نور اعلیٰ نور - قسط ۱۹

چار سال گزر گئے اور حالات بھی بہت بدل گئے ۔ پاکستان میں دن بدن انارکی پھیلتی جا رہی تھی۔ کراچی کا حال تو برسوں سے خراب تھا ہی ، اب بد ترین ہو چکا تھا…… آئے دن ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، بم بلاسٹ، ہڑتالیں ہوتی رہتی تھیں۔ خیبر پختونخواں بھی گزشتہ کئی سالوں سے امریکہ ، طالبان اور پاک فوج کے ہاتھوں برباد ہو رہا تھا۔ نا جانے کتنے گاؤں ڈرون اٹیکس کی وجہ سے صفحہء ہستی سے مٹ چکے تھے……اور وہاں کے رہائشیوں کے جزبات ظاہر ہے امریکہ اور پاکستان حکومت کے خلاف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ حکومت ڈرون حملوں کے خلاف کوئی ایکشن لے مگرحکومت سے تو فقط زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ ہوتے نہ بنتا……

رہا بلوچستان …… تو وہاں بھی انڈیا کے اثر رسوخ نے عوام کو حکومت کے خلاف کاروائیوں میں بڑھاوا دیا …… اور حکومت کے پاس تو ہر شے کا حل عوام پر طاقت کے استعمال کے علاوہ اور کچھ نہ تھا…… لہذالوگوں کے جزبات اور بھی حکومت اور فوج کے خلاف بھڑکے ہوئے تھے۔یعنی پورا پاکستان جل رہا تھا ……
۔۔۔۔۔۔۔

کیمرے کے کلکس سے ہال گونج اٹھا…… لال سے رنگ کا خوبصورت گاؤن پہنے ذولفقار کی بہن سدرہ ریمپ پر کیٹ والک کر رہی تھی۔وہ پاکستان کی ٹاپ ماڈل بن چکی تھی…… اور صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا کی ماڈلنگ ایجنسیز کے ساتھ کام کرتی تھی۔

اس کے ریمپ پر قدم رکھتے ہی ہال تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا…… سدرہ اپنی کامیابی پر نازاں تھی۔
ایک مشہور ماڈل ہونے کے باعث بہت سے جانے پہچانے لوگوں سے اس کے تعلقات استوار ہو گئے تھے۔ ٹی وی کے پروگرامز میں آنا، کہیں ہوسٹنگ کرنا، کونسرٹس وغیرہ میں آنا جانا اس کے لئے روز مرہ کا معاملہ تھا۔

آج ایک بڑے ڈیزائنر کے ملبوسات لانچ ہو رہے تھے۔ بہت سی ماڈلز یہ اچھوتے اور نا مناسب لباس زیب تن کئے ریمپ پر والک کر رہی تھیں۔ ایک ایک آئے جاتی اور واپس ڈریسنگ روم میں چھپنے سے قبل ہی دوسری ریمپ پہ نمودار ہو جاتی……

’’آپ کو اپنے اس فیم کو کسی اچھے مقصد کے لئے بھی استعمال کرنا چائیے!!!‘‘ سادہ سی ساڑھی میں ملبوس ایک با وقار خاتون فیشن شو کے بعد سدرہ سے ملیں۔
’’ہی ہی ہی……بتائیے میں کیا کر سکتی ہو آپ کے لئے؟؟؟‘‘ سدرہ نے شوخی سے ہنستے ہوئے کہا۔ وہی جو ماڈلز کی ادائیں ہوتی ہیں……
’’میں ایک این جی او کی representativeہوں……‘‘
’’ہم UNOسے منسلک ہیں اور پاکستان میں مختلف…… ‘‘
’’مختلف قسم کے سماجی کاموں میں لگے ہوئے ہیں‘‘، انہوں نے کچھ سوچتے ہوئے بات آگے بڑھائی۔
’’یہ میرا کارڈ رکھ لیں‘‘۔ انہوں نے اپنا این جی او کا کارڈ سدرہ کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔
’’تھینک یو‘‘۔ سدرہ نے مسکرا کر کارڈ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔

ایک بڑے سے گھر میں جیسے عموماََ آرمی والوں کے ہوتے ہیں، یہ لوگ بیٹھے خوش گپیاں کر رہے تھے۔ ابھی ابھی عامر خان کی کوئی نئی فلم دیکھی تھی انہوں نے……
یہ ایک ماڈرن سی فیملی تھی۔ آرمی والوں کا طرز زندگی ویسے بھی عموماََ بہت ماڈن اور انگریزوں سے متاثر ہوتا ہے۔ پاکستانی تہذیب اور اسلامی اقدار کے مقابلے میں انگریز کی باقیات پر ہی ذیادہ توجہ ہوتی ہے۔

’’نہیں نہیں…… شور ذیادہ مچا ہوا تھا …… اندر سے فلم ڈبہ تھی……‘‘ سعد نے ایک انڈین فلم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ہِٹ ہو جائے گی یہ بھی…… عامر خان ہے نا……‘‘ میجر اشرف بولے۔ ’’بلکہ کما بھی گئی ہو گی اب تک……‘‘ وہ سعد کے بڑے بھائی تھے۔ ان کا موبائیل بجنے لگا۔
’’ہاں، پیسے پورے کر گئی ہو گی……‘‘ سعد نے بھی ان کی تائید کی۔ مگر میجر اشرف آرام سے اٹھ کر موبائیل ہاتھ میں لئے باہر گارڈن کے طرف نکلے۔کال پک نہ کی۔
سعد انہیں مشکوک نظروں سے دیکھنے لگا اور ان کے گارڈن میں قدم رکھتے ہی اپنی جگہ سے اٹھا اور کچن کی طرفگیا۔ اس کچن کا ایک دروازہ باہر گارڈن میں بھی کھلتا تھا۔وہ کچن کے اندر ہی کھڑا اپنے بڑے بھائی کی باتیں سننے کی کوشش کرنے لگا۔
’’ ابھی نہیں……‘‘
’’ٹائم لگے گا……‘‘
’’ابھی چل رہی ہے بات چیت……‘‘ سعد کو میجر اشرفکے ان ٹوٹے پھوٹے جملوں کے سوا اور کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔
اتنے میں ان کی آواز اور بھی مدھم ہو گئی۔ غالباََ میجر باغ میں چلتے چلتے کچن سے دور ہو گئے تھے۔سعد نے اپنے بھائی کی باتیں سننے کے لئے کچن کے دروازے سے بالکل کان لگا دئیے…… مگر بے سود……
پھروہ فوراََ ہی پیچھے کو ہٹ گیاکہ اگر کوئی اسے ایسا کرتے دیکھ لیتا تو اسے اس پر شک ہو جاتا۔
۔۔ ۔۔۔۔۔

پرل کونٹینینٹل ہوٹل میں ایک خاص تقریب کا اہتمام ہوا تھا۔شہر کے معروف لوگ اس میں شرکت کے لئے آئے تھے۔کئی حکومتی عہدیدار ، میڈیا کی شخصیات، کاروباری حضرات، شوبز سے منسلک اداکار وغیرہ……

یہ ایک امریکی این جی اوکی سالانہ ڈنرپارٹی تھی ۔این جی او کے ڈائریکٹر ڈائس کے پیچھے کھڑے لوگوں سے خطاب کر رہے تھے۔ وہ امریکی ہی تھے اور وہیں سے اس پارٹی میں شرکت کرنے آّئے تھے۔
’’میں بہت فخر سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے اپنے تمام تر گولز ،پچھلے سال کے حاصل کر لئے ہیں‘‘
’’ہمارے ممبرز…… ہمارے…… ‘‘ہال میں تالیاں گونجنے لگیں جس کے باعث وہ اپنا اگلہ جملہ کہتے کہتے رک گئے۔
’’ہمارے ممبرز کا میں سچے دل سے شکرگزار ہوں…… جن کی انتھک محنت اور دل لگی کی وجہ سے ایسا ممکن ہوا‘‘۔
’’آج امریکیوں اور پاکستانیوں کے درمیان بہت سی غلط فہمیاں ہیں……‘‘
’’ پاکستانی ہمارے بھائیوں کی طرح ہیں‘‘
’’ہمیں مل کر پاکستان میں امریکی مخالف جزبات کو ٹھنڈا کرنا ہو گا…… یہی ہمارے اس سال کا اہم ترین ٹارگٹ ہے‘‘
تقریر یونہی چلتی رہی۔
آخر میں انہوں نے این جی او کے نئے ممبران کا تعارف کرانا شروع کیا۔ جن میں سب سے پہلا نام پاکستان کی ٹاپ ماڈل سدرہ کا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔

ذولفقار اور زیبا کی شادی کو چار سال ہو گئے تھے۔ ان کا ایک بیٹا بھی تھا۔ وہ ایک مطمئین ازواجی زندگی گزار رہا تھا۔ اب وہ تنظیم کا ایک اہم اور ایکٹو ممبر بھی بن گیا تھا۔ اپنے جزبے اور دل لگی کے باعث اس کے الفاظ میں خلوص اور ایک کشش موجود تھی۔ وہ تنظیم میں بھی اور اپنی یونیورسٹی میں بھی اور جہاں کہیں بھی بن پڑتا اپنی دعوت لوگوں تک پہنچاتا تھا۔اُس کی اِس کوشش کے باعث کئی لوگ اُن کے اِس مشن میں اُن کے ساتھ شامل ہو گئے…… یعنی نفاذ شریعت کی جدوجہد میں……

’’تم کتاب(قرآن) کے کچھ حصّے کو مانتے ہواور کچھ کا انکار کر دیتے ہو!!!‘‘
’’تو جو کوئی تم میں سے ایسا کرے گا اس کی سزا اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ اسے دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار کر دیا جائے اور قیامت کے دن شدید ترین عذاب میں جھونک دیا جائے …… اور اﷲ اس سے بے خبر نہیں ہے جو کچھ کہ تم کرتے ہو‘‘ سورۃ البقرہ آیت ۸۵
’’ تم اﷲ کے کچھ حکم مانتے ہو اور کچھ سے منہ پھیر لیتے ہو……‘‘ ذولفقار ایک محفل میں لیکچر دے رہا تھا۔
’’نمازیں پڑھتے ہو اور سود بھی کھاتے ہو!!‘‘
’’سزائے موت ختم کرتے ہو اور شریعت پر کیچڑ اچھلتے ہو……‘‘
’’بے نظیر بھٹو کہہ چکی ہیں کہ اسلام کی سزائیں وحشیانہ ہیں…… معاذ اﷲ، اﷲ کی متعین کردہ سزاؤں کو وحشیانہ کہا جاتا ہے اور تم انہی سیاسی جلسوں میں بھنگڑے ڈالتے ہو؟؟؟ پھر رسول اﷲ ﷺ سے عشق کے دعوے کرتے ہو……ساری ساری رات نعتیں پڑھتے ہو؟؟؟‘‘
’’ اﷲ اور رسول اﷲﷺ کو دھوکہ دیتے ہو!!!‘‘
’’شرم آنی چائیے ایسے نام نہاد مسلمانوں کو……‘‘
’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ نہ کہ اپنے من پسند کچھ احکامات کو پکڑ کراپنا دین بنا لو!!!‘‘
’’اﷲ کی اطاعت ہو…… کُل کی کُل……‘‘

ذولفقار کی حق گوئی و بے باکی رنگ لا رہی تھی۔ کئی ایک یونیورسٹی کے اساتذہ اور طالب علم اس سے متاثر تھے۔ ایسے ہی افراد میں ایک لڑکا سعد بھی تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

ذولفقار اپنا لیکچر دے آیا تھا۔ وہ اکثر شام کے اس پہر ساحلِ سمندر پر آ بیٹھتا تھا۔ بڑا پیارا موسم تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی تازہ ہوا چل رہی تھی۔ ارد گرد کے مسحور کن ماحول نے اسے خوش کر دیا ۔ وہ ایک بینچ پر بیٹھا بیٹھا مسکرانے لگا۔ اب تو اس کے ذہن پر بس یہی سوچ سوار رہتی تھی کہ اﷲ کے دین کا کام ہو جائے…… اس کی زندگی کا رخ بالکل بدل گیا تھا۔ کبھی کبھار وہ اپنے عجیب و غریب ماضی کے بارے میں سوچتاتو خود ہی حیران رہ جاتا۔

اس نے اپنے لیپ ٹاپ بیگ میں سے ایک چھوٹا سا ترجمے والا قرآن مجید نکالااور اسے پڑھنے لگا۔
’’اﷲ جسے چاہتا ہے منتخب کر کے اپنی طرف کھینچ بلاتا ہے ۔ اور جو اس کی طرف رجوع لاتے ہیں ان ہی کو اپنے تک پہنچنے کا سیدھا رستہ دکھا دیتا ہے‘‘۔سورۃ الشوری ۔آیت ۳۱

