ماسٹر خدا بخش' از خود رحمانی صاحب کے ہاں نہیں گیے تھے'
بلکہ طلب کیے گیے تھے۔ سادہ اور غریب آدمی تھے۔ بڑے آدمیوں کے ہاں جانے کا
شوق' شروع سے ہی نہیں پالا تھا۔ ٹاٹ سکول کے ماسٹر تھے' اس لیے ان کا غریب
لوگوں سے ہی واسطہ تھا۔ وہ امیر لوگوں میں سے نہیں تھے' اس لیے' میسر خوش
لباسی کے ساتھ گیے تھے۔ ان کی یہ خود فریب خوش لباسی' حقیقی معنویت سے
محروم تھی۔ تاہم وہ اپنے طور پر' اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ معزز شخص
دکھ رہے ہیں۔
وہ سالم رکشا لے کر گیے تھے۔ شہر کے چھوٹے بڑے' ان کی عزت کرتے تھے۔ ان کا
خیال تھا کہ ان کا نام سنتے ہی' چوکی دار احترام سے اٹھ کر کھڑا ہو جائے گا
اور بھاگا بھاگا' رحمانی صاحب کو اطلاح کرنے جائے گا۔ آدمی سوچتا کچھ ہے
اور ہوتا کچھ ہے۔ گیٹ پر ایک نہیں تین' صحت مند پچر مونچھوں والے' جدید
اسلحہ کے ساتھ تشریف فرما' خوش گپیوں میں مشغول تھے۔
ماسٹر صاحب سوچنے لگے' رحمانی صاحب اتنے ہی اہم ہیں' جو چار مرلے کے گیٹ پر
اسلحہ بردار بیٹھا رکھے ہیں۔ یہ خلیفہ عمر بن عبدالعزیزسے بھی بڑھ کر ہیں۔
ان کے دروازے پر تو کوئی بھی نہیں ہوتا تھا۔ وہ حاکم تھے۔ کیا ان کی جان'
ان کی جان سے زیادہ قیمتی ہے۔ رحمانی صاحب حاکم نہیں' حاکم کے ادنی کن قریب
تھے۔ یہ تو ادنی کن قریب کے ٹھاٹھ ہیں' اعلی کن قریب اور حاکم کے کیا ہوں
گے. یہ سوچتے ہوئے انہوں نے رکشا والے کو پیسے ادا کیے اور رحمانی صاحب کے'
بنگلے کے گیٹ کی جانب بڑھ گیے۔ انہوں نے گیٹ برداروں سے اپنا تعارف کرایا۔
پہلے تو انہوں نے ماسٹر صاحب کو سر سے پاؤں تک' بڑے غور سے دیکھا۔ ماسٹر
خدا بخش.... پھر زور دار قہقہ لگایا۔ تعارف تو یوں کروا رہے ہو جیسے کوئی
مشیر وزیر ہو۔ ان کے قہقے اور انداز نے' انہیں احساس کمتری کی دلدل میں
دھکیل دیا۔ انہوں نے سوچا' مادی دنیا میں' علم نہیں سے بھی' کمتر ہے۔
اس قہقہ باری کے دوران ہی' مسز رحمانی تقریبی لباس میں' تشریف لے آئیں۔ وہ
عورت کم' بھوسے کی بوری زیادہ لگ رہی تھیں۔ گریبانی لکیر' مرکزے کو چھوتی
صاف نظر آ رہی تھی۔ اس کے باوجود' نظرباز کے ہردے یا کسی اور اعضا میں'
ہلچل پیدا نہیں ہوتی تھی۔ اسے دیکھتے ہی' تینوں اسلحہ بردار احترام میں
کھڑے ہو گیے۔
اس نے پوچھا' سب ٹھیک جا رہا ہے۔ سب سے بڑی مونچھوں والے نے' فوجی انداز
میں' پاؤں جوڑتے ہوئے کہا: یس میڈم
یہ کون ہے اور یہاں کیا کر رہا ہے۔
میڈم یہ خود کو ماسٹر خدا بخش بتا رہا ہے۔ شکل اور حلیے سے تو بھیک منگا
رہا ہے۔
میڈم نے ان کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا: آپ ماسٹر خدا بخش ہیں۔
جی ہاں' میں ماسٹر خدا بخش ہوں۔
اچھا اچھا' ہم نے ہی آپ کو بلایا ہے۔ اندر آ جائیے۔
وہ انہیں لے کر' دروازے سے تھوڑا ہی دور کھڑی ہو گئی۔ بنگلہ کیا تھا' اندر
ایک دنیا آباد تھی۔ باغیچے پر مالی اور اس کے معاون' مصروف کار تھے۔ میڈم
کو دیکھتے ہی' ان کی پھرتیاں بڑھ گئیں۔ گیٹ کے دائیں' دو کمرے' دو ولائتی
کتوں کے تھے۔ ہر کتے کے لیے' دو دو الگ سے ملازم تھے۔ ہر کتے کا نام'
تاریخی تھا۔ شاید اسی وجہ سے' عزت و احترام کے مسحق ٹھہرے تھے۔ چاروں ملازم
جو بڑے باصحت تھے' ان ولائتی کتوں کی بڑی جان فشانی سے' خدمت کر رہے تھے۔
یہ شب باشی بھی' ان ولائتی کتوں کے کمروں میں فرماتے تھے۔ گیٹ کے بائیں'
دیگر خدمت گاروں کے کوارٹر تھے۔ یہ سب یہاں مع اہل و ایال اقامت رکھتے۔
