میں رنگ شربتوں کا، تو
نیلے گھاٹ کا پانی
مجھے خود میں گھول دے تو، میرے یار بات بن جانی
رنگ شربتوں کا، تو نیلے گھاٹ کا پانی
سعد اپنی گاڑی میں کسی کام سے باہر نکلا ہوا تھا۔ ریڈیو پر اچھا سا گانا چل
رہا تھا۔وہ ڈرائیو انجوائے کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ ایک کپڑوں جوتوں
وغیرہ کے بازار سے گزر رہا تھا ۔ بڑی چہل پہل تھی جیسی کہ عام طور پر
بازاروں میں ہوتی ہے۔ گاڑی کی اسپیڈ بھی کم ہی تھی کیونکہ بار بار لوگ روڈ
پار کرنے سڑک سے گزرتے تھے۔ سعد ادھر ادھر رونقیں دیکھتا آہستہ آہستہ آگے
بڑھ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر دوسری لین میں چلتی ہوئی ایک گاڑی پر پڑی۔
’’بھائی کہاں جا رہے ہیں؟؟؟‘‘ وہ گاڑی اس کے بھائی میجر اشرف کی تھی ۔وہ
تنہاں خود گاڑی چلاتے کہیں جا رہے تھے۔ڈرائیور نہیں تھا اور گاڑی بھی آرمی
کی نہ تھی۔ سعد نے انہیں پہلے کبھی ایسے نہیں دیکھا تھا۔
میجر اشرف کے بارے میں جو شک کی چنگاری اس کے دل میں تھی اچانک وہ بھڑک
اٹھی……
سعد جہاں کہیں بھی جا رہا تھا اپنا ارادہ ترک کر کے میجر اشرف کی گاڑی کے
پیچھے ہو لیا۔
بڑی احتیاط سے اور ڈرڈر کے اس نے ان کی گاڑی کا پیچھا کیاکیونکہ سعد کی
گاڑی میجر اشرف کے لئے انجان نہ تھی۔اگر کہیں ان کی نظر اس پرپڑ جاتی تو
سارا کھیل بگڑ جاتا۔لہذا وہ بڑا محتاط ہو کر دور ہی دور سے ان کا پیچھا
کرتا رہا۔کئی بار تو اسے لگا کہ میجر اشرف کی گاڑی اس کے ہاتھ سے نکل ہی
گئی، مگر پھر کسی نہ کسی طرح وہ اسے جا لیتا۔
کچھ دیر یونہی تعا قب کر نے کے بعد میجر صاحب کی گاڑی کی رفتار کچھ کم ہوئی
اور انہوں نے ایک روڈ کے سائیڈ پر گاڑی لگائی…… گاڑی سے اترے اور روڈ کے
کنارے لگے ایک اے ٹی ایم میں داخل ہو گئے۔
قریباََ آدھا گھنٹا تو اس معاملے کو ہو ہی گیا تھا۔
بہرحال میجر اشرف پھر اسی گاڑی میں بیٹھے اور آگے بڑھنے لگے۔ صدر کے ایک
پرانے علاقے میں ایک پرانی سی بلڈنگ کے نیچے کوئی کھڑا ان کا انتظار کر رہا
تھا۔
سعد نے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے اپنی گاڑی کو روڈ کے دوسری جانب روکااور
اندر ہی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے سارا ماجرا دیکھنے لگا۔
یہ وہی شخص تھا جسے میجر اشرف نے ایک بار کوئی کاغذات دینے کو کہا تھا۔وہی
کسی ہندوسے مشابہہ شخص……
میجر اشرف نے پھر ایک لفافہ اس کے حوالے کیا اور اپنی جیب سے بھی کچھ نکال
کر اسے دیا۔
سعد تشویشناک نظروں سے سب کچھ دیکھتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔
تقریباََ مغرب کا وقت ہو گا۔ ذولفقار آج یونیورسٹی سے کچھ دیر سے گھر واپس
آ رہا تھا۔ وہ بازار سے کچھ خریداری کرنے چلا گیا تھا۔وہ اپنی گاڑی گھر کے
باہر کھڑی کر کے اندر گھر میں داخل ہونے لگا۔ باہر ہی کسی کی پک اَپ بھی
کھڑی تھی۔وہ دروازے کے قریب پہنچا تو پتا چلا کہ وہ پہلے سے ہی کھلا ہو ہے۔
’’آئے دن چوی چکاری کا سنتے رہتے ہیں…… حالات خراب رہتے ہیں ……اور یہ لوگ
احتیاط نہیں کرتے……‘‘ ذولفقار گھر والوں کی لاپرواہی پر ناراض ہو نے لگا۔
گھر کے اندر سے کچھ عجیب سی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ذولفقار کو کچھ تشویش
ہوئی۔وہ سیدھا گھر کا داخلی دروازہ کھول کرTV لاؤنچ میں داخل ہو گیا۔
’’دھڑاک ‘‘کی آواز کے ساتھ دروازہ پیچھے سے خود ہی بند ہو گیا……ذولفقار کا
دل اچھل کر حلق میں آ گیا…… دوسرے ہی لمحے ایک شخص اس کی کن پٹی پر ٹی ٹی
تانے کھڑا تھا۔
’’چل……‘‘ اس بڑے سے ڈیل ڈول کے بدقماش آدمی نے’’چل‘‘ کے ساتھ ہی ایک گندی
گالی بھی دی اور ذولفقار کودھکا مار کر سدرہ کے بیڈ روم لے گیا۔ ذولفقار
خوف اور حیرانی کی ملی جلی کیفیت سے دوچار تھا۔ اس کا چہرا گھبراہٹ سے لال
ہو گیا ۔ اس کے ماتھے پر ابھرتا پسینہ صاف نظر آ رہا تھا۔
اندر کمرے میں دو اور آدمی بڑی بڑی گنیں تانے سدرہ اور اس کی امی کو یرغمال
بنائے ہوئے تھے۔زیبا اور ذولفقار کا بیٹا اپنی نانی کے گھر گئے ہوئے تھے
اور وحید بھی اپنے اسٹور پر تھا۔
ان ڈاکوؤ ں نے ذولفقار ، سدرہ اور ان کی امی کو بیڈ پر اوپر چڑھ کر بیٹھنے
کا حکم دیا۔تینوں فوراََ ہی ان کی مان گئے اور اچھل کر بیڈ پر چڑھ گئے۔
کمرے سے باہر مو جود دو آدمی گھر کا صفایا کرنے لگے۔وہ اوپر ذولفقار کے
کمرے میں بھی گئے اور وہاں بھی کاروائی کی۔
’’اپنے اپنے ہار بندے اتارو‘‘ ان میں سے ایک شخص چیخا۔
ان کی امی فوراََ اپنے زیورات اُتارنے لگیں پر سدرہ یوں ہی بیٹھی رہی۔
’’……تم بھی اتارو……‘‘ وہ بہت زور سے چیخااور ساتھ ساتھ سدرہ کو بھی ایک
گندی گالی سے نواز دیا۔
سدرہ ایک دم اچھل گئی!!!
وہ جو تھوڑی دیر پہلے تک قدرے بے فکری سے بیٹھی تھی۔اب اپنا لال سرخ چہرا
لئے اپنے ہاتھوں سے سونے کے دو کڑے اتارنے لگی۔ وہ کافی قیمتی کنگن لگ رہے
تھے۔ سدرہ نے اس کے علاوہ کوئی اور زیور پہن بھی نہیں رکھا تھا۔
بیس منٹ کے اندر اندر وہ سب کچھ سمیٹ کر رفو چکر ہو گئے۔ذولفقار نے فوراََ
پولیس کو فون کیااور اوپر چھت سے ڈاکوؤں کو فرار ہوتے دیکھا۔وہ اسی پک اپ
میں سوار ہو کر بھاگے تھے جو ذولفقار نے باہر کھڑی دیکھی تھی۔
ذولفقار فوراََ اپنے کمرے میں گیااور چیک کرنے لگا کے کیا کچھ لوٹ لے
گئے۔وہ مشینری میں تو کچھ خاص بڑی چیزیں نہ لے گئے تھے، بس زیبا کا زیور
بھی اڑا لیا تھاانہوں نے…… مگر ذولفقار کو یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ اس
کا اسٹڈی ٹیبل بالکل صاف تھا۔ ڈاکو اس کا لیپ ٹاپ ، USB, CDs اور تو اور
کاغذات اور کتابیں بھی ساتھ لے گئے تھے۔یہ دیکھ کر ذولفقار کے لئے یہ
معاملہ ایک معمہ بن گیاکہ ایسے بدقماش ڈاکوؤں کو اس کے دستاویزات سے کیا
لینا دینا!!!
۔۔۔۔۔۔۔
چھٹی کا دن تھا ۔ سعد اور اس کی فیملی نے پہلے ہی سے ایک سینما میں ایک
انگلش فلم دیکھنے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔رات کے نو بجے کے شو کی بکنگ تھی۔
سب نے پہلے باہر ہی کہیں ڈنر کرنے کا فیصلہ کیااور پھر وہیں سے سینما جانے
کا پروگرام بنایا۔
میجر اشرف اور ان کی فیملی سعد کے ساتھ ہی گاڑی میں بیٹھے تھے۔ایک کزن کی
فیملی کو بھی انہوں نے اس پروگرام میں شریک کر لیا تھا۔
’’چلیں پھر……‘‘ میجر اشرف گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے تھے۔
’’سب بیٹھ گئے؟؟؟‘‘ انہوں نے ایک بار پھر پوچھا۔
’’جی سب آ گئے ہیں……‘‘ سعد اور مسز اشرف نے جواب دیا۔
طارق روڈ پر موجود ایک اچھے ریسٹورنٹ پرانہوں نے کھانا آڑر کیا اور سب نے
مزے لے لے کر کھایا۔
’’چلو ! ذیادہ دیر نہیں لگا ؤ…… سینما بھی کافی دور ہے……‘‘میجر اشرف بولے،
کیونکہ سینما ڈیفینس میں تھا جو کہ طارق روڈ سے قدرے دور ہے۔
’’کافی آڑر کر لیں بس……‘‘
’’ساتھ ہی لے جائیں گے…… ورنہ کہیں فلم دیکھتے دیکھتے نیند ہی نہ آ جائے……‘‘
مسز اشرف بولیں۔
’’چلو ٹھیک ہے۔ کافی آڈر کر لیتے ہیں‘‘ میجر اشرف نے کہا۔
’’آپ لوگ گاڑی میں بیٹھیں، میں کافی لے کر گاڑی میں ہی آ جاتا ہوں‘‘۔ سعد
کافی کاؤنٹر کی جانب بڑھا۔ باقی سب اٹھے اور بِل پے کر کے گاڑی میں سعد کا
انتظار کرنے لگے۔
’’کچھ دے دو صاحب…… غریب ہوں……‘‘ اچانک کوئی بھیک مانگنے والا آ گیا۔ صاف
پتا چل رہا تھا کہ وہ بھیک مانگنے کا عادی ہے کوئی مجبور نہیں۔
’’یار میرے پاس کھلے نہیں…… ‘‘ میجر اشرف بولے۔
’’دے دو صاحب بھوکا ہوں …… کھانا کھانا ہے……‘‘ میجر اشرف ایک بار پھر اپنا
والٹ ٹٹولنے لگے۔ والٹ میں صرف ایک پانچ ہزار کا نوٹ ہی پڑا تھا۔ عام طور
پر وہ بینک کارڑز ہی استعمال کرتے تھے۔
’’نہیں ہے یار …… معاف کرو……‘‘ مگر وہ وہیں ضد کئے ہوئے جم کر کھڑا ہو گیا
اور کچھ منہ ہی منہ میں بڑ بڑا کر پیسے مانگنے لگا۔
’’ یہ دیکھو صرف ایک ہی پانچ ہزار کا نوٹ پڑا ہے……‘‘ میجر اشرف نے اپنا
والٹ بھی اسے دکھا دیا۔
’’دے دیں صاحب! میرے پاس کھلے ہیں……‘‘ اس آدمی نے کہا اور سب کی ہنسی چھوٹ
گئی۔
’’ہیں!!! تمھارے پاس پانچ ہزار کا بھی کھلا ہے؟؟؟‘‘……ہا ہا ہا……‘‘
’’روز پانچ ہزار اکھٹے کر لیتے ہو تم……؟؟؟‘‘ سب دلچسپی سے اس سے پوچھنے
لگے۔
’’جی صاحب پانچ ہزار تک تو ہو ہی جاتے ہیں……‘‘ اب وہ بھی ہلکے پھلکے انداز
میں بات کرنے لگاکہ بھیک تو اب ملنی نہیں……
’’اچھا! …… ہی ہی ہی……‘‘ سب مسکرا رہے تھے۔ ’’تم تو ہم سے بھی امیر ہو……‘‘
میجر اشرف نے کہا اور وہ پیشہ ور بھکاری مسکراتا ہوا آگے بڑھا۔
تھوڑی ہی دیر میں ہاتھوں میں کا فی لئے سعد آ گیا اور وہ سب سینما کی طرف
بڑھے۔
سینما میں ایک مشہور سوپر اسٹار کی فلم لگی تھی۔سب کو فلم بہت پسند آئی۔
’’بڑی زبردست فلم تھی بھئی……‘‘ سعد بولا۔ وہ سب فلم دیکھ کر باہر نکل چکے
تھے اور فلم پر تبصرے کر رہے تھے۔
’ہاں …… بڑی اچھی فلم تھی……‘‘ سب کے منہ پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔
’’ایک منٹ……‘‘ یہ کہہ کر سعد کچھ لوگوں کی طرف بڑھا۔ لڑکوں کا ایک گروپ
وہاں موجود تھا۔ غالباََ وہ سب بھی فلم دیکھ کر باہر نکلے تھے۔
’’یار!!! تم لوگوں نے بتایا نہیں یہاں کا پروگرام بنایا ہوا ہے؟؟؟‘‘ سعد کے
کچھ دوست بھی سینما میں یہی فلم دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ اس نے انہیں پکڑ لیا۔
’’بھائی آپ لوگ چلیں میں کچھ دیر میں ان لوگوں کے ساتھ واپس آ جاؤ گا……‘‘
سعد بڑی سی مسکراہٹ چہرے پر لئے آیا اور میجر اشرف سے اجازت چاہی۔
’’کون ہیں یہ؟؟؟ ‘‘ ’’یونیورسٹی کے فرینڈز ہیں؟؟؟‘‘ میجر اشرف نے پوچھا۔
’’جی‘‘ سعد نے چھوٹا سا جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے ۔ جلدی سے آجانا…… رات تو کافی ہو ہی گئی ہے……‘‘
’’جی، ٹھیک ہے…… انشاء اﷲ‘‘
کچھ ہی دیر بعدسعد کے موبائیل پر مسز اشرف کا فون آیا۔
’’ہیلو…… جی……‘‘
’’ہاں …… سعد…… یار وہ میرا موبائیل مجھے نہیں مل رہا…… آئی ڈونٹ نو …… زرا
جلدی سے سینما میں اندر چیک کر کے آؤ……‘‘
’’ہو سکتا ہے وہیں رہ گیا ہو‘‘۔ میجر اشرف بڑی فکر مندی سے جلدی جلدی کہہ
رہے تھے۔
’’اچھا!‘‘ سعد کو بھی حیرانی اور فکر ہوئی۔اس نے فوراََ کال کاٹی اور تیز
تیز قدم چلتا ہوا موبائیل ڈھونڈنے سینما ہال میں گھُس گیا۔
’’وہ رہا……‘‘ سعد کی نظر نیچے سیٹ کے قریب پڑے ہوئے ایک موبائیل پر پڑی۔ اس
نے فوراََ فون اٹھایا اور باہر کو نکلنے لگا۔ مگر پھر وہ رکا۔ ’’ اس سے
اچھا موقع اور کونسا ہو سکتا ہے!!!‘‘ سعد نے خود سے کہا۔ وہ تو ویسے ہی
میجر اشرف کے بارے میں ایک انجانے شک میں گھرا ہوا تھا۔ وہ میجراشرف کا
موبائیل چیک کرنے لگا۔مگر موبائیل فون پر کوڈ لگا تھا۔سعد نے صرف ایک بار
ایک کوڈ کا تُکا لگایا اور نا کام ہوا کیونکہ بار بار غلط کوڈ ڈالنے سے
موبائیل لاک ہو جاتا۔
اسی اثناء میں ایک میسج موبائیل فون پر موصول ہوا۔
’’میں پرسوں آپ کے گھر ہی……‘‘ بس اتنے سے میسج کے الفاظ ہی اسکرین پر نظر آ
رہے تھے۔پورا میسج پڑھنے کے لئے موبائیل فون اَن لاک کرنا ضروری تھا۔یہ
میسج کسی ’’S‘‘ نامی شخص کی طرف سے تھا۔ نام کی جگہ بس یہی ایک حرف لکھا
تھا۔
’’کہیں ایس سے مراد سلطان تو نہیں؟؟؟‘‘ سعد نے خود ہی اپنی طرف سے سوچنا
شروع کر دیا۔
سلطان وہی شخص تھا جس سے سعد ملا تھا۔وہی کسی انڈین ہندو جیسا شخص……
موبائیل فون پر کال آنے لگی۔ یہ مسز اشرف کے نمبر سے آرہی تھی۔
’’جی…… جی بھا بھی!‘‘
’’مل گیا موبائیل……؟؟؟‘‘ دوسری طرف سے میجر اشرف کی آواز آئی۔
’’جی مل گیا……‘‘
’’بس اب میں گھر ہی آ رہا ہوں …… آپ کو گھر آکر موبائیل دیتا ہوں‘‘
’’تمھیں دیر نہ ہو جائے…… میں واپس آ جاتا ہوں؟‘‘ میجر اشرف جلد از جلد
اپنا موبائیل اپنے قبضے میں دیکھنا چاہتے تھے۔
’’میں…… میں ……نکل ہی رہا ہوں…… میں واپس ہی آرہا ہوں……‘‘سعد نے یقین دلانے
کی کوشش کی۔
سارے رستے سعد سوچتا رہا کہ کس طرح موبائیل چیک کرے۔ مگر غلط کوڈ ڈالنا تو
بہت ہی خطرناک تھا۔بس ایک ہی رستہ تھا کہ کسی موبائیل ٹیکنیشن سے مدد لی
جاتی۔مگر رات کے اس پہر کون اپنی دوکان کھولے بیٹھا ہو گا۔یہ سوچ کر سعد کو
بژی چڑ چڑاہٹ ہوئی کہ ہاتھ میں اتنا کچھ آ کر بھی بے سود…… ویسے بھی اگر
کوئی دوکان کھلی بھی ہوتی تو وہاں جاتے جاتے نا جانے کتنا وقت لگ جاتا……اور
میجر اشرف تو بار بار سعد کو فون کر کے اس کی لوکیشن دریافت کر رہے تھے تا
کہ جلد از جلد اپنا موبائیل واپس پا سکیں۔
’’میں پرسوں پورا وقت گھر پر ہی رہوں گا‘‘۔ سعد نے ٹھان لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
تین چار بار پولیس ذولفقار کے گھر کا دورہ کر چکی تھی۔ یہ لوگ یونہی آتے
اور باتیں بناتے چلے جاتے۔ذولفقار کو بھی چڑ ہو گئی تھی۔پتا چل گیا تھا کہ
ان سے ہونا وونا کچھ نہیں ہے بس خانہ پوری کے لئے چکر لگا رہے ہیں۔
اس وقت بھی ایک ٹیم گھر کا دورہ کر کے واپس جا رہی تھی۔ ذولفقار انہیں
دروازے تک چھوڑنے آیا۔ منہ بنا کر انہیں سلام کیا اور منہ بنا کر ہی گھر کے
اندر پلٹا۔
’’کچھ پتا چلا بیٹا!!!‘‘ ذولفقار کی والدہ پوچھنے لگیں۔ ’’کیا کہہ رہے
تھے……؟‘‘ انہوں نے پھر سوال کیا۔
’’ہونہہ! ایوں ہی چکر لگا رہے ہیں امی!‘‘
’’کچھ بھی پتا نہیں چلا……‘‘ ذولفقار نے مایوسی سے جواب دیا۔
’’کہاں پتا چلتا ہے امی! آئے دن پتا نہیں کتنی چوریاں ہوتی ہیں……‘‘
’’اسد کے ہاں بھی چار مہینے پہلے واردات ہوئی تھی…… میں نے اس سے بھی پوچھا
…… مگر کچھ پتا نہیں……‘‘ ذولفقار کے میک دوست کے ہاں بھی کچھ عرصے پہلے
واردات ہوئی تھی۔
’’اچھا! اسد کے بھی ہوئی تھی؟؟؟‘‘ ذولفقار کی امی نے حیرانی سے پوچھا۔
’’جی، چار ماہ پہلے ہوئی تھی‘‘۔ ذولفقار نے جواب دیا۔
’’وہ یونیورسٹی والا دوست؟؟؟‘‘ انہوں نے تفصیل جاننا چاہی۔
’’جی وہی……‘‘
’’تو ان کا بھی کچھ پتا نہیں چلا!!‘‘ وہ جاننا چاہ رہی تھیں کہ کوئی ڈاکو
پکڑا گیا یا نہیں۔
’’جی امی! نہیں پتا چلا……‘‘ ذولفقار نے پھر مایوسی سے جواب دیا۔
’’یہ پولیس پھر آئی تھی؟؟؟‘‘ سدرہ نے گھر کے اندر داخل ہوتی ہوئے پوچھا۔
شاید اس نے باہر روڈ پر پولیس وین دیکھ لی تھی۔
’’ہم م م……‘‘ امی نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’اچھا! کچھ بتایا؟؟؟‘‘ سدرہ ذولفقار کی طرف دیکھنے لگی۔
’’نہیں…… کچھ نہیں……‘‘ذولفقار یہ کہہ کر اندر چلا گیا۔
سدرہ ان کی امی سے اتا پتا کرنے لگی۔ اچانک ذولفقار ٹھٹھک کر رہ گیا…… اس
کی نظر سدرہ کے ہاتھوں میں پہنے کڑوں پر پڑی۔یہ وہی سونے کے کنگن تھے جو
ڈاکوؤں نے سدرہ سے اتروا لئے تھے۔
ذولفقار کے ماتھے پر بل پڑ گئے…… وہ خاموشی سے باہر گیراج میں آ گیا۔
’’یہ کیا!!‘‘ وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
’’ یہ تو وہی چوڑیاں ہیں!!!‘‘ذولفقار سوچنے لگا۔
’’یہ سدرہ کے پاس واپس کیسے آ گئیں؟؟؟‘‘ ذولفقار کا دماغ نا جانے کیا کیا
سوچنے لگا……یہاں کی …… وہاں کی…… وہ جانے کیسے کیسے تانے بانے بننے لگا……
ایک لمحے کو اس نے سوچا کہ واپس پلٹے اور سدرہ سے پوچھ لے مگر پھر رُک گیا۔
گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔’’ کیا یہ واردات سدرہ نے خود کروائی ہے!!!!‘‘
ذولفقار کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئیں تھیں۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا۔
وہ خاموشی سے باہر نکلا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔
’’کیا واقعی یہ عورت اس حد تک گِر سکتی ہے!!!‘‘ اسے سدرہ سے شدید نفرت
محسوس ہونے لگی۔ گھِن سی آنے لگی۔
ابھی کچھ ہی دنوں پہلے ذولفقار کی وجہ سے سدرہ کی رنگ رلیوں کا ایک پروگرام
کینسل ہوا تھا۔
’’کہیں یہ اس کا بدلہ تو نہیں؟؟؟‘‘
’’نہیں …… یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی……‘‘
اچانک ذولفقار کو خیال آیا کو یہ ڈاکو ذولفقار کے نوٹس، کاغذات اور کتابیں
وغیرہ بھی ساتھ لے گئے تھے۔اور کچھ عرصے پہلے سدرہ اس کے روم میں بھی کچھ
ڈھونڈتی ہوئی پائی گئی تھی۔
ذولفقار کو کچھ کچھ معاملہ سمجھ آنے لگا۔ جس این جی او سے سدرہ منسلک تھی
اس کی امریکہ نواز پالیسیوں سے تو وہ واقف ہی تھا……
’’کیا یہ سب کچھ میرے بارے میں معلومات اکھٹا کرنے کے لئے کیا گیا!!!‘‘
ذولفقار کے آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئیں تھیں……
۔۔۔۔۔۔۔
’’سعد آج تم یونیورسٹی نہیں گئے؟؟؟‘‘ میجر اشرف نے حیرانی سے پوچھا۔
سعد کچن میں اپنے لئے ناشتہ تیار کر رہا تھا۔صبح کے دس بجے تھے۔مسز اشرف
اپنے میکے گئی ہوئیں تھیں۔ ایک لمحے کو میجر اشرف کاسوال سن کر سعد ٹھٹھک
کر رہ گیا۔ مگر پھر ان کی طرف دیکھ کر اطمینان سے بولا۔
’’نہیں بھائی…… آج کوئی امپورٹینٹ کلاس نہیں تھی…… اس لئے……‘‘
’’اچھا!‘‘ میجر اشرف کے چہرے پر کچھ تشویشناک تاثرات تھے۔
یہی تو وہ دن تھا جب اس ’’ایس‘‘ نامی شخص کو میجر اشرف سے ملاقات کے لئے
آنا تھا۔
بہرحال میجر اشرف اپنے کمرے میں چلے گئے اور سعد بھی اپنی چائے اور پریڈ
پیس لے کر اوپر والی منزل پہ اپنے کمرے میں گھس گیا۔
سعد کے کان نیچے مین گیٹ اور گھنٹی پر ہی لگے ہوئے تھے۔ جوں ہی کوئی آہٹ
ہوتی سعد اتاولا ہو کر دور ہی کمرے میں کھڑا کھڑکی سے نیچے مین گیٹ پر
چھانکتا کہ کون ہے……
’’پتا نہیں کیا ٹائم دیا ہو گا ان لوگوں کو!!!‘‘ سعد نے خود ہی سے ایک سوال
کیا۔ کیونکہ وہ میسج تو پورا پڑھ نہیں پایا تھا۔ لہــذا کس وقت وہ لوگ آئیں
کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا۔
’’شام کا تو نہیں دیا ہو گا؟؟؟‘‘
’’نہیں…… شام کو شاید بھابھی واپس آ جائیں اور یقیناََ بھائی نے اپنی میٹنگ
ان کے آنے سے پہلے ہی کرنی ہو گی……‘‘ سعد نے خوب سوچ بچار شروع کر دی۔
’’ام م م ……‘‘
سعد لیپ ٹاپ آن کر کے یو ٹیوب پر کچھ فالتو سی وڈیوز دیکھ کر اپنا ٹائم پاس
کرنے لگا۔ مگر اس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ وہ بے چینی سے کسی کے آنے کا
انتظار کر رہا تھا۔
تقریباََ ڈیڑھ گھنٹے بعد دروازے پر ایک گاڑی آ رُکی۔ سعد تھوڑی دیر کے لئے
بالکل ساکت ہو گیا جیسے کوئی سانپ آ گیا ہو……اس نے پردے کے پیچھے اپنے آپ
کو چھپا کر کھڑکی سے نیچے جھانکا۔
گھر کی بیل بجانے سے پہلے ہی میجر اشرف خود ہی باہر نکل آئے۔شاید فون کر کے
پہلے ہی ان لوگوں نے انہیں اپنے آنے کی اطلاع دے دی تھی۔
وہی شخص جسے اب ذولفقار خوب پہچان گیا تھا ،گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سے نیچے
اترا۔ مگر اس بار وہ اکیلا نہیں تھا ۔ ساتھ والی سیٹ سے کوئی اور شخص بھی
اترا…… یہ کوئی انگریز تھا۔ کوئی یورپئین یا امریکن……!!!
میجر اشرف نے آگے بڑھ کر ان دونوں حضرات کو ویلکم کیااور اندر گھر میں لے
آئے۔سعد کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اسے اپنے بھائی کی اس طرح جاسوس
کرنا بہت عجیب اور خطرناک لگ رہا تھا۔اور اگر وہ پکڑا جاتا تو پھرکیا
ہوتا……!!!
ایسا خیال آتے ہی سعد کے جسم سے ایک سرد لہر دوڑ جاتی…… وہ ایک جھرجھری لے
کر رہ جاتا……
مگر اسے یہ جاسوسی کرنی ہی تھی……جو گھمبیر انجاناسا شک اس کے دل میں بیٹھا
ہوا تھا…… آج یا اس شک کو یقین میں بدلنا تھا یا تو اپنا دل صاف کرنا تھا۔
میجر اشرف اور وہ دونوں آدمی ڈرائنگ روم میں بیٹھ چکے تھے۔اب سعد کو جلد از
جلد نیچے اتر کر ان کی باتیں سننا تھیں۔
آخرکار سعد نے کچھ ہمت کی…… اس نے سوچا کہ پہلے ناشتے کے برتن وغیرہ نیچے
رکھنے جائے…… پھر دیکھے کہ کس طرح آگے کاروائی کرنی ہے……
اس نے ٹرے میں چائے کا کپ اور جام وغیرہ رکھا اور ٹرے اٹھا کر دبے پاؤ کمرے
سے باہر نکلا۔ نیچے جانے والی سیڑھیاں سامنے ہی تھیں۔سیڑھیوں سے اترتے ہوئے
برتنوں کی آواز کے پیدا ہونے کا ذیادہ امکان تھا۔اور ایسے میں میجر اشرف
چوکنا ہوسکتے تھے کہ سعد نیچے آ گیا ہے۔
سعد نہایت احتیاط سے آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترنے لگا۔پھر کچھ سوچ کر واپس
اپنے کمرے میں گیا اور جام اور چھری وہیں چھوڑ دی۔ایک ہاتھ میں کپ اور
دوسرے میں ٹرے اور پرچ رکھ کر دوبارہ نیچے اترنے لگا۔اس نے سوچا کہ ایسا
کرنے سے برتنوں کی کھڑک نہیں آئے گی۔
آخرکار وہ ایک ایک کر کے آخری سیڑھی تک پہنچا ہی کہ سامنے ڈرائینگ روم سے
میجر اشرف باہر نکل آہے۔سعد کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ ٹھٹھک کر رہ گئے جیسے
وہ بھول ہی گئے تھے کہ وہ گھر میں اکیلے نہیں بلکہ سعد بھی موجود ہے……
پیچھے سے باقی دو افراد بھی نکل آئے……
’’السلام علیکم!‘‘ سعد نے تو جیسے اپنے بھائی کو نہیں بلکہ کسی بلا کو دیکھ
لیا ہو۔ چور کی داڑھی میں تنکا۔ سعد بوکھلا سا گیا۔لڑکھتی آواز میں مشکل سے
اس کے منہ سے سلام نکلا۔
’’ہائی……!‘‘ سعد نے انگریز کو دیکھ کر ہائی بھی کہہ دیا۔
’’ہائی جینٹلمین! ‘‘
’’ہاؤ آر یو؟‘‘ اس انگریز نے بھی ہائی کہا اور ذولفقار سے رسماََ اس کا حال
پوچھا۔
سلطان نامی دوسرے شخص نے آگیبڑھ کر اس سے ہاتھ ملایا۔ ذولفقار بہ مشکل
مسکرایا۔ اسے پتا چل گیا کہ سارا کھیل بگڑ گیا ہے۔ اب کچھ نہیں ہونے والا۔
’’سعد ہم زرا اوپر چھت پر جا رہے ہیں…… یہ لوگ گھر دیکھنا چاہتے ہیں……‘‘
میجر اشرف نے اتنی سی بات بول کر سیڑھیاں چڑھنی شروع کر دیں۔پیچھے پیچھے وہ
دونوں مہمان بھی جانے لگے۔ وہ سب اوپر تیسری منزل پر پہنچگئے اور سعد کی
نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
سعد کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ وہ چپ چاپ کچن میں برتن رکھ کر اِدھر اُدھرخواہ
مخواہ ہی ہاتھ مارنے لگا۔
’’ہونہہ…… میں بھی پاگل ہوں …… کس چکر میں پڑ گیا ہوں!!!‘‘
سعد رنگے ہاتھوں اپنے بھائی کی جاسوسی کرتے پکڑا جاتا۔ اس نے شکر ادا کیا
کہ کچھ ہوا نہیں……مگر وہ سمجھ گیا کہ پکڑے جانے پر اسے بہت شرمندگی اٹھانا
پڑے گی اور وہ اپنے بھائی کے ہاتھوں خوب ذلیل ہو جائے گا۔
سعد نے اپنا ارادہ تر ک کیا اور خود کو سنبھال کر چپ چاپ اپنے کمرے میں چلا
گیا۔
اوپر چھت سے کسی بھی قسم کی بات چیت کی کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔سعد حیران
تھا کہ یہ لوگ گئے کہاں اور اتنی دیر تک اوپر کیا کر رہے ہیں؟؟؟ دوپہر کا
وقت تھا۔ گرمی بھی تھی۔ ایسے میں چھت پر بیٹھ کر ہوا کھانا تو نہایت مضحکہ
خیز بات تھی۔ اوپر صرف ایک ہی کمرا بنا تھا جہاں کبھی کبھی کوئی مہمان آ کر
ٹھہر جاتا تھا۔
سعد کو بڑی حیرت ہو رہی تھی کہ میجر اشرف اپنے خاص مہمانوں کو اس بے ڈھنگے
سے کمرے میں کیوں لے کر بیٹھ گئے ہیں!!!
تجسس نے پھر زور پکڑا……
آخرکار سعد سے رہا نہ گیا۔وہ پھر دبے پاؤ ں اوپر چھت پر جا پہنچا۔سامنے
کمرے کا دروازے بند تھا۔ نا جانے کیسے بغیر کسی کا خوف کئے اس نے دروازے سے
کان لگا لئے۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ کچھ دیر کی گفتگو سننے کے
بعد سعد کی ہمت جواب دے گئی۔ وہ دبے پاؤں واپس آیا اور اپنے کمرے میں دبک
کر بیٹھ گیا۔
سعد کو بس اتنا سا اندازہ ہوا کہ وہ لوگ آرمی، سی او ڈی ، کشمیر وغیرہ کے
علاقے کی سیکیورٹی کے بارے میں کچھ بات کر رہے تھے۔ اور کچھ نقشے وغیرہ ایک
دوسرے کو سمجھا رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔ |