جیون ساتھی کا انتخاب
(Zulfiqar Ali Bukhari, Rawalpindi)
دو پل کی زندگی کا کچھ پتا نہیں
ہے کہ کس پل میں ختم ہو جائے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ
دھرے بیٹھے رہیں اور آخری سانس کا انتظار کرتے رہیں ۔ہمیں دنیا میں ایک
مقررہ مدت کے لئے بھیجا جاتاہے اور یہاں پر ہر انسان اپنی خداداد صلاحیتوں
کے مطابق افعال سرانجام دیتا ہے جس سے نہ صرف اسکا بلکہ دوسروں کا بھی بھلا
ہوتاہے۔ہمیں جتنا بھی وقت زندگی کا ملتاہے اس کو ہم تنہا بسر نہیں کر سکتے
ہیں اسلئے ہمیں فطری ضرورت کے تقاضوں اورتنہائی دور کرنے کے لئے کسی نہ کسی
فرد کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔جو ہمارے دکھ دردکو سمجھے،خوشیوں میں شامل ہو،
ہمیں مختلف مسائل سے نجات دلوانے میں مدد دے اورایک دوست کی مانند ہمارا
ساتھ زندگی کے آخری پل تک دے وہی ہماراجیون ساتھی کہلاتاہے ۔یعنی زندگی بھر
ساتھ نبھانے والا جیون ساتھی کہلاتاہے ۔ اسکے علاوہ جس کے ساتھ ہم زندگی
بھر کے عہد کرکے اسے اپنی زندگی میں شادی کے بعد شامل کرتے ہیں وہ بھی
ہمارا جیون ساتھی کہلاتاہے۔
شادی ایک ایسا بندھن ہے جس میں تاحیات ساتھ زیادہ تر رہتا ہے اور بعض
وجوہات کی بناء پر یہ تعلق جلد ٹوٹ بھی جاتاہے جس کی ذمہ داری دونوں طرف
عائد ہوتی ہے ۔ہم کسی ایک کو اس سلسلے میں مجرم قرار نہیں دے سکتے ہیں۔ بعض
اوقات دونوں فریقین سے زیادہ انکے والدین اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں کہ وہ
اپنے بچوں کی نفسیات کو سمجھے بنا کسی ایسے شخص کے ساتھ ناطہ جوڑ دیتے ہیں
جس کو وہ دل سے پسند نہیں کرتے ہیں ۔ انکی پسند دوسری ہوتی ہے اور وہ انکو
اس کی بجائے دوسرے کے ساتھ زندگی بھر نبھانے کا ساتھ پر مجبور کر دیتے ہیں
جس سے وہ دل سے خوش نہیں ہوتاہے اور زندگی کو سمجھوتے پر گذارنا مطع نظر
بنا لیتا ہے ۔ بسااوقات دو فریقین ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کیو جہ سے ایک
دوسرے سے علیحدہ بھی ہو جاتے ہیں اور یہ صورت حال کبھی پسند کی شادی کے بعد
بھی پیش آتی ہے اور کبھی والدین کے غیر مناسب جیون ساتھی کے انتخاب کی
بدولت بھی پیدا ہوتی ہے۔اس میں کچھ حالات وواقعات کو آپ قسمت کی بھی ستم
ظریقی بھی کہہ سکتے ہیں۔
عموماََ ایسا لڑکیوں کے ساتھ ہوتاہے کہ وہ اپنی پسند کے بارے چاہاکر بھی
کچھ بول نہیں سکتی ہیں چاہے وہ محبت بھی ٹوٹ کرکر تی ہوں بہت کم ہی اس بابت
والدین کو آگاہ کرتی ہیں کہ وہ اس خاص شخص کے ساتھ زندگی بسرکرنا چاہ رہی
ہیں۔جو ایسا کرتی ہیں وہ بقول ایک قاری آصفہ نورین کے وہ ’’بے باک ‘‘ اور’’
منہ پھٹ‘‘ کہلاتی ہیں۔ والدین انکی چاہت معلوم ہونے کے باوجود اپنی انا،دھن
دولت کی لالچ میں کسی اور کی شریک حیات بننے پر آمادہ کرتے ہیں جس سے
بالخصوص مشرقی لڑکیