چاند کا مسئلہ اور اس کا حل - قسط 2

برطانیہ و یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کے حوالے سے تجزیہ کیا جائے تو دلچسب صورت حال سامنے آتی ہے۔ مسلمانوں نے سات صدیوں تک اندلس پر حکومت کی اور پھر ایک منصوبے کے تحت ان کا قلع قمع کر کے رکھ دیا گیا۔ بے دردی کے ساتھ انہیں شہید کیا گیا یہاں تک کہ بارسلونا کی ایک پہاڑی کے قریب چالیس ہزار مسلمانوں کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا۔ یورپ میں اس وقت کے ارباب اقتدار نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یورپ میں مسلمان آباد نہیں ہو سکیں گے۔ انہیں یقین تھا کہ یہاں اب کوئی مسجد ہو گی نہ خانقاہ۔ لیکن اﷲ کی قدرت اور تدبیر بھی بڑی زمین دوز ہوتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد تعمیر نو کیلئے ’’اہالیان یورپ‘‘ کو ضرورت پیش آئی کہ تعمیر نو کیلئے باہر سے لوگ لائے جائیں۔ برطانیہ میں میرپور اور کوٹلی سے کم پڑھے لکھے لوگ مزدوری کیلئے آئے۔ بعد ازاں برطانیہ میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے بھی لوگ آکر آباد ہوئے اور دیگر یورپی ممالک میں مختلف مسلمان ممالک سے آکر لوگ آباد ہوئے جو بنیادی طور پر کام کاج کیلئے ہی آئے تھے۔ ان لوگوں کے دلوں میں ایمان کی شمع فرازاں تھی۔ انہوں نے رزق حلال کی تلاش کے ساتھ ساتھ دین سے رشتہ نہیں توڑا بلکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سات سو سال اندلس پر حکومت کر کے مسلمان حکمرانوں نے اتنی مساجد تعمیر نہیں کیں جتنی ان مزدوروں نے ساٹھ سالوں میں تعمیر کردی ہیں۔ اس تاریخی حقیقت کو بیان کرنے کا مقصد یہ کہ انیسویں اور بیسویں صدی میں یورپ سے مسلمانوں کی آبادی کالعدم ہو چکی تھی۔ لھذا چاند کی روئت جیسے مسائل یہاں تھے ہی نہیں۔ اس دور کے برصغیر کے جن جن علماء، فقہا اور اصحاب علم و بصیرت نے فتاوی دیے وہ زیادہ تر معتدل ممالک کے افق کے مطابق تھے۔ جب ان معتدل ممالک سے متعلق فتاوی کو ان بزرگوں سے حد درجہ عقیدت کی وجہ سے ہم غیر معتدل ممالک میں لاگوکرتے ہیں تو مسائل سلجھنے کی بجائے مزید الجھ جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس وقت جدید فلکیات نے اسوقت ایسی ترقی نہیں کی تھی جیسے کہ اب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح علم عقائد، علم فقہ اور علم تصوف کی مبادیات قرآن میں موجود ہیں اسی طرح چاند، سورج، ستاروں اور دیگر اجرام فلکی سے متعلق علم فلکیات کے اجزاء اور مبادیات قرآن مجید میں موجود ہیں ۔ لھذا آبزرویٹری یا اسٹرانومی کو ذہنی طور پر غیر اسلامی علم سمجھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اجتہاد کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اصحاب علم و فن مل بیٹھ کر اس مسئلہ کو سلجھانے کی کوشش کریں۔

اس مسئلہ کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ حدیث میں مذکور ایک لفظ کی تشریح میں علمی اختلاف ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ صومو لروئتہ و افطروا لروئتہ ( کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر روزے چھوڑو یعنی عید کرو)۔ لفظ ’’ روئیت‘‘ کا ایک معنی روئت بالعین یعنی آنکھ سے دیکھنا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ معانی کتب لغت، قرآن اور احادیث میں مذکور ہیں۔ امام راغب اصفہانی نے اپنی مشہور زمانہ لغت کی کتاب ’’المفردات‘‘ میں اور امام مجدالدین الفیر وزآبادی نے مشہور عربی لغت کی کتاب ’’القاموس ‘‘ اور ’’ البصائر‘‘ میں اس لفظ کے آنکھ سے دیکھنے کے علاوہ اور بھی کچھ معانی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا ایک معنی ان کتب میں یہ بھی ہے کہ ’’ الروئیہ بالوہم والتخیل‘‘ یعنی کسی معاملہ یا چیز کے متعلق کوئی خیال کرنا۔علاوہ ازیں اس کا ایک معنی ہے ’’الروئیہ بالعقل واالتفکر‘‘ یعنی عقلی اور فکری علوم سے استفادہ بھی روئیہ کے معانی میں سے ایک معنی ہے۔ فلکیات کے جدید ترین سائنسی حسابات اور انکشافات Calculations data and astronomical Scientifical بھی اسی کے ضمرے میں آتے ہیں۔ قرآن پاک میں لفظ روئیۃ صرف آنکھ سے دیکھنے کیلئے ہی استعمال نہیں ہوا بلکہ علم کیلئے بھی استعمال ہوا ہے۔ لھذا اگر روئیت سے مراد ’’روئیت علمی‘‘ لی جائے تو چاند سے متعلق ہمارے مسئلہ کا حل ہونا اور بھی آسان ہو جائے گا۔ قرآن پاک کی سورہ السبا کی آیت نمبر چھ میں ارشاد ہے ’’ ویرالذین اوتوالعلم الذی انزل الیک من ربک ہوالحق یعنی وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ آپکی طرف نازل کیا گیا ہے وہ حق ہے۔ اس آیت میں لفظ’’ روئیۃ‘‘ علم کے معنی میں آیا ہے۔ اسی طرح سورہ الماعون میں ’’ارئیت الذی یکذب بالدین‘‘ اور سورۃ الفیل میں ’’ الم تر کیف فعل ربک باصحاب الفیل‘‘ میں بھی روئیت علمی ہی مراد ہے ۔ لھذا چاند کے متعلق فلکیات کے علم کے مطابق فیصلہ بھی عین شریعت کے مطابق ہوگا۔ کیونکہ حدیث’’ صومو لروئتہ و افطروا لروئتہ‘‘ میں روئیۃ مطلقہ ہے جس سے مراد روئیۃ علمی لینا بھی عین منشا قرآنی اور لغت عرب کے مطابق ہے۔ جملہ اصحاب علم سے ہماری پھر مودبانہ گزارش ہے کہ یہ مسئلہ علمی جستجو اور اجتہادی کاوشوں سے حل ہو گا۔ اﷲ تعالی نے ہمیں پیدا کیا تو ہماری ضرورت کی ہر چیز کو بھی پیدا فرما دیا۔ بنی نوع انسان کو اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعے بتا دیا کہ زندگی گزارتے ہوئے مجھے نہ بھلانا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تلاش رزق میں رازق کو بھول جاؤ۔لھذا میری عبادت کرتے رہنا۔فرمایا کہ زمین میں جہاں بھی رہو گے وہاں چاند اور سورج ہوں گے۔لھذا ان میں سے کچھ عبادات سورج کے طلوع و غروب سے متعلق کردیں اور کچھ چاند سے متعلق ہیں۔ جملہ انبیاء و رسل اسی طرح اﷲ کی عبادت کرتے رہے اور اپنی امتوں کو تبلیغ کرتے رہے۔ ہم نماز سورج کے مطابق پڑھتے ہیں جبکہ روزہ اور حج وغیرہ چاند کو دیکھ کر ادا کرتے ہیں۔ مسائل اس وقت کھڑے ہوتے ہیں جب نمازیں یہاں کے سورج کے مطابق اور عید یہاں یا یہاں کے قرب و جوار کو چھوڑ کر کسی دور درازملک کے چاند کے مطابق کرتے ہیں۔ ان مسائل کو شریعت اسلامیہ کے بنیادی اصولوں کے مطابق حل کرنا ہم سب کیلئے عمومااور علماء و فقہاء کیلئے خصوصا فرض کفایہ کے درجے میں آتا ہے۔ اگر ہم نے اس الجھاؤ کو ختم کر کے اتحاد اور یکجہتی کی مخلصانہ کاوشیں نہ کیں تو اس کے نسل نو پر برے اثرات پڑ رہے ہیں۔ دین فہمی کے حوالے سے حالات پہلے ہی بہت نازک ہیں ۔ کئی ایک چیلنجز درپیش ہیں لھذا ان حالات میں چاند کی روئیت میں اختلاف کی وجہ سے دودو عیدوں جیسے مسائل کا حل ہونا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔
 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 240840 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More