’’السلام علیکم!‘‘ایک گہری سی آواز ذولفقار کے کانوں سے ٹکرائی۔یہ مغرب سے کوئی آدھے ایک گھنٹے پہلے کا وقت ہو گا۔
’’و علیکم السلام و رحمتہ اﷲ‘‘ اس نے جھٹ سے سر اٹھا کر دیکھا اور سلام کا جواب دیا۔
اس کے دائیں جانب ایک خوبصورت با وقار چالیس بیالیس سالہ شخص سفید رنگ کی شلوار قمیص پہنے کھڑا تھا۔بڑا اچھا قد اور طاقت ور جسم…… چہرے پر سنت کے مطابق داڑھی تھی ، جو بہت سوٹ کر رہی تھی…… ذولفقار بے اختیار ان کے احترام میں کھڑا ہو گیا۔
’’بیٹھئے بیٹھئے‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ حضرت خود بھی اسی بینچ کی ایک طرف بیٹھ گئے جس پر ذولفقار بیٹھا تھا۔ پھر ذولفقار کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرائے۔
ذولفقار بھی جواب میں مسکرا دیا۔ وہ حیران تھا اور ان حضرت کی گہری آنکھوں میں ڈوب سا گیا تھا۔
’’سبحان اﷲ!‘‘ انہوں نے اﷲ کی تسبیح بیان کی۔ ذولفقار تشویش اور حیرانی کے ملے جلے تاثرات اپنے چہرے پر لئے ان کی طرف متوجہ تھا۔
’’ماشاء اﷲ!‘‘ انہوں نے سامنے گہرے نیلے سمندر کی طرف دیکھتے ہوئے پھر کہا۔
’’آپ آتے رہتے ہیں یہاں؟‘‘ ذولفقار نے کچھ بات کرنی چاہی۔
’’میں تو ہر جگہ پھرتا رہتا ہوں……‘‘
’’کبھی یہاں…… کبھی وہاں…… ‘‘
’’کبھی اِس پار تو کبھی اُس پار……‘‘ انہوں نے سمندر کے بارے میں کہا۔’’جہاں کہیں بھی اﷲ چاہے‘‘۔
ذولفقار سوچ میں پڑ گیاکہ یہ کیا باتیں ہیں۔ وہ کچھ سنبھل کر بیٹھ گیا کہ نا جانے کون انجان ہے اور کیا کہہ رہا ہے۔اسے اپنے چہرے پر مسکراہٹ قائم رکھنا مشکل لگ رہاتھا۔
کچھ دیر خاموشی طاری رہی۔نہ جانے کیوں وہ گھبرانے لگا۔
’’……نا جانے کتنے زمانوں سے…… اﷲ ہی خوب جانتا ہے‘‘۔ انہوں نے اپنی بات آگے بڑھائی کہ جانے کتنے زمانوں سے اس جہاں میں سر کردہ ہیں۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اُن کے اپنے اندر ہی کوئی سمندر بسا ہواہو۔انہوں نے آسمان و زمین اور دور سمندر کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔
’’کتنا اچھا موسم ہے نا آج……‘‘ ’’یہاں‘‘۔ انہوں نے کچھ توقف کے بعد اپنے جملے میں لفظ ’’یہاں‘‘ کا اضافہ کر دیا جیسے تمام جہان کے موسم کا حال جانتے ہوں۔
ذولفقار چپ سادھے ٹکٹکی باندھے انہیں دیکھ رہا تھا۔ ’’سبحان اﷲ!‘‘ بے اختیار ان کا چہرا دیکھ کر اس کے منہ سے نکلا۔ ایسا نورانی چہرا اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ذولفقار نے جو قرآن مجید اپنے ہاتھوں میں تھاما ہوا تھا اپنی گرفت اس پر اور بھی مضبوط کر لی۔ اس کے ہاتھوں نے خود باخود ہلکا ہلکا کپکپانا شروع کر دیا۔ اسے ان کی قربت سے سردی سی لگنے لگی۔ وہ ڈر گیا تھا۔
’’ڈرو مت……‘‘
’’پاک سرشت لوگ تو ہم سے مل کر مطمئین ہو جایا کرتے ہیں…… ڈرا نہیں کرتے‘‘ حضرت خضرؑ بول پڑے۔
’’ہم تو بے ضرر ہیں…… اﷲ کے اذن کے بغیر کسی کو کچھ نہیں کہتے…… ہاں، جب اﷲ کا حکم ہوتا ہے تو کسی کو چھوڑتے نہیں……‘‘ ۔
ذولفقار پر ایک انجانی کیفیت طاری ہو گئی جو اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔اس نے اپنے دونوں بازو اپنے سینے سے لگا لئے اور قرآن مجید کو اپنے آپ سے چمٹا لیا۔
’’یا اﷲ!‘‘ اس کے منہ سے نکلا۔ وہ پہچان گیا تھا کہ اس کا سامنا کِس ہستی سے ہو گیا ہے ……اس ہستی سے جو اپنے علم میں موسی ؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر پر بھی حاوی ہو گئی تھی۔
حضرت خضر ؑ نہایت اطمینان سے بیٹھے اپنی تسبیح کرنے لگے۔ اور یونہی کافی دیر گزر گئی۔
ذولفقار بھی دل دل میں اﷲ کا ذکر کرتا رہا۔جب کچھ حالت سنبھلی تو انہیں چھُپ چھُپ کر نظر اٹھا کر دیکھنے لگا۔
اسی طرح کافی وقت بیت گیا، مغرب ہونے کو ہی تھی۔ اس کے ذہن میں بہت سی باتیں آنے لگیں۔ وہ سوچنے لگا کہ ان سے کیا کہے اور کیا چھوڑے۔
ذولفقار کا دل بھر آیا۔’’یہ سب کیا ہو رہا ہے؟؟؟‘‘ اس نے با مشکل سوال ڈالا۔
’’اﷲ ……اﷲ کے کارندوں …… اﷲ والوں سے دنیا بھری پڑی ہے…… پھر یوں کیوں نظر آتا ہے کہ سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا ہے؟؟؟‘‘ ’’ طاغوت ہر سو چھا گیا ہے!!!‘‘ ذولفقار حضرت خضر ؑ سے مخاطب ہوا۔ اس کا اندازِ کلام نا امیدی سے بھرا ہوا تھا۔ جیسے وہ ابھی گھُٹ گھُٹ کر رونے لگے گا۔
’’کیا ہم صحیح رستے پر ہیں!!! ہم جس جدوجہد میں لگے ہیں…… کیا ممکن ہے؟؟ ہماری ساری زندگی ایک نا ممکن مقصد کے لئے ضائع تو نہیں ہو جائے گی؟؟؟‘‘
’’زندگی کا راز کیا ہے؟ سلطنت کیا چیز ہے؟
اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش؟‘‘
ذولفقار خضر ؑ کے جواب کا منتظر ہوا۔
’’یہ دما دم جدوجہد ہی تو زندگی کی شان ہے!!!‘‘ حضرت خضرؑبول پڑے۔
’’…… بے مقصد جینا بھی کیا جینا!!!‘‘
’’کسی کام کا ہونا نہ ہونا تیرے ہاتھ میں نہیں ہے…… مگر تجھے اﷲ کے لئے اپنا تن من دھن لگا دینا ہے‘‘۔
’’پختہ تر ہے گردشِ پیہم سے جامِ زندگی
ہے یہی اے بے خبر! رازِ دوام ِ زندگی
بر تر از اندیشہء سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں ……اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی

تُو اسے پیمانہء امروز و فرداسے نہ ناپ
جاویداں ،پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی! (یعنی موت تو بس ایک وقفہ ہے۔ زندگی تو پھِر شروع ہو گی……اسے دنوں مہینوں میں نہ ناپ)

’’یہ جمہوریت کا شور…… بادشاہت…… کمیونزم…… سب بیچارے غریبوں کو دبائے رکھنے کے نت نئے طریقے ہیں……‘‘’’ سرمایہ دار …… حاکم و ظالم طبقہ کبھی بھی اپنے مفادات اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے گا…… ‘‘
’’ہاں اسی آمریت کو نئے نئے رنگ دے کر پھر کسی روپ میں تم پر مسلط ہو گا‘‘
’’ کیاتم دیکھتے نہیں اپنے سیاستدانوں کا ماضی، حال……!!!‘‘
’’جونہی کسی محکوم کا خون جوش میں آتا ہے…… یہی جمہوریت،این جی او، human rights وغیرہ کے نام پر میٹھی میٹھی نیند کی گولیاں اس آذادی کے متوالے کو دے کر پھر سُلا دیا جاتا ہے‘‘
’’یا پھر وہ بیچارہ اسے ہی بہترین نظامِ حیات سمجھ کر اپنا سب کچھ اسے پختہ کرنے میں وقف کر دیتا ہے‘‘۔
’’خواب سے بیدار ہوتا ہے زرا محکوم اگر
پھِر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے اسے آزادی کی نیلم پری (جمہوریت کے لباس میں ظلم و ستم کے جن یا دیو کو تم آزادی کی نیلم پری سمجھ رہے ہو)

مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طبِ مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری (سب تمہیں بے وقوف بنانے کے لئے ڈرامہ ہے۔ تاکہ غریب عوام عروج حاصل کرنے کی جدوجہد نہ کریں)۔

اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے نا داں! قفس کوآشیاں سمجھا ہے تو

’’تمہاری جدوجہد ضرور رنگ لائے گی…… پر یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار دنوں کی بات نہیں…… لگے رہو اﷲ کی راہ میں…… کھپا دو اپنا آپ……‘‘
اٹھ کے اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

’’ہم چند لوگ ہیں!‘‘ ذولفقار بولا۔
’’ مادہ پرستی اپنے عروج پر ہے…… نوجوان مغرب کی اندھی تقلید کر رہے ہیں…… جس سمت زمانے کا دھارا بہتا ہے وہیں بے قابو ہوئے نکل جاتے ہیں……‘‘ ذولفقار دل برداشتہ ہو رہا تھا۔
’’مسلمان متحد نہیں…… بلکہ بے دین حکومتوں سے مل کر اسلام کی ہی جڑیں کاٹ رہے ہیں……کیا سعودیہ عرب، کیا پاکستان، کیا ایران، کیا ترکی……!!!‘‘
’’ہر جگہ مسلمان کا خون بہہ رہا ہے……اﷲ کا نام لینے والا ذلیل و خوار کیوں ہے؟؟؟‘‘

’’ہونھہ……‘‘ایک طنز بھری مسکراہٹ خضر ؑ کے ہونٹوں پر تھی۔’’حکمتِ مسلمانی عیسائی لے جائیں تو اس کی برکتیں بھی پائیں!!!‘‘
’’عدل ہے فاطرٍ ہستی کا ازل سے دستور
مسلم آئین ہوا کافر تو ملے حو ر و قصور‘‘

’’ مسلمان ایسا زنگ آلود ہو گیا ہے کہ……‘‘ انہوں نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑا۔
’’جب کسی عمارت کو نئے سرے سے تعمیر کرنا ہوتا ہے تو پرانی عمارت ڈھا دی جاتی ہے…… یہی کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے……‘‘
’’بس دین میں پورے کے پورے داخل ہونے میں ہی عروج ہے‘‘۔ حضرت خضر ؑ نے آخری بات کہہ دی۔

اٹھو! میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمرا کے در و دیوار ہلا دو (حاکموں کے در و دیوار)
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقین سے
کنجشکِ فرو مایہ کو شاہیں سے لڑا دو (جو ابھی کمزور عوام ہے اسے طاقتور و ظالم حکمرانوں سے ٹکرانا ہو گا)
جِس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روٹی(کسان کو)
اُس کھیت کے ہر خوشہء گندم کو جلا دو

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے؟
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو

حق رابسجودے، صنماں را بطوافے (اﷲ کے آگے سجدہ بھی کرتے ہو! ساتھ ساتھ بتوں کا…… کافرانہ نظام کا طواف بھی کرتے ہو!)
بہتر ہے چراغِ حرم و دیر بجھا دو

میں ناخوش و بیزار ہوں مَر مَرکی سِلوں سے
میرے لئے مٹی کا حرم اور بنا دو!

جہاں اگرچہ دگرگوں ہے، قُم باِذن اﷲ (اُٹھ اﷲ کے حکم سے)
وہی زمیں وہی گُردوں ہے، قُم باذن اﷲ

کیا نوائے انا الحق کو آتشیں جس نے
تیری رگوں میں وہی خوں ہے، قُم باذن اﷲ

جس لکڑی کے بینچ پر وہ بیٹھے تھے اُن کے اٹھتے ہی وہ لکڑی ہری ہو گئی اور اس میں سے چھوٹی چھوٹی کونپلیں نکل آئیں۔
خضر کا تو مطلب ہی ہے ’’سبز‘‘…… یعنی سر سبز و شاداب……
۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 85381 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More