نور اعلیٰ نور - قسط ۲۱

سردیوں کا موسم تھا۔ ذولفقار ، سعد اور تنظیم کے دوسرے رفقاء سالانہ اجتماع میں حاضر تھے۔

سب سے پہلے امیرِ جماعت نے اجتماع سے خطاب کیا۔کم و بیش پانچ ہزار افرادکا مجمع تھا۔بہت سے خیمے لگے تھے۔ سفر کے باعث سب لوگ تھک چکے تھے۔ملک کے کونے کونے سے تنظیم کے ممبران اس اجتماع میں شرکت کے لئے آئے تھے۔سعد اور ذولفقار ایک ہی خیمے میں رہائش پزیر تھے۔سعد اس بات پر بہت خوش تھا کہ سَرذولفقار سے ذاتی طور پر بات چیت کرنے کے بہت سے مواقع یہاں مل جائیں گے۔

تہجد کا وقت ہوا تو تھکن سے چور ہونے کے باوجود ذولفقار اپنا گرم بستر چھوڑ کر اٹھا۔باہر بہت سردی پڑ رہی تھی۔ ایسے میں وضو کرنا بھی کسی آفت سے کم نہ تھا۔

سعد نے ذولفقار کے اٹھنے کی آہٹ محسوس کر لی تھی۔ تمام افراد نیچے زمین پر ہی اپنا بستر بچھائے ہوئے تھے۔اُسے تو نرم گرم آرام دہ بستروں پر سونے کی عادت تھی۔ نیند تو ویسے بھی اسے صحیح طرح نہیں آ سکی تھی۔ذولفقار کو تہجد کے لئے اٹھتا دیکھ کر اس نے بھی تہجد پڑھنے کا ارادہ کیا۔ مگر پھر کمزور پڑ گیااور کہا کہ فجر پڑھ لوں گا…… پھر ارادہ کیا…… پھر کمزور پڑ گیا کہ تہجد کونسی فرض ہے……!!! اسی سوچ سوچ میں کافی دیر گزر گئی ۔ نہ اسے نیند آئی نہ ہی وہ بستر سے اٹھا…… اور فجر کی آذان ہی ہو گئی۔ اب تو سارا خیمہ ہی بستر چھوڑ کر اٹھا اور چار و نا چار سعد کو بھی اٹھنا پڑا۔

ٖ’’ویسے میرا تصور تنظیم کے بارے میں اتنا واضع نہیں تھا جتنا کہ یہاں آ کر ہوا……‘‘ سعد نے فجر کی نمازسے فارغ ہو کر ذولفقار کو پکڑ لیا ۔ وہ دونوں اپنے بڑے سے خیمے میں قریب ہو کر بیٹھے تھے۔ارد گرد کئی اور افرادنے بھی اپنے اپنے بستر زمین پر ہی بچھا رکھے تھے۔
’’اچھا !……ظاہر ہے ……زرا گھل مل کر ہی چیزیں صحیح طرح سمجھ آتی ہیں…… واضح ہوتی ہیں‘‘
’’جی……‘‘ سعد نے کہا۔
’’ویسے آپ اپنے تاثرات بتائیں…… کیسا لگ رہا ہے آپ کو؟؟؟‘‘ ذولفقار نے پوچھا۔
’’ام م م…… بس میرا تو یہ خیال تھا کہ بس…… نماز روزہ کرنااور پھر وہی…… یعنی مظاہرے وغیرہ کرناحکومت کے خلاف…… سسٹم کے خلاف……‘‘
’’مگر اب پتہ چل رہا ہے کہ تہجد بھی پڑنی پڑے گی…… ہاہاہا‘‘ سعد ہلکا سا ہنس دیا۔ ذولفقار بھی مسکرایا۔
’’ہاں! ظاہر ہے……‘‘ ذولفقار بولا۔
’’بات یہ ہے کہ……‘‘ ذولفقار نے جملہ ادھورا چھوڑا۔
’’سیدھی سی بات ہے……جو اﷲ کے لئے رات کو اپنی نیند نہیں قربان کر سکتا…… وہ اور کیا کرے گا!!!‘‘۔
’’اگر کچھ کرے گا بھی تو بیچ رستے میں کمزور پڑ جائے گا…… ‘‘
’’سمجھے آپ؟؟؟‘‘
’’……اور انبیاء اور صحابہ اکرام کا…… اور رسول اﷲ ﷺ کا بھی یہی طریقہ تھا……‘‘
’’بے شک صبح کی نماز نفس کو زیر کرنے میں نہایت مفید ہے‘‘ ’’……قرآن مجید کی آیت ہے……‘‘ ذولفقار نے ایک آیت کا ترجمہ پڑھا۔
’’……اوراس سے بھی پہلے تہجد والوں کے لئے تو جو الفاظ قرآن مجید میں آئے ہیں وہ تو……‘‘ ’’…… بندہ رشک کی کیفیت میں چلا جاتا ہے انہیں پڑھ کر……‘‘
’’اسی طرح آپ ہفتہ میں دو دن روزہ رکھیں…… ہاہاہا……‘‘ذولفقار ہنس دیا کہ سعد تو تہجد پڑنے پر ہی اتنا حیران ہے تو روزہ کیسے رکھے گا!!!

