دلت نظمیہ تخلیقیت کے آتش فشاں کا پھول جینت پرمار

اکیسویں صدی کے مابعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت کے تناظر میں جینت پرمار اولین دلت شعلہ نوا شاعر ہیں۔ جو روایتی ترقّی پسندی اور جدیدیت پسندی کی موت کے بعد ابھرنے والی نئی نسل سے وابسطہ ہیں۔جنھوں نے اپنی فنّی اضافی تخلیقیت، معنویت، عصریت اور فنّیت سے اُردو ادب میں ایک نئی تبدیلی کا سیلاب برپا کردیا۔ جینت پرمار نے اپنی نظمیہ شاعری میں ایک ایسے محروم اور پامال طبقہ کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ جو ہندو سماج میں دلت کے نام سے موسوم کیے جاتے ہیں۔ دلت سماج ہمیشہ سے اعلیٰ اور برتر طبقہ کے سماجی بے انصافی اور غیر انسانی ظلم و ستم کا شکار ہوتا تھا۔ ان کی بے بسی، مجبوری،سادہ لوحی اور مظلومیت کو نظمیہ اشعار کے پیکر میں ڈھال کر عوام کے سامنے ان کی حقیقی الم انگیز انسانی صورتِ حال کو جینت پرمار نے نہایت ہی فنّی اور جمالیاتی لطافت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ نے جینت پرمار کی نظمیہ شاعری پر اپنے خیالات کا اظہا ر جینت پرمار کے شعری مجموعہ ’پنسل اور دوسری نظمیں‘ کے دیباچہ میں یوں کیا ہے :
’’جینت کے یہاں نہاں خانۂ دل کی آنچ تصویری حرکیت کے ساتھ ساتھ برابر محسوس ہوتی ہے۔ انھوں نے سماجی بے انصافی کے زہر کو چکھا ہے اور شبدوں کے رنگوں سے اسے امرت میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ دلت رشتوں کی وجہ سے مقتدر رسوم و رواج کا چاقو کس طرح ہڈی سے گزر جاتا ہے، یہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اُردو یوں بھی اقلیت کی تہذیبی آواز ہے، مگر جینت پرمار تو اقلیت کے اندر اقلیت ہے۔ یہ Subaltern کے اندر Subaltern یعنی صحیح معنوں میں حاشیائی روح کی آواز ہے۔ درد کی کلونس میں دھنسی یہ سسکی بھی پت جھڑ کی آواز اور سورج، تتلی، سرخ گلاب کے ساتھ ساتھ ابھرتی ہے۔ رنگوں کی جھلا جھل میں ’ماں‘ کے معنیاتی احساس کی نظمیں ایک شاک کے ساتھ سامنے آتی ہیں۔‘‘
(ص : ۲۲)
جینت پرمار سے قبل اُردو نظمیہ شاعری میں دلت مخاطبہ(Dalit Discourse)کی نشاندہی نہیں ہوتی ہے۔ چونکہ جینت پرمار بذات خود دلت ہیں۔ انھوں نے دلتوں کے دکھ، درد اور کرب کو خود جھیلا ہے۔ اُ س کو محسوس کیا ہے۔ بھوکے ، پیاسے، ننگے اور میلے کچیلے کپڑے میں لپٹے لوگوں کو انھوں نے اپنے گرد و پیش میں دیکھا ہے۔ اُن کے دنش کو جھیلا ہے۔ انھوں نے آپ بیتی کو جگ بیتی بنا کر پیش کیا ہے۔ اُس میں اُن کی صدیوں کی وراثتی حسّیت و بصیرت کے ساتھ ساتھ اُن کا عصری ماحولیاتی شعور اور تواریخی آگہی بھی کارفرما رہی ہے۔ جو اُن کی اپنی نجی زندگی کے مقدّس آتش کدہ میں تپ کر کُندن ہوئی ہے۔ ان کی نظر میں دلت شاعر ہی دلت سماج کی حقیقی تصویر کو پیش کر سکتا ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے نعمان شوق سے رسالہ ’آج کل‘ کے اپریل ۲۰۰۹؁ء کے شمارہ میں ایک انٹر ویو میں ارشاد فرمایا :
