ٹیکس اور گھوٹالے

 دنیا میں70.8فیصد پانی ہے اور29.2 فیصد زمین ہے جہاں پر انسان رہتا ہے اور صفت یہ ہے ہم جہاں رہتے ہیں اُس زمین کے نیچے بھی پانی ہے ۔ پانی کی اتنی فراوانی ہونے کے باوجود سب سے مہنگا پانی ہم کو ملتا ہے۔اس کی درجہ پندی توہم نہیں کر سکتے کہ پانی حاصل کرنے کے لیے کتنا پیسہ ٹیکس کی شکل میں ہم جل نگم یا جل سنستھان کو دیتے ہیں اور کتنا پیسہ ہم بجلی میں خرچ کرتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ بغیر ’ٹُلّو‘ کی مدد کے نل سے ایک گلاس کا پانی بھی ہم نہیں حاصل کر سکتے۔ ٹیکس ہماری زندگی ساتھ بہت مضبوطی سے جُڑاہے۔ہم ہر پل اور ہر لمحہ ٹیکس کی ادائگی کرتے رہتے ہیں، ہم کو پتہ بھی نہیں چلتا ہے۔آپ کو یقین نہیں آرہا ہے ’کنگن ہاتھ کو آرسی کیا، پڑھے لکھے کو فارسی کیا‘آپ خود دیکھ لیں۔

اگر کوئی شخص تجارت کر رہا ہے تواسے ’پروفیشنل ٹیکس‘ ادا کرنا ہے۔اگرتجارت میں سامان بیچ رہا ہے تو’سیلس ٹیکس‘ دینا ہوگا۔اگر سامان دوسرے صوبوں یا غیر ممالک سے منگایا جاتا ہے تو ’سنٹرل سیلس ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی اور چنگی‘ ادا کرنی ہوگی۔ سامان بیچ کراگر آپ منافع اُٹھاتے ہیں تو ’انکم ٹیکس ‘ دیجئے۔اگر منافع کو بانٹا جاتا ہے تو’ڈیویڈنٹ ڈسٹریبیوٹ ٹیکس‘ دینا ہوگا۔اگر سامان فیکٹری میں تیار کراتے ہیں تو’اکسائز ڈیوٹی‘ دیں۔اگر آپ کسی آفس کے یا گودام یا فیکٹری کے مالک ہیں تو’میونسپل اور فائر ٹیکس‘ دینے کے لیے تیار رہیں۔اگر آپ کے آفس میں اسٹاف ہے تو’اسٹاف پروفشنل ٹیکس‘ تو ادا ہی کرنا ہوگا۔اگر تجارت دس لاکھ کا ہے تو’ٹرن اوور ٹیکس‘ ادا کرنا ہوگا ورنہ ’منمم الٹر نیٹ ٹیکس‘ دینا ہوگا۔اگر پچیس ہزار روپئے سے زائد بینک سے اسٹاف کی تنخواہ کے سلسلہ میں لیا ہے تو ’کیش ہینڈلنگ‘ ادا کرنا ہوگا۔آپ اپنے مؤکل کو کھانا کھلانے اگر ہوٹل میں لے جاتے ہیں تو’فوڈ اور انٹرٹینمنٹ ٹیکس‘ بھریں۔اگر تجارت کے سلسلہ میں کہیں باہر جا رہے ہیں تو’اضافی سہولت ٹیکس‘ادا کریں۔اگر کسی سے کسی طرح کی خدمات لی ہیں تو ’سروس ٹیکس‘ لگے گا۔اگر کہیں سے بڑی رقم تحفہ کی شکل میں ملتی ہے تو’گفٹ ٹیکس‘ دیں۔آپ کے پاس جائداد تو ہوگی ہی اور ’ویلتھ ٹیکس‘ تو ادا ہی کر رہے ہوں گے۔ذہنی سکون کے لیے کسی تفریح گاہ میں جاتے ہیں ’انٹر ٹینمنٹ ٹیکس‘ ادا کیے بغیر نہیں جا سکتے۔اگر اپنے رہنے کے لیے ایک گھر خریدا ہے تو’اسٹیمپ ڈیوٹی اور رجسٹریشن فیس‘ ادا کیے بغیرآپ مکان کے مالک نہیں بن سکتے۔بس سے سفر کرنے پو’سرچارج‘ دینا ہوگا۔سبھی مرکزی حکومت کے ٹیکس میں’ایجوکیشنل اور سر چارج ‘ تو دینا ہی رہتا ہے۔اگر کسی ٹیکس کی ادائگی میں تاخیر ہوتی ہے تو پریشان مت ہوں’سود کے ساتھ جرمانہ ‘ کا دروازہ آپ کے لیے کھلا ہوا ہے۔

