل جاکر ڈاکو بن کر نکلتا ہے دوسری
طرف اسلام کا نظام ہے کہ چور کہ ہاتھ کاٹے جائیں زانی کو کوڑے لگائے جائیں
بعض کوتاہ نظر والوں کو ان سزاوں میں ظلم نظر آئے گا لیکن سزا دینے کا جو
مقصد ہے یعنی جرائم کی روک تھام ،لوگوں کے جان و مال کا تحفظ وہ اس نظام کے
ذریعے بہت جلد حاصل ہوجائے گا ،جب بھی جہاں بھی اس نظام کو نافذ کیا گیا
حیرت انگیز نتائج نے دنیا کو حیران کیا ہے،کیونکہ یہ نظام انسان کا بنایا
ہوا نہیں رب الناس ،انسانوں کے رب کا بیایا ہوا ہے اور وہ بخوبی واقف ہے
اپنے بندوں کی فطرت سے |
|