جہان فانی کا دستور ہے وہ کبھی بھی کسی ایک قوم، خاص
قبیلہ یا کسی فرد واحد کی جاگیر بن کر نہیں رہا ہے بلکہ اس نے ہرزمانے میں
اپنا ایک چاہنے والاڈھونڈاہے، اور اسے اپنی محبت میں ملوث ہونے کی سزا اور
اسے ذلت ورسوائی کی گہرائیوں میں ڈھکیلا ہے، ہم تاریخ اٹھا کر دیکھتے ہیں
تو پتہ چلتا ہے کہ جہاں اس دنیا کی محبت میں نمرود نے ابراہیم ؑ کو آگ میں
ڈالا اور خود کو رب اعلیٰ کے لقب سے ملقب کیا، وہیں موسی ؑ کو فرعون نے طرح
طرح کی آزمائشوں میں مبتلا کرکے اپنی خدائی کا دعویٰ کیا اور باعث عبرت
بنا، وہیں شداد نے حقیقی جنت کو ٹھکرا کر اپنی فانی جنت بنائی۔ اس دنیا نے
کبھی کسریٰ کے آنگن میں اپنے جلوے بکھیرے تو کبھی قیصر کے محل کو زینت
بخشی ، کبھی سکندر کی جھولی میں آئی تو کبھی قلوپطرہ کی کنیز بنی۔ غرضیکہ
اس فانی دنیا نے ہر دور میں مختلف قسم کے اپنے عشاق پیدا کیے لیکن تاریخ
شاہد ہے جس کسی نے اس کی محبت میں گرفتار ہوا اس کے حصہ میں ذلت ورسوائی
اور حرماں نصیبی کے سوا کچھ نہیں آیا۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جنہوں نے اس
فانی دنیا سے منہ موڑ کر اپنے خالق حقیقی سے لو لگایا، اپنے مقصد تخلیق کو
پہچان کر خدا کی منشاء کے مطابق زندگی گزاری وہ دونوں جہاں میں کامیاب ہوئے،
اس دنیا کا سب سے بڑا سچ جس میں نہ تو کبھی کسی کا اختلاف تھا او رنہ ہی
ہوگا وہ ہے ’’موت‘‘ موت وہ اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو جائے مفر نہیں، موت
کی نگاہ میں شاہ وگدا، امیروغریب، پیروجواں سبھی یکساں ہیں۔ اس دنیا میں
ہمارا وجود اس بات کی علامت ہے کہ ہمیں یہاں سے کوچ کرنا ہے، کوئی خالق ہے
جس نے ہمیں ہماری خواہش کے بغیر اس سینہ ٔ گیتی پر بھیجا ہے اور ہماری
خواہش کے بغیر اپنے پاس بلالے گا، جس پرہماراکوئی زور نہیں ۔ اس نے ہمیں
یہاں بھیجنے کا مقصد بھی بتادیا ہے، ’’کہ ہم نے جن وانس کو نہیں پیدا کیا
مگر اپنی عبادت کے لیے‘‘ (القرآن) ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے مقصد تخلیق
کو فراموش کرکے دنیا کی فریفتگی میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ جس خالق نے قرآن
جیسی لازوال اور عظیم نعمت سے سرفراز کیا، نبی اکرمﷺ جیسے محسن اعظم سے
نوازا اور صحابہ کرامؓ جیسی مقدس وبرگزیدہ جماعت کو رہنمائی کے لیے تیار
کیا ۔ ہم اس خالق کی عظیم نعمت اور مشعل راہ قرآن کریم کوپس پشت ڈال کر
عقل ودلائل کی پیچیدگیوں میں الجھ گئے اس کے پیارے محبوبﷺ کے اسوہ حسنہ سے
منہ موڑ کر جدید فیشن اور مغربی کلچر کو اپنانے میں فخرمحسوس کرنے لگے، سنت
نبوی کو سرعام رسوا کرنے کے مرتکب ہوئے۔ ہم نے دینی تعلیم سے کنارہ کشی
اختیار کرکے دنیاوی تعلیم کو ہی ترقی کا ایجنڈہ سمجھ لیا، پی ایچ ڈی
کرنااورڈاکٹر ، انجینئر وکیل بننا یہ سب آج ہمارے لیے زیادہ اہم ہے بہ
نسبت ایک مسلمان بننے کے ، ہمیں عصری تعلیم سے کوئی بیرنہیں لیکن انگریزی
تعلیم کے ساتھ انگریزی شعار سے بیر ہے، ہمیں اس نظام تعلیم سے کوئی اختلاف
نہیں لیکن اس نظام تعلیم کو حاصل کرکے اپنا مقصد عبدیت کھونے سے بیر ہے،
آپ جہاں مرضی چاہیں تعلیم حاصل کریں، لیکن اسلامی شعار کو اپنا کر نہ کہ
اپنے دین وایمان اور اپنا اسلامی حلیہ بگاڑ کر۔ آج ہم کالج ، یونیورسٹی
اورآفس میں اپنے آپ کو مسلمان (داڑھی، کرتا پاجامہ) ظاہرکرنے میں عار
محسوس کرتے ہیں۔ سنت نبوی کو چھوڑ کر یہود ونصاریٰ کی تہذیب کو اپنانے میں
جدت اور فخر محسوس کرتے ہیں۔
یوروپی مقالہ نگار جارج برناڈ شاہ نے اپنے ایک مقالہ میں لکھا ہے کہ ’’اس
دنیا میں مسلمان سے زیادہ ذلیل اور بے وقوف فی الوقت کوئی نہیں ہے کیوں کہ
یہ وہ قوم ہے جس کے پاس زندگی گزارنے کے دائمی اصول وضوابط موجود ہیں پھر
بھی وہ خدا کے لازوال اصول سے بغاوت کرکے مغربی تہذیب کو اپنانے میں فخر
محسوس کررہے ہیں‘‘۔ ایک اور یہودی دانشور نے فی الحال ایک بات کہی ہے وہ
کسی میوزیم میں گیا جہاں ایک مجسمہ بنایا جس میں مسلمان سرنگوں تھا اس کے
اوپر عیسائی اور یہودی کھڑے تھے وہ دانشور بھڑک اُٹھا اور سوال کرنے لگا تو
مجسمہ بنانے والے نے کہا کہ یہ تو اچھی بات ہے ہم نے مسلمان کونیچادکھایاہے
اس میں غصہ اور ناراض ہونے والی بات کیا ہے اس دانشور نے برجستہ جواب دیا
اگر مسلمان اٹھ کھڑا ہوگا تو یہودی اور عیسائی دونوں گر جائیں گے۔ (ماخوذ)
لہٰذا آج دورِ جدید اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو دنیاوی
تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی آراستہ کریں، امام رازی، غزالی، ابن
الرشد، کندی کو اپنا آئیڈیل بنائیں۔ آج ہندوستان کے مین اسٹریم
(mainstream) میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والوں کی ضرورت ہے، جو ایک
اعلیٰ عہدے کے ساتھ ساتھ ایک سچا پکا مسلمان بھی ہو، جسے اگر ہندوستانی
ہونے پر فخر محسوس ہوتو وہیں مسلمان ہونا اس کے لیے باعث سعادت ہو، ایسا نہ
ہوکہ وہ نام نہاد سیکولرازم کی پاسداری وفروغ میں گیتا کو قرآن پر فوقیت
دے، اپنا کامیابی کا راز وہ قرآن وسنت کے بجائے سائنس وٹکنالوجی کو بتائے۔
بلکہ وہ ایسے ہوں جس کے اخلاق کو دیکھ کر اسلام سے بد ظن طبقہ اسلام کو
جاننے اور سمجھنے کے لیے بے چین ہوجائیں جس کابلندکرداراوراعلیٰ ظرف زبان
زد خاص وعام ہو، جس کے سینے میں اجمیریؒ جیسا دل اور محمد بن قاسم جیسا جگر
ہو، لیکن افسوس کہ آج کہ جدید ٹکنالوجی کے اس دورمیں اپنے آپ کو اس مین
اسٹریم کا حصہ بنانے کے لیے ہم نے اپنے اسلامی شعار سے بغاوت کرڈالی خود کو
ماڈرن ثابت کرنے کے لیے قرآنی تعلیمات سے رشتہ توڑ لیااخلاقی اقدار ہمیں