’’میں دلت ہوں۔ اس لیے بھی میری شاعری کی بنیاد میں دلت مسائل پیوست ہیں۔ یہ میرا کمٹ منٹ بھی تھا۔ میں پہلے گجراتی میں بھی لکھتا تھا۔ گجراتی زبان میں بھی میری بہت ساری چیزیں ہیں۔ بحیثیت دلت جو مظالم سہے گئے ہیں۔ پہلی بار ان کا اظہار اُردو میں ہوا ہے۔ اگر کسی اور نے لکھی ہو تو کم از کم میں لاعلم ہوں، لیکن میں تو یہ مانتا ہوں کہ جوپیدائش سے (By Birth)دلت ہیں اور وہ لکھتے ہیں تو اُن کا لکھا ہوا دلت ادب ہے۔۔۔۔۔
ترقی پسند تحریک نے دلتوں کا الگ سے کوئی ذکر نہیں کیا کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ انسان مرکز میں ہونا چاہئے۔ وہ تو ہو شاعری میں مرکز میں ہوتا ہے لیکن خاص ’شودر‘ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ کسی بھی تحریک نے نہیں کیا۔ دلت تحریک Black Literature کے توسط سے مراٹھی ادب میں آئی ۔ مراٹھی کے بعد ۱۹۷۸؁ء میں گجرزتی میں یہ سلسلہ چلا اور آج بھی گجراتی میں اچھّی دلت شاعری ہو رہی ہے۔ مجھے خیال آیا کہ اُردو میں ایسی شاعری تو ہے نہیں۔ دلتوں کے سکھ دکھ میری ذات کا حصّہ ہیں۔ ایسا نہیں کہ میں نے دانستہ کوئی تجربہ کرنے کی غرض سے دلت موضوعات کو شاعری کے لیے استعمال کیا۔ ہندوستان کی ہر زبان میں دلت شاعری ہو رہی ہے اور سب سے پاورفُل شاعری یہی ہے۔‘‘
(ماہ نامہ’ آج کل‘ اپریل ۲۰۰۸؁ء ص ۴)
جینت پرمار منو کی ورن ویوستھا کی سخت لہجہ میں مخالفت کرتے ہیں۔ قدیم دورمیں دلت سماج کے اُوپر برتر طبقہ نے جو ظلم و ستم ڈھائے ہیں۔ وہ سارے ظلم و ستم اور اُن کے نشانات آج بھی اُن کے جسم کے اندر نقش ہیں۔ منو نے اپنی تصنیف ’منو سمرتی ‘میں صفات اور اعمال کے حساب سے چار حصّوں میں عوام کو تقسیم کیا تھا۔ برہمن کی پاکیزہ فطرت سے مذہبی فرائض ،ضبطِ نفس، ریاضت، عبادت، روحانی سکون، سادگی ، علم، معرفت اور برہم پر ایمان ہوتا ہے۔ کشتریوں کی فطرت میں بہادری، جلال، استقلال، ہوشیاری، خیرات دینا اور عوام پر حکومت کرنے کی خصوصیت پائی جاتی تھی۔ ویشیوں کی فطرت میں کھیتی کرنا، گوؤں کی حفاظت کرنا اور تجارت کرنا منو سمرتی میں درج ہے۔ اسی طرح شودروں کے میراث اور ماحول کی وجہ سے ان کا طبعی رجحان خصلت اور مزاج ایسا ہوتا تھا جس کی وجہ سے منو نے ان کو ایک مخصوص فطرت کا حمل پایا اور اس سے پیدا خصوصی صفت اور عمل کو دیکھتے ہوئے طئے کیا کہ وہ تینوں اعلیٰ اور برتر طبقہ کی خدمات بجا لائیں کیوں کہ ان کی جسمانی اور ذہنی صلاحیت اچھّی طرح سے ان خدمات کو ادا کرسکنے کے اہل تھی ۔ اس آہن پوش منو کی ضابطہ پسندی اور نظام پسندی کے خلاف ہی دلت تحریک وجود میں آئی۔ اس ضمن میں نظام صدیقی اپنے مقالہ ’اردو نظم کی تہذیبی تخلیقیت کی نیو کلیائی فوق مطنی تنقید‘ میں نہایت بے رحم سفّاک اور حقائق کا انکشاف کرتے ہیں :
’’ جینت پرمار بیک وقت برہمنی ثقافت کے چاندی سونے کے ہودے پر سوار جھانجھ مجیرا بجانے والے دانشوروں کے خلاف اسی طرح خم ٹھوک کر فکر سخن کرتے ہیں جیسے کہ ڈاکٹر امبیدکر نے ۱۹۲۷ء میں عوامی اجلاس میں پہلی بار سیاسی افق پر طلوع ہوتے ہی برہمنی صحیفہ ’’منو اسمرتی دھرم شاستر‘‘ کو نذر آتش کرکے ہندوستانی تہذیب کے ٹھہرے ہوئے پانیوں میں سطح پر ہلچل مچا کر ایک بڑا انقلاب آفریں کارنامہ انجام دیا تھا۔ اکیسویں صدی کے اردو ادب میں رفیع تر شعری اور تہذیبی آگ بڑی کفائت لفظی اور نت نئی تصویر آفرینی جینت پرمار روشن کر رہے ہیں۔ اس تخلیقی آگ کا معنوی رشتہ پرومی تھیسس کی اسطوری جڑوں اور گوتم بدھ کی بے کراں خاموشی اور انحراف آگیں آفاقی دردمندی سے ہے جو برہمنی اسٹیبلشمنٹ کے سفید ہاتھی کے پیروں کے نیچے دبے پسے اور کچلے ہوئے پامال آدمی کے اندر فطری طور پر روشن ہوتی ہے اور دلت سگِ زیر پا کو دلت پینتھرس میں بدل کر شب و روز آتش زیر پا رکھتی ہے کہ وہ تیسرے ہزارہ میں ایک نئے فکریاتی، تخلیقیاتی اور شعریاتی انقلاب برپا کر سکے۔ نیا ہزارہ دلت ہزارہ ہے۔ ‘‘
(رسالہ’ استعارہ‘ شمارہ اکتوبر/ نومبر/ دسمبر ۲۰۰۰؁ء ص ۹۲)
جینت پرمار اس غیر منصفانہ سماجی تقسیم کے خلاف حقیقی انسانی انصاف کے لیے نہ صرف احتجاج بلکہ بغاوت اور براہ راست مقاومت کرتے ہیں۔ چونکہ وہ سماجی نہ برابری ،ذہنی نہ برابری اور طبقاتی نہ برابری کے خلاف ہیں۔ اُن کی نظمیہ شاعری سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برہمن، کشتری اور ویشیہ سماج کے لوگوں کے خلاف اُن کے دل میں غصّہ اور نفرت کی آگ دھدھک رہی ہے۔ یہ آگ فوری طور پر پیدا نہیں ہو گئی ہے بلکہ برسوں انھوں نے برتر طبقہ کے مظالم کو اپنے گرد پیش میں دیکھا ہے۔ محسوس کیا ہے۔ انھوں نے دلت سماج کے طبقہ کی مظلومیت کو دیکھا ، پرکھا،جانا ، سمجھا، جھیلا اور بھوگا ہے تب جاکر انھوں نے اُردو ادب میں ایسی دلت شاعری کو اپنے اندر جنم دیا ہے۔ جو ما بعد جدید تخلیقیت پرور شعری ادب میں ایک بے بہا اضافہ ہے۔ یہ دلت شاعری ان کے جسم و روح میں اُترتی چلی گئی اور اُن کی زندگی اور پہچان کا ایک حصّہ بن گئی۔ اس ضمن میں اپنے معنی خیز خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مضمون ’قلم، دوات اور مَیں‘ میں لکھتے ہیں :
