افسانہ ء دیوانہ 1
(محمد اسامہ عارف, wah cantt)
میں جپ یہ لکھ رہا ہوں تو میں
انتظار میں ہوں گاڑی کے۔ ریل گاڑی کے آنے میں ابھی وقت ہے میں نے سوچا فارغ
رہنے کے بجائے آخری افسانہ لکھ لیتا ہوں۔ مگر معلوم نہیں اس کے نصیب میں
کسی لائبریری کے شیلف میں جگہ بنانا ہے یا کسی پبلشر کی ردی کی ٹوکری میں
چلے جانا ہے۔ معلوم نہیں کیوں لوگوں کو گھمنڈ ہوتا ہے اپنی کرسی کا اپنی
طاقت کا۔ مجھ جیسے بہت سے لکھنے والوں کے خواب ایسے ہی کچھ گھمنڈی لوگوں کی
ضد اور انا کی تسکین کے لیے سامان بن جاتے ہیں۔ اور انکی ہمیشہ سے بھوکی
ٹوکری کی خوراک ہم جیسوں کی تحریر ہی ہوا کرتی ہے۔ میرے ساتھ اور بہت سے
مسافر سفر کرنے کے لیے یہاں آئے ہوئے ہیں۔ سب کی منزل الگ ہے مگر راستہ ایک
ہے۔ کیسی بات ہے ہمارے مزاہب جو بھی ہوں مختلف راستے ہیں مگر منزل ایک ہے
اور وہ ہے سچ کی تلاش۔ خیر میرا مقصد فسانے افسانے سے ہے نہ کے فلسفہ سے۔
افسانہ کیا ہوتا ہے یہ سب ہی جانتے ہیں مگر یہ ہوتا کیوں ہے؟ یہ میں بھی
نہیں جانتا۔ میں اتنا ضرور جانتا ہوں اگر میں اپنے ساتھ جانے والے مسافروں
کی باتیں بھی لکھ دوں تو افسانہ بن جائیں گی۔ میرے لیے کسی کی زندگی کو
کہانی کا رنگ دینا کبھی مشکل نہیں رہا۔ بچپن سے میں بچوں کے رسائل میں
لکھتا آیا ہوں۔ میں یہ سوچتا تھا’’ جو کچھ میں سوچتا ہوں وہ ٹھیک ہے، مگر
آج لگتا ہے۔ صرف جو میں سوچتا ہوں وہ غلط اور باقی سب سچ ہے‘‘۔ جیسے کہ میں
سوچتا تھا انسان کا لکھا رزق ختم ہونے پہ وہ کیسے مر جاتا ہے؟ جب کے وہ کم
کھانے سے شاید دو چار روز مزید جی سکتا، مگر پھر سوچا کیا معلوم کم ی لکھا
گیا ہو؟۔ اور زیادہ کھانے کی صورت میں موت جلدی آجائے ایسا بھی ممکن نہیں
ہاں بدہضمی سے موت واقع ہونا الگ بحث ہے۔ ایسی بحث سے حاصل کچھ ہوتا تو
نہیں ہے۔ خیر بات میرے سفر کی تھی تو بتانا بھول گیا کہ یہ نوبت آئی کیوں
کر؟ ہوا کچھ ایسا کے آج صبح میں جب بیدار ۃوا تو میں ایک خواب دیکھ رہا تھا۔
باقی خواب تو معلوم نہیں جب آنکھ کھلی تو جنازہ دیکھ رہا تھا میں اپنا،
جنازہ تو نہیں بس میت تھی اپنی۔ کیا رونق تھی واہ واہ مگر ایسی رونق جیتے
جی کہاں میرے نصیب میں۔
اس خواب کے بعد مجھے ایسا لگنے لگا جیسے میرا اس دنیا میں رہنے کا وقت اب
مکمل ہو گیا ہے۔ یہ ہی سوچنے کے بعد میں گھر سے چلا آیا ہوں۔ میرے گھر
والوں کو اس بات کی خبر کم سے کم آج کے روز نہیں ہوگی۔ ایسا اکثر ہوتا ہے
میرے ساتھ۔ جب بھی میں محترم والد صاحب سے حد درجہ ذلیل ہوتا ہوں تب میرا
دانہ پانی پورا ایک دن بند رہتا ہے۔ اور میرے اس طرح سے ذلیل ہونے کی سب سے
بڑی اور بری وجہ خود ہماری ذات ہے۔ اوپر والے نے نہ پیاری شکل دی اور نہ ہی
عقل۔ ان دونوں چیزوں سے نہ نوازا گیا، نہ کبھی ہم نے حاصل کرنے کی جستجو
کی۔ |
|