دریاؔ لکھنؤی ۔شخصیت و شاعری
(Dr. Rais Samdani, Karachi)
اردو شاعری کی اثاث دلی اور
لکھنؤ دبستان ہیں۔ دبستانِ دلی کی شاعری داخلیت پسندی کے گرد گھومتی ہے جس
میں سوز وگداز، درد مندی، غم والم، تصوف، حسن و جمال، احساسات ِ حسن،
خوبصورت تشبیہات، شفتگی و ترنم،خلوص، سادگی، صداقت، خطابیہ انداز پایا جاتا
ہے۔جب کہ دبستان لکھنؤ کی اپنی ایک شناخت ہے ،انفرادیت ہے ، یہاں کے شعراء
میں خارجیت کارنگ پایا جاتا ہے۔ خارجیت پسندی میں لکھنؤ کا دبستان اتنے آگے
نکل گیا تھا کہ وہ شعراء جو دہلی سے لکھنؤآئے جو داخلیت پسندی لیے ہوئے تھے
انہیں بھی اپنے طرز اظہار میں خارجیت پسندی کو اختیار کرنا پڑا۔ جیسا کہ
مصحفی ؔ نے کیا، مصحفیؔ پر تو سخت تنقیدبھی ہوئی یہاں تک کہ انہیں یہ تک
کہہ دیا گیا کہ ان کا اپنا کوئی رنگ نہیں ، اس کے باوجود انہیں شاعری میں
منفرد اور یکتا مقام حاصل ہے۔آتشؔ میں بھی دلی اور لکھنؤی رنگ و روپ نمایاں
تھا۔ میرؔ بھی لکھنؤ گئے تھے۔ شررؔ نے لکھنؤ کو مشرقی تمدن کا آخری نمونہ
قرار دیا۔ لکھنؤ کے دبستان میں دلی کے برخلاف شاعری میں داخلیت کے بجائے
خارجیت بنیاد تھی، سلاست، بے ساختگی کی بجائے الفاظ کی شعبدہ بازیاں زیادہ
تھیں، کھلا پن اور نزاکت جسے تنقید نگاروں نے نسوانیت کہا، کسی حد تک بات
کو کھلے انداز سے کہنا ، جو بات کہنی ہے ا س میں لگی لپٹی نہیں رکھنی ،
بلکہ صاف صاف کہہ دینا لکھنؤ کے شعراء کا رنگ تھا، اسے فحاشی کا نام بھی
دیا گیاہے۔لکھنؤی دبستان میں اپنے آپ کو علمی اعتبار سے بر تر ظاہر کرنے کی
روایت پائی جاتی تھی، یعنی عام سی بات کو پر تکلف انداز میں بیان کرنا
لکھنؤی شاعری کا ایک خاص وصف تھا اور علمیت و فضیلت کی دلیل تھی۔ ان تمام
باتوں کے باوجود لکھنؤ دبستان ِ شاعری نے اردو زبان و ادب کو وسیع علمی
ذخیرہ سے مالا مال کیا۔ لکھنؤی دبستان اپنی ایک علیحدہ شناخت لیے ہوئے ہے۔
اردو کی ادبی تاریخ میں لکھنؤ ی شاعری دبستانوں کی تاریخی، سماجی اور ادب
کی منفرد ترویج ، زبان و بیان کی ادائیگی میں اپنا ثانی نہیں۔لکھنٔو شاعروں
کا شہر، اردو کی ترویج و ترقی کا شہر ، ادیبوں اور دانشوروں کا منبع و مرکز،
اردو تہذیب و تمدن کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں لکھنٔو
کے شعرا اپنے نام کے ساتھ لکھنٔوی اور دہلی کے شعرا اپنے نام کے ساتھ دہلوی
فخریہ طور
پر لگایا کرتے تھے۔ ’دہلی‘ اور’ لکھنؤ‘شعرا کی پہچان تھا۔دہلی اجڑی تو
لکھنؤ میں اردو کے چرچے تیز ہوئے
دعویٰ زبان کا لکھنؤ والوں کے سامنے
اظہار بوئے مشک غزالوں کے سامنے
لکھنؤ کو کئی اعتبار سے سبقت حاصل رہی، ترقی پسند تحریک کا آغاز لکھنؤ سے
ہوا۔ لکھنؤ کے دبستان میں جو نرمی، پیار، ٹہراؤ، بھینی بھینی خوشبو ہے اس