رحمانی کنبہ کے دل و جان سے تابع فرمان' جب کہ اوروں کے دست ونظر سے تابع
دار تھے۔
بہت سے ماسٹر' ہمارے بچوں کو پڑھانے کے خواہش مند ہیں۔ آپ کی اہلیت کا شہرہ
سنا تو سوچا' کیوں نہ یہ خدمت آپ سے لی جائے۔ اور تو مفت یہ خدمت انجام
دینے کو تیار ہیں' اگرچہ آج کل ہاتھ تنگ پھنگ جا رہا ہے' اس کے باوجود' آپ
معاوضہ طلب کریں گے تو ضرور دیا جائے گا۔ فکر نہیں کرنا۔
ماسٹر خدا بخش' ترسیل علم میں' کبھی بخیل نہیں رہے تھے۔ علم کے شیدائیوں کے
لیے دل و جان سے' حاضر رہے تھے۔ اس کے بیچنے کو' سماجی جرم سمجھتے تھے۔
کوئی راہ چلتے مل جاتا اور کچھ پوچھ لیتا' تو وہ وہاں ہی کسی تھڑے پر بیٹھ
جاتے' پوچھنے والے کا اپنی حد تک اطمنان کرتے۔ اس ذیل میں' جان پہچان
معنویت نہ رکھتی تھی۔ ترسیل علم کے سلسلہ میں' وہ کبھی چائے کی پیالی تک کے
روادار نہ ہوئے تھے۔
انہیں رحمانی صاحب کے بچوں کو پڑھانے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ انہیں یہ بھی
گلا نہیں تھا' کہ سلیقے سے بیٹھ کر بات نہیں کی گئی۔ پیٹو تو وہ شروع سے
نہیں تھے۔ جو' جیسا' جتنا اور جب مل جاتا کھا کر' الله کا لاکھ لاکھ شکر
ادا کرتے۔ شاید یہ ہی وجہ تھی' کہ الله نے انہیں علم کی بےپناہ دولت سے
سرفراز کیا تھا۔ علم کی ہر بند مٹھی کے اندر کا بھید' ان کے ہاں آ کر کھل
جاتا۔ انہیں اصل دکھ' مسز رحمانی کے طور تکلم کا ہوا۔ وہ یوں مخاطب تھی'
جیسے اس کے سامنے کوئی دیسی کتا سرونٹ کھڑا ہو۔
دیکھیے مسز رحمانی' میں کسی کے گھر جا کر نہیں پڑھاتا' جسے پڑھنا ہوتا ہے'
میرے پاس آتا ہے۔ سوری' میں یہاں آ کر یہ خدمت انجام نہ دے سکوں گا۔ رہ گئی
ٹیویشن فیس' اس کی آپ فکر نہ کریں۔ بس آپ پڑھنے کے لیے بچے بھیج دیا کریں۔
مسز رحمانی کو' اس قسم کے جواب کی توقع نہ تھی۔ دوسرے اسے اعزاز سمجھتے
تھے' جب کہ ماسٹر خدا بخش' اس اعزاز کو جوتے پر رکھ رہے تھے۔ وہ غصے سے
نیلی پیلی ہو گئی۔ اس نے ایک زوردار تھپڑ ماسٹر صاحب کے منہ پر رکھا۔ وہ
توازن برقرار نہ رکھ سکے اور زمین پر آ رہے۔ معاملے کے فورا بعد' سارے
ملازم وہاں آ گئے۔ ان میں سے دو کے بچے' ماسٹر صاحب سے پڑھتے تھے۔ ماسڑ
صاحب کو پیٹا بھی گیا۔ ایک کتا مین نے دو جڑنے کے ساتھ یہ بھی کہا: دو ٹکے
کا ماسٹر اور زبان اتنی لمبی۔
مار کٹائی کے بعد انہیں گیٹ کے باہر پھینک دیا گیا۔
حواس بحال ہونے کے بعد' وہ کمزور اور درد سے لبریز قدموں کے ساتھ' گھر کو
چل دیے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے' کمزور زندگی کے ان گنت واقعات' گھوم گیے۔
کم زور زندگی اپنی حیثیت میں' کن قریبیوں کے گماشتوں کے کتے' تو بہت دور کی
بات' وہ تو ان کتوں کے گولوں کی سی' اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ جینا تو کیڑوں
مکوڑوں کا سا بھی جینا نہیں۔ یہ ریاستی جونکیں' کتنی بڑی اور عالی شان
عمارتوں میں زندگی کرتی ہیں۔ کم زور جیون کے علم کدے' صفر کو بھی چھونے سے
قاصر و عاجز رہے ہیں۔ وہاں کچھ کرتے یا دیتے' انہیں پیٹ سول ہو جاتا ہے۔
اور تو اور' رقیاں جس کے ساتھ' انہوں نے پچیس سال بسر کیے تھے' اس ترقی کے
موقعے کو ضائع کرنے کو' حماقت کا نام دے گی اور پھر اسے' گزری زندگی کی'
تمام پیڑیں یاد آ جائیں گی۔ اس خوف سے کہ رحمانی صاحب کے ہاں سے عملی ضربیں
لگی تھیں وہ لفظی ضربیں لگائے گی' ہر قدم بہ مشکل اٹھ رہا تھا۔ خیر کیا
کرتے گھر تو جانا ہی تھا۔ |