اسلام دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنا والا مذہب ہے اور اس
کی ایک روشن مثال گزشتہ روز اس وقت بڑے پیمانے پر دیکھنے میں آئی جب بھارت
کے ایک گاؤں میں 1 یا 2 نہیں بلکہ 100 خاندانوں نے مذہب اسلام قبول کیا-
اسلام قبولِ کرنے والے ان 100 خاندانوں کا تعلق ہندوستان کے علاقے ہسار کے
بگانا گاؤں سے اور یہ دلت ذات سے تعلق رکھتے ہیں-
|
|
یہ خاندان گزشتہ 2 سالوں سے ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی میں اعلیٰ ذات
کے ہندوؤں کے خلاف سراپا احتجاج تھے جس کی وجہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی
بڑھتی انصافیاں ہیں- اور انہی ناانصافیوں نے ان 100خاندانوں کو یہ قدم
اٹھانے پر آمادہ کیا-
اسلام قبول کرنے والے خاندانوں کا ماننا ہے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس میں
اعلیٰ اور ادنیٰ کے فرق کا انحصار صرف اس کے اعمال پر ہے-
دلت تنظیم کے کنونیئر جنگدیش کاجلا کے مطابق “ وہ گزشتہ 2 سال سے اپنے حقوق
کے لیے سراپا احتجاج ہیں لیکن کوئی بھی سننے والا نہیں ہے- اسی لیے ہندو
مذہب ترک کرنے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ ہم انتظار کرتے کرتے اب تھک چکے ہیں“-
“ حکام اور پولیس سب ایک ہیں اور ہمیں صرف وعدوں پر ٹال دیا جاتا ہے اور اس
سے زیادہ کچھ نہیں کیا جاتا- پھر ایسی کمیونٹی سے منسلک رہنے کی کوئی وجہ
نہیں بنتی جو مصیبت میں ہماری مدد ہی نہ کرے“-
دلت خاندانوں کے مطابق سال 2012 میں ہمارے زیرِ استعمال زمین پر جاٹ برادری
کے سربراہ کی جانب سے زمین کی ملکیت کا دعویٰ کیا گیا- جس کے بعد دلت
خاندانوں نے مئی میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا-
جس کے نتیجے میں اونچی ذات کے خاندانوں نے پنجائیت کے ذریعے دلت خاندانوں
کا سماجی و معاشرتی بائیکاٹ کردیا-
|
|
دلت خاندانوں کا کہنا ہے کہ ظلم اس وقت مزید بڑھا جب 23 مارچ کو دلت خاندان
سے تعلق رکھنے والی 4 لڑکیوں کو اغواﺀ کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا-
اس واقعے کے بعد 80 دلت خاندان نے احتجاج کے لیے ہندوستان کے دارالحکومت
نئی دہلی کا رخ کیا۔ تاہم انہیں یہاں سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا-
دوسری جانب دلت خاندانوں کے قبولِ اسلام کے اس اعلان کے بعد بھارتی انتہاء
پسند تنظیم وشوا ہندو پریشد اسے زبردستی مذہب کی تبدیلی قرار دے رہی ہے-
تنظیم کے ترجمان کے مطابق “ ہمیں اطلاع ملی کہ ہندوؤں سے زبردستی مذہب
اسلام قبول کروایا جارہا ہے اور جب ہم نے پولیس کو اسے روکنے کو کہا تو اس
نے ہمارے ہی کارکن پکڑ لیے- |