آزادی سے غلامی کی طرف!
(محمدشارب ضیاء رحمانی, NEW DELHI)
آزادہندوستان یاہندوستان کی
آزادی کی بات کی جاتی ہے تو ایک ایسے ملک کاتصورسامنے آتاہے جہاں ہرایک
شہری کو رنگ ونسل اورمذہب وقبیلہ کے امتیازکے بغیرکھلی فضا میں سانس لے کر
اپنے شہری حقوق اورمراعات سے مستفیدہونے کے پورے مواقع حاصل ہوں،جہاں محبت
کی خوشگوارفضاسے ہرہندوستانی سرشارہو،اسے یہ احساس ہرگزنہ ہوکہ کوئی
غیراخلاقی یاغیرجمہوری پابندی عائدہے،یامذہب اوررنگ ونسل کی بنیادپراس کے
ساتھ کوئی امتیازی سلوک ہورہاہے۔جمہوریت میں امتحان اکثریت کاہوتاہے
اورسیکولرزم کے تحفظ کی ذمہ داری اکثریتی طبقہ پرزیادہ ہوتی ہے۔یہ خوش
قسمتی ہے کہ ہم جس ملک میں ہیں اورجس کی مٹی میں ہی ہمیں پیوست ہوناہے وہ
ایساچمن ہے جس کی رنگارنگی ہی اس کی زینت ہے۔ ہماراملک سیکولربھی ہے
اورجمہوری بھی یعنی اس ملک کانہ کوئی مذہب ہوگااورنہ مذہب کی بنیادپرکسی
طرح کی کوئی تفریق کی جائے گی،ہاں ہرمذہب کااحترام لازمی ہوگا،ساتھ ہی
جمہوری ملک ہونے کامطلب یہ ہے کہ تاناشاہی کاکوئی امکان باقی نہ رہے،اورملک
کی اکثریت جسے منتخب کرے،اقتداراس کے ہاتھوں میں ہواورملک کی اکثریت جسے
مستردکرے،وہ اقتدارسے دوررہے۔
بزرگوں نے جس آزادہندوستان کاخواب سجایاتھاوہ ایساہی ہندوستان تھا۔لیکن
رفتہ رفتہ اس احساس کوتقویت مل رہی ہے کہ جمہوریت اورسیکولرزم کے اقدارسے
وطن عزیزدورہوتاجارہاہے۔جمہوری ملک میں اگرکوئی جماعت اکثریتی رائے پر
منتخب نہیں ہوتی ہو بلکہ زمام اقتداراس جماعت کے ہاتھوں میں چلاجائے جسے
ملک کی اکثریت نے مستردکیاہے توپھراکثریتی رائے کاکیامطلب رہ جاتاہے۔ملک کے
انتخابی نظام پرایک مرتبہ غورکرنے کی ضرورت ہے۔جمہوری ہندوستان کی اہم روح
اس کاسیکولرزم ہے،آئین نے حکومت کوبھی اس کاپابندبنایاہے کہ و ہ
سیکولراقدارکی پاسداری کرے۔لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ہی آزادہندوستان غلامی
کی طرف بڑ ھ رہاہے ۔اگرمذہب کی بنیادپرجرائم کی سزاطے کی جاتی ہو،عدالت بھی
انتظامیہ کے زیراثرآجائے،میڈیاجسے جمہوریت کاچوتھاستون کہاجاتاہے ،وہ
حکومتی اشاروں کے انتظارمیں ہوبلکہ اگر بعض انصاف پسندذرائع ابلاغ اپنی
آزادی کے حق کااستعمال کریں توانہیں حکومت نوٹس جاری کردیاجائے توپھرآزادی
کس بات کی ہے؟۔ایک ایسی حکومت جوہندوراشٹرکے خواب کوعملی جامہ پہنانے میں
مصروف عمل ہو،عدالتوں سے لے کرتمام انتظامی محکموں کابھگواکرن کیاجانے
لگاہو ،بھگواکنبہ کے مجرم،بلاسٹ اورحملوں کے گنہگاروں کوتفتیشی ایجنسیاں
حکومت کے دباؤمیں بچانے میں مصروف عمل ہوں،اسیمانند،سادھوی پرگیہ سنگھ
ٹھاکراورمایاکوڈنانی جیسے انسانیت دشمن آزادگھومے ہی نہیں،انہیں حکومتی پشت
پناہی حاصل ہو،توہر انصاف پسندیہ ضرورمحسوس کرے گاکہ ملک کاجمہوری ڈھانچہ
متاثرہورہاہے۔یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ آرایس ایس سربراہ نے کہاتھاکہ
ملک میں پہلی مرتبہ ہندوحکومت آئی ہے ۔بھاگوت کایہ جملہ ملک کی ایک
اورغلامی کی دستک دے رہاہے۔ بالفاظ دیگرملک 15اگست1947کو نہیں بلکہ 28مئی
2014کوآزادہواتولال قلعہ کی فصیل پران کی حکومت کس چیزکاجھنڈالہرارہے
ہی۔ویسے توسنگھ پریوارکانہ توہندوستانی پرچم میں کوئی یقین ہے نہ آئین
ہندمیں ۔اب موجودہ حالات میں ملک کایہ احساس مضبوط ہورہاہے کہ وزیراعظم
مودی پھرراج دھرم نہیں نبھارہے ہیں لیکن انہیں راج دھرم کی نصیحت کرنے
والابھی بسترپرہے۔آخریہ کیسی آزادی ہے کہ ان کی پارٹی کے لیڈران اب یہ بھی
طے کرنے لگے ہیں کہ کس کوکیاکھاناچاہئے اورکس کوکتنے بچے پیداکرنے چاہئیں۔
وزیراعظم نے گذشتہ سال لال قلعہ کی فصیل سے کہاتھاکہ دس سالوں تک
بھیدبھاؤ،فرقہ وارانہ ٹکراؤ، سمپردایکتاجیسی چیزوں کوچھوڑدیں اورملک کی
ترقی میں سب مل کرلگ جائیں، سمپردایکتاکے زہرسے ،ایک دوسرے کومارنے سے کس
کوکیاملا،ہم نے بہت لڑلیا،ان بیتی باتوں کوپیچھے چھوڑدیں، بھائی چارہ ،شانتی
اورایکتاکاراستہ اپنائیں،میرے الفاظ پربھروسہ کریں ۔ لیکن اب ایک سال کے
بعدملک ان سے سوال کررہاہے کہ جب ان کے ’’پریوار‘‘کے لوگوں نے پورے ملک
کوآگ کے ڈھیر پرلاکھڑاکردیاہے تو’’سب سے مضبوط وزیراعظم‘‘ کیاکررہے ہیں،
کیایہ سب ان کی منظوری کے بغیرہونے لگاہے۔انہوں نے ترنگے کے نیچے کھڑے ہونے
کی دہائی دیتے ہوئے ان باتوں کوعملی جامہ پہنانے کاوعدہ کیاتھالیکن اب ایک
سال بعدانہیں اس طرح کی بات کرنے کاکوئی اخلاقی حق نہیں ہے ۔مغربی ممالک
اوریوروپی ممالک کے ہردورہ سے قبل ان کایاان کے وزیرداخلہ کایہ بیان
آجاتاہے کہ ملک میں ہرطبقہ کااحترام کیاجائے گا۔اوبامہ نے مودی حکومت کی جس
طرح کرکری کی ،اورپوری دنیامیں ہندوستان بی جے پی کے گرگوں کی وجہ سے
شرمسارہواوہ ملک کی تاریخ کاانتہائی سیاہ باب ہے۔ہردورہ سے قبل وزیراعظم
اوروزیرداخلہ کے رواداری والے بیانات اسی پس منظرمیں سامنے آتے ہیں۔لیکن
عرض اتناکرناہے کہ مذہبی رواداری جیسی بات اب وزیراعظم سے سننے میں اچھی
نہیں لگتی ہے۔
وزیراعظم نے گذشتہ برس لال قلعہ کے خطاب میں دن کی تیزروشنی بلکہ تیزدھوپ
میں خواب دکھائے تھے ، انہوں نے ملک کے کسانوں اورپسماندہ طبقوں کی بات
کوساتھ لے کرچلنے کی بات کی تھی لیکن مہاراشٹرمیں ان کی اپنی حکومت
ہے،چارماہ کے اندرچھ سوسے زائدکسان خودکشی کرچکے ہیں،وہ آخرملک کوکس طرح
کاترقی یافتہ دیش بناناچاہتے ہیں،ان کی زبان سے ترقی،سب کاساتھ سب کاوکاس
جیسی باتیں بھی پامال سی ہوگئی ہیں۔،بھولے بھالے کسانوں نے تواس امیدپرجن
دھن یوجناکے اکاؤنٹ کھلوائے تھے کہ پندرہ لاکھ نہ سہی کچھ ہی آجائیں لیکن
امت شاہ کے’’ انتخابی جملے ‘‘نے ساری امیدوں پرپانی پھیردیا۔واضح ہوکہ امت
شاہ پندرہ لاکھ کی بات کوانتخابی جملہ (دوسرے لفظوں میں جنتاکویوں ہی بے
وقوف بنانے والی بات)کہہ چکے ہیں۔
مودی جی نے بدعنوانی پربھی پوری طرح عدم برداشت کی بات کہی تھی،کرپشن کے
الزام پروہ منموہن سنگھ کوکھلے منہ کوستے رہے لیکن جب باری آئی اپنی
توسشماسوراج،وسندھراراجے ،شیوراج سنگھ چوہان،پنکجامنڈے اوراسمرتی ایرانی
پرمون برت رکھ گئے۔جمہوریت کے مندرمیں اورنہ لال قلعہ کی فصیل سے کیئے گئے
وعدوں کی پاسداری کی۔لال قلعہ کی تقریرمیں انہوں نے پالیمانی سیشن کی
کامیابی پرخوب تالیاں بجوائی تھیں لیکن اب اس برس وہ اس سیشن کے تعلق سے
