ہم نے وطن تو آزاد کروا لیا.... سنبھالا کیوں نہیں جارہا؟

حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی عظیم جدوجہد اور لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کے عوض ہم نے پاکستان آزاد تو کروا لیا لیکن 68 سال گزرنے کے باوجود یہ ملک ہم سے سنبھالانہیں جارہا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کے مصائب و آلام برداشت کیے ٗ جنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے بہوبیٹیوں کی عزتیں لوٹتی دیکھیں ٗ جنہوں نے اپنی ماؤں بہنوں کو بے حرمتی کے خوف سے اندھے کنووں میں چھلانگیں لگاتے ہوئے دیکھا وہ آج وطن عزیز کی حالت دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہیں ٗ ہماری نوجوان نسل جنہیں اپنے اکابرین کی جانی و مالی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیئے وہ بھارتی کلچر کی دلدادہ ہوکر انہی کے رنگ میں رنگتی جارہی ہے ۔ ہمارے ٹی وی چینلز بڑے اہتمام سے ہندوانہ کلچر اور تہذیب سے لبریز بھارتی فلمیں ٗ فحش ڈرامے اور ناچ گانے کے پروگرام دکھا کر ہماری نوجوان نسل کی رگوں میں زہر انڈیل رہے ہیں۔حکومت نے پیمرا کے نام سے اتھارٹی تو بنا ئی جس میں لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں لینے والے افسربھی تعینات کردیئے گئے ہیں لیکن اتھارٹی کے افسران نے آنکھوں پر پٹی باندھ کے چینلز کو شتر بے محار جیسی آزادی فراہم کررکھی ہے۔اسی طرح ہر محکمے میں بھاری تنخواہوں والے افسران کی لمبی قطار تو دکھائی دیتی ہے جو کڑوروں روپے سالانہ تنخواہوں اور لامحدود مالی مراعات کی شکل میں وصول کررہے ہیں اس کے عوض قوم کو وہ خدمات فراہم نہیں کررہے جس کے لیے انہیں ملازم رکھا جاتاہے۔ ہرسرکاری دفتر بطور خاص پبلک ڈیلنگ کے اداروں میں ہر کام کے عوض رشوت کے باقاعدہ ریٹ مقرر ہیں اور وصول کی جانے والی رشوت کی رقم اعلی افسر سے لے کر چپڑاسی تک وصول کرتا ہے لیکن اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے ۔ بجلی کی سپلائی کامحکمہ ہو ٗ ٹریفک لائسنسنگ اتھارٹی ٗ ایکسائڑ ٹیکسیشن کامحکمہ ہو ٗ یا پٹوار خانہ ٗ شناختی کارڈ بنوانے کا محکمہ ہو یا پاسپورٹ ٗ پولیس تھانہ یا ریلوے کا ڈی ایس آفس ۔یہ تمام محکمے عوام کے لیے عذاب کا روپ دھار چکے ہیں ۔ وہ لوگ جو اپنا گھر بار جائیدادیں چھوز کر ایک آزاد وطن میں پرسکون زندگی گزارنے کا خواب لے کر سرزمین پاکستان پر پہنچے وہ اوران کی نسلیں آج بھی بے سرو سامانی کے عالم میں گلیاں اور بازاروں میں غربت ٗ جہالت اور بے روزگاری کے عذاب جھیل رہی ہیں لیکن اقرباپروری نے اس ملک کو کچھ اس طریقے سے گھیر رکھاہے کہ کسی بااثروزیر یا مشیر کا ایک میٹرک پاس بیٹا کسی بھی ادارے کا چیرمین بناکر لاکھوں روپے تنخواہ پر بغیر کسی میرٹ کے ملازم رکھ لیا جاتا ہے ۔اس کام میں نہ پیپلز پارٹی پیچھے تھی اور نہ ہی موجودہ حکومت ۔دہشت گردی کا عذاب نازل ہوا تو ان تمام افسروں نے جوپہلے عوام سے فاصلے پر رہنا پسند کرتے تھے انہیں عوام سے دوری کاایک اور بہانہ ہاتھ آچکا ہے۔ انہوں نے اپنے بچاؤ کے لیے نہ صرف لاتعداد سیکورٹی اہلکاروں کو تعینات کررکھا ہے جن کی تنخواہیں قوم اپنی ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرتی ہے بلکہ اپنے گھروں اور دفتروں کے سامنے گزرنے والی شاہراہوں کا نصف حصے پر کنکریٹ کے مورچے اور فصیلیں کھڑی کرلی ہے اورخودقلعہ نما دفتروں اور گھروں میں بیٹھ کر بھاری تنخواہوں اور لامحدود مالی مراعات سے انجوائے کررہے ہیں ۔ عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے ایک نہ ختم ہونے والے عذاب سے گزر کر بمشکل ان کے دفتر پہنچتے ہیں تو انہیں مختلف حیلے بہانوں سے ٹرخا دیاجاتاہے۔رہی بات سیاست دانوں اور حکمرانوں کی ٗ وہ توسیاست اور الیکشن میں حصہ لیتے ہی لوٹ مار کرنے کے لیے ہیں ۔ پاکستان شاید دنیا کاواحد ملک ہے جہاں سیاست کو کاروبار کے انداز میں دیکھا جاتا ہے ۔ایک کروڑ لگا کر پچاس کروز کمالیے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ اس قدر ملی بھگت سے ہوتاہے کہ کوئی آوازبھی نہیں اٹھاتا اور سب آپس میں مل جل کر وطن عزیز کو خوب لوٹ رہے ہیں ۔ یہاں ترقیاتی کاموں کے لیے کروزوں روپے فنڈ ڑ جاری کیے جاتے ہیں وہ فنڈ ز تعمیراتی کام ہونے سے پہلے ہی کسی ٹھیکیدار کے پاس فروخت کرکے پیسے جیب میں ڈال لیے جاتے ہیں ۔ ایسی ہی لوٹ مار کے نتیجے میں غیر ملکی بنکوں میں پاکستانی سیاست دانوں ٗ بیورو کریٹس ٗ ریٹائر فوجی افسروں اور ریٹائر ججوں کے 300 ارب ڈالر جمع ہیں اگر حکومت چاہے تویہ پیسے واپس آسکتے ہیں لیکن ان پیسوں میں جب ان کے اپنے پیسے بھی ہوں تووہ کیسے واپس لانے کا رسک لے سکتے ہیں ۔ اس حوالے سے اسحاق ڈار کابیان ایک مثال ہے۔ یہاں احتساب کے لیے نیب تو موجود ہے لیکن یہ ادارہ چند ہزار روپے رشوت لینے والوں کوتو گرفتار کرلیتا ہے اربوں روپے لوٹنے والوں کے گریبانوں تک اس کے ہاتھ نہیں پہنچتے کہ ان میں سے اکثر خود اور کچھ کے سرپرست اسمبلیوں میں بیٹھے ہوتے ہیں ۔اس سے بڑا ظلم اور کیاہوگا کہ جس ملک میں براہ راست بلواسطہ ایک موچی ٗنائی اور دھوبی سے جی ایس ٹی اورایک درجن کے لگ بھی ٹیکس وصول کیے جارہے ہیں اس ملک کی قانون سازاسملبیوں میں آدھے سے زیادہ تر ٹیکس چور ٗ کرپٹ اور خائن لوگ بیٹھے ہیں ۔ جنہوں نے پاکستان اپنی جان و مال سے کھیل کر بنایا تھا وہ آج بھی کچی آبادیوں ٗ کچروں کے ڈھیروں اور شہر کی گندی بستیوں میں بیٹھے اس ملک کی حالت دیکھ کر آنسو بہا رہے ہیں۔ کاش گردن میں سریا رکھنے والے سرکاری افسر ٗ کرپٹ اور ٹیکس چور سیاست دان اور اپنی جانوں کا تحفظ کے لیے قلعہ بند ہونے والے سرکاری اورپولیس افسران اس ملک کی حالت پر رحم کھاتے ہوئے اپنے طور طریقے بدل لیں ۔اگر اس ملک کو بچانا ہے تو ہمیں قائداعظم کے ارشادات اور فرمودات کے مطابق خود کو پاکستانی قوم کا خادم تصور کرکے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام کرنا ہوگا۔ افسوس کہ پاکستانی حکمران 68 سال گزارنے کے باوجود آج بھی خود کو گورا اور عوام کو کالا تصور کرکے انہیں ہمیشہ غلام بنائے رکھنا چاہتے ہیں ۔آزادی حاصل کرنا بے شک بزا کارنامہ ہے لیکن آزاد ملک کو خوشحال بنانے کے لیے ہم سب کو روایتی طور طریقے چھوڑ کر دیانت دار ٗ متحرک اور قوم پرست بنناپزے گا۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784487 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.