نیشنل ایکشن پلان ،پی ٹی آئی ،پی پی پی ،پی ایم ایل این اور عوام

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایا میں اپنی امت کے بُرے لوگوں کے لیے بہترین آدمی ہوں تو قبیلہ مزینہ کے ایک آدمی نے حضور ؐ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اﷲ ؐ جب آپ ؐ اپنی امت کے بُروں کے لیے ایسے ہیں تو ان کے نیکوں کے لیے کیسے ہیں آپ ؐ نے فرمایا میری امت کے نیک لوگ اپنی اعمال کی برکت سے جنت میں داخل ہوجائیں گے اور میری امت کے بُرے لوگ میری شفاعت کا انتظار کرینگے غور سے سنو میری شفاعت قیامت کے دن میری امت کے تمام لوگوں کے لیے ہو گی سوائے اس آدمی کے جو میرے صحابہ ؓ میں کمی نکالتا ہو۔

قارئین کرام آج ایک عرصے کے بعد قلم اٹھا کر آپ کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہیں ہمیں کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم جتنی بھی تحریریں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں شاید ہم سعی ء لا حاصل میں مشغول ہیں نہ عوام کے دن رات پہلے بدلے تھے اور نہ اپنی اوقات بدلنے کا بظاہر کوئی امکان دکھائی دیتا ہے دیوار کے ساتھ ٹکریں مارنے جیسی کیفیت لے کر ہم اپنے جنون کے ہاتھوں مجبور ہیں اور اہل ہوس اپنی اس لالچ کے تحت عوام کے ساتھ وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو کسی بھی مہذب معاشرے میں نہیں ہوتا اور کسی اسلامی فلاحی سلطنت میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور یہ لالچ یقینا اتنی بڑی بیماری ہے کہ اﷲ کے پیارے حبیب ؐ نے اس طرف اشارہ دیتے ہوئے فرمایا تھا
’’ انسان کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے ‘‘
مجھ سمیت تمام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ اس کارخانہ حیات سے باقی تمام لوگ رخصت ہو جائیں گے اور صرف ہم باقی رہ جائیں گے ۔بابا بلھے شاہ ؒ نے فرمایا تھا
’’ وے بلھیا اسا ں مرنا ناں ہی گور پیا کوئی ہور‘‘
اور یہی زندہ رہنے کی غلط فہمی اور ہمیشہ اس زمین پر مونگ دلتے رہنے کی خوش فہمی مجھ سمیت تمام انسانوں کو ان کاموں میں مشغول رکھتی ہے جن کا انجام آخر میں جا کر حسرت کے علاوہ کچھ نہیں ۔


قارئین چلیے یہ تو ہم نے ایک کتھارسس کے تحت دل کے داغ داغوں کی جلن آپ کے ساتھ شیئر کر لی کسی بڑے آدمی کا قول ہے کہ ’’ غم کسی دوسرے کے ساتھ بیان کر دینے سے کم ہو جاتا ہے اور خوشی کسی دوسرے کے ساتھ بانٹنے سے بڑھ جاتی ہے ‘‘

شاید یہی مقولہ ذہن میں تھا تو یہ چند باتیں آپ سے کر ڈالیں ۔آئیے چلتے ہیں آج کے موضوع کی جانب ۔
آرمی پبلک سکول پشاور میں سینکڑوں معصوم بے گناہ بچوں کو جس طریقے سے بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا اس نے پورے پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی تبدیل کر ڈالی ہے عسکری قیادت نے تمام سیاسی جماعتوں کو ’’ چھڑی ‘‘ دکھاتے ہوئے ایک میز پر بٹھا دیا اور سیاسی قائدین کو صاف الفاظ میں بتا دیا کہ کون کون سے کام ایسے ہیں جو کرنے والے ہیں اور کون کون سی باتیں ایسی ہیں جو ’’ نو گو ایریاز ‘‘ میں آتی ہیں ۔عسکری قیادت اور پاکستان کے دفاع کے ضامن ان اداروں کی یہ گفتگو اتنی سنجیدہ ،برمحل اور دو ٹوک تھی کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو جواب میں ’’ چوں‘‘کرنے کی بھی جرات نہ ہوئی ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دھرنا بھی ختم کر دیا ،پاکستان مسلم لیگ ن ’’ سو جوتے اور سو پیاز‘‘جیسے محاورے کے مصداق اپنے ان تمام ’’ کارناموں ‘‘ سے تائب ہوئی جن کی وجہ سے سپہ سالار افواج پاکستان جنرل راحیل شریف کو مجبور اً یہ کہنا پڑا تھا ’’ عساکر پاکستان اپنے وقار اور عزت کا تحفظ کرنا جانتی ہیں ‘‘۔پاکستان پیپلزپارٹی سندھ میں صوبائی حکومت بنائے بیٹھی ہے اور میڈیا پر یہ بات بھی رپورٹ ہو چکی ہے کہ ایک انتہائی اعلیٰ سطحی میٹنگ کے اندر جنرل راحیل شریف نے سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کو بھی ’’ شٹ اپ کال ‘‘ دے دی یہ تمام باتیں جو ہم تحریرکر رہے ہیں نہ تو ہمارے ذہن کا ابال ہے اور نہ ہی دل کا بخار ہے بلکہ قومی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے علاوہ ’’ زبان خلق یعنی سوشل میڈیا ‘‘ پر رپورٹ ہونے والے وہ حقائق ہیں جن سے ہر ذی شعور شہری آگاہ ہو چکا ہے ۔یہاں چند باتیں سوچنے سے تعلق رکھتی ہیں موروثی سیاست کرنے والی دو جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن میں نہ تو ماضی میں ایسی کوئی مثال دکھائی دیتی ہے کہ اپنی پارٹی کے اندر موجود کسی جوہرقابل کو کسی ایسی جگہ پر پہنچنے کاموقع دیا جائے کہ جہاں پر وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے قوم کی عملی خدمت کر سکے ۔یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی پہلے بھٹو خاندان کی ’’ ددھیالی ‘‘ جماعت تھی اور اب اس پر ’’ ننھیال ‘‘ قابض ہو چکا ہے اور کسی بھی ایسے لائق سیاسی ورکر کو اس لائق نہیں سمجھا جاتا کہ وہ پیپلزپارٹی کی صدارت ،چیئرمینی یا چیئرپرسن شپ کا دعویدار ہو سکے اگر خدا نخواستہ کوئی ’’ سرمست ‘‘ ایسا کر بیٹھے تو اس کا ’’سبو‘‘ توڑنے کے لیے بہت سے دوست سامنے آ جاتے ہیں یہی صورتحال پاکستان مسلم لیگ ن میں دکھائی دیتی ہے جہاں جنرل جیلانی کی طرف سے لائے جانے والے نوخیز کشمیری نوجوان میاں محمد نواز شریف کا خاندان ’’ قوم کی بھرپور خدمت ‘‘ کی تیسری اننگز کھیل رہا ہے پہلی د و اننگز کو ’’ تھرڈ ایمپائر‘‘ نے انگلی کھڑی کر کے درمیان میں ہی برطرف کر دیا تھا اور اب تیسری اننگز کے متعلق بھی بہت سی باتیں ماضی قریب میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اسلام آباد ڈی چوک کے اندر پوری دنیا کے سامنے جوش و خروش کے ساتھ کرتے دکھائی دیتے تھے اور ’’ تھرڈ ایمپائر ‘‘ کی انگلی کھڑی کرنے کا اشارہ دیتے رہتے تھے یہ علیحدہ بات کہ آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ رونما ہوا اور وقتی طور پر انگلی کھڑی نہ ہو سکی ۔یہ وقت ٹلا تو ضرور ہے لیکن کتنے عرصے کے لیے اس کا فیصلہ مسلم لیگ ن کی قیادت اور وفاقی حکومت کی پرفارمنس کرے گی ۔قیادت اس انداز میں کہ وہ عسکری قیادت اور جنرل پرویز مشرف کے متعلق مزید کون سے زریں خیالات کا اظہا رکرتی ہے اور پرفارمنس اس لحاظ سے کہ بیس کروڑ سسکتے بلکتے اور مسائل میں گھرے ہوئے پاکستانیوں کو دلدل سے نکال کر وہ کیسے خوشحالی کے راستے کی جانب گامزن کرتے ہیں ۔اب آئیے چلتے ہیں پاکستان تحریک انصاف کی جانب ۔
پی ٹی آئی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ جنرل شجاع پاشا سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے دور سے لیکر اب تک اس جماعت نے نوجوان طبقے کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے پاکستان کا نوجوان طبقہ تھرڈ آپشن ہی کو پاکستان کے مسائل کا حل سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ 2013کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے موروثی اور خاندانی سیاست کرنے والی دونوں جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے لیے خطرے کا بگل بہت زور سے بجا دیا تھا عقلی لحاظ سے بھی کپتان خان جو بات کرتے ہیں وہ دل و دماغ کو متوجہ بھی کرتی ہے اور محظوظ بھی کرتی ہے ۔منتطقی استدلال دیتے ہوئے عمران خان جب بھی کسی مسئلہ کے متعلق گفتگو کرتے ہیں اور اس کا حل قوم کے سامنے رکھتے ہیں تو ان کی باتوں پر یقین کرنے کا دل چاہتا ہے یہ علیحدہ بات کہ انہوں نے اپنی جماعت میں انہی لوگوں کو شامل کیا جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کا بیک گراؤنڈ رکھتے تھے اور ابھی بھی گراس روٹ لیول پر حالات یہ تقاضہ کرتے ہیں وہ ایسے نوجوانوں کو سامنے لیکر آئیں جن کے دامن ماضی میں کسی بھی کرپشن سے داغ دار نہیں ہیں اور ان کی علمی قابلیت اور ذاتی دیانت اس نوعیت کی ہے کہ قوم یقین کر سکے کہ یہ جماعت واقعی تبدیلی کا پیغا م لے کر سامنے آئی ہے ورنہ ’’ نیا جال لائے پرانے شکاری ‘‘ اور ’’ بوتل وہی شراب نئی ‘‘ جیسے محاورے عوامی محفلوں میں لوگ دہراتے رہینگے اور تبدیلی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے اگر ہم بات کرتے ہیں تو یہاں پر ان تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ سندھ ،پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اپنے سیاسی کارکنان کو نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے متحرک کریں اور ہر گلی محلے کے لیول پر افواج پاکستان اور قومی سلامتی کے لیے کام کرنے والے اداروں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے عملی تعاون کریں ۔اگر سیاسی جماعتیں ایسا نہیں کرینگی تو یقینا عسکری قیادت کو بہت سے نا خوشگوار فیصلے کرنے پڑیں گے ہمیں یہ کہتے ہوئے کوئی جھجک نہیں کہ پاکستان میں آنے والے تمام مارشل لاز کی بہت بڑی ذمہ داری سیاسی قیادت کی نالائقی کے سر بھی ہے کیونکہ اگر سیاسی عمل درست انداز میں ہو رہا ہوتو فوج کبھی بھی اپنی ذمہ داریوں سے ہٹ کر نئے بکھیڑوں میں نہیں پڑتی ۔یہ فوج کسی دشمن ملک کی فوج نہیں ہے بلکہ ہمارے ہی بھائی اور بیٹے ہیں جو دفاع وطن کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کرتے ہیں اور انہی کی قربانیوں کی وجہ سے ملک کی عزت سلامت رہتی ہے ۔جنرل راحیل شریف نے حال ہی میں کشمیر کے حوالے سے پوری دنیا کو دو ٹوک پیغام دیا ہے جس نے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو بھی گویا ایک خواب سے بیدار کر دیا ہے اور ’’ جواب آ ں غزل ‘‘ بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے قائدین سے لیکر مختلف ’’ ایرے غیرے نتھو خیرے ‘‘ بھی اعلان کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ہم جنرل راحیل شریف کے ساتھ ہیں یہاں ہم حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ کی زبان میں کہیں گے
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ ِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
حسن ِ بے پرواہ کو اپنی بے حجابی کے لیے
شہر سے جو بن ہو ں پیارے شہر اچھے یا کہ بن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جو غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن

ان تمام سیاسی جماعتوں اور ’’ ایروں ،غیروں ،نتھو خیروں ‘‘ سے ہم یہی گزارش کریں گے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کو اپنی حمایت کا یقین دلانے کی بجائے اپنے اپنے اندر جھانک کر دیکھیں کہ وہ اس وطن اور قوم کے ساتھ کتنے وفادار ہیں نیشنل ایکشن پلان بھارتی ایجنسی را ،اسرائیلی ایجنسی موسا د ،امریکن سی آئی اے سمیت امت مسلمہ کے دیگر تمام دشمنوں کے دانت کھٹے کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا یہ خصوصی کرم ’’ پاکستان ‘‘ تا قیامت قائم و دائم رہے گا کیونکہ لاکھوں شہیدوں کے خون کی برکت اس وطن کی بنیادوں میں موجود ہے ۔شہیدوں کے مخلص جذبے اس شجر کو کبھی مرجھانے نہیں دینگے البتہ میں آپ ہم سب لو گ اپنے اپنے ایمان کا امتحان دے رہے ہیں اﷲ ہمیں اپنے اپنے امتحان میں سرخرو کرے ۔آمین ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
بچہ گھر میں روتا ہوا آیا تو ماں نے پوچھا
’’ بیٹے کیوں رو رہے ہو‘‘
بچے نے جواب دیا
’’ ماسٹر صاحب نے مارا ہے ‘‘
ماں نے تسلی دیتے ہوئے پوچھا
’’ بیٹا کیوں مارا ہے ‘‘
بچے نے روتے ہوئے معصومیت سے جواب دیا
’’ ماسٹر صاحب کی کرسی پر سیاہی گر گئی تھی وہ بیٹھنے لگے تو میں نے سوچا ان کے کپڑے خراب نہ ہوں میں نے کرسی پیچھے کھینچ لی ‘‘۔

قارئین مارشل لاز کے خلاف باتیں کرنے والے بہت سے قائدین ایسے ہیں کہ جن کے ہاتھ اور دامن سیاہیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور یقینا شیشے کے گھروں میں بیٹھ کر کسی دوسرے پر سنگ زنی کرنے کا جو انجام ہوتا ہے اس سے ہر کوئی آگاہ ہے اﷲ سب کے حال پر رحم فرمائے آمین ۔

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374107 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More