کا ثانی نہیں ۔’لکھنؤ کا دبستانِ شاعری‘ مصنف ڈاکٹر ابوللیث صدیقی نے لکھا
ہے کہ ’لکھنؤیت سے مراد شعر و ادب میں وہ خاص رنگ ہے جو لکھنؤ کے شعرائے
متقدمین نے اختیار کیا اور اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر قدیم شاعری سے جُدا
ہے۔ لکھنؤ کے اصل رنگ کو دیکھنا ہو تو اس زمانہ پر نظر ڈالئے جب لکھنؤ کا
شباب تھا ، دولت کے دریا بہہ رہے تھے، آسمان سے ہُن برس رہا تھا، دور دور
سے باکمال اور اہل فن کھنچے چلے آرہے تھے اورلکھنؤتھا کہ ہر ایک لیے فرش
راہ تھا‘۔ دیکھئے یہ شعر لکھنؤی انداز کی ایک جھلک
ایک زرا آپ کو زحمت ہوگی
آپ کے پاؤ ں کے نیچے دل ہے
دہلی دبستان کا اپنا رنگ ہے ، دہلی اسکول آف اردو غزل کی وسعت اور اثرات
اردو شاعری پر ہمیشہ سایہ فگن رہیں گے۔ دبستان دہلی نے میر تقی میرؔ،سوداؔ،
دردؔ، مصحفیؔ، انشاءؔ، میرحسن، داغؔ دہلوی، بیخودؔدہلوی اور بے شمار عظیم
شاعر پیدا کیے۔داغؔ کا شعر دیکھئے
رات اس کو بھی خواب میں دیکھا
جس کو ہر دم حجاب میں دیکھا
لکھنؤتو تھی ہی شاعروں کی سرزمین، بقول ڈاکٹر ابو للیث صدیقی ’ ناسخؔ کو
اساتذہ لکھنؤمیں بڑا مقام حاصل ہے۔ کیونکہ انہوں نے ہی سب سے پہلے دلی اور
لکھنؤ کے دبستانِ شاعری کو مستقل حیثیت سے علیحدہ کیا اورلکھنؤکی زبان و
شاعری کو قواعد و ضوابط کی سند عطا کی‘۔ یہاں کے معروف شعراء میں ناسخؔ،
برقؔ، آتشؔ، شوقؔ، سحرؔ لکھنؤ، جلال لکھنؤ، امانت لکھنؤ، آتش ؔ کی تو کیا
بات ہے۔ لکھنؤ
رنگ دیگر شعراء میں بھی نظر آتا ہے جیسے حسرتؔ موہانی کے ہاں لکھنؤی رنگ
ہے۔ میر ؔ بھی دلی گئے تو انہوں نے کہا
لکھنؤ دلی سے آیا یاں بھی رہتا ہے اُداس
میرؔ کی سرگشتگی نے بے دل و حیراں کیا
نام قاضی عبد الرحمٰن انصاری ، دریاؔ تخلص، لکھنؤ کے باسی تھے اس لیے لکھنؤ
ی ٹہرے۔ ان کے جد امجد ہرات سے ہجرت کرکے دہلی کے قریب موضع ٹپل ضلع بلند
شہر میں آباد ہوئے تھے ،یہاں انہیں قاضی مقرر کرکے سندِ فیروز شاہی عطا کی
گئی۔ عبد الرحمٰن انصاری کے والد کا نام عبد الغفار تھا۔ جنہوں نے دیوبند
اور بعد ازاں لکھنؤ کے اسلامی دارالعلوم سے دینی تعلیم حاصل کی اور وہاں
درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہیں لکھنؤ میں عبد الرحمٰن انصاری کی
ولادت 1891ء میں ہوئی۔ گویا دریاؔ پیدائشی لکھنؤی ہیں۔ دریاؔ عربی ، فارسی
اور اردو میں مہارت رکھتے تھے، اورجوانی میں ہی غزل کہنے لگے تھے۔ ۔ انہوں
نے گوالیار کے شہر لشکر میں اپنے ہم عصر شعراء کی ادبی انجمن بھی بنائی اور
اس کے تحت لشکر میں شعر و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔وہ قانون کے
طالب علم بھی رہے اور عملی طور پر کچھ عرصہ وکالت بھی کی۔ انہوں نے 1948ء
میں پاکستان ہجرت کی اس دوران آپ بیمار رہنے لگے تھے ۔ اسی سال آپ کا