’’ میری شاعری کا اسلوب کہیںAbsurd ، کہیں سررئیل، کہیں نکّڑ پن پر بیٹھے ہوئے عام آدمی کا ہے، تو کہیں گالی گلوچ کا بھی۔ شائد اسی لیے میری دلت نظمیں رسائل کے مدیران کرام کی ردّی کی ٹوکری میں دفن ہو گئیں۔ جب کہ مجھے اپنے اطراف یہی لہجہ ملا تھا۔
ایک حساس انسان جب اپنی سطح سے اتر کر ایک عام انسان کی طرح سرل ہو جاتا ہے ، اس کے اندر شاعری جنم لیتی ہے۔ پاش ، چرابنڈ راجو، لانکسٹن ہفس(Langston Hughes) ، مائکل اینجلو (Mical Angeloo) تلوار پر چلنے والے لوگ ہیں۔ اِسٹالن اتہاس میں دب گیا ہے۔ پَرانا اَخما تُوا کی ’زکویم‘ نظم کا ماحول آج بھی میرے ساتھ زندہ ہے۔ نازیوں کے کانسنٹریشن کیمپ میں ہوئے ظلم کی خبر دینے والے دستاویز آج پُرانے ریکارڈ روموں میں دھول کھا رہے ہیں۔ پر مکلوش رود نیتی، ڈین پیکس کی نظمیں آج بھی میرے لہو میں چیختی ہیں۔ نام دیو ڈھسال، یشونت منوہر کی نظمیں میری آنکھوں میں چنگاریاں بھر دیتی ہیں۔ تنہائی میں انھیں پڑھتے ہوئے میں عجیب تکلیف، بے بسی اور انسان میں زندہ رہنے کی خواہش شدّت سے محسوس کرتا ہوں۔
ہزاروں سال سے بھوگے ہوئے Caste System کی تیزابی زندگی، Anti Reservation کی یاتنائیں برسوں میرے بھیتر جمی رہیں اور جب نظم بن کر پھوٹیں تو صرف واقعات کا تجزیہ /اینالسس نہیں تھیں۔ میرے لیے صرف چیزوں سے گزرنا نہیں تھا بلکہ ان کے جواز Justification کی جانچ بھی تھی۔ چھاتی کے پنجڑے میں جمی ہوئی یہ یادیں حساب لینا چاہتی تھیں۔ انھیں ٹرانسفارم کرنا چاہتی تھیں۔ شائد یہی سنگھرش ہے شاعری کا میرے لیے ! ‘‘
(ماہ نامہ ’آج کل ‘ اپریل ۲۰۰۸؁ء ص ۶)
جینت پرمار کی نظم ’’منو تری قسمت ہے کالی‘‘ میں دلت ذہنیت، حسیّت اور بصیرت کی بھرپور عکّاسی ہوتی ہے۔ منو کے نظامِ کائنات کی بابت جینت پرمار نے اعلیٰ اور برتر طبقہ کے لوگوں کو انھوں نے کُھلا چیلنج دیا ہے۔ جو قدیم روایت و تہذیب اور آج کے بدلتے ہوئے منظر نامہ کی حقیقی تصویر کو پیش کرتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں آگ کے شعلے ہیں، جو دقیانوسی روایت اور تہذیب کو جلا کر خاکستر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ دلت سماج پر ہوئے ایک ایک ظلم کا حساب مانگتے ہیں اور سماج میں تبدیلی کی توقع کرتے ہیں اور مظلوموں اور بے کس انسانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔’’منو تری قسمت ہے کالی‘‘ میں جینت پرمار لکھتے ہیں :
منو
کبھی گردن پہ کلڑی
پیٹھ پہ جھاڑو لٹکا کر نکلا ہے کہیں ؟
کانوں نے چکھا ہے کبھی کیا
ذائقہ جلتے سیسہ کا !