اتنے ٹیکس ادا کرنے کے بعدکیا ضروری ہے کہ زندہ رہا جائے۔تو اس کے لیے مشورہ یہ ہے کہ تھوڑا انتظار کر لیں’ تجہیزٹیکس ‘ پر وچار ومرش چل رہاہوگا ۔

حقیقت میں جو ٹیکس ہم لوگ ادا کرتے ہیں وہ دو طرح کے ہوتے ہیں:۱۔براہ راست(Direct) اور ۲۔ بلاواسطہ(Indirect)۔
الف: براہ راست ٹیکس(Direct Tax)یہ پانچ عدد ہوتے ہیں:
۱۔انکم ٹیکس(Income Tax): جن کی کُل آمدنی قابل ٹیکس حد سے زیادہ ہوتی ہے، اُس وقت کی لاگو شرح کے حساب سے انکم ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔یہ شرحیں وقت بہ وقت بدلتی رہتی ہیں۔موجودہ سال 2015-16 کی شرح حسب ذیل ہے:
آمدنی
ٹیکس کی شرح
2,50,000.00 تک
کچھ نہیں
,2,50,001.00سے لیکر 5,00,000.00تک
۱۰؍ فی صد
/5,00,001.00سے لیکر 10,00,000.00تک
۲۰؍ فی صد
210,00,001.00سے لیکر 1,00,00,000.00تک
۳۰؍ فی صد
1,00,00,000.00سے اوپر
2۳۰؍ فی صد+۱۰ فی صدسر چارج
;۶۰؍ سال سے اوپر والوں کے لیے
3,00,000.00
کچھ نہیں
03,00,001.00 سے لیکر 5,00,000.00تک
۱۰؍ فی صد
/5,00,001.00سے لیکر 10,00,000.00تک
۲۰؍ فی صد
210,00,001.00سے لیکر 1,00,00,000.00تک
۳۰؍ فی صد
1,00,00,000.00سے اوپر
2۳۰؍ فی صد+۱۰ فی صدسر چارج

a۲۔ سرمایہ پر منافع کا ٹیکس(Capital Gains Tax) : کم مدت میں سرمایہ پرمنافع حاصل کرنے پر ٹیکس واجب ہو جاتا ہے۔مثال کے طور پر کوئی 1000/-روپئے کے فی شیئرخریدتا ہے۔دو ماہ کے بعد اس کی قیمت بڑھ کر 1200/-ہو جاتی ہے۔200/-روپئے کا منافع فی شیئرہو رہا ہے۔یہ منافع ’کیپٹل گین ٹیکس ‘ کاٹا جائے گا جس پر دس فی صدٹیکس واجب الادا ہوگا۔

۳۔ سیکورٹیز ٹرانزکشن ٹیکس(Securities Transaction Tax): بہت سے لوگ کیپٹل گین ٹیکس بچانے کے لیے اپنے منافع کا اعلان نہیں کرتے ہیں جبکہ حکومت کو اس منافع پر ٹیکس چاہیے اس کے مد نظر حکومت نے سیکورٹیز ٹرانزکشن ٹیکس(Securities Transaction Tax) کا نفاذکیا ہے جو اسٹاک اکسچینج کے ہر معاملہ پرلاگو ہوگا۔