انتقال
ہوا۔ پاکستان میں مدفون ہوئے ۔
گمنامی میں چلے جانے والے شاعر دریاؔ لکھنؤی جنہوں نے شعر تو کہے، بڑے
شاعروں کی صدارت میں اپنا کلام بھی سنایا لیکن اپنا کلام کبھی کسی جگہ
چھپوانے کی زحمت نہیں کی۔دریاؔ لکھنؤی کا یہ کلام 1925 سے1939 تک کے درمیان
تخلیق پایا۔ ان کا جس قدر کلام بھی ہے ہاتھ سے لکھا ہوا ان کے فرزند ڈاکٹر
حفظ الرحمٰن کے پاس محفوظ رہا ۔ جنہوں نے ان بوسیدہ کاغذ کے صفحات کو
سنبھال کر رکھا یہ عمل اپنے والد سے عقیدت اور ادب سے دلچسپی کا مظہر ہے۔
دریاؔ کے انتقال کو 67 برس گزرچکے ہیں اتنے طویل عرصہ کے بعد ایک گمنام
شاعر کو مجموعہ کلام کی اشاعت کی صورت میں متعارت کرانا شاعر سے اپنی محبت
اور عقیدت کا مظہر تو ہے ہی یہ عمل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اس خاندان
میں علم و ادب سے حقیقی لگاؤ پایا جاتا ہے، شعر و شاعری کے جراثومے اس
خاندان کے احباب کے خون میں گردش کررہے ہیں۔ دریاؔ لکھنؤی کے بیٹے ڈاکٹر
حفظ احمٰن اس خدمت کے لیے قابل مبارک باد ہیں ان کا یہ لائق تحسین عمل ادب
کے فروغ کا باعث ہے۔اب رہی یہ بات کہ ایسے شاعر کا کلام کس نوعیت کا ہے جسے
اس شاعر نے مشاعروں میں اس وقت کے بڑے شعراء کی صدارت میں تو پڑھا لیکن اسے
کسی ادبی جریدے میں شائع کرانے کی کوشش نہیں کی، کسی جریدے نے از خود بھی
ان کے کلام کو شائع نہیں کیا، اس دور کے شاعر دوست احباب نے بھی اس جانب
توجہ نہیں دی ۔اس میں دریاؔ لکھنؤی کی سادگی، شہرت سے بے نیازی، انکساری و
عاجزی کا دخل زیادہ نظر آتا ہے۔ آج تو ہم جیسا ادب کی دنیا میں ٹامک ٹوئیاں
مارنے والا اگر کبھی کوئی ایک شعر بھی گڑھ لیتا ہے تو اولین کوشش ہوتی ہے
کہ وہ کسی طرح کہیں چھپ جائے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کوئی شاعر اپنی کہی
ہوئی غزل جب تک کسی کو سنا نا لے اس کا کھانہ ہضم نہیں ہوتا۔ اُس زمانے کے
لوگ شہرت کی بیماری سے آزاد ہوکر خاموشی سے بس اپنا کام کیے جاتے تھے۔ میر
ے دادا شیخ محمد ابراہیم آزاد ؔ جنہیں بیخودؔ دہلوی کا شاگرد ہونے کا اعزاز
حاصل تھا نے اپنا دیوان ’دیوانِ آزاد‘ بہ مشکل چھپوایا ، اس کے ساتھ بے
شمار کلام، اور نثری مضامین کسی بھی جگہ چھپ نہ سکے اور اب ان کا کہیں سراغ
نہیں ملتا کہ وہ کہا، کس کے پاس ہیں یا صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔کسی نے سخن
ور اسی شاعر کو کہا ہے جس کا دیوان چھپ چکا ہو
سخن ور ہے وہی جو صاحبِ دیوان ہو ناجی
نہیں تک فردیوں کی تاب یہ ممکن کہ شاعر ہوں
مجموعہ کلام ’موجِ دریا‘ دریاؔ لکھنؤی کے صاحبزادے ڈاکٹر حفظ الرحمٰن کی
وجہ سے گمنامی سے دنیا کے سامنے آنے کا باعث بنا۔ اس مجموعے نے دریاؔؔ
