قصور واقعہ ! قوم لوط کو بھی شرماگیا

100 بچوں کا قاتل جاوید اقبال ایک درندہ صفت شخص چند سال قبل منظر عام پر آیاجس نے سفاکیت کی انتہا کرتے ہوئے کم و بیش 100 بچوں کے سات جنسی زیادتی کی اور پھر انہیں مختلف انداز میں مختلف اوقات میں قتل کردیا کسی کی لاش کے ٹکڑے کرکے بہادیئے تو کسی کو تیزاب کے ڈرم میں ڈال کر گلادیا جب وہ گرفت میں آیا اوراس کی کہانی منظر عام پر آئی تو پورے ملک میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہوگئی ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کو اپنی گودوں میں سمیٹ لیا۔ لوگ بچوں کو باہر بھیجنے سے کترانے لگے حتی کہ سکول تک بھیجنے سے گریز کرنے لگے اور اب2015 میں ایک پورا گینگ منظر عام پرآیا جس نے درندگی اور حیوانیت کے تمام سابقہ ریکارڈز توڑ دیئے ہی قصور کے علاقہ گنڈا سنگھ کی بستی حسین خان والہ میں کم و بیش300 بچوں اور بچیوں کے ساتھ بدفعلی اور جنسی تشدد کا ایک گھناؤنا کھیل کھیلا گیا جس کی بازگشت 2011 سے قبل سے سنائی دے رہی تھی جس میں اس گینگ میں شامل20 سے 25 درندوں نے علاقہ کے بچوں اور بچیوں کو ورغلا کر اپنے مخصوص کردہ مقام پر لے جانا اور پھران کے ساتھ زبردستی بدفعلی کرنا اپنا مشغلہ وطیرہ اور کمائی کا دھندہ بنایا ہوا تھا غضب خدا کا اس قبیح عمل کی باقاعدہ ویڈیوز بنائی جاتی تھیں جس سے متاثرہ بچہ؍بچی کو ہراساں اور خوفزدہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو بھی ہراساں کیا جاتا رہا انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیابلکہ والدین سے عزت مٹی میں ملانے کی دھمکی دے کر ہزاروں روپے بھتہ وصول کیا جاتا رہا سال ہا سال کا یہ عرصہ جہاں ان متاثرین اور ان کے والدین نے کرب ، خوف اور شرمندگی میں گزارا وہیں وہ ان ناسوروں کی ناجائز ڈیمانڈز کو بھی پورا کرتے رہے جس کی وجہ سے وہ کنگا ل ہوگئے کچھ تو مقروض بھی ہوگئے ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ کسی طرح ان کے بچے یا بچی کی ویڈیو اور تصاویر مشتہر نہ کردی جائیں ان کی عزت کا جنازہ نہ نکل جائے

حقائق ،شواہد اور ذرائع بتاتے ہیں کہ اسی عرصہ کے دوران کچھ لوگوں نے دل پر پتھر رکھ کر ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کرانے کی کوشش بھی کی جسے پولیس نے بااثر ملزمان سے مل کر ’’روایتی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے‘‘معاملات کو دبادیا اور سائلین کو دھمکا کر بھگادیا اور ایس ایچ او تھانہ گنڈا سنگھ حق نمک ادا کرتے ہوئے عام طور پر شکایات کیلئے آنے والوں کی وڈیوز بنالیتا اور پھر یحیی گینگ کو دے دی جاتی تھی تاکہ ان مدعیان پر دباؤ ڈال کر انہیں مقدمات کے اندراج کی طرف نہ آنے دیا جائے ۔یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چند واقعات پر نوٹس نہ لینے،ملزمان کو پروٹوکول دینے،کیفر کردار تک نہ پہنچانے اور چھوٹ دینے کی پاداش میں انہیں اتنی ہلہ شیری ملی کہ وہ باقاعدہ ایک گینک کی شکل میں منظم ہوگئے اور بااثر سیاسی گرگے ان کے سرپرست بن گئے جنہوں نے قوم لوط کو بھی شرمادیا۔

وزیر اعظم پاکستان نواز شریف اوروزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے اس واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے اور ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے کی ہدایت بھی کی ہے واقعہ میں ملوث اور غفلت برتنے والوں اہلکاروں کے تعین اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں اسی طرح ایک جوڈیشل کمیشن کی فارمیشن کے احکامات بھی صادر فرمائے لیکن ہائی کورٹ نے منع کردیا اور سیاسی افراد کو بھی منظر عام پر لانے کی بات کی۔یہ سب ہدایات اور احکامات نہایت ہی مستحسن اقدام ہیں اور یقینا اس میں وزیر اعلی پنجاب کی کوئی بدنیتی بھی شامل نہ ہے لیکن کیا کیجئے اس سسٹم کا اور اس میں موجود کالی بھیڑوں کا اور ان کی ذہنی و جسمانی خرابیوں کا کسی بھی معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ صاحب کے جانے کے بعد وہی روایتی، سستی غفلت کا مظاہرہ روٹین کی بات بن جاتی ہے صرف ایک یا دو دن خوب ہلچل ہوتی ہے گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں اہلکاروں کے تبادلے کردیئے جاتے ہیں پھر رات گئی بات گئی کی کہاوت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے معاملے کو طول دے دیا جاتا ہے جیسے کہ تازہ ترین رپورٹ میں بھی آئی جی پنجاب آر پی اوشیخوپورہ ، رانا ثناء اﷲ جیسے لوگ اسے زمین کے تنازعے سے تشبیہ دے رہے ہیں کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جس طرح دوسروں معاملات میں ہوتا ہے کہ زمین کا تنازعہ ہوتا ہے اور اسے عورت کی عزت پر حملہ کا رنگ دے دیا جاتاہے عورت کو قتل کردیا جاتا ہے اور اسے عزت کے نام پر قتل سے تشبیہ دے دی جاتی ہے۔ جی ہاں ایسا بھی ہوتا ہے لیکن اس طرح بالکل نہیں ہوتا کہ زمین کا تنازعہ ہو اور اپنے بچوں کی غیر فطری فعل کی ویڈیوز بناکر اسے اچھالا جائے ۔ محترم صاحبان ذرا ہوش کے ناخن لیں بالفرض اس میں زمین کا تنازعہ بھی ہے تو پھر ان ویڈیوز کے وجود کا انکار کیسے کریں گے کیسے ان کو جھٹلائیں گے پھر یہ کوئی ایک یا دو بچوں کے ساتھ کا معاملہ نہیں ہے سینکڑوں کی تعداد ہے متاثرین کی اور ان ویڈیوز کی جو قبضہ میں لی گئی ہیں جن کا فرانزک ٹیسٹ کرایا جائیگا حقیقت دراصل برعکس ہے کہ ان میں ایک ایم پی اے صاحب کے کوئی قریبی عزیز بھی شامل ہیں کہ جن کو بچانے کیلئے حقائق کو تو ڑ مروڑ کر مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے

ہمار ے ملک بلکہ دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے کہ جس معاملے کو لٹکانا ہو تو اسے طول دیتے جائیں جوں جوں معاملہ شیطان کی آنت کی طرح طوالت پکڑتاجائیگاتوں توں اس پر گرد پڑتی جائیگی اور وہ وقت کی طویل مسافت کی گرد میں دھندلا جائیگا لیکن اس جنسی سیکنڈل میں ملوث تمام ملزمان ان کے سہولت کار ان کے سپورٹرز اور پولیس ملازمین کو یہ جان لیناچاہئے کہ یہ ظلم ہوا ہے قوم لوط کا عمل دہرایا گیا ہے آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ جب اﷲ تعالی کا عذاب قوم لوط پر نازل ہوا ،آسمان سے پتھروں کی بارش ہوئی زمین کے اس ٹکڑے کو فرشتوں نے کاٹ لیا اور پھر اٹھا کر پلٹ دیا اور پوری قوم لوط نیست و نابود کردی گئی اور سب سے اہم بات کہ لوط علیہ السلام کی بیوی جو کہ اپنے شوہر لوط علیہ السلام کی باتوں پر اور اﷲ کے عذاب پر یقین نہیں رکھتی تھی اسے بھی ساتھ ہی لپیٹ دیا گیا۔ لہذا اس میں ملوث افراد اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کریں مزید یہ کہ سہولت کار سرپرستی کرنے والے ہلہ شیری دینے والے پولیس ملازم ایک اہلکار سے لے کر آر پی او تک جو کہ اپنی ڈیوٹی کے باوجود غفلت کا مظاہرہ کرتے رہے وہ بھی استغفار طلب کریں اورگناہوں کا کفارہ ادا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ملوث و مرتکب افراد کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے توانائیاں صرف کریں اسی میں سب کی بھلائی ہے
 
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211682 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More