کیاکہیں گے جس میں ٹیکس دہندگان کے پسینوں کے پیسے ضائع ہوگئے۔اوریہ ہرکوئی
سمجھ رہاہے کہ اس لئے کانگریس کم اوربی جے پی کی مطلق العنانیت زیادہ ذمہ
دارہے،اب حکومت اپنے ہی اصول (استعفیٰ نہیں توایوان کی کاروائی نہیں)پر
پارلیمنٹ میں پھنس گئی ہے۔وزیراعظم کی بات صداقت کے قریب اس وقت لگتی جب
فوراََوہ کاروائی کرتے ۔انہیں اپنے گرواڈوانی جی کی نصیحت بھی سن لینی
چاہئے تھی۔
یہ کتنادلچسپ پہلوہے کہ دن را ت جمہوری اصولوں اورقدروں کوپامال کرنے والی
پارٹی اب’’ جمہوریت کوبچانے کیلئے‘‘ کجریوال کے طرزپرسڑک پراترگئی ہے ۔انصاف
کی دن رات پامالی کرنے والی جماعت آخرکن اصولوں کی بات کرتی ہے ؟۔مودی جی
نے گذشتہ پندرہ مہینوں میں ایساکون ساکام کرلیاہے جس کے سہارے وہ اب
بہارمیں ووٹ مانگ رہے ہیں۔ان کی زبان سے اب سارے وعدے ’’ انتخابی
جملے‘‘لگتے ہیں۔کیونکہ اب یہ طے کرنابہت مشکل ہے کہ وزیراعظم کاکون ساجملہ
انتخابی جملہ نہیں ہے۔سردست وہ بدعنوانی اورفرقہ پرستی پرکچھ نہ بولیں تبھی
بہتررہے گا۔
تفتیشی ایجنسی کی افسرروہنی سالیان کایہ انکشاف نہایت حیرت انگیزتوہے لیکن
غیرمتوقع نہیں کہ مرکزی وزارت داخلہ این آئی اے پربھگواکنبہ کے دہشت گردوں
کوبچانے کادباؤڈال رہی ہے،روہنی سالیان کے بیان کی تائیدتفتیشی ایجنسی کے
اس فیصلہ نے بھی کردی ہے جس میں دہشت گرداسیمانندکے بیل کے خلاف عدالت میں
اپیل نہ کرنے کافیصلہ کیاگیاہے،مرکزی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے ہندودہشت
گردی کی اصطلاح پربہت برہمی دکھائی اورانہوں نے بہارمیں انتخابی فائدہ
اٹھانے کے لئے جان بوجھ کرمذہب کانام بیچ میں لایا،لیکن وہ سالیان کے بیان
،اسیمانندکی رہائی اورانکاؤنٹراسپیشلسٹ افسران کی تقرری کے تناظرمیں یہ
نہیں بتاسکتے کہ حکومت کیاصرف مذہب کے نام پرمجرموں کونہیں بچارہی
ہے؟۔کیاآزادتفتیشی ایجنسی پراپنے گرگوں کوبچانے کادباؤکوئی جمہوری طرزعمل
ہے۔
بہرحال موجودہ حالات کے تناظرمیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وطن عزیزاب آزادی سے
غلامی کی طرف بڑھ رہاہے،وہ غلامی ہے سنگھی ذہنیت کی۔تقریباََتمام محکمے اسی
ذہنیت کے غلام ہورہے ہیں چنانچہ زہرآلودفضاکے خلاف ایک اورجدوجہد آزادی کی
ضرورت ہے لیکن وہ جنگ ہتھیاروں سے نہیں،حکمت وتدبرسے لڑنی ہوگی ،محبت کے
پھول کھلاکر جمہوری قدروں اوراس کی روح کوبرادران وطن کے سامنے
لاناہوگا،باہمی اخوت کے پیغام کوعام کرکے ہی آرایس ایس اوراس کی ذیلی
تنظیموں کی کوششوں پرپانی پھیراجاسکتاہے۔برادران وطن کاایک بڑاطبقہ
مسلمانوں کے ساتھ انصاف کی لڑائی لڑنے کے لئے تیارہے یعقوب کے معاملہ
پرانصاف پسندوں کی ایک جماعت ہمارے سامنے آئی ، ضرورت ہے کہ ہم
توبیدارہوجائیں،انصاف پسندوں کوساتھ لے کرعدالتوں کے دروازوں تک جائیں،ان
کی آوازمیں آوازملاکرامن وامان اوراخوت ومحبت کی فضاقائم کرنے کیلئے تحریک
چلائیں۔ نوجوانوں میں فرقہ پرستی کازہرگھولاجارہاہے اس کے لئے مسلسل
تحریکیں زمینی سطح پرکام کررہی ہیں ۔ضرورت ہے کہ ان نوجوانوں کوملک کی روح
سے قریب کیاجائے ۔
|
|