ماضی سے سبق حاصل کرکے مستقبل کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے اور
اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم مسلمان بن جائیں احکامات الٰہیہ اورسنت نبویہ کی
پیروی کو اپنی زندگی کا جز ولاینفک اور نصب العین بنائیں، اور اس فانی دنیا
کے عشق میں الجھ کر اپنی آخرت کا سودا نہ کریں۔ اگر ہم احکام الہیٰ پر عمل
پیر ا ہوجائیں گے تو کسی مودی کی ہمت نہ ہوگی کہ وہ ہم پر ظلم کرے او رنہ
ہی کسی گجرات میں ہم جلائے جائیں گے او رنہ ہی مظفر نگر سے اجاڑے جائیں گے۔
یہ سب جو ابھی وطن عزیز میں مسلمانوں کے ساتھ حالات پیدا ہورہے ہیں یہ
ہمارے لیے عذاب ہیںلیکن ہم آزمائش سمجھ کر صبر کرتے ہیں حالانکہ ہمیں تائب
ہوکر رجوع الی اللہ ہوناچاہئے ۔ اگر ہم واقعی اسلام پر صد فیصد عمل پیرا
ہوگئے تو پھر ہمارے لیے اللہ کا پیغام ثابت ہوکر رہے گا ’’غم نہ کرو،
رنجیدہ مت ہو، دنیا کی سربلندی وکامیابی صرف تمہارے لیے ہے، بشرطیکہ تم
مومن کامل ہو‘‘۔(القرآن) بصورت دیگر احکام الٰہیہ کو چھوڑنے کی وجہ سے جو
ذلت خواری ہمارے نصیب میں آرہی ہے اور جس کی ترجمانی علامہ اقبال نے کیا
ہے وہ مقدر ہوکر رہے گا اقبال نے کہا تھا۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر ٭ اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
جہان فانی کا دستور ہے وہ کبھی بھی کسی ایک قوم، خاص قبیلہ یا کسی فرد واحد
کی جاگیر بن کر نہیں رہا ہے بلکہ اس نے ہرزمانے میں اپنا ایک چاہنے
والاڈھونڈاہے، اور اسے اپنی محبت میں ملوث ہونے کی سزا اور اسے ذلت ورسوائی
کی گہرائیوں میں ڈھکیلا ہے، ہم تاریخ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ
جہاں اس دنیا کی محبت میں نمرود نے ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈالا اور خود کو
رب اعلیٰ کے لقب سے ملقب کیا، وہیں موسی ؑ کو فرعون نے طرح طرح کی
آزمائشوں میں مبتلا کرکے اپنی خدائی کا دعویٰ کیا اور باعث عبرت بنا، وہیں
شداد نے حقیقی جنت کو ٹھکرا کر اپنی فانی جنت بنائی۔ اس دنیا نے کبھی کسریٰ
کے آنگن میں اپنے جلوے بکھیرے تو کبھی قیصر کے محل کو زینت بخشی ، کبھی
سکندر کی جھولی میں آئی تو کبھی قلوپطرہ کی کنیز بنی۔ غرضیکہ اس فانی دنیا
نے ہر دور میں مختلف قسم کے اپنے عشاق پیدا کیے لیکن تاریخ شاہد ہے جس کسی
نے اس کی محبت میں گرفتار ہوا اس کے حصہ میں ذلت ورسوائی اور حرماں نصیبی
کے سوا کچھ نہیں آیا۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جنہوں نے اس فانی دنیا سے منہ
موڑ کر اپنے خالق حقیقی سے لو لگایا، اپنے مقصد تخلیق کو پہچان کر خدا کی
منشاء کے مطابق زندگی گزاری وہ دونوں جہاں میں کامیاب ہوئے، اس دنیا کا سب
سے بڑا سچ جس میں نہ تو کبھی کسی کا اختلاف تھا او رنہ ہی ہوگا وہ ہے ’’موت‘‘
