ریڈ سگنل

شہباز میری کلاس کا سب سے ذہین اسٹوڈنٹ تھا وہ ہمیشہ اسکول لیول پر ہونے والے طلبہ کے لیئے مختلف پروگرامز میں حصہ لیتا اب چاہے وہ تقریر کا مقابلہ ہو یا ذہنی آزمائش کا یہی وجہ ہے کہ وہ اسکول میں ہر ایک کا ہر دلعزیز تھا. قدرے سانولا سا بوٹے سے قد کا سنجیدہ سا شہباز اسکے ساتھی اسٹوڈنٹ جب بھی اسکے متعلق استفسار کرتے وہ انھیں ٹال مٹول کرکے بات بدل دیتا... مجھے اچھی طرح یاد ہے اس دن میں ایک ضروری کام سے ٹیکسی میں جانے کے لیئے گھر سے نکلی.ابھی کچھ دور ہی کا سفر طے ہوا تھا کہ روڈ پر لگا ریڈ سگنل آن ہوگیا اور تمام گاڑیوں کو رکنا پڑا.ٹریفک رولز کی پابندی اچھی بات ہے لیکن یہ اس وقت کوفت مین تبدیل ہوجاتی ہے جب بہت سارے بھکاری ادھر ادھر سے نکل کر آپکے اردگرد پھیل جائیں.ساتھ ہی کچھ بڑے اور چھوٹے بچے بھی گاڑیوں کے اردگرد مختلف چیزیں بیچنے لگتے ہین کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہاتھ مین پانی کی بالٹی لیئے اور کاندھے پر تولیے کے رومال اور ایک چھوٹا سا شیشے پر مارنے والا وائپر لیے استدعا کرتے نظر آتے ہیں کہ کوئ گاڑی والا ان سے یہ کام کرالے اور انکے ہاتھ پر دس بیس روپے رکھ دے. اور سچ تو یہ ہے کہ یہ معصوم بچے ان بھکاریوں سے لاکھ درجے بہتر ہوتے ہیں.جو اپنے معصوم بچپن اور خواہشات کی قربانی دے کر محنت اور عزت کا راستہ اختیار کرتے ہیں.
خیر ہماری ٹیکسی کا شیشہ بھی ایک ایسے ہی بچے نے کھٹکٹھایا .صاحب گاڑی کا شیشہ صاف کردوں....ٹیکسی والا جو پہلے ہی بھکاریوں کی یلغار سے شدید کوفت کا شکار تھا اس نے اس بچے کو اچھا خاصا جھڑک دیا.جاؤ دفع ہوجاؤ دماغ خراب کرکے رکھ دیا ہے سگنل گرین ہو اور میں نکلوں اس جنجال سے.
صاحب جی دیکھو زیادہ نہیں صرف دس روپے بھی دے دو گے تو کام چل جائے گا یہ کہہ کر اس نے زبردستی شیشے صاف کرنے شروع کردیئے اس بار ٹیکسی والے نے اسے ڈانٹنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اسے زور سے دھکا دیا جاؤ دھندے کا ٹائم ہے مت دماغ خراب کرو.بی بی جی کچھ رکھو اسکے ہاتھ پر اور دے کر رفع دفع کرو....سگنل یلو ہوچکا ہے بس کسی بھی وقت گرین ہونے والا تھا اور ڈرائیور تھا کہ اس بچے سے الجھا ہوا تھا...
نہیں صاحب جی بھک منگا نہیں ہوں میں اپنی محنت کی کھاتا ہوں.نہیں کروانا تو مت کرواؤ دھکا تو نہ دو....
میں جو سیٹ پر آنکھیں موندے بیٹھی تھی اسکے ان الفاظ پر اچانک ہی اسے چونک کر دیکھا تو وہ کوئ اور نہیں میرا ہی اسٹوڈنٹ شہباز تھا اسے اس حال میں دیکھ کر مجھے شدید دھکا لگا.آخر کیا وجہ ہوسکتی تھی جو وہ اس حد تک ذہن ابھی اسی الجھن میں تھا کہ سگنل گرین ہوگیا.اور گاڑیاں پھر سے ا روڈ پر رواں دواں ہوگئیں میں دیر تک خود سے اس صورتحال پر الجھتی رہی کہ کہیں یہ میرا وہم تو نہین..میں نے کسی اور بچے کو تو نہیں دیکھا...خود سے لڑتے جھگڑتے آخرکار ایک فیصلہ پر پہنچ کے میں پرسکون ہوگئ.دوسرے ہی دن میں نے شہباز کو اپنے فری پیریڈ مین اسٹاف روم میں بلوایا اس وقت وہاں ہم دونوں کے سوا اور کوئ موجود نہیں تھا...دیکھو شہباز میں تم کو ریڈ سگنل کے دوران روڈ پر دیکھ چکی ہوں مجھ سے جھوٹ نہیں بولنا سوائے سچ کے.. شہباز کی بڑی بڑی موٹی آنکھوں میں حیرت کے ساتھ اب آنسوؤں نے بھی جگہ لے لی تھی
ٹیچر وہ وہ....میں وہاں ...ٹیچر وہ میں وہاں روز یہی کام کرتا ہوں اسی طرح گاڑیوں کے شیشے صاف کرکے اپنی روزی کماتا ہوں. اسکول کے اوقات کے بعد...
لیکن کیوں شاید یہ بولتے ہوئے میری آواز قدرے اونچی بھی ہو گئ تھی...
ٹیچر وہ اپنے گھر کا خرچہ چلانے کے لیئے
شہباز

لیکن شہباز دس بیس روپوں سے کوئ گھر نہین چلتا پھر تمہاری پڑھائ کا خرچ یہ کیسے پورا ہوتا ہوگا...میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ اسکا باپ ایک ٹول فیکٹری میں مزدوری کرتا تھا.کچھ سال پہلے ایک حادثے میں اسکے دونوں پیر کٹ گئے جب سے انکے گھر کے حالات یکسر تبدیل ہوگئے باپ اب سارا دن گھر بیٹھ کر کرسیاں بنتا ہے ماں کسی پوش علاقے میں سارا دن اجرت پر کام کرتی ہے گھر میں اسکے سوا ایک بڑی بہن اور بھی ہے جو اپنی کم عمری کے باوجود گھر سنبھالتی ہے.ان حالات مین اسکا مزید پڑھنا مشکل ہی نہین نا ممکن تھا پھر بھی اسکے والدین نے یہ فیصلہ کیا کہ کم سے کم وہ شہباز کو تو کسی طرح آگے پڑھا ہی سکتے ہیں. اسی لیئے وہ بھی اسکول سے گھر جانے کے بعد رات تک ایسے ہی ریڈ سگنل سے گرین سگنل کے درمیان کام کرتا ہے...
اسکی کہانی سنکر میں سناٹے میں آگئ اف میرے! خدا یہ تو پھر بھی ایک باحوصلہ خاندان کی کہانی ہے جو اپنی مشکلات غریبی اور بے پناہ مسائل کے باوجود اپنے حالات سے لڑرہا ہے پر نہ جانے ایسے کتنے ہی بچے ہونگے جو تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی بنیادی ضروریات سے محروم ہونگے..
کیا یہ ہم سب کی معاشرتی ذمہ داری نہیں...
میں نے شہباز کے جانے کے بعد اسکول کی ہیڈپرنسپل سے بات کرکے اور کچھ ٹیچرز کو بھی اس کارخیر میں شریک کیا اور اسکول فنڈ بھی اسکے نام پر جاری کروا دیا ..کم سے کم اس سے شہباز اور اسکی بہن کی پڑھائ کا انتظام تو ہوہی گیا..
لیکن اسکے بعد میں نے ذاتی طور پر ایسے بچوں کے لیئے کام کرنا شروع کردیا..تاکہ آئندہ کسی بچے کی زندگی ریڈ سے گرین سگنل کے دورانیئے میں گم نہ ہو.آخر وہ بھی تو ہمارے ملک کا مستقبل ہیں. اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس ملک کی ہر صبح ہمیشہ سے زیادہ اجلی اور چمکیلی ہو.اور یہ ننھے چہرے سورج کی کرن کی طرح دمک رہے ہوں.

Haya Ghazal
About the Author: Haya Ghazal Read More Articles by Haya Ghazal: 65 Articles with 95111 views I am freelancer poetess & witer on hamareweb. I work in Monthaliy International Magzin as a buti tips incharch.otherwise i write poetry on fb poerty p.. View More