۴۔پرکیوزٹ ٹیکس:(Perquisite Tax): اس سے پہلے اس ٹیکس کا نام Fringe Benefit Tax تھا یعنی رخصت مع تنخواہ جسے ۲۰۰۹؁ء میں ختم کر دیا گیا تھا۔یہ ٹیکس مالک کی طرف سے ملازم کو دیے گئے سہولت میں سے لیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر کمپنی اپنے ملازم کو کار مع ڈرایؤر،کلب کی ممبر شپ،امپلائی اسٹاک اونرشپ پلان (ESOP) وغیرہ پر یہ ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔

۵۔ کارپوریٹ ٹیکس:(Corporate Tax) بھارت میں کارپوریٹ کمپنی چلانے پرسالانا ٹیکس دینا ہوتا ہے۔ٹیکس کے معاملہ میں ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں میں فرق ہے۔

ب: پندرہ عدد بلاواسطہ ٹیکس(Indirect Tax)
۶۔سیلس ٹیکس:(Sales Tax) یہ ٹیکس منقولہ سامان پر لیا جاتا ہے۔جو سامان ایک صوبہ سے دوسرے صوبہ میں جاتا ہے اس کا ٹیکس مرکزی حکومت لیتی ہے اور جوسامان صوبہ کے اندر ہی ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں جاتا ہے اس کا ٹیکس صوبائی حکومت لیتی ہے جس کا نام اب ’ویٹ(VAT)‘ہے
۷۔سروِس ٹیکس:(Service Tax) مختلف قسم کی خدمات انجام دینے والوں سے یہ ٹیکس حاصل کیا جاتا ہے ۔جیسے ’ٹیلیفون‘، ’ٹور آپریٹر‘، ’آرکیٹکٹ‘، ’انٹیرئر دیکوریٹر‘، ’ ایڈورٹائزنگ‘،’بیوٹی پارلر‘، ’ہلتھ سنٹر‘، ’ بینکنگ اور فائننسیئل سروسز‘،’ایونٹ مینجمنٹ‘، ’مینٹیننس سروِس‘ اور ’کنسلٹنسی سروسز‘ وغیرہ ۔موجودہ وقت میں ان خدمات پر ٹیکس ۱۴؍فی صد ہے۔

۸۔ ویلو ایڈڈ ٹیکس Value Added Tax) یعنی (VAT : سیلس ٹیکس ریاستی حکومتوں کی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ اس ٹیکس سے متعلق ہر ریاستی حکومت کے الگ قانون ہیں اور ہر جگہ کا ٹیکس مختلف ہوتا ہے۔ یہ ٹیکس مرکزی حکومت اشیاء کی بکری پر لاگو کرتی ہے اور اسی کو ’ویٹ‘ کہتے ہیں۔’ویٹ‘ کی در اشیا ء کی قسم اور صوبائی حکومت پر منحصر ہوتی ہے۔حکومت اس بات پر غور کر رہی ہے کہ ’سروس ٹیکس ‘اور ’سیلس ٹیکس‘ ضم کر کے ’گُڈس سروس ٹیکس(GTS)‘ کر دیا جائے۔
۹۔ اشیا پر کسٹم دیوٹی اور چنگی:(Custom duty & Octroi On Goods) بھارت میں کسٹم ڈیوٹی درامد شدہ سامان پر بالواسطہ وصولے جانے والے ٹیکس کی ایک قسم ہے جو غیر ممالک سے بھارت میں سامان لانے والے کوعموماً بندر گاہ یا ہوائی اڈّے پرادا کرنا ہوتاہے۔یہ محصول درامد کیے جانے والے سامان کی قسم پر منحصر ہوتا ہے۔نگر پالیکا کے حدود میں داخل ہونے پر بھی چنگی پڑے گی۔

