ابابیلیں !ضرور آئیں گی؟

 ہماراماضی بہت تابناک رہا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں۔اﷲ کا پرچم لے کرہم جدھر بھی نکلے ،ہمیں کامیابی ملی،ہمارا سفر جاری رہتا تھا۔ہمارے ایمان میں وحدانیت تھی،ہمارے عزم مضبوط تھے،مزاج میں انکساری تھی،دلوں میں خدا کا خوف ہوا کرتا تھا توعمل کے لیے رسولؐ کی تعلیمات تھیں اور اسی لیے ہم’دشت‘ کے ساتھ ساتھ ’دریا ‘ بھی نہیں چھوڑتے تھے اور ’ظلمات کے سمندر میں گھوڑے بھی دوڑا دیتے تھے‘۔اس وقت ہمارا مقصد اور مسلک ایک تھا ، قوم کے’منفعت‘اور’نقصانات‘ بھی ایک ہوا کرتے تھے اسی لیے مسلمان بھی ایک تھے ۔اُس وقت لوگوں نے جو قرآن ہاتھوں میں لے رکھا تھا اس کی تفسیر وہ تھی جو حضور اقدسؐ نے بیان کی تھی آج بھی وہی قرآن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے لیکن اپنی اپنی تفسیروں کے ساتھ۔ آج بھی لوگوں کے ہاتھوں میں حدیثیں ہیں تو ضرور لیکن اپنی اپنی سمجھ کے ساتھ۔اسی لیے جن ظلمات کے سمندروں میں ہم گھوڑے دوڑایا کرتے تھے ، اب ہمارا حال یہ ہے کہ ہم کو سمندروں اور گھوڑوں سے ڈر لگنے لگا ہے۔ اُدھر ہم خود گدھوں کی سواری کے لائق بھی نہیں رہ گئے۔کرشن بہاری نوؔر کا ایک شعر ہے ؂
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
;میرے حصّہ میں کچھ بچا ہی نہیں

ہمارا حال یہ ہے کہ ہم بالکل خالی ہو چکے ہیں،ہمارے پاس کچھ نہیں بچا ہے۔ہمارا ایمان مشترک ہو چکا ہے، ہمارے سجدے در بدر ہو گئے ہیں،ہماری وفاداری مشکوک ہو چکی ہے،ہماری جواں مردی میں زنگ لگ چکاہے،ہماری پینی نظریں دھندلا چکی ہیں،بلندی پر چڑھنے کے لائق نہیں رہے،ہمارے بازو شل ہو چکے ہیں،اپنی تقدیر سے ہم باغی ہو چکے ہیں ،(نعوذ باﷲ) اپنے اﷲ پر بھروسہ نہیں رہا ہاں سعودیہ، دوبئی،امریکہ کے خداؤں پر زیادہ بھروسہ کر رکھا ہے۔ہمارا مقصد پیسہ کمانا رہ گیا ہے کیونکہ ہم ’کمپٹیشن‘ کے دور میں جی رہے ہیں۔ہمارے پڑوسی کے پاس چار پہیہ گاڑی ہے تو ہمارے پاس بھی کسی بھی طرح ہونی چاہئے۔اس گاڑی کی ہمیں کتنی ضرورت ہے اس سے مطلب نہیں۔ ہم فائنانس کرائیں گے، اچھی خاصی رقم ہم سود میں ادا کریں گے اور گاڑی کے مالک بن جائیں گئے۔

اگر ہم کسی وجہ سے گاڑی نہیں خرید پا رہے ہیں تو پڑوسی کی گاڑی کی جلن ہمارے دِل میں رہے گی۔ بیٹا بھی اپنے باپ سے ضد کر رہا ہے کہ ’’راشد چچا کے بیٹے کے پاس ’اسمارٹ فون‘ ہے مجھے بھی دلوائیے‘‘۔اس کی ضدپر والد صاحب وعدہ کر لیتے ہیں لیکن اس سے یہ نہیں کہتے کہ ’راشد نے اپنے بیٹے کو فرسٹ ڈیویزن پاس ہونے پر فون دلوایا ہے ، تم نے کون سا تیر مارا ہے؟‘۔

ہم اپنی بچیوں کو پوری آزادی دیتے ہیں اور وہ ’جینس اور ٹاپ‘ میں، روشن خیال مسلمان بن کر، کالج اور بازار جاتی ہیں۔ہم ان مسلم بچیوں کو دقیا نوسی قرار دیتے ہیں جو کپڑوں پر توجہ دے کر حجاب اختیار کرتی ہیں۔

ابھی تھوڑے دنوں کی بات ہے کہ شہر لکھنؤ کے ایک کانوینٹ اسکول سے ایک مسلم طالبہ کو حجاب اختیار کرنے پر اسکول سے نکال دیاگیا۔طالبہ کے گھر والوں نے ڈی․ایم․سے شکایت کی جس کے بعد جانچ کا حکم ہو گیا۔لڑکی فرحین فاطمہ نویں درجہ کی طالبہ ہے وہ حجاب میں اسکول گئی تھی، پہلے دِن اس کو منع کیا گیا اور دوسرے دن اسکول سے نکال دیا گیا۔اسکول انتطامیہ کا یہ فیصلہ بہت ہی بدبختانہ اور قابل مذمت ہے۔قابل مبارکباد ہیں اس بچی کے گھر والے جن کی تربیت میں اس نے حجاب اختیار کیا۔

ہم اپنے عمل سے یہ بتانے میں بالکل ناکام ہیں کہ ہماری شریعت کہتی کیا ہے۔شریعت کو ہم نے تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔مسلم بچیاں حجاب بھی کرتی ہیں اور مسلم بچیاں جسم کی نمائش کرنے والے کپڑے بھی پہنتی ہیں۔ان دونوں بچیوں کی تربیت میں فرق کیوں؟حجاب کرنے والی لڑکی دقیا نوسی اوردوسری قسم کی لڑکی روشن خیال مسلمان کہی جاتی ہے۔اس فیشن کے دور میں روشن خیال مسلمان خواتین کی تعداد بہت ہے۔کسی بھی مسلم تقریب میں روشن خیال مسلم خواتین اکثریت میں ملیں گی۔

فرحین فاطمہ اور ان کے گھر والے لاکھ کہتے رہیں کہ ہمارے لیے حجاب فرض ہے۔پرنسپل صاحبہ کی سمجھ میں اس وقت کیا خاک آئے گا جب ان سے معلومات حاصل کرنے کے لیے’تحفظ اطفال کمیشن کی رکن ’ناہیدلاری خان صاحبہ‘ بے حجاب ان کے سامنے پہنچے گی۔ابھی کچھ سال پہلے آپ کو یاد ہوگا کہ داڑھی رکھنے کی وجہ سے ایک مسلم طالب علم کو اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔یہ معاملہ عدالت تک گیا۔وکیل کے داڑھی کے حق میں بحث کرنے کے بعد جج صاحب نے وکیل صاحب سے پوچھا اگراسلام میں داڑھی کی اتنی ہی اہمیت ہے تو آپ کی داڑھی کہا ہے؟۔

’اسلام !تیرا سب کو نظر آنا چاہئے‘لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام کسی کو ہی نظرہی نہیں آ رہا ہے اور نہ اس کو اپنی نظر میں رکھنے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں اسی لیے دھوکہ دھڑی کے معاملہ میں ہم سرِ فہرست ہو رہے ہیں۔ضرورتاً جھوٹ بھی بولتے ہیں، قصداً غیبت کرتے ہیں۔ظلماً کم تولتے ہیں اور جبراً کم ناپتے ہیں۔’سچّائی‘ ہماری خوبی تھی اُسے ہم نے تج کر رکھی ہے،’وفا داری ‘ ہماری فطرت تھی اسے شک کے کٹ گھرے میں کھڑا کر رکھا ہے،اُخوت اور بھائی چارے کے بیچ میں ہم نے کھائیں کھود کر رکھ دی ہے۔مسجدیں بانٹ لی ہیں، عید گاہوں میں عیدین کی نمازیں ’شفٹوں‘ میں ادا کی جاتی ہیں۔کئی جگہ مسجدوں میں بھی الگ الگ مسلک کے لوگ الگ الگ وقتوں میں نماز ادا کر رہے ہیں۔اور یہی لوگ(مسلمان) بڑی بے دردی سے ایک دوسرے کو کافر کہنے میں سبقت لے جانے کی کوشش میں رہتے ہیں جب کہ شرعاً ہمیں کافر کو بھی کافر کہہ کرمخاطب کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ پہلے کے ایک مضمون میں ایک صاحب نے میرے اس جملہ پر اعتراض کرتے ہوئے اخبار میں لکھا’جب اﷲ نے قرآن میں کافر کو اسی لفظ سے مخاطب کیا ہے تو ہم کیوں نہ کریں‘۔کسی کے پاس ہے اس کا کوئی جواب؟ہر کوئی اپنی اپنی سمجھ کی شریعت بنائے ہوئے ہے۔

