پاکستان فلم انڈسٹری کے
معروف ہدائت کار ریاض شائد ایک منفرد پہچان رکھتے تھے جنہوں نے انقلابی
موضوع پر کئی شاہکار فلمیں تخلیق کی ،جن میں بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ فلم’’
شہید‘‘ ہے جو فلسطین کی تحریک آزادی پر بننے والی اردو فیچر فلم ہے، اس فلم
نے اہل پاکستان کو فلسطین سے بہت قریب کر دیا تھا ۔اس کے بعد سپین کی مذمتی
تحریک پر ’’غرناطہ‘‘بنائی گئی جسے عوام نے سراہا اور اس کے بعد ریاض شائد
نے اردو فیچر فلم ’’یہ امن ‘‘کے زریعے کشمیر کی تحریک آزادی کو بھی دنیا
میں اجاگر کیا ۔یہ امن کشمیر کی خوبصورت وادیوں میں فلمائی گئی تھی اور یہ
فلم اپنی محسور کن ملی و انقلابی نغموں سے مذئین موسیقی اور انقلابی کہانی
کے باعث دلوں کو چھو جاتی ہے ۔ ریاض شائد نے فلسطین پر ایک اور سدا بہار
فلم ’’زرقا ‘‘ بنائی یہ ایسی فلم ہے کہ کسی بھی زمانے میں اس کی مقبولیت کم
نہیں ہوئی اور اس فلم نے محترم ریاض شائد کو ایک انقلابی ہدائت کار وفلمساز
کے طور پر مقبولیت کے افق پر پہنچا دیاتھا اور ویسے بھی اس فلم سے ریاض
شائد کا ایک خاص رشتہ تھا ۔
پاکستانی فنون لطیفہ کو ملک میں کبھی وہ حیثیت حاصل نہ ہو ئی جو باقی دنیا
میں فن و فنکا ر کو حاصل ہے ۔پہلے پہل اس انڈسٹری میں کچھ ایسے لوگوں نے
قدم رکھا جن کاتعلق کسی حوالے سے بہت ہی پچھڑے علاقوں سے رہا ہو ،اور دوسری
جانب بدقسمتی سے پاکستان میں ابتداء سے ایسے نا اہل لوگ ایوان اقتدار میں
پہنچتے رہے جو اسے محض عیش وآسائش کا سامان سمجھتے تھے ،انہیں یہ برہم تھا
کہ وہ ملک کے متلق العنان ہیں جو چاہے کریں اور یوں ایوان اقتدار میں شباب
و کباب کی محفلوں کا اہتمام عام سی بات ہو چکی تھی ۔اکثر وہ اپنی عیاش
خواہشوں کے قیدی اپنی تسکین کے لئے اس انڈسٹری سے اپنے پسندیدہ فنکاروں اور
فنکاراؤں کوجبراً محل میں طلب کر لیا کرتے تھے اور ان میں سے بھی کچھ لوگ
وہاں جانے کو اعزاز سمجھتے تھے ۔۔۔اور جب جب یہ لوگ ایک خاص مقام تک پہنچتے
تو انہیں احساس ہوتا کہ یہ ہماری عزت افزائی نہیں ہے ۔۔۔یحییٰ خان کا دور
تھا اور محترم ریاض شائد کی شادی ’’نیلوفر‘‘ سے طے ہو گئی اور دن مقرر
ہوگئے ۔شادی میں محض ایک ہفتہ باقی تھا کہ ایوان صدر سے حکم صادر ہوا کہ
’’نیلو فر ‘‘ کویہاں لایا جائے ۔پوری فلم انڈسٹری میں جیسے صف ماتم بچھ گئی
تھی اس لئے بھی کہ ریاض شائد کے ساتھ ساتھ ’’نیلو فر‘‘ بھی انڈسٹری میں ایک
خاص احترام کا مقام رکھتی تھیں ۔۔۔ہر کوئی اس حکم نامے کے باعث تجسس میں
تھا کہ اب کیا ہو گا ۔ریاض شائد کے دوستوں نے ملک گیر رابطے کر کہ بمشکل اس
مصیبت سے چھٹکارہ حاصل کیا اور ان دونوں کی شادی ہو پائی ۔اور شادی کے بعد
ریاض شائد نے فلم’’ زرقا‘‘ بنائی اور اس فلم میں اس نے اپنی زندگی کے ان
تکلیف دہ لمحات کو بڑی خوبصورتی سے عوام کے سامنے رکھا، جب فلم کے ایک سین
میں ایک معروف فلسطینی فریڈم فائٹر اور اس کی دوست مجائدہ کئی ہموطنوں کے
ہمراہ اتفاقاً ایک اسرائیلی فوجی قید خانے میں اکٹھے ہو جاتے ہیں جہاں
انہیں بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ایک روز رقص و سروور کے رسیا
ایک یہودی کمانڈر کی نظر اس مجائدہ پر پڑھتی ہے اور وہ اسے رقص کرنے کا حکم
دیتا ہے۔ اپنے مسلم معاشرے اور قومی عزت و وقار کے ماحول میں پلی اس مجائدہ
کے لئے یہ ناممکن عمل تھا اس کے انکار پر کمانڈر غصے سے اس کے نازک جسم پر
کوڑے برساتاہے۔مجائدہ سمیت سب قیدی زنجیروں میں جکڑے ہیں اور ظلم وجبر کے
اس ماحول میں بیک گراؤنڈ سے یہ اشعار گونجتے ہیں ۔۔۔توں کے ناواقف اداب
غلامی ہے ابھی ۔۔۔رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے ۔۔۔اس فلم میں ریاض
شائد نے ملک کے اس وقت کی صورتحال کی بہترین منظر کشی کی تھی ۔اس نے قوم کو
جبر کی زنجیروں میں دکھایا اور اور یہودی کمانڈر کو یہاں کے حکمرانوں سے
تشبیح دی جو قوم کی عزتوں سے کھواڑ کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔۔۔اور ۔۔۔توں
کے ناواقف آداب غلامی ہے ابھی ۔۔۔یہ نغمہ بے بسی و بے چارگی کی تصویر قوم
کی آواز بن گیا تھا ۔
گزشہ مہینوں پاکستان کے زیرکنٹرول کشمیر کے ایک معروف محقق و مصنف محترم
سعید اسد جو ایک ادارے میں اٹھارہ برس سے ملازمت کر رہے تھے کو بیک جنبش
قلم برطرف کر دیا گیا ۔اس کا جرم کیا تھا۔۔۔؟صرف یہ کہ اس شخص نے ایک منقسم
محکوم قوم کو ماضی کی یاد دلانے کی کوشش میں کئی کتابیں لکھ ڈالی، جس کے
باعث ریاستی لوگوں میں قومی شعور کے بیدار ہونے کی رفتار تیز ہونے لگی اور
لوگ سمجھنے لگے کہ ان کے ملک میں موجود قدرتی وسائل اور ان کی لوٹ کھسوٹ کے
باعث ان پر کس نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے کون لوگ ہیں جو خود تو شاہانہ
زندگی بسر کرتے ہیں اور ریاستی عوام کو دہشت و صحرہ میں جوانیاں برد کرنے
پر مجبور کر دیتے ہیں۔۔۔؟شائد یہی وہ قوتیں ہیں جو مسئلہ کشمیر کو ریاستی
عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے میں رکاوٹ ہیں اور اگر عوام میں قومی
شعور بتدریج بڑھتا رہا تو ان طاقتوں کے عزائم خاک میں مل جائیں گے ۔قلم کی
اس جنگ میں پیش پیش ریاستی عوام کو ماضی یاد دلانے اور تاریخ پڑھانے والے
سعید اسد بھی شائد ناواقف آداب غلامی ثابت ہوئے کہ اٹھارہ برس انہیں کے گھر
میں بیٹھ کر انہی کے غلاموں کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کرتے رہے ۔۔۔عجیب
دیوانے تھے جو ان کے اعتماد کو پامال کر تے ہوئے یہ گل کھلاتے رہے ۔۔۔اب ان
کی دریا دلی کو داد دیجئے کہ انہوں نے ہاتھ ’’ہولا ‘‘رکھا اور طویل عرصہ تک
یہ سب کچھ ہونے دیا ۔۔۔اس سے زیادہ کسی غاصب یا اس کے آلہ کاروں سے کیا
تواقع کیجا سکتی ہے ۔۔۔؟آج سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پریہ موضوع زیر بحث
ہے ۔لیکن سعید اپنا بہترین کردار ادا کر چکا ہے اور اب وہ اس سے
مذیدبہتراور آزادانہ کام کر سکتا ہے اس لئے کہ صدائے حق کو کبھی ایسے
ہتھکنڈوں سے دبایا نہیں جا سکتا اور وہ تمام عناصر جو اس جدوجہد کو مبنی بر
حق سمجھتے ہیں انہیں چاہیے کے مصلحتوں سے باہر نکلیں اور اس احتجاج کو عملی
شکل دیتے ہوئے مظفر آباد کے ایوانوں میں مقیم پاکستانی چیف سیکرٹری کے
ماتحت آلہ کاروں کو پوری دنیا میں بے نقاب کریں محض سوشل میڈیا پر گپ شپ
کرنا کافی نہیں ہے ۔کیوں کے اس کے لئے کسی مثالی ماحول کی قطعی ضرورت نہیں
۔۔۔رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے ۔۔ |