۱۰۔ اکسائز ڈیوٹی:(Excise Duty) یہ ایسے ٹیکس کی قسم ہے جو ملک کے اندر تیار کیے جانے والے سامان پردینا ہوتا۔اس ٹیکس کا دسرا نام ہے CENVAT (Central Value Added Tax).
۱۱۔اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی:(Anti Dumping Duty) کوئی سامان ایک ملک سے دوسرے ملک میں معمول قیمت سے کم قیمت پر بھیجا جاتا ہے۔ یہ تجارت کا غلط طریقہ ہے جس کا اثر بین الاقوامی تجارت پڑتا ہے۔اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے مرکزی حکومت ’اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی‘لگاتی ہے جوڈمپنگ کی مارجن سے زیادہ نہ ہو۔
۱۲۔پروفشنل ٹیکس(Professional Tax): اگر آپ پیشہ ورانانہ کما رہے ہیں تو آپ کو پروفشنل ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔یہ ٹیکس متعلقہ کارپوریشن کی طرف سے عائد کیا جاتا ہے۔بھارت کے بہت سے صوبے یہ ٹیکس وصولتے ہیں۔نجی اداروں میں کام کرنے والے کو یہ ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے جو ان کی تنخواہ سے ہر ماہ کاٹ لیا جاتا ہے۔ انکم ٹیکس کی طرح لازمی ہے جس کی در ہر صوبے میں مختلف ہے۔
۱۳۔لابھانش تقسیم ٹیکس :(Dividend distribution Tax) کمپنی کے سرمایہ کاروں کو دیے جانے والے ڈیوڈنٹ کے مطابق مرکزی حکومت ٹیکس عائد کرتی ہے۔اس وقت ’ڈیویڈنٹ ڈسٹریبیوشن ٹیکس کی در ۱۵؍فی صد ہے۔
۱۴۔ میونیسپل ٹیکس:(Municipal Tax) ہر شہر میں ’نگر نگم‘ یہ ٹیکس نافظ کرتی ہے۔جائداد کے مالک کو یہ ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔اس ٹیکس کی در ہر شہر میں مختلف ہوتی ہے۔
۱۵۔ تفریحی ٹیکس:(Entertainment Tax) تفریحی پروگراموں جیسے فلم،سرکس،نمائش،کیبل خدمات پریہ ٹیکس صوبائی حکومت نافظ کرتی ہے۔
۱۶۔ اسٹامپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس، ٹرانسفر ٹیکس:(Stamp Duty,Registration Fees,Transfer Tax) اگر آپ قیمت ادا کر کے کوئی جائداد خریدرہے ہیں تو کچھ اضافی قیمت بھی خرچ کرنی ہوگی تاکہ جائداد آپ کے نام منتقل ہو سکے۔رجسٹریشن فیس، اسٹامپ ڈیوٹی اور ٹرانسفر ٹیکس کی شکل میں یہ اضافی قیمت ہوگی تبھی آپ اُس جائداد کے مالک بن سکیں گے۔یہ خرچہ جائداد کی قسم اور جگہ پر منحصر ہوتا ہے۔
۱۷۔ تعلیمی محصول و سر چارج:(Education Cess,Surcharge) یہ تعلیمی محصول بھارت کے غریب لوگوں کی تعلیم کے لیے عموماً ’انکم ٹیکس‘، ’ اکسائز ڈیوٹی‘ اور سروِس ٹیکس سے حاصل کیا جاتا ہے۔یہ کُل ٹیکس کاصرف ۳؍ فی صد ہوتا ہے۔
۱۸۔ گفٹ ٹیکس:(Gift Tax) اگر آپ کو کسی سے کوئی تحفہ ملتا ہے اور اس سے آپ کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے تو اس پر ٹیکس واجب ہوگا جس کو ’گفٹ ٹیکس‘ کہتے ہیں۔یہ ٹیکس سال میں پچاس ہزار سے زیادہ کے تحفہ پرلگتا ہے۔
۱۹۔ولتھ ٹیکس:(Wealth Tax) یہ ٹیکس مشخص الیہ (Assessee)سے اس کی کُل دولت جو تیس لاکھ سے اوپرہونے پرایک فی صدکے حساب سے لیا جاتا ہے۔ حالانکہ ۲۰۱۵؁ء کے بجٹ میں یہ ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے اور اس کی جگہ پر۱۲؍فی صد سر چارج کسی بھی شخص کی ایک کروڑ اور اس کے اوپر کی آمد نی پر لیا جائے گا۔
۲۰۔ چنگی:(Toll Tax) قومی شاہراہوں پر’ٹول پلازا‘ بنا کر یہ ٹیکس وصولا جاتا ہے۔
ان ٹیکسوں کی مار کی شدّت کو کم کرنے کے لیے ہم وکیلوں کی مدد بھی لیتے ہیں جن کے بارے میں اکبر الہٰ آبادی کہہ گئے ہیں ؂
پیدا ہوئے وکیل تو ابلیس نے کہا

لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
)بہر حال وکیل جانیں اور اکبرؔ جانیں میں تویہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ وکیل صاحبان ٹیکس دہندہ کی مدد ان کا ٹیکس بچا کر ، ان کی’ بلیک منی‘ کو سفید کر کے، کرتے رہتے ہیں ۔لیکن وکیل صاحبان پر سرکار کوئی ٹیکس نہیں لاد سکی۔ابھی کچھ سال پہلے حکومت نے وکیل صاحبان پر ’سروس ٹیکس‘ لگایا تھالیکن حکومت ہار گئی کیونکہ جج صاحبان بھی پہلے وکیل ہی ہوتے ہیں لیکن ایک ’حجّام‘ جو سر کے بال ہی مونڈتا ہے وہ ’سروس ٹیکس ‘ ادا کرتا ہے۔

ٹیکسوں کے بارے میں چونکہ حکم سرکاری ہے لہذااس کی ادائگی ہمارے لیے مجبوری ہے اور یہ مجبوری ہم خوشی خوشی برداشت کرتے ہیں۔کوئی بھی انسان اگرکار خریدتا ہے تو اُسے کار کی قیمت کے علاوہ دس سالہ روڈ ٹیکس پیشگی میں لے لیا جاتا ہے۔لیکن جب ہم کسی بھی ’راج مارگ‘ پرجائیں گے تو تقریباً ہر ساٹھ کلومیٹر کے وقفے پر ہم کو ’ٹول پلازا‘ ملے گاجہاں پر ہم کوگاڑی کا چڑھاوا چڑھاناہوتا ہے۔مثال کے طور پرچھوٹی کار کے لیے سو روپۓ۔ گاڑی بڑی ہوتی جائیگی،چڑھاوا بڑھتا جائے گا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر گاڑی کاایک بار میں روڈ ٹیکس جمع کر لیا جاتا ہے تو پھر یہ مزید چپت کیوں لگائی جاتی ہے۔لیکن وہ سرکار ہے چپت کے ساتھ اور بہت کچھ لگا سکتی ہے اور کہنے کو ہمیں لوگوں کی سرکار ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ صرف ہم لوگ ہی چپت کھاتے ہیں۔سرکار میں بیٹھے ہوئے لوگ بھی سرکار کو بڑی تگڑی چپت لگاتے رہتے ہیں جسے ’گھوٹالا‘ کا نام دیا گیا ہے۔سن ۲۰۱۵؁ء کے ابھی صرف سات ماہ گزرے ہیں اور گیارہ عدد گھوٹالے سامنے آئے ہیں۔لے دے کر چھوٹ جانے والے گھوٹالوں کا تو کوئی ذکر ہی نہیں۔جو بد قسمت ہوتے ہیں اور پکڑ لیے جاتے انہیں کی جانکاری ہو پاتی ہے۔ پکڑے جانے والے بھی چھوٹ ہی جاتے ہیں۔ باقی شاہ بنے ٹہلا کرتے ہیں۔ ان گھوٹالوں میں استعمال ہونے والا روپیہ ہمیں لوگوں کی گاڑھی کمائی کاہے جو ٹیکس کی شکل میں لیا جاتا ہے۔

حکومت ہماری گاڑھی کمائی کو نا اہل لوگوں کے قبضہ میں دیکراطمنان سے سو جاتی ہے تو وہ پھر گھوٹالا نہ کریں تو کیا کریں؟ اور جب گھوٹالا پکڑ میں آجاتا ہے تو کہا جاتا ہے ’اس کی جانچ کرائی جائے گی اور کسی کو بخشا نہیں جائے گا‘ لیکن ’جے للیتا‘ پھر وزیر اعلی بن جاتی ہیں۔
Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 67402 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.