سید حامد مرحوم کا ایک جملہ مجھے آج تک یاد ہے۔انھوں نے اپنا ایک مضمون اسی جملہ سے شروع کیا تھا جسے میں نے اپنی طالبعلمی کے زمانے میں پڑھاتھا کہ ’مسلمان خون بہا سکتا ہے ، پسینہ نہیں‘۔ہمارے نوجوان طبقہ پر صادق آتا ہے۔وہ آوارہ گردی میں تھک کر چور ہو سکتے ہیں لیکن کام کرنے کے لیے آج طبیعت نہیں ٹھیک ہے کا بہانافوراً حاضر کرتے ہیں۔کوئی بجلی والاہے یا کوئی پلمبر ہے یا پینٹر ہے اور اگر یہ مسلمان ہیں تو اُس وقت تک کام نہیں کریں گے جب تک اس کے پاس پیسہ بچا رہے گا۔جب پیسہ ختم ہو جائے گا تب وہ کام کی تلاش میں نکلیں گے ۔میں ذاتی طور سے دو نوجوان کو بخوبی جانتاہوں جنہوں نے بینک کی ملازمت اس وجہ سے چھوڑ کر چلے آئے کہ کام بہت کرنا پڑتا تھا۔

ہندوستان کا فرقہ پرست سنگٹھن کوئی ایسا موقعہ ہاتھ سے نہیں جاتے دیتے ہیں جس میں مسلمانوں پر کوئی نہ کوئی الزام نہ لگاتے ہوں۔اورپاکستان جانے کی دھمکی الگ سے دیتے رہتے ہیں۔لگتا ہے بھارت ایک سکولر ملک نہیں بلکہ اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔یہ فرقہ پرست لوگ اُس وقت کہاں تھے جب ہندو اورمسلمان کندھے سے کندھا ملا کر انگریزوں سے آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے یہی نہیں میدانِ جنگ میں ان کے ساتھ پردہ نشین عورتیں بھی تھیں اس وقت تم ماں کے پلّو میں چھپے ہوئے تھے اور وہیں سے انگریزوں کے لیے مخبری کیا کرتے تھے اور کبھی پکڑ بھی لیے گئے تو معافی مانگ کر چھوٹ لیتے تھے۔

ایک اور معافی نامہ کا ذکرتا چلوں: ۱۹۴۱؁ء میں تحریک خلافت کے سلسلہ میں امیر شریعت حضرت مولاناعطا اﷲ شاہ بخاریؒجب گرفتار ہوئے توانہیں لاہور سنٹرل جیل کے ’گورا وارڈ‘ میں قید کر دیا گیا۔ ابھی دو ہفتہ ہی گزرے تھے کہ اچانک ایک روزجیلر نے شاہ جی کو اپنے دفتر میں طلب کیا اور انگریزی میں لکھی ہوئی ایک تحریر پیش کی جس پر ان سے دستخط کرنے کو کہا۔اس پر لکھا تھا ’’اگر حکومت اس بار مجھے معاف کر دے تو میں یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ کوئی ہرکت میری ایسی نہیں ہو گی جس حکومت کو کسی قسم کی کوئی شکایت ہو‘‘۔ شاہ جی نے اس معافی نامے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے، زمین پر پھینک کر ان کو روندا اور تین بار تھو کا اور غضب ناک ہو کر لوٹ گئے۔

اس واقعہ کے چند روز ہی بعدشاہ جی کو پنجاب کی سخت ترین ضلع جیل ’میانو الی‘ میں منتقل کر دیا گیا۔ قید کی مدت ختم ہونے میں ابھی چند ماہ باقی تھے کہ ایک بار پھر وہی عمل دہرایا گیا۔ جیلر نے معافی نامہ دستخط کے لیے پیش کیا۔ شاہ جی نے فرمایا’’میں جو کچھ کہتا ہوں اس پر معافی نامہ لکھو گے؟جیلر نے کہا جی ہاں۔شاہ جی نے فرمایا تو پھر لکھو’’میں جب تک زندہ رہوں گا،تمہاری جڑوں کو کاٹتا رہوں گا‘‘

یہ تھی ایک مسلمان کے عقیدے کی اکڑ۔اب ہمارا حال یہ ہے کہ ہمارا عقیدہ تو عنقا ہو چکا ہے صرف اکڑ ہی اکڑ رہ گئی ہے اورجہالت اور بے عقیدے کی اکڑ میں ہم مارے جا رہے ہیں۔ہم اپنے کردار، اپنے اعمال صحیح کرتے ہوئے اﷲ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑیں پھر دیکھیں کہ ’ابابیلیں‘ آتی ہیں یا نہیں؟آتش نمرود ٹھنڈی ہوتی ہے کہ نہیں؟

ہمیں اب سنجیدہ ہونا پڑے گا اور اسلام کا پیروکار بننا پڑیگااس طرح سے ہم جلد ہی اپنا کھویا ہوا مقام پا سکتے ہیں اور پھر سے ’بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا سکتے ہیں‘
Shamim Iqbal Khan
About the Author: Shamim Iqbal Khan Read More Articles by Shamim Iqbal Khan: 72 Articles with 74283 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.