تیری ماں کو سرِ عام ننگا کرکے
چابک سے اس کی رانوں کو
لہو لہان کیا ہے کسی نے ؟
منو
تو سوتا ہے پھولوں کے بستر پر
میرے نصیب میں لکھا نہیں
سمشان گھاٹ کا سنّاٹا
تو تو نہاتا ہے مندر میں
دودھ اور گنگا جل سے
جب کہ مجھے مرنے کے لیے بھی
چلّو بھر پانی نہ ملا !
منو تری قسمت ہے کالی
دُکھ کا بھی احساس نہیں ہوتا تجھ کو
تری رگوں میں گرم خون ہے !
یا پانی !!
(نظم ’منو تری قسمت ہے کالی‘ سے)
جینت پرمار کی نظم ’’پیٹھ‘‘ میں بے رحم سچّائی کا انکشاف ہوا ہے۔ انھوں نے برترطبقہ کے اُوپر طنز بھی کیا ہے۔ ان کے یہ نظمیہ اشعار تخلیقیت افروز اور زندگی پرور ہیں۔ اس نظم میں زندگی ہے، تنوّع ہے، اُسعت ہے، معنویت ہے، عصریت ہے، فنّیت ہے اور حسن کا امتزاج بھی ملتا ہے۔ ان کی نظمیہ شاعری کا حسن یہ ہے کہ وہ بڑی فنّیت سے سیدھی سادی اور حقیقی تصویر صفحۂ قِرطاس پر روشن کرتے ہیں۔ وہ کھُلی آنکھوں سے بے درد اور بے رحم سماج کی ننگی تصویر دکھاتے ہیں۔
عمر نہیں تھی
پہاڑ دُکھ کے
پیٹھ پہ اپنے ڈھونے کی
منوو کی ورن ویوستھا کا
اِک بار گراں
پیٹھ پہ ڈھوتی ہے پھر بھی
اس پر بھی تم
رعب جماتے ہو چابک کا
اُف تک منھ سے نکلی نہیں
اور چابک کے غصّے میں
سرخ ہو گئی میری پیٹھ
جس پر سینکتے ہو تم روٹی
اپنے بھرے پیٹوں کے لیے !
(نظم ’پیٹھ‘ سے)
اکیسویں صدی کے ما بعد جدید تناظر میں جینت پرمار کی دلت نظمیہ شاعری اُردو ادب میں ایک نئے فنّی اور جمالیاتی نظام کی تخلیق کرتی ہے۔ جینت پرمار کی دلت نظمیہ شاعری میں ماورائے حقیقت نگاری کے نقوش ملتے ہیں۔ جس کو انھوں نے اپنے فنّی اسلوب، استعارے، علامت، فنّی لطافت اور ذہانت سے پیش کیا ہے۔ جینت پرمار کو الفاظ کے برتنے کا سلیقہ خوب آتا ہے۔ وہ الفاظ کے ذریعہ ایک سچّی اور حقیقی تصویر بناتے ہیں۔ مصوّری کے نقوش ان کی نظمیہ شاعری میں جا بجا ملتے ہیں۔ جس سے ان کی نظموں میں آہنگ اور تسلسل ملتا ہے۔ ان کی نظمیہ شاعری دوسرے شعرا سے مختلف ہے۔ ان کی نظمیہ شاعری کی زبان اور اسلوب میں کہیں کہیں Absurd اور گالی گلوچ تک کی صورتِ حال پیدا ہوتی نظر آتی ہے۔ جینت پرمار کی دلت شعری تخلیقیت میں خارجی اور داخلی دونوں پہلو نمایاں نظر آتے ہیں۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ تخلیقیت کے متعلق اپنے معنی خیز خیالات و تاثرات کا اظہار اپنے مضمون ’ما بعد جدیدیت : عالمی تناظر میں‘ یوں کیا ہے :
’’ نطشے ہر سطح پر تخلیقیت کے ’جشن جاریہ‘ کا قائل ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر سچی تخلیق پرانے نظم کو بدلتی ہے اسی لیے نئے کی نقیب ہوتی ہے۔ نطشے ذہن کی اس نڈر اور بے باک کشادگی پر زور دیتا ہے جو نئے کو لبیک کہتی ہے، بدلنے سے بھڑکتی نہیں اور اگر ضروری ہو تو سابقہ موقف سے ہاتھ اُٹھا لینے میں بھی عار نہیں سمجھتی۔ تخلیقیت کسی ایک مقام پر رکتی نہیں، یہ ہر لحظہ جواں، ہر لحظہ جرائت آزما، ہر لحظہ تازہ کار اور ہر لحظہ تغیر آشنا ہے۔۔۔ ما بعد جدید عالمی مفکرین کا رویہ بالعموم یہ ہے : IF MARX ISN'T TRUE THEN NOTHING IS اُن کا کلیت پسندی، مرکزیت، یا نظریہ بندی کے خلاف ہونا، نیز تکثیریت، کثیرالوضعیت ، مقامیت، بو قلمونی یا سب سے بڑھ کر تخلیقیت پر اصرار کرنا اسی راہ سے ہے۔‘‘
( ’جدیدیت کے بعد‘ ص : ۲۹)
جینت پرمار اپنی دلت نظمیہ شاعری سے عوام کو جھکجھوڑتے ہیں۔ اُن کے تیور میں تلخی ہے۔ نفرت اور بدلے کی آگ اُن کی زندگی کا حصّہ ہے۔ یہی اُن کی شاعری کا جوہرِاصل ہے۔ نفرت اور بدلے کی آگ اُن کی نظم ’’میری جنگ روٹی کی نہیں‘‘ میں صاف طور پر دکھائی دیتی ہے۔
بھوکا برہمن
بھوکا کھشتریہ
بھوکا ویشیہ
لڑتاہے روٹی کے لیے
چاند سی اک روٹی کے لیے
اس کا سپنا روٹی ہے
اچھوت ہوں مَیں
میرے سائے سے بھی تم کتراتے ہو
مَیں ہوں تمہاری بستی باہر
جہاں تم ہگتے ہو وہاں پر
ٹاٹ کی میری جھُگّی ہے
کنویں سے لے کر مندر تک
تم نے بنائی ہیں دیواریں
منو کی اونچی دیواریں !
میرے حصّے میں تو ملا ہے
اپنے لوگوں کا ایمان !
اور نفرت کی آگ !!
مری جنگ اُس کے خلاف
جو روٹی سے بڑھ کر ہے
میری جنگ روٹی کی نہیں !