لکھنؤی کے کلام کو پھر سے زندہ کردیا ہے۔ دریا ؔ لکھنؤ ی کا پورا نام قاضی
عبد الرحمٰن انصاری ، تخلص دریاؔ اور شہر لکھنؤ کے باسی تھے اس لیے لکھنؤی
ٹہرے۔یہ خاندان حضرت ایوب انصاری کی باقیات میں سے ہے، شاعری اس خاندان کا
ترۂ امتیاز ہے جو نسل در نسل کئی نسلوں سے منتقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ زیادہ
تر شاعر داغؔ اسکول سے تعلق رکھتے ہیں۔اکثر شعراء نے داغؔ کے شاگردوں سے
تلمذ حاصل کیا۔ میرے خاندان کے شعراء بھی داغؔ اسکول سے ہی تعلق رکھتے
تھے۔اس طرح ریاست گوالیار سے تعلق رکھنے والے اکثر شعراء کا شجرۂ شاعری
جنابِ داغؔ دہلوی سے جا ملتا ہے۔ جیسے ریاض ؔ انصاری جیوری نے نوح ؔناروی
شاگرد رشید داغؔ دہلوی سے شرف تلمذ حاصل کیا ۔قاضی عبدالرحمٰن دریاؔ معروف
شاعر مضطرؔ خیر آبادی کے شاگرد رشید تھے۔عبد الوہاب انصاری نے دریا ؔ لکھنؤ
ی کو نوح ؔ ناروی کا پیروکار شاعر کہا ہے۔دریا ؔ لکھنؤ ی نوح ناروی طرز کے
شاعر کہے گے اور نوح ناروی داغ ؔ کے شاگرد تھے۔۔ مضطرؔ خیر آبادی کا نام
آتے ہی ان کی مشہورو معروف غزل ذہن میں نہ آئے یہ کیسے ممکن ہے۔ جی تو
چاہتا ہے کہ پوری غزل یہاں لکھ دوں
لیکن جگہ کی تنگی کے باعث دو اشعار پرہی اکتفا کروں گا
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آسکے میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
نہ میں مضطرؔ ان کا حبیب ہوں نہ میں مضطرؔ ان کا رقیب ہوں
جو پلٹ گیا و ہ نصیب ہوں جواجڑ گیا وہ دیار ہوں
افتخار حسین مضطرؔ خیر آبادی کا زمانہ 1927-1862کا ہے ۔ یہ علامہ مولوی فضل
حق خیر آبادی کے پوتے تھے۔ جان نثار اختر اور جاوید اختر اس خاندان کی ادبی
اظہارکا تسلسل ہیں۔ اس خاندان میں شاعری اور ادب سے وابستگی نسل در نسل چلی
آرہی ہے ۔ مضطرؔ خیر آبادی کے خاندان کی ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔
دریا ؔ لکھنؤ ی نے مضطرؔ خیرآبادی کی قر بت حاصل کی، خاندان بھی شاعر، ان
کا اپنامزاج بھی شاعرانہ تو پھر کلام کی کیا بات ہوسکتی ہے۔
دریاؔ کے مجموعہ کلام ’ ’موجِ دریا‘ میں جو غزلیں شامل ہیں ان کے نیچے یہ
بھی تحریر ہے کہ یہ غزل دریا ؔ نے کس مشاعرہ میں اورپڑھی اور وہ مشاعرہ کس
شاعر کی صدارت میں منعقد ہوا۔اس دور کے معروف اور بڑے شعرا ء جن کی صدارت
میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں دریاؔ نے اپنا کلام سنا یا ان میں جگرؔ
مراد آبادی، بیخودؔ دہلوی، سیماب ؔاکبر آبادی اور حضرت مانی جائسی شامل
ہیں۔ اب جس شاعر نے ایسے ایسے بلند پایہ استادشاعروں کی صحبت میں اپنا کلام
سنا یا ہو اس کی شاعری یقینا پایہ کی شاعری ہوگی۔ دریاؔ کی شاعری میں حسن
ہے، درد ہے، میٹھاس ہے، اچھوتا پن ہے۔ سوز وگداز، درد مندی، غم والم، تصوف،
