سوچ ایک ایسا پنچھی ہے جس کو اگر آزاد چھوڑا جائے تو اس
کی پرواز بہت لمبی ہو جاتی ہے اور یہ انسان کو وہاں لے جاتاہے جہاں سے
واپسی مشکل ہوجاتی ہے۔اس لئے اس پر کڑی نگاہ رکھنی چاہیے۔
ہرانسان اچھابھی سوچ سکتاہے اور برا بھی سوچ سکتاہے۔لیکن کون اچھا سوچتاہے
اور کون برا سوچتاہے اس کا فیصلہ کیسے کیاجائے؟ اس کا درومدارانسان کی فطرت
پر ہوتاہے جس کی مثال کے طور پر ہم مکھیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک شہد کی
مکھی ہے جس کا کام پھولوں سے رس چوس کر اپنے چھتے میں جمع کرتی رہتی ہے ا
ور اس کی محنت کے نتیجے میں شہد حاصل ہوتاہے۔جس میں شفا ہی شفاہے۔بہت سے
مرض اس سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ شہد کی مکھی کی فطرت میں ہے کہ اس
نے چاہے پھول گل سٹر بھی جائے اس نے اس میں سے رس ہی حاصل کرنا ہے۔ لیکن اس
کے برعکس ایک دوسری مکھی ہے جو صرف گندگی پر بیٹھتی ہے وہ صاف ستھری چیزوں
کو چھوڑ کر صرف گند گی کا ہی انتخاب کرتی ہے کیو ں کہ اس کی فطرت میں یہ
شامل ہے۔
انسان کی فطرت اس کے ماحول سے وابستہ ہوتی ہے اس کے رشتے داروں سے ہوتی ہے
اس کے دوستوں سے ہوتی ہے۔ اگر اسے اچھا ماحول میسر آئے دوست اچھے ملیں تو
انسان کی فطرت اچھی ہو سکتی ہے جب ہم اچھی باتوں اور کاموں میں سے بھی منفی
پہلو تلاش کریں تو خرابی ہماری فطرت میں ہی ہے شاید۔۔ ہمیں اپنی سوچیں مثبت
بنانی ہوگی۔ تا کہ ہم اچھا سوچ کر اچھا کر سکیں۔ اور منفی پہلوؤں کی طرف
دھیان نہیں دینا چاہیے۔ جو ہمیں اند ر ہی اند ر تباہ کر تی رہتی ہیں۔ اچھا
سوچیں گے تو ہمارے ساتھ اچھا ہی ہوگا۔ اور اگر منفی سوچیں گے تو ہمارے سا
تھ ویسا ہی ہو گا۔ اور یہ کو ئی بھی نہیں چاہے گا کہ اس کے ساتھ کچھ بھی
غلط ہو۔ تو پھر آج سے ہم سب اچھا سوچنے کی کوشش کر یں گے۔۔ (انشاء اﷲ) |