(نظم ’میری جنگ روٹی کی نہیں‘ سے)
جینت پرمار کی دلت نظمیہ شاعری کا اسلوبِ بیان اچھوتا اور نرالا ہے۔ انھوں نے عام روش سے ہٹ کر دلتوں کے مسائل، دکھ، درد، رنج و الم، بھوک و افلاس، بے بسی، مجبوری، لاچاری اور قدیم دور سے ان کے اُوپر ہوئے ظلم و ستم کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے بڑی بیباکی اور چابک دستی سے Absurd الفاظ کو اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ وہ الفاظ ان کی نظمیہ شاعری کا حصّہ بن گئے ہیں اور جس کی بنا پر ان کی دلت شعری تخلیقیت زندگی پرور اور جمالیت افروز ہو گئی ہے۔ یہ Absurd الفاظ شاعر کے پیدا کردہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ برسوں کے جھیلے ہوئے اپنوں کے دکھ، درد اور گاؤں میں برہنہ گھُمائی گئی عورتوں کی تصویریں ان کے دل میں آج بھی پیوست ہیں۔ جن کی چنگاری سے یہ الفاظ شعلے بن کر اُبھرتے ہیں۔ برتر طبقہ اور جاگیردارانہ نظام کے ظلم و ستم کی حقیقی تصویر جا بجا ان کی نظمیہ شاعری میں ملتی ہے۔ ان کی دلت نظمیہ شاعری پڑھنے والوں کے دلوں کو جھکجھوڑتی ہیں اور عوام کو نئی تبدیلی کی طرف راغب کرتی ہیں۔ اکیسویں صدی کا مابعد جدید عہد نئی تبدیلیوں کا دور ہے۔ جینت پرمار کی نظم ’’ ذات۔۱ ‘‘ اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔
بدن کی کالی مٹّی پر
پھٹی پرانی میلی قمیص
اور نیندوں میں
خواب سنہرے دیکھتا ہوں
خواب میں اکثر ہوتا مَیں
جاگیردار کا ایک لڑکا
سارے گاؤں پہ رعب جمایا کرتا ہے
میرے نام پہ ساری گلیاں
جھک جاتی ہیں پاؤں میں
دگڑو سے میں دیا پرساد
خواب میں کتنا خوش ہوتا ہوں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لیکن اس کے ٹوٹتے ہی کیوں
سب کچھ زیر و زبر ہوتا ہے
نام بدل کر شہر بدل
بچ نہ سکا میں ذات سے اپنی
لکھی ہوئی تھی جنم جنم سے
میری جبیں پر !
(نظم ’ذات۔۱‘ سے)
نظمیہ شاعری میں تصویر کشی جینت پرمار کی شاعری کا اصل جوہر ہے۔ وہ اپنے فن سے نظمیہ شعری تخلیقیت میں جمالیاتی نقش گری کرتے ہیں۔ جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ایک تصویر چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہے۔ زندگی کے حادثات، تجربات، مشاہدات اور دل کے درد و کرب کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں۔ جس سے پڑھنے اور سننے والے کی آنکھوں میں استعجاب، نفرت، غصّہ اور درد کا احساس ہوتا ہے۔ اس ضمن میں جینت پرمار کی نظم ’’ ذات۔۲ ‘‘ میں زندگی پرور اور سماج میں تبدیلی کا دور کارفرما ہے۔
میرے اجداد نے
لہو رستے ہاتھوں سے رکھی تھی بنیاد اسکول کی
اسکول کی ایک اِک اینٹ میں
ہے انہی کے لہو کی سگندھ
وہ تھے ان پڑھ گنوار
مجھ کو داخل کیا تھا اسی اسکول میں
تاکہ پڑھ لکھ سکوں
مگر میرے ٹیچر نے
داخل نہ ہونے دیا کلاس باہر کڑی دھوپ میں
جانور کی طرح مجھ سے برتاؤ ہوا
مَیں اندر ہی اندر یوں گھٹتا رہا
خواب کا ایک اِک پھول مرجھا گیا
بہت غصّہ آیا
میری ذات پر، کھُردرے ہاتھ پر
اسکول کی ایک اِک اینٹ پر
ہے مرے ہی لہو کی سگندھ
(نظم ’ذات۔۲‘ سے)
’نرک کنڈ کی باس‘ جینت پرما رکی بہت ہی مشہور نظم ہے۔ اس نظم میں انھوں نے دلت سماج کی حقیقی تصویر پیش کی ہے۔ ان کی یہ نظم ان کے باطنی عمل کا حصّہ ہے۔ وہ اپنے اس نظم میں دلت سماج کے دکھ ، درد اور کرب کو نہائت ہی فنّی جمالیت اور لطافت کے ساتھ پیش کیا ہے۔
نرک کنڈ کی باس
مِرے اسکول تلک آتی تھی
دھوپ کی چھتری کے نیچے
ننگے پاؤں اُترتی تھی
نرک کنڈ میں !