’’دیکھو بیٹا ! سسٹم کے خلاف جو آپ نے بات کی ہے…… تو یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیں…… یہ جاگیردار، یہ وڈیرے کبھی بھی سسٹم کر بدلنے نہیں دیں گے…… ان کے مفادات اس سے جڑے ہیں!!!‘‘
’’……بلکہ جو بھی اسے بدلنے کی کوشش کرے گااسے ہر صورت کچلنے کی کوشش کریں گے‘‘۔
’’سارا کرپٹ سسٹم ان کا تیار کردہ ہے اور یہی لوگ اسے سہارا دئیے ہوئے ہیں……‘‘
’’…… تو اس راہ میں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے…… بلکہ وہی صورت جو رسول اﷲ ﷺ کے دور میں تھی‘‘۔
’’…… وہ قریش کے سردار ، وہ بڑے بڑے اثر رسوخ والے لوگ کہاں کچھ بدلنا چاہتے تھے…… اور جب رسول ﷺ نے بدلنے کی کو شش کی تو انہیں پتھر بھی پڑے …… گالیاں بھی سننا پڑی…… کھانے پینے کے لالے بھی پڑ گئے……‘‘ رسولِ خدا ﷺکی زندگی کا وہ دور یاد کر کے ذولفقار کی آنکھوں میں نمی بھر آئی……
’’ اب آپ بتائیں ، یہ ساری تکلیف سہنے کے لئے کچھ ٹریننگ تو ہونی چائیے نا…… جیسے فوجیوں کی ہوتی ہے……‘‘
’’…… اور اسلامی ٹریننگ کیا ہے!!…… یہی نفس کر قابو کرنا……‘‘۔ ’’ رات کو تہجد پڑھ کر،دن کو روزے رکھ کر ، حج کی مشکلیں سہہ کر، ذکوۃ صدقات دے کر……‘‘
’’تا کہ وقت پڑنے پر تمہیں کہیں کھانے کو نا ملے تو تمہیں روزہ رکھنے کی پہلے سے عادت ہو…… اگر راتوں کر جاگنا پڑے تو تمہیں تہجد میں اٹھنے کی پہلے سے عادت ہو……کہیں مال کی ضرورت پڑے تو تم دُم دبا کر کھِسک نہ جاؤ، بلکہ تمہیں پہلے ہی سے صدقات خیرات کرنے کی عادت ہو……ملا و دولت کے غلام نہ ہو‘‘
’’یہ ہے اﷲ والوں کی تربیت اور سیرتِ نبوی ﷺ کا طریقہ……‘‘
سعد کو چپ لگ گئی، وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

چار دن کے قیام کے بعد امن و امان سے اجتماع اپنے اختتام پر پہنچا۔ سب کا واپسی کا سفر شروع ہوا۔ بہت سے نئے افراد تنظیم کا حصہ بن گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔

رات کے بارہ بج رہے تھے ۔سعد اپنے روم میں بیٹھا انٹرنیٹ پر کچھ وڈیوز وغیرہ دیکھ رہا تھاکہ اچانک گھر کی بیل بجی۔ گھر کا بٹلر سو چکا تھا۔ کوئی بھی دروازہ کھولنے باہر نہ نکلا۔ ویسے تو سعد اپنے کام میں لگا تھا مگر ذہن میں تھا کہ کسی نے بیل بجائی ہے تو دروازہ کھلنے کی بھی آواز آنی چائیے۔ مگر اب تک کوئی دروازہ کھولنے نہیں آیا تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں میجر اشرف تیز تیز قدم چلتے دروازے کی طرف بڑھے اور دروازہ کھولا۔
سعد نے ایک نظر اپنے بھائی کو اُچک کر دیکھا پھر دوبارہ اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔پَر ایک خیال کے آتے ہی وہ پھر اٹھااور کھڑکی سے زرا ہٹ کر کھڑا ہوا اور باہر نیچے گلی میں دیکھنے لگا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ میجر اشرف اسے دیکھ لیں۔

باہر وہی اجنبی شخص کھڑا تھا۔ایک طرف کو ہو کر میجر اشرف اس سے کچھ سرگوشی کر رہے تھے۔ سعد کے کمرے کی لائٹ تو ویسے ہی آف تھی۔وہ کھڑکی کے پردے کی اوٹ میں جا کھڑا ہوااور بہت محتاط ہو کر نیچے میجر اشرف اور اس شخص کی ملاقات کا مشاہدہ کرنے لگا۔

’’جانے کون ہے یہ……ایسے رات کو آتا ہے!!!‘‘ سعد کو ہمیشہ ہی سے اس شخص کو دیکھتے ہی کچھ تشویش سی ہو جاتی تھی۔پھر وہی ہوا ایک لفافہ سا میجر اشرف نے اس کی ہاتھ میں تھمایا اور اس سے ہاتھ ملا کر اندر گھر میں واپس پلٹے۔سعد فورََ پیچھے کو ہٹا کہ کہیں وہ اسے دیکھ نہ لیں۔


۔۔۔۔۔۔۔

ذولفقار اپنے ایک بیٹے اور زیبا کے ساتھ بڑی خوشگوار ازواجی زندگی بسر کر رہا تھا۔اپنے کام سے گھر واپس آ کر وہ تنظیم سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں لگ جاتا۔ ظاہر ہے اپنے گھر والوں کر ویسے تو وقت نہ دے پاتا جیسے کہ دوسرے افراد دیتے ہیں…… مگر زیبا ذولفقار کے مشن میں اس کے ساتھ تھی……کبھی اس سے کوئی شکوہ شکایت نہ کرتی۔ ورنہ دنیا کی رنگینیاں کسے نہیں پسند!!!
جیسے ذولفقار تنظیم کے لئے وقت صرف کرتا تھا ، زیبا بھی اﷲ کے لئے صبر کرتی تھی۔بس اس گھر میں ایک سدرہ تھی جو آئے دن کوئی نہ کوئی فتنہ پرپا کر رکھتی تھی۔

ایک یونیورسٹی میں لیکچرار ہونے کے ناطے ذولفقار کے پاس اتنا مال و دولت تو ابھی تھا بھی نہیں کہ وہ اپنی فیملی کو الگ گھر میں رکھ سکتا……لہذا وہ مجبور تھا سدرہ کو برداشت کرنے پر…… وہ اپنے گھر کا ماحول اس طرح نہیں رکھ پا رہا تھا جیسا کہ ایک اچھے مذہبی گھرانے کا ہونا چائیے۔یہ بات مسلسل ذولفقار کے لئے تکلیف کا باعث بنتی۔

ایک دن سدرہ کچھ لوگوں کو گھر لے آئی اور اوپر چھت پر لے گئی۔ کچھ دیر تو ذولفقارگھر میں یہ ہلچل دیکھتا رہا پھر اتا پتا کرنے اٹھا کہ کیا ہو رہا ہے!!!
’’کیا ہو رہا ہے؟؟؟‘‘ ذولفقار نے سنجیدگی سے سدرہ سے پوچھا۔ویسے تو یہ دونوں آپس میں بہت کم ہی گفتگو کرتے تھے۔
’’آج رات کو ہماری ایک پارٹی ہونی ہے……‘‘
’’اس کی تیاریاں کر رہی ہوں……‘‘ سدرہ نے یوں جواب دیا جیسے اس بارے میں کسی کو کچھ بتانا ضروری نہ سمجھتی ہو۔بلکہ اسے ذولفقار کا اس سے سوال کرنا برا لگ گیا ہو۔
’’پارٹی!!! ‘‘ ’’کوئی خاص بات ہے کیا!!!‘‘
ویسے تو دولفقار کو تشویش ہو ہی گئی تھی کہ سدرہ کی پارٹی کیسی ہو گی، پھر بھی ذولفقار نے پوچھ ہی لیا کہ شاید کوئی سالگرہ وغیرہ یا کوئی اور ایسی بات ہو۔
’’ہم م م …… بس ہم لوگ رکھ لیتے ہیں اس قسم کی پارٹیز …… جسٹ ٹو انجوائے لائف……‘‘ سدرہ نے بے نیازی سے جواب دیا۔

ذولفقار سمجھ گیا کہ یہ کس نوعیت کی پارٹی ہو گی۔یقینا ناچ گانا بھی ہو گا…… اور اس سے بڑھ کر پینا پلانا بھی ہو گا…… کیونکہ سدرہ کے دوست احباب ایسے ہی بدقماش لوگ تھے۔ ایک سوپر ماڈل سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے!!! کوئی محفلِ میلاد یا قرآن خوانی تو منعقد ہونی نہ تھی۔
’’دیکھئیے ! ویسے تو میں آپ کو خوب جانتا ہوں اور کسی قسم کی جھڑپ بھی نہیں چاہتا اس گھر میں……‘‘ ذولفقار بولا۔
’’سیدھی سیدھی بات ذہن میں بٹھا لیں…… میں پہلے سے ہی پولیس کو یہاں کال کر کے رکھوں گا…… جو کہ پوری پارٹی میں یہاں موجود رہے گی…… اگر یہاں شراب نوشی یا کوئی اور غیر اخلاقی حرکت ہوئی تو آپ کی پارٹی خراب ہو جائے گی۔‘‘ ذولفقار نے صاف صاف بتا دیا کہ وہ پولیس کو بلا کر اپنے گھر میں کوئی غیر اخلاقی حرکت نہیں ہونے دے گا۔
سدرہ کا منہ غصے سے لال ہو گیا ۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا کہے۔ مگر وہ ذولفقار کی بات کو محض ایک دھونس سمجھ کر پارٹی کی تیاریوں میں لگ گئی۔

شام کے چار بجے ہی ذولفقار نے اپنے ایک دوست جس کے ماموں پولیس میں تھے کو فون کر کے ایک دو پولیس والوں کو گھر میں بٹھا لیا۔اب سدرہ کے ہوش اڑنے لگے۔ جسے وہ صرف دھونس سمجھ رہی تھی وہ تو اب آنکھوں کے سامنے تھا۔ پئے پلائے بغیر تو اس کی محفل میں کوئی رنگ ہی نہ رہتا…… اور آج تو کئی سیلیبز، ماڈلز اور این جی اوز کے عہدہ دار آنے والے تھے۔

سدرہ کچھ سمجھ نہ پائی کہ اب کیاکرے۔ وہ اپنے روم میں گئی اور اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔وہ ذولفقار کو جانتی تھی کہ وہ عین وقت پر پارٹی میں ٹپک کر اس کی بے عزتی کروا دے گا۔
اپنی ہار مان کر اس نے یہ پارٹی کینسل کی، مگر ذولفقار سے اس حرکت کا بدلہ لینے کی ٹھان لی۔
 

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 86225 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More