نور اعلیٰ نور - قسط ۲۳

’’ذولفقار نے احرام باندھا ہوا تھا…… اور وہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔ پھر کچھ لوگ کسی کا جنازہ لئے خانہ کعبہ میں ہی کلمہء شہادت پڑھتے ہوئے جا رہے تھے‘‘۔

’’اﷲ اکبر اﷲ اکبر‘‘ کی آواز سنتے ہوئے ذولفقار کی آنکھ کھل گئی۔ فجر کی آذان ہو رہی تھی۔ وہ اپنے بستر پر ہی لیٹا رہا۔ اس کے ذہن میں اس کا خواب گھوم رہا تھا۔
’’میں خانہء کعبہ میں طواف کر رہا ہوں‘‘۔
’’……اور وہ جنازہ؟؟؟‘‘ سعد اپنے خواب کا مطلب جاننے کی کوشش کرنے لگا۔
’’خواب تو اچھا ہی معلوم ہوتا ہے!!!‘‘ سعد نے سوچا کہ بیت اﷲ کا طواف کرنے سے اچھا اور کیا کام ہو سکتا ہے۔
’’مگر وہ جنازہ……ٖ؟؟؟‘‘ ۔’’ اس کا کیا مطلب ہوا؟؟؟‘‘ جنازے والی بات پر وہ کچھ تشویش میں مبتلا ہو گیا۔
وہ اٹھا، کیونکہ وضو کر کے مسجد بھی جانا تھا ورنہ دیر ہو جاتی اور نماز کھڑی ہو جاتی۔
وضو کرتے ہوئے اور مسجد کے رستے میں اور نماز پڑھتے ہوئے بھی وہ اپنے خواب ہی کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس کا پورا ایمان تھا کہ بہت سے خواب اﷲ کی طرف سے ہوتے ہیں اور بہت سے شیطان کی طرف سے بھی…… اور کچھ بے مقصدو بے معنی خواب بھی ہوتے ہیں……مگر وہ اتنا ضرور سمجھ چکا تھا کہ یہ خواب کوئی بے معنی خواب نہیں…… بلکہ اﷲ تعالی کی طرف سے ہے…… خاص طور پر فجر کے اس وقت کے خواب بڑے با مطلب اور من جانبِ اﷲ ہی ہوتے ہیں……
’’شاید مجھے حج یا عمرے کی نیت کرنی چائیے……‘‘ اسے معلوم تھا کہ ایک بار رسول اﷲ ﷺ نے بھی اپنے آپ کو احرام کی حالت میں کعبہ کا طواف کرتے دیکھا تھا اور انہوں نے اس کے بعد اپنے صحابہ کے ساتھ عمرے کا ارادہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف سعد کے سر پر میجر اشرف کی حرکتیں سوار ہو چکی تھیں۔کبھی کبھی وہ سوچتا کہ خواہ مخواہ اپنے بھائی کے بارے میں منفی سوچ رہا ہے۔مگر نا جانے اسے کیوں ایسا لگتا کہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہے۔ورنہ وہ عام طور پر یونہی کسی کے بارے میں شک و شبہہ میں نہیں پڑ جایا کرتا تھا…… اور یہ تو تھا بھی اس کے اپنے سگے بھائی کا معاملہ……

وہ اپنے بستر پر لیٹا تمام پچھلی باتیں اور واقعات یاد کر رہا تھا۔
’’اس قسم کی میٹنگز گھر میں کون رکھے گا؟؟؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔
……اور وہ سلطان نامی شخص جو شکل سے کوئی بھارتی ایجنٹ لگتا تھا…… اس سے تو اسے شدید نفرت تھی۔
’’پتا نہیں ایسے لوگوں سے بھائی کیا چاہتے ہیں؟؟؟‘‘
’’اور وہ تیسرا نیا آدمی…… وہ فرنگی……پتا نہیں کیا چکر ہے!!!‘‘ وہ خوب سوچ بچار کر رہا تھا۔
’’خیر…… بھائی ہیں تو شروع سے ہی بد فطرت سے…… نا جانے آرمی والو ں نے کیسے سیلیکٹ کر لیا تھا!!!‘‘ وہ اپنے بھائی کی ملک کے اور اسلام کے بارے میں منفی سوچ سے تو اچھی طرح واقف تھا ہی……ہر وقت تو وہ امریکہ، کینیڈا اور انگلینڈ کے گن گاتے تھے۔ پاکستان کی برائیاں کرتے تھے۔اسلام سے بھی نفرت کرتے تھے اور بڑے بے باک انداز میں مذہب پر نکتہ چینی کرتے تھے……
ان کے لئے تو american dream ہی جنت تھی۔
سعد کے دل میں جانے کیا کچھ بھرا ہوا تھا۔ مگر وہ کسی سے یہ باتیں کہہ بھی تو نہیں سکتا تھا۔بات ہی ایسی تھی……دوستوں سے تو ایسی بات کہنا بڑی ہی بیوقوفی ہوتی ۔ کیونکہ یہ ایک بہت پیچیدہ اور سنجیدہ معاملہ تھا۔ اس کے تمام دوست ہی کم عمر اور نا تجربہ کار تھے…… ظاہر ہے، سب ابھی اسٹیوڈنٹس تھے……

صرف ایک تنظیم ہی واحد اہم اور سنجیدہ جگہ تھی جس سے سعد حال ہی میں جُڑا تھا۔مگر ایسی کسی بات کا تنظیم سے کیا تعلق!!!
’’سَر ذولفقار!!!‘‘ اچانک اس کے ذہن میں ذولفقار کا نام آیا۔ ویسے بھی سالانہ اجتماع میں شرکت کے باعث وہ ذولفقار کے کافی قریب آچکا تھا۔ وہ سنجید گی سے سوچنے لگا کہ یہ معاملہ وہ ذولفقار کے گوش گزار کر دے اور پھر دیکھے کہ وہ کیا کہتے ہیں…… اس نے دوسرے ہی دن ذولفقار سے اپنے دل کی بات کہنے کی ٹھان لی۔
۔۔۔۔۔۔۔

ذولفقار اپنے گھر میں ہونے والی واردات کو لے کر بہت پریشان تھا۔ سدرہ کے تو چہرے سے ہی اسے گھن آنے لگی تھی۔ گھر میں آتے ساتھ ہی اسے عجیب گھٹن کا احساس ہونے لگتا۔ جیسے اپنے گھر میں نہیں کسی دشمن کے گھر میں رہتا ہو۔

اس نے زیبا اور اپنی امی سے اس بارے میں کچھ نہ کہا کہ اسے سدرہ پہ شک ہے۔مگر اب سدرہ کسی طور بھی بھروسے کے لائق نہیں تھی۔ ویسے تو سدرہ کی وجہ سے گھر کا ماحول ویسے بھی خراب رہتا ہی تھا مگر اب تو بات حد سے آگے بڑھ چکی تھی۔ پہلے بھی ذولفقار نے کئی بار ارادہ کیا تھا کہ گھر چھوڑ کر کہیں اور شفٹ ہو جائے…… پَر کبھی بات نہ بن سکی……کبھی اس کی امی ڈھیلی پڑ جاتیں…… کبھی اس کے معاشی معاملات آڑے آ جاتے…… کبھی کوئی گھر اچھا نہ ملتا…… ملتا تو بہت مہنگا ملتا……

بہرحال اب تو ہر صورت کوئی فیصلہ کرنا ہی تھا۔ کئی بار اس کے ذہن میں خیال آتا کے پولیس کو سدرہ کا نام بتا دے…… مگر پھر وہ بدنامی کے خوف سے رُک ہو جاتا…… کہ فوراََ لوگ بات کو ہوا دیں گے …… اب تو ذولفقار اور سدرہ دونوں ہی میڈیا پر بھی آتے تھے ……
مگر اس گھر میں اور رہنا تو اب نا ممکن تھا…… چار و ناچار ایک ہی حل بچا تھا کہ گھر بدل لیا جائے……
’’……یا عزت بچا لو یا پیسہ!!!‘‘ ذولفقار نے خود سے کہا۔ بے شک الگ گھر میں رہنے سے اس کے معاشی حالات تھوڑی ٹائٹ ہو جاتے۔ مگر اس نے فیصلہ کر لیا۔

کچھ ہی دنوں کی محنت کے بعد ذولفقار ایک الگ فلیٹ میں شفٹ ہو گیا۔ اس کی امی بھی اس کے ساتھ ہی شفٹ ہو گئیں۔ سدرہ کے ساتھ صرف وحید ان کے ابو کے بنائے ہوئے گھر میں رہنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔

ذولفقار اپنے آفس میں بیٹھا کچھ نوٹس وغیرہ تیار کر رہا تھا۔ وہ پوری طرح اپنے کام میں مصروف تھا کہ اچانک کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک……‘‘
’’جی…… کَم اِن……‘‘ ذولفقار نے اندر آنے کی اجازت دی اور چونک کر دیکھا کہ کون ہے۔
’’السلام علیکم سَر……!‘‘ سعد سلام کرتا ہوا اندر داخل ہوا۔
’’و علیکم السلام!‘‘ ذولفقار کی پوری توجہ سعد پر تھی۔
’’ام م م……سَر!‘‘ سعد بہت ہچکچا رہا تھا۔ جو بات وہ کرنے آیا تھا بہت عجیب تھی۔ وہ شرمندہ سا نظر آنے لگا۔
’’جی بولیں؟‘‘ذولفقار بھی سوچنے لگا کہ سعد کا رویہ کچھ مختلف سا ہے۔
’’سَر وہ…… ‘‘ سعد کچھ عجیب طریقے سے زبردستی مسکرایا۔ دراصل وہ اپنی شرمندگی چھپانا چاہ رہا تھا۔ اس کے چہرے کا رنگ لال ہو گیا تھا۔
’’کیا ہوا سعد؟‘‘ ذولفقار بھی سنجیدہ ہو گیا کہ جانے ایسی کیا بات ہے کہ سعد کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں۔
’’بیٹھیں……‘‘۔
تھینک یو کہہ کر سعد ساتھ ہی رکھی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ذولفقار ٹکٹکی باندھے اس کے چہرے کو گھور رہا تھا کہ ابھی پتا چلے گا کہ کیا ہوا ہے۔
’’وہ…… سَر مجھے آپ سے ایک بات کہنی تھی……‘‘سعد کے منہ سے بڑی مشکل سے یہ الفاظ نکلے۔
’’جی جی …… ضرور…… بتائیں کیا بات ہے؟‘‘
’’کیوں اتنے پریشان سے ہوئے ہوئے ہیں؟؟‘‘ ذولفقار نے اس کی ہمت بندھائی۔
سعد پھر عجیب طریقے سے مسکرایا اور کہا ’’ بس سَر…… بات کچھ عجیب سی ہے……‘‘
’’کوئی پرسنل بات ہے؟؟؟‘‘ ذولفقار کو اندازہ ہو گیا کہ پڑھائی سے متعلق کوئی بات نہیں…… بلکہ کچھ اور ہی معاملہ ہے……
’’جی سَر۔ پرسنل ہی سمجھیں……‘‘ سعد نے جھوٹا سا جواب دیا۔
’’اچھا!‘‘۔’’ کوئی بات نہیں……‘‘
’’ریلیکس ہو جائیں…… پھر بتائیں……‘‘ ذولفقار نے پھر اس کی ہمت بندھائی۔
’’اصل میں سَر……‘‘
’’یہاں کوئی ہماری بات سن تو نہیں لے گا؟‘‘سعد نے اصل موضوع بیچ میں چھوڑ کر اپنی تسلی کرنا چاہی۔
اب تو ذولفقار کو بھی بڑا تجسس ہو گیا تھا۔
’’نہیں سنے گا بھئی…… بتائیں کیا ہو گیا ہے…… ‘‘ ذولفقار سمجھ رہا تھا کہ کوئی گھریلو مسئلہ ہو گا۔اکثر لڑکے اس سے اپنے گھریلو مسائل بیان کر دیتے تھے۔
’’سَر بہت عجیب سی بات ہے……‘‘ ذولفقار خاموش رہا۔
’’ایکچلی میرے بڑے بھائی میجر ہیں آرمی میں……اور……‘‘ سعد نے جو کچھ بھی اس کے دل میں بھرا پڑا تھا سب انڈیل دیا۔
’’…… مجھے ایسا لگتا ہے وہ ملک کے ساتھ وفادار نہیں…… اور کسی تخریب کاری کا منصوبہ بنا رہے ہیں‘‘سعد نے آخری جملہ کہا۔ اسے ایسا لگا جیسے اس کے کاندھوں سے ٹنوں بوجھ اتر گیا ہو۔
’’ہم م م ……‘‘ ذولفقار نے کچھ ذیادہ نہیں کہا۔ اس کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ اسے بھی سعد کی یہ بات بڑی عجیب سی لگی۔ بات تھی بھی سعد کے اپنے سگے بھائی کے بارے میں……
’’کئی ماہ سے میں ان کی یہ حرکتیں نوٹ کر رہا ہوں……‘‘
’’میں ان کے ساتھ ان ہی کے گھر پر رہتا ہوں……‘‘
ذولفقار نے بھی اب اس سے بہت سے سوالات کئے اور کم و بیش ایک گھنٹے کی طویل نشست کے بعد سعد ذولفقار کے آفس سے نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

سدرہ جس امریکی این جی او سے جُڑی تھی۔ انہوں نے اب اسے ایک آفس بھی فراہم کر دیا تھا۔ وہ اپنی کرسی پر بیٹھی اپنے آفس کا دروازہ بند کر کے کچھ کاغذات وغیرہ چیک کر رہی تھی۔
وہ بڑی دلجمئی سے ایک ایک صفحے کو غور سے دیکھتی ، پھر ایک طرف رکھ دیتی……
اس کے چہرے پر تشویش اور فکر مندی عیاں تھی…… یوں لگتا تھا جیسے وہ جس چیز کی تلاش میں ہے وہ اسے مل کر نہیں دے رہی……
’’اتنے سارے پیپرز کیسے چیک کروں گی؟؟؟‘‘ اس کے ایک طرف کاغذوں کا ایک انبار لگا تھا۔
اس نے جلدی جلدی ایک ایک پیپر سرسری طور پر دیکھنا شروع کردیا۔
اب اس نے ایک یو ایس بی اپنے لیپ ٹاپ پر لگائی اور اسے اوپن کیا۔
یو ایس بی میں ایک ہی فولڈر تھا……جس کا نام تھا ’’ذولفقار‘‘……
سدرہ نے جلدی سے اس پر کلک کیا تا کہ دیکھے کہ اس میں کیا ہے……
اس میں بہت سے آرٹیکلز…… کچھ ای بکس، کچھ تاریخی مکالے اور بہت سے انجینئیرنگ کے نوٹس تھے……
سدرہ کے چہرے پر مایوسی چھا گئی۔ وہ تو سمجھی تھی کہ ذولفقار جس تنظیم میں کام کرتا ہے وہ کوئی ٹیررسٹ جماعت ہے۔ اور اسے شاید اس کی کسی مشکوک سرگرمی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت ان چیزوں سے مل جائے جو ڈاکوؤ ں نے سدرہ کے حوالے کی تھیں۔ مگر بے سود……

جب بھی انسان کوئی برا کام کر بیٹھتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ پڑ جاتا ہے۔ اب اگر وہ توبہ کر لے اوراپنی اصلاح کر لے تو دل پھر سے صاف و شفاف ہو جاتا ہے۔
انسان کا دل تو ہمیشہ ہی برائی کی نفی کرتا رہتا ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے بد مست ہوتے ہیں کہ اپنے ملامت کرتے نفس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں…… اپنے آپ کو جھوٹے دلاسے دیتے ہیں…… اور برائیوں اور گناہوں پر اڑ جاتے ہیں……

جیسے جیسے انسان برائیوں میں گھرا چلا جاتا ہے، برائی اس کے لئے پہلے سے ذیادہ آسان اور نیکی کرنا اور مشکل ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کا دل کالا سیاہ ہو جاتا ہے اور اب توبہ کی توفیق ہی نہیں رہتی……اسی حالت کو کہتے ہیں دلوں پر مہر لگ جانا۔اب چاہے انہیں جتنی بھی وعظ و نصیحت کرو…… جتنا بھی سمجھاؤ بجھاؤ ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا …… بلکہ وہ ناصح کو اپنا حریف اور دشمن سمجھنے لگتے ہیں اور اس کے خلاف محاز آرائی پر اتر آتے ہیں۔ ان کی مثال اس شخص کی سیہوتی ہے جسے شیطان نے چھو کر دیوانہ کر دیا ہو……کہ اب اسے اپنا فائدہ نقصان بھی نہیں سوجھتا۔ (سورۃ البقرہ آیت ۲۷۵)

اس دور کے اﷲ والے لوگ تو بہت ہی کمزور ہیں…… نوح ؑ نے اپنی قوم میں نو سو پچاس سال تبلیغ کی پَر ان کا اپنا سگا بیٹا بھی ایمان نہ لایا اور ان کی سیدھی راہ میں کانٹے بِجھائے ……لوطؑ کی اپنی بیوی نبیء خدا کے دشمنوں سے گٹھ جوڑ کئے بیٹھے رہی اور ہداہت سے منہ موڑا…… آخر کار عذاب الہی میں جکڑی گئی۔ اور تو اور ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ذات اقدس کے سامنے ان کے اپنے چچا ابو لہب و ابو جہل گمراہی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے اور کفر ہی کی حالت میں موت کے گھاٹ اترے……

ان سب لوگوں کے دلوں پر ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے مہر لگ گئی تھی۔ یہ لوگ نیکو کاروں کے دشمن ہوتے…… ان سے نفرت کرتے…… انہیں تکلیف پہنچاتے…… نوح ؑ کو طعنے دیتے کہ ’’ دیکھو اس دیوانے کو! صحرا میں کشتی بنا رہا ہے ……‘‘
’’دیکھو لوط ؑکو! یہ بڑا پاک باز بنتا ہے……‘‘
’’دیکھو محمد ﷺ کو! کل تک ہماری بکریاں چراتا تھا آج کہتا ہے کہ اﷲ کا رسول بن گیا ہے……‘‘
’’یہ جادوگر ہے……
’’یہ دیوانہ ہے…… ‘‘
’’یہ پاگل ہے……‘‘
کتنی ہی نبی ایسے ہو گزرے جنہوں نے اپنی قوم کے ہاتھوں پتھر کھائے…… فاقے کئے…… گھاس پھوس کھائی……
زکریا ؑ کے سر پر آرا رکھ کر ان کے دو ٹکڑے کر دئیے گئے مگر اﷲ نے صبر کیا اور ان ظالموں پر عذاب نہ آیا……
بد کردار و بد اعمال لوگ یہ نہ سمجھیں کہ اس دنیا میں وہ اﷲ کے غضب سے بچ گئے ہیں تو آخرت میں بھی اﷲ کی گرفت سے بچ جائیں گے…… اﷲ ایسے ظالموں کے لئے گھات لگائے بیٹھا ہے…… اس کی لاٹھی بے آواز ہے……

سدرہ اور اس جیسے بد اعمال افراد دنیا کی چند روزہ زندگی کے فائدے اٹھالیں……شیطان نے ان کے برے اعمال انہیں اچھے کر دکھائے ہیں اور وہ یہی سسمجھتے ہیں کہ وہ سیدھے رستے پر ہیں…… اﷲ ان کی رسی دراز کئے ہوئے ہیں…… مگر موت سے کسی کو فرار نہیں…… ہر گزرتا لمحہ ایک قدم ہے المناک غذاب کی جانب…… آخر کار وہ اپنے کئے کا مزہ چکھ لیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔

ذولفقار کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کو سعد کی باتوں کا اسے کیا جواب دے۔ اگر یہ سب سچ بھی ہے تو اسے ثابت کیسے کیا جائے اور کیا اقدام کئے جائیں۔ سعد کی باتوں پر اندھا اعتماد تو نہیں کیا جا سکتا تھا نا…… اور ابھی تو وہ خود بھی شک و شبہات میں ہی مبتلا تھا۔کچھ بھی یقین سے تو نہیں کہا جا سکتا تھا۔
’’ایسے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟؟؟‘‘ ذولفقار سوچ میں گم تھا۔
’’مجھے یقیناََ اسے کوئی نہ کوئی مشورہ تو دینا ہی ہو گا……‘‘
’’وہ بھی اسی انتظار میں ہو گا کہ میرا کیا جواب ہو گا……‘‘
’’اگر یہ سب سچ بھی ہو تومیں سعد کو اس کے بھائی کی جاسوسی کرنے کا تھوڑی کہہ سکتا ہوں…… یہ تو بہت خطرناک ہو گا……اور پکڑے جانے کی صورت میں یا تو سعد اور میری ذلت و رسوائی کا باعث بنے گا…… یا پھر……‘‘
’’یا پھر…… ہماری جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے……‘‘
’’پَر اگر اس شک کے پیچھے واقعی کوئی سچائی ہے…… تو ایسے میں لوگوں کی اور ملک کی سلامتی کو ایسے خطرے میں تو نہیں ڈالا جا سکتا نا……‘‘ ذولفقار بڑا سنجیدہ ہو گیا۔ اسے اندازہ بھی نہ تھا کہ زندگی کے کسی موڑ پر اس کاپالا کسی ایسے معاملے سے بھی پَڑ سکتا ہے۔ وہ تو ایک سیدھا سادہ سا لیکچرار تھا …… جسے اﷲ نے ہدایت سے نواز دیا۔ وہ اپنے ملک، عوام اور دین سے بے حد محبت کرتا تھا۔
’’اے اﷲ اس مشکل معاملے میں میری رہنمائی فرما……‘‘ اس نے دعا کی۔
’’آخر میں کیا کر سکتا ہوں؟؟؟‘‘
ایک لمحے کو تو ذولفقار کے دل میں خیال آیا کہ وہ سیدھا سیدھا سعد سے کہہ دے کہ اسے خواہ مخواہ ہی سسپینس ہو گیا ہے اور وہ بس اپنی پڑھائی پر توجہ دے اور بس……
مگر پھر اس نے سوچا کہ اگر یہ سب سچ ہوا؟؟؟
ذولفقار نے سوچا کہ وہ خود میجر اشرف کی جاسوسی کرے…… پھر یہ خیال بھی جھڑک دیا…… کہ وہ کوئی جاسوس تو نہیں ہے…… ہر کام کے لئے ایک ٹریننگ ہوتی ہے…… اس نے کب کسی کی مخبری یا جاسوسی کی ہے…… ان کاموں میں تو آرمی اور انٹیلیجنس ایجنسیاں ہی ماہر ہوتی ہیں…… اس کی زندگی کوئی ایڈوینچر ناول تو نہیں……

ذولفقار نے رات کو تہجد ادا کی اور اﷲ سے اس معاملے میں امداد کا طالب ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔

سعد کسی عجیب کیفیت کا شکار تھا۔ کبھی کبھی تو اسے لگتا کہ اس نے ذولفقار کو اپنی بات بتا کر غلطی کی ہے کہ سر ذولفقار کیا کرلیں گے!!!
اسے ذولفقار کا سامنا کرتے ہوئے شرم سی آتی۔ ظاہر ہے استاد استاد ہوتا ہے اس سے کوئی جزباتی تعلق تو ہوتا نہیں…… نہ ہی ذولفقار سعد کا کوئی دوست تھا…… نہ کوئی رشتہ دار…… مگر پھر بھی اب تو بات حلق سے نکل چکی تھی اور ایسا ضرور تھا کہ ذولفقار سے اپنے دل کی بات کہہ کر وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا تھا…… مگر دوسری ہی طرف اسے یہ احساس بھی تھا کہ اب یہ معاملہ صرف اور صرف اس کی اپنی ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ کسی اور کو بھی اس کی خبر ہے…… اور ایسا عموماََ ہوتا ہے کہ کوئی بات جب ہر زبان زدِ خاص و عام ہو تو وہ خود با خود ہی اسکینڈل بن جاتی ہے…… راز تو تب تک ہی راز رہتا ہے جب تک وہ آپ کے اپنے دل میں قید ہو…… حلق سے نکلی خلق نے سنی…… ذولفقار یہ بات کسی اور سے بھی تو کہہ سکتا تھا……

مگر اب تو سعد بس ذولفقار کے جواب کا منتظر تھا……

’’سَر آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا‘‘ سعد ذولفقار کے آفس میں موجود تھا۔
’’آپ ایسا کریں مجھے پانچ بجے ……‘‘ ذولفقار سعد سے کہیں باہر ملنا چاہتا تھا۔ مگر کوئی جگہ اس کے ذہن میں نہیں آرہی تھی۔
’’ام م م…… آپ ……کسی پبلک پارک میں ملیں……‘‘
’’……یہاں کوئی ہمیں دیکھ کر کسی کام سے آ جائے گا…… اور بات ٹھیک طرح نہیں ہو پائے گی……‘‘
’’کہاں؟؟؟‘‘ سعد نے پوچھا۔
’’کراچی میں کوئی ڈھنگ کے پارکس بھی نہیں……چلیں عسکری پارک میں ملتے ہیں‘‘

ٹھیک پانچ بجے ذولفقار اور سعدعسکری پارک کے ایک بینچ پر بیٹھے تھے۔
’’دیکھیں سعد……‘‘ ذولفقار کچھ دیر چپ ہوا۔ ’’آپ نے جو بھی باتیں کیں میں نے ان کے متعلق بہت سوچا……‘‘
’’……اور میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کو آپ اس معاملے سے دور رہیں…… چاہے اس بات میں کوئی حقیقت ہو یا نہ ہو ……‘‘ ذولفقار ٹھہر ٹھہر کر اپنی بات کہہ رہا تھا۔
’’ آپ کچھ کر نہیں سکتے…… اور میں بھی نہ کوئی جاسوس ہوں، نہ آپ کے گھر رہتا ہوں کہ کچھ اور جان سکوں……‘‘
’’……نہ ہی میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ مزید اپنے بھائی کی مخبری کریں اور مجھے اطلاع دیں……‘‘
’’آپ سمجھ رہے ہیں نا؟؟؟‘‘ ذولفقار کی آواز میں ایک بھاری پن تھا۔ وہ بہت اچھی طرح سعد کو بات سمجھارہا تھا۔
’’بہتر ہے کہ آپ الگ گھر میں رہ لیں…… کسی دوست کے ساتھ ……‘‘
’’بہت سے لڑکے جو کراچی کے باہر سے آئیں ہیں…… یہاں رہتے ہیں…… آپ اپنے کسی ایسے دوست کے ساتھ شفٹ ہو جائیں‘‘۔
سعد نے ایک ٹھنڈی آہ بھری ۔ اسے ذولفقار کی بات سمجھ آ گئی تھی۔
وہ ٹھیک ہی کہہ رہے تھے۔ آخر سعد کیا کر لے گا…… اور ہو سکتا ہے اس کا شک محض ایک شک ہی ہو……

سعد اور ذولفقار نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا اور اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔ پارک میں موجود کچھ دوسرے لوگ بھی مغرب کے وقت اپنے گھروں کو جانے لگے۔ سعد نے بھی اپنی بائیک اسٹارٹ کی اور کسی گہری سوچ میں ڈوبا کراچی کی مصروف روڑوں پر آگے بڑھنے لگا۔ جانے کیوں اسے ایسا لگا جیسے کوئی اس پر نظر رکھے ہوئے ہے!!!

’’سَر آپ ناراض نہ ہوں تو آپ کو بتانا چاہتا ہوں کو آج مجھے ایسا لگا کہ کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے‘‘

ذولفقار سعد کا میسج پڑھ کر مسکرا دیا کہ اسے وہم ہو گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 85411 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More