موت وہ اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو جائے مفر نہیں، موت کی نگاہ میں شاہ وگدا،
امیروغریب، پیروجواں سبھی یکساں ہیں۔ اس دنیا میں ہمارا وجود اس بات کی
علامت ہے کہ ہمیں یہاں سے کوچ کرنا ہے، کوئی خالق ہے جس نے ہمیں ہماری
خواہش کے بغیر اس سینہ ٔ گیتی پر بھیجا ہے اور ہماری خواہش کے بغیر اپنے
پاس بلالے گا، جس پرہماراکوئی زور نہیں ۔ اس نے ہمیں یہاں بھیجنے کا مقصد
بھی بتادیا ہے، ’’کہ ہم نے جن وانس کو نہیں پیدا کیا مگر اپنی عبادت کے لیے‘‘
(القرآن) ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے مقصد تخلیق کو فراموش کرکے دنیا کی
فریفتگی میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ جس خالق نے قرآن جیسی لازوال اور عظیم نعمت
سے سرفراز کیا، نبی اکرمﷺ جیسے محسن اعظم سے نوازا اور صحابہ کرامؓ جیسی
مقدس وبرگزیدہ جماعت کو رہنمائی کے لیے تیار کیا ۔ ہم اس خالق کی عظیم نعمت
اور مشعل راہ قرآن کریم کوپس پشت ڈال کر عقل ودلائل کی پیچیدگیوں میں الجھ
گئے اس کے پیارے محبوبﷺ کے اسوہ حسنہ سے منہ موڑ کر جدید فیشن اور مغربی
کلچر کو اپنانے میں فخرمحسوس کرنے لگے، سنت نبوی کو سرعام رسوا کرنے کے
مرتکب ہوئے۔ ہم نے دینی تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کرکے دنیاوی تعلیم کو ہی
ترقی کا ایجنڈہ سمجھ لیا، پی ایچ ڈی کرنااورڈاکٹر ، انجینئر وکیل بننا یہ
سب آج ہمارے لیے زیادہ اہم ہے بہ نسبت ایک مسلمان بننے کے ، ہمیں عصری
تعلیم سے کوئی بیرنہیں لیکن انگریزی تعلیم کے ساتھ انگریزی شعار سے بیر ہے،
ہمیں اس نظام تعلیم سے کوئی اختلاف نہیں لیکن اس نظام تعلیم کو حاصل کرکے
اپنا مقصد عبدیت کھونے سے بیر ہے، آپ جہاں مرضی چاہیں تعلیم حاصل کریں،
لیکن اسلامی شعار کو اپنا کر نہ کہ اپنے دین وایمان اور اپنا اسلامی حلیہ
بگاڑ کر۔ آج ہم کالج ، یونیورسٹی اورآفس میں اپنے آپ کو مسلمان (داڑھی،
کرتا پاجامہ) ظاہرکرنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ سنت نبوی کو چھوڑ کر یہود
ونصاریٰ کی تہذیب کو اپنانے میں جدت اور فخر محسوس کرتے ہیں۔
یوروپی مقالہ نگار جارج برناڈ شاہ نے اپنے ایک مقالہ میں لکھا ہے کہ ’’اس
دنیا میں مسلمان سے زیادہ ذلیل اور بے وقوف فی الوقت کوئی نہیں ہے کیوں کہ
یہ وہ قوم ہے جس کے پاس زندگی گزارنے کے دائمی اصول وضوابط موجود ہیں پھر
بھی وہ خدا کے لازوال اصول سے بغاوت کرکے مغربی تہذیب کو اپنانے میں فخر
محسوس کررہے ہیں‘‘۔ ایک اور یہودی دانشور نے فی الحال ایک بات کہی ہے وہ
کسی میوزیم میں گیا جہاں ایک مجسمہ بنایا جس میں مسلمان سرنگوں تھا اس کے
اوپر عیسائی اور یہودی کھڑے تھے وہ دانشور بھڑک اُٹھا اور سوال کرنے لگا تو
مجسمہ بنانے والے نے کہا کہ یہ تو اچھی بات ہے ہم نے مسلمان کونیچادکھایاہے
اس میں غصہ اور ناراض ہونے والی بات کیا ہے اس دانشور نے برجستہ جواب دیا
اگر مسلمان اٹھ کھڑا ہوگا تو یہودی اور عیسائی دونوں گر جائیں گے۔ (ماخوذ)
لہٰذا آج دورِ جدید اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو دنیاوی
تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی آراستہ کریں، امام رازی، غزالی، ابن
الرشد، کندی کو اپنا آئیڈیل بنائیں۔ آج ہندوستان کے مین اسٹریم
(mainstream) میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والوں کی ضرورت ہے، جو ایک
اعلیٰ عہدے کے ساتھ ساتھ ایک سچا پکا مسلمان بھی ہو، جسے اگر ہندوستانی
ہونے پر فخر محسوس ہوتو وہیں مسلمان ہونا اس کے لیے باعث سعادت ہو، ایسا نہ
ہوکہ وہ نام نہاد سیکولرازم کی پاسداری وفروغ میں گیتا کو قرآن پر فوقیت
دے، اپنا کامیابی کا راز وہ قرآن وسنت کے بجائے سائنس وٹکنالوجی کو بتائے۔
بلکہ وہ ایسے ہوں جس کے اخلاق کو دیکھ کر اسلام سے بد ظن طبقہ اسلام کو
جاننے اور سمجھنے کے لیے بے چین ہوجائیں جس کابلندکرداراوراعلیٰ ظرف زبان
زد خاص وعام ہو، جس کے سینے میں اجمیریؒ جیسا دل اور محمد بن قاسم جیسا جگر
ہو، لیکن افسوس کہ آج کہ جدید ٹکنالوجی کے اس دورمیں اپنے آپ کو اس مین
اسٹریم کا حصہ بنانے کے لیے ہم نے اپنے اسلامی شعار سے بغاوت کرڈالی خود کو
ماڈرن ثابت کرنے کے لیے قرآنی تعلیمات سے رشتہ توڑ لیااخلاقی اقدار ہمیں
ماضی سے سبق حاصل کرکے مستقبل کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے اور
اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم مسلمان بن جائیں احکامات الٰہیہ اورسنت نبویہ کی
پیروی کو اپنی زندگی کا جز ولاینفک اور نصب العین بنائیں، اور اس فانی دنیا
کے عشق میں الجھ کر اپنی آخرت کا سودا نہ کریں۔ اگر ہم احکام الہیٰ پر عمل
پیر ا ہوجائیں گے تو کسی مودی کی ہمت نہ ہوگی کہ وہ ہم پر ظلم کرے او رنہ
ہی کسی گجرات میں ہم جلائے جائیں گے او رنہ ہی مظفر نگر سے اجاڑے جائیں گے۔
یہ سب جو ابھی وطن عزیز میں مسلمانوں کے ساتھ حالات پیدا ہورہے ہیں یہ
ہمارے لیے عذاب ہیںلیکن ہم آزمائش سمجھ کر صبر کرتے ہیں حالانکہ ہمیں تائب
ہوکر رجوع الی اللہ ہوناچاہئے ۔ اگر ہم واقعی اسلام پر صد فیصد عمل پیرا
ہوگئے تو پھر ہمارے لیے اللہ کا پیغام ثابت ہوکر رہے گا ’’غم نہ کرو،
رنجیدہ مت ہو، دنیا کی سربلندی وکامیابی صرف تمہارے لیے ہے، بشرطیکہ تم
مومن کامل ہو‘‘۔(القرآن) بصورت دیگر احکام الٰہیہ کو چھوڑنے کی وجہ سے جو
ذلت خواری ہمارے نصیب میں آرہی ہے اور جس کی ترجمانی علامہ اقبال نے کیا
ہے وہ مقدر ہوکر رہے گا اقبال نے کہا تھا۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر ٭ اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر |