جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی!

 جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی!
جشن آزادی کی تیاری زوروں پر تھیں جدھر دیکھو سبز جھنڈیاں ہی جھنڈیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ ہر گلی کے کونے پر ہر دکان کے کاؤنٹر پر جھنڈیوں کی گڈیاں رکھی تھیں اور لوگ ذوق و شوق اور ولولے کے ساتھ خریدے جا رہے تھے۔ہر سال یہی کچھ ہوتا تھا۔ مگر اسے کبھی اس قدر غور کرنے کا وقت نہ ملا، پڑھائی سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی مگر اس دفعہ وہ گریجویشن سے فارغ ہو کر نہایت اطمینان سے تیاریاں دیکھ رہی تھی اور دل ہی دل میں طے کر رہی تھی کہ اس سال وہ بھی جشن آزادی کو نہایت اہتمام اور عقیدت سے منائے گی ان شاء اﷲ۔
بی۔ اے کے امتحان سے فارغ ہو کر چھ ماہ سے زائدہ عرصہ گزر چکا تھا گھر میں اکثر و بیشتر اجنبی مہمان خواتین آتی رہتیں اور امی کی جانب سے حکم ملنے پر کہ چائے کا اہتمام سلیقے اور کفایت سے کیا جائے۔ چھوٹی رفعیہ کو چھیڑنے کا موقع مل جاتا۔ لیجئے آپی خیر منائیے دیس نکالا ملنے والا ہے ساتھ ہی چلی جانے والی خواتین پر ریمارکس بھی پاس کرتی رہتی۔
’’․․․․․وہ آپی پچھلے ماہ جو دو خواتین لائی تھیں نا! ان میں سے ایک یقینا صاحبزادے کی اماں جان ہوں گی، فرما رہی تھیں
اے بہن میرے خیال سے آپ نے بچی کے لئے بہت کچھ تیار کر لیا ہو گا۔ خیر سے آپ کا بیٹا آفیسر بھی تو ہے سرکاری محکمے میں؟․․․
اور میرا دل چاہا آپی صاف کہہ دوں آپ کو جہیز کی تیاری کی بہت فکر ہے اور اتنے برسوں کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں جو ہماری آپی کی شاندار سحر انگیز شخصیت بنی ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں؟مگر خیر وہ تو دوبارہ تشریف لائیں ہی نہیں یہ بھی اچھا ہوا․․․‘‘
’’․․اور وہ بھی محترمہ تھیں جو اپنے بھائی کے لئے آپ کو دیکھنے آئی تھیں مگر اپنا میک اپ اس قدر کیا ہواتھا جیسے آپ کو پسند کرنے نہیں بلکہ خود کو پسند کروانے آ رہی ہیں یہ نہیں جانتیں کہ رنگ و روغن سے کچھ فرق نہیں پڑتا اصل چیز تو نقوش ہیں۔ واہ بھئی کیسے کیسے لوگ ہیں اس دنیا میں!‘‘
کافی دن سے اسے اپنا ہم جماعت عائشہ بہت یاد آ رہی تھی۔ ڈائری میں فون نمبر ڈھونڈا اور فون گھما ڈالا ۔ اتفاقاً دوسری جانب ریسیور عائشہ نے ہی اٹھایا۔’’․․․ کون صاحبہ بول رہی ہیں؟ ‘‘ ’’․․․ میں عائشہ بول رہی ہوں․․․‘‘
اوہ عاشی شکر ہے تم مل گئیں۔ بڑی بوریت ہے بھئی چھ ماہ سے گھر میں بیٹھے ہیں سب سے مل بھی نہیں سکتے․․! وہ تو اچھا ہوا تمہارا نمبر میرے پاس تھا کہو خیریت تو ہے․․․․․‘‘
’’․․الحمد ﷲ سب خیریت ہے، اور سناؤ کیا حال چال ہیں؟‘‘
’’ ارے بھئی تفصیل سے بات کرنا ہے تو میرے گھر آ جاؤ کیا خیال ہے آ سکتی ہو۔؟میں آجاؤں؟ اچھا آج تو جمعرات ہے نا ان شاء اﷲ کل صبح ۱۰ بجے تک آ جاؤں گی ٹھیک؟‘‘
’’ ․․․ہاں، ٹھیک ہے میں انتظارکروں گی۔ خدا حافظ! ‘‘
’’․․․ہاں اب سناؤ بوریت کا کیا قصہ ہے؟ ․․․‘‘وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھی ایک دوسرے کو نہایت پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