جانوروں کے چمرے کو
نمک اور پانی میں بھگوکر
اپنے مریل پاؤں سے کر دیتی تھی صاف
بدلے میں وہ
گوشت کے ٹکڑے لے آتی تھی میرے لیے !!

آج بھی جب میں
آفس جانے سے پہلے اپنے جوتے کو
چیری پالش کرتا ہوں تب
اُس کی چمک میں
ماں کا چہرا دکھتا ہے
نرک کُنڈ کی باس
مِرے آفس تک آتی ہے !
اس ما بعد جدید دور میں اگر جینت پرمار پہلے دلت شاعر ہیں تو آشا پربھات اُردو ادب میں اوّلین دلت شاعرہ ہیں۔ جو عالمی، قومی اور مقامی تہذیبی منظر نامہ پر اچّھی شاعری کر رہی ہیں۔ جینت پرمار کا یہ کہنا کہ دلت شاعر یا ادیب ہی دلت ادب کو پیش کر سکتا ہے۔ جس نے یہ کرب جھیلا ہے۔ وہی اس کے ساتھ انصاف کر سکتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ پریم چند کے متعدد ناول اور افسانہ میں دلت Discourse کو پیش کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر پریم چند کا افسانہ کفن ہے۔ جس میں دلت سماج اور اُن کے مسائل پر پریم چند نے حقیقی تصویر پیش کی ہے۔ کفن اُردو ادب کا شاہ کار افسانہ ہے۔ اسی طرح پریم چند کا ناول گؤدان اُردو ناول نگاری میں شاہ کار کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے اہم کردار ہوری اور دھنیا ہیں۔ جن کے ارد گرد پوری کہانی گھومتی ہے۔ یہ دلت سماج کے زندہ اور امر کردار ہیں۔ جن پر پریم چند کی گہری پکڑ ہے۔ اسی طرح کرشن چندر کا افسانہ کالو بھنگی ہے۔ اس میں بھی افسانہ نگار نے دلت Discourse کو نہایت ہی فنّی لطافت اور ذہانت سے پیش کیا ہے۔ اسی طرح متعدد لوگوں نے دلت سماج کی تہذیبی رنگا رنگی زندگی کو اپنے افسانے اور ناولوں میں پیش کیا ہے۔ کیا دلت ادب کی فہرست بناتے وقت پریم چند اور کرشن چندر جیسے تمام ادیبوں کو اُردو ادب سے خارج کر دیا جائے گا ؟ جنھوں نے پوری زندگی اُردو ادب کی خدمت کی۔ میرے خیال سے اُردو ادب میں فرقہ واریت کی ہمیشہ تردید ہوتی رہی ہے۔ وہ فرقہ واریت کسی بھی نوعیت کی
ہو۔ خواہ وہ دلت فرقہ واریت ہو، مسلم فرقہ واریت ہو، سکھ فرقہ واریت ہو یا برہمنی فرقہ واریت ہو۔ وہ قابلِ مذمّت اور قابلِ ردّ ہے۔ ہم کو ہر حالت میں سچّی اور کھری انسانیت اور آدمیت کی مشعل کو روشن رکھنا چاہئے۔ ادیبوں کا کام ہے فرقہ پرست طاقتوں کا مقابلہ کرنا۔ نہ کہ فرقہ واریت اور تعصب کو بڑھاوا دینا۔ کوئی بھی شاعر یا ادیب جو دلت Discourse کو پیش کر رہا ہے، وہ دلت ادب ہے۔ اس کے لیے شاعر یا ادیب کا دلت ہونا کوئی ضروری شرط نہیں ہونی چاہئے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ کتنی گہرائی اور سچّائی سے غوطہ لگاتا ہے اور کتنے موتی اُس کے فکر و فن کے نصیب میں آتے ہیں۔


٭٭٭٭٭

Ajai Malviya
About the Author: Ajai Malviya Read More Articles by Ajai Malviya: 34 Articles with 78760 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.