حسن و جمال، احساسات ِ حسن، تشبیہات، شفتگی و ترنم،خلوص، سادگی، صداقت،
خطابیہ انداز پایا جاتا ہے۔
دریاؔلکھنؤی کا زمانہ انیسوی صدی عیسویں کے آخری نصف سے بیسویں صدی عیسویں
کے نصف تک کا ہے ۔ اس دور کے ممتاز سخنوروں میں احمد رضاؔ بریلوی، سید وحید
الدین احمدبیخودؔ دہلوی، شادؔ عظیم آباد ، علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؔ، مولانا
محمد علی جوہر ؔ، حسرت ؔ موہانی،شیخ محمد ابراہیم آزاد ، ریاضؔ انصاری
جیوری، مولانا غلام شہید ؔ، آسی ؔغازی پوری،حسنؔ بریلوی،علامہ ضیاء القادری
، محمد عبداﷲ بیدلؔ ، حافظ خلیل الدین حسن حافظؔ پھیلی بھیتی، محمد یوسف
راسخؔ ، منشی عبدالشکور خاں برقؔ اجمیری ، محمد عبداﷲ المعروف بہ امیر
دولھا صوفیؔ،جمیل نقوی مرحوم، خلیلؔ صمدا نی شامل ہیں۔یہی شعراء جناب دریا
ؔ کے ہم عصر کہے جاسکتے ہیں۔دریاؔ لکھنؤی کو اردو کے علاوہ عربی اور فارسی
پر بھی دسترس حاصل تھی۔وہ کم عمری ہی میں شعر کہنے لگے تھے۔ خاندانی روایات
، شعراء کی صحبت ، استاد کی نظر عنایت نے دریاؔلکھنؤی کی شاعری میں نکھار
پیدا کردیا ۔ وہ حقیقت اور سچائی کے شاعر ہیں،ان کی شاعری میں رکھاؤ اور
نظم و ضبط اور محاسنِ کلام کا معیارصاف پڑھا جاسکتا ہے۔ وہ صرف ایک کہنا
مشق شاعر ہی نہیں ہیں بلکہ اردو زبان سے محبت ، چاہت ان کے کلام سے صاف
عیاں ہے
ادھر جاتا تو ہے قاصد اگر پوچھیں تو کہہ دینا
برا ہے اور بھی حالِ دلِ ناچار پہلے سے
غالبؔ نے ناسخؔ کے لیے کہا تھا کہ وہ ایک فنے ہیں (یعنی غزل گو ئی پر قا در
تھے)، اسی طرح دریاؔلکھنؤی غزل گو شاعر ہیں، ان کے مجموعہ ’موج دریا ‘ میں
تو غزلیں ہی ہیں۔ بہت ممکن ہیں کہ ان کا دیگر کلام بھی ہو جو تاحال پوشیدہ
ہے۔ دریاؔ لکھنؤ کی ’بزم ادب‘ لکھنؤ کی سرگرمیوں کے روح واں رہے، دریا ؔ
غزل کے شاعرہیں ۔ ان کی شاعری میں محاورات کی خوبی، زبان میں سادگی اور
روانی پائی جاتی ہے۔ ان کے اشعار میں زبان وبیان میں نرمی ، سادگی اور
روانی بدرجہ اتم موجود ہے۔دریاؔ کی شاعری میں دکھ بھی ہیں، غم بھی ، انہوں
نے تلخ باتوں کو سہل انداز سے بیان کیا ہے۔
اک نہ اک دن جان تو جانے ہی والی تھی مگر
غم تو اس کا ہے مرا قاتل پشیماں ہوگیا
دریا ؔ لکھنؤی کا لہجہ مضطرؔ خیر آبادی کی طرح خالص ہندوستانی رنگ میں ڈوبا
ہوا ہے۔ یہ کمال انہیں اپنے خاندانی ورثے اور استادوں کی صحبت سے ہی حاصل
ہوا ہے
وہ چلے آتے ہیں ہاتھوں میں کلیجہ تھامے
کون کہتا ہے کہ فریاد میں تاثیر نہیں
دریا ؔ لکھنؤی کے کلام میں سادگی، خلوص اور صداقت کا عنصر نمایاں ، شاعر نے
فنی رموز کو سچائی کے ساتھ استعمال کیا ہے ۔ شعراء لکھنؤ کی خصوصیت ہے ک
انہوں نے اپنی ساری صلاحیت شعر کی ظاہری حُسن و خوبی سے مزین کرنے میں صرف
کردی۔ دریاؔ لکھنؤ کی شاعری میں لکھنؤی شاعروں کا یہ انداز بھی نمایاں ہے
ترے دل میں میرے نالوں کے شکوے تو ہزاروں ہیں
مگر کوئی تجھے اپنا ستم بھی یاد آتا ہے
دریا ؔ لکھنؤی نے شاعری میں ایسے موضوعات کا انتخاب کیا ہے جو عام زندگی
میں معروف ہیں اور عوام الناس ان سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ ان کا انداز اور لب
و لہجہ سیدھا سادہ اور عام ہے
میری حسرت ہے کہ ان کے آستاں پر مر رہوں
ان کی یہ تا کید کوئی دوسر ا در دیکھئے
دریا ؔ لکھنؤی نے اپنی بات کو بیان کرنے کے لیے بے تکلفی سے کام لیا ہے۔ وہ
اشاروں کنایوں میں بات نہیں کرتے بلکہ جو بات کہنی ہوتی ہے اسے صاف صاف کہہ
ڈالتے ہیں۔ یہی ادا ان کی شاعری کو منفرد بناتی ہے ۔ لکھنؤ دبستان کی یہی
ایک خوبی بھی ہے
بچا مرتے ہی مرتے دل کے ہاتھوں تو جوانی میں
میرا عہدِ شباب اک حادثہ تھا زندگانی میں
دریا ؔ لکھنؤی کو میرؔ کی طرح خطاب اور گفتگو کا انداز اچھا لگتا ہے۔ وہ
کہیں کہیں خود کو بھی مخاطب کرکے باتیں کرتے ہیں
دریاؔ وہ حال بھی تو مرا پوچھتے نہیں
کیونکر کہوں کہ شکر ہے پروردگار کا
دریا ؔ لکھنؤی کی شاعری میں یاس اور حسرت کا بھی بڑا دخل ہے، ان کی شاعری
رنجیدہ ، دکھی اور ناامیدی کی جھلک ہے
دمِ نزع ہے روح کھنچنے لگی ہے رہا دل کا دل ہی میں رازِ نہانی
انہوں نے تو آنے میں تاخیر کردی تو ہی ساتھ دے کچھ مرا زندگانی
اسی طرح محبوب کے دیر سے آنے کی فریاد اس طرح کرتے نظر آتے ہیں
آہ وہ آئے تو کب آئے عیادت کو مری
جب مجھے تربت میں دریاؔ دھرنے والے دھر چکے
طنز کرنا شاعری کا خاص وصف ہے۔ تمام ہی شاعروں خاص طور پر غزل گو شعراء میں
طنزکا رنگ پایا جاتا ہے۔ میرتقی میرؔ کا طنز اپنا ثانی نہیں رکھتا، د میرؔ
کے طنز کا ایک شعر
ہوگا کسو دیوار کے سائے تلے میرؔ
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
دریا ؔ لکھنؤی کے ایک شعر میں طنز کا انداز کچھ اس طرجھلکتا دکھائی دیتا ہے
خبر سن کر مرے مرنے کی یہ ارشاد فرمایا
جنوں جب حد سے بڑہتا ہے یہی انجام ہوتا ہے
شاعری کے بارے میں دریا ؔ لکھنؤی کا کہنا ہے کہ یہ فن قسمت سے آتا ہے، کوشش
اور جستجو سے حاصل نہیں ہوتا، اپنا اپنا خیال اور رائے ہے، بعضوں کا خیال
ہے کہ انسان کوشش اور جستجو کرے تو وہ کسی بھی فن میں مہارت حاصل کرسکتا
ہے۔ بہر کیف دریا ؔ لکھنؤی کا خیال توحسب ذیل شعر میں یہی ہے۔ دیکھئے یہ
شعر
جسے کہتے ہیں فنِ شاعری قسمت سے آتا ہے
نہیں ہوتا سعی سے شعر دریاؔ زندگی بھر میں
دریا ؔ لکھنؤی اپنے ظاہر اور باطن کے استعمال کے ساتھ محبوب مزاجی اور
محبوب حقیقی کی یاد کا اظہار اس طرح کرتے ہیں
میرے ظاہر پر نہ جا کافر مرے باطن کو دیکھ
دل میں تیری یاد ہے لب پر خدا کا نام ہے
(10اگست2015) |
|