’’․․․ظاہر ہے بوریت تو ہے ہی پہلے جیسی کوئی بھی تو مصروفیت نہیں ہے․․․‘‘’’․․․․ہاں یہ غور کرنے کی بات ہے عائشہ نے سر ہلایا چلو مل کر سوچتے ہیں کوئی حل تو ملے گا ہی۔ اچھا یہ تو بتاؤ کیا کرتی ہو سارا سارا دن؟․․․‘‘
’’․․․بھئی کرنا کیا ہے گھر میں افراد بھی کم ہیں اور کام بھی کم جیسے تمہاری چھوٹی فیملی ہے ہماری بھی ہے اسی لیے تو تم سے پوچھا ہے کہ شاید کوئی ترکیب تم سوچ لو اور کسی مصروفیت کا بہانہ ڈھونڈ لو․․․‘‘
’’․․․․سارا دن میں کھانا پکانا، کھا لینا کھڑکی میں پردے کی آڑسے سڑک پر سے گزرتی ہوئی ٹریفک کو دیکھ لینا، اور رات کو سو جانا بس یہی کچھ ہے فی الحال!․․․‘‘
’’ ․․ بس یہی کچھ؟ عاشی کھِل کھلا کر ہنس پڑی۔ محترمہ یہی سب کچھ تو ہماری بلی بھی کرتی ہے جو ہمارے یہاں پلی ہے سارا دن کھانا پینا اور
ر ات کو ڈٹ کر سونا، اور ہماری مرغیاں بھی یہی کچھ کرتی ہیں یعنی دانا دنکا چگنا ادھر ادھر صحن میں پھرنا، اور رات کو ڈربے میں بند ہو کر سو جانا۔
پھر کیا کریں اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟ ․․․‘‘ بھئی وہ کھسیانہ ہو گئی۔
’’․․․اوہو…… اب اتنی مایوسی کی بھی ضرورت نہیں ہے بھئی جو کچھ اتنے برسوں میں حاصل کیا اسے پھیلاؤ دوسروں تک پہنچاؤ علم حاصل کیا ہے تو علم کی روشنی کو محدود نہ کرو دور دور تک پھیلاؤ تاکہ دوسرے بھی روشنی میں اپنا راستہ دیکھ سکیں۔ تمہیں تو پتہ ہے تعلیم ایک خزانہ ہے اس خزانہ کو جتنا خرچ کر و گی اتنا بڑھے گا․․․․․‘‘
’’․․․کہتی تو تم ٹھیک ہو مگر عاشی! اس کام کے لیے وقت بہت دینا پڑے گا․․․‘‘
’’․․․تو وقت دو نا بھئی وقت ہے تمہارے پاس ذرا سوچو تو میرے بہن آزادی کی جس نعمت سے ہم لطف اندوز ہو رہے ہیں اسے حاصل کرنے کے لیے ہمارے بزرگوں نے جان، مال ، عزت آبرو کی قربانیاں دیں ، اور ہم اپنے وقت اور آرام کی بھی قربانی نہیں دے سکتے؟․․‘‘
’’․․․کیوں نہیں دے سکتے بالکل دے سکتے ہیں اور ان شاء اﷲ ضرور دیں گے وہ جوش میں اٹھ کھڑی ہوئی تم اس کام میں میرا ساتھ دو گی عائشہ؟ ‘‘ ’’ ․․․ ضرور بسر و چشم ہم مل کر یہ مبارک فریضہ انجام دیں گے۔ ہمارے بڑوں نے اسیری کے خلاف جہاد کیا تھا اور ہم جہالت کے خلاف جہاد کریں گے۔ جہالت جو اسی فیصد برائیوں کا سبب ہے اور فریضہ جہاد ہر مسلمان پر آخری سانس تک فرض ہے ․․․‘‘
’’․․اوہ عاشی بہترین آئیڈیا! اگلے جمعہ کو چودہ اگست ہے اسی مبارک دن ہم اپنے کام کا آغاز کریں گے خدا کرے وہ دن بھی آئے کہ ہمارے وطن کاہر فرد اتنی تعلیم تو ضرور حاصل کر لے کہ ’’آداب زندگی‘‘ سے واقف ہو سکے۔ آمین۔ دونوں کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
’’․․ اور وہ خواتین جو آ رہی ہیں، جارہی ہیں ․․․‘‘ چھوٹی رفیعہ جوان کی باتیں بڑے غور سے سن رہی تھی بول پڑی۔
’’انہیں …… انہیں آنے دو میری بہن ․․․!‘‘ عاشی مسکرائی ’’․․․․ وہ اپنا کام کریں ہم اپنا کام کرتی ہیں یہ معاملات تو آسمان پر طے ہوتے ہیں پھر ہم کو کل کی فکر میں اپنا آج کیوں ضائع کریں جب وقت آئے گا تب دیکھا جائے گا․․․․‘‘
کیوں ٹھیک ہے نا؟ بالکل ٹھیک تینوں ایک ساتھ مسکرا دیں۔
Aasia Abdullah
About the Author: Aasia Abdullah Read More Articles by Aasia Abdullah: 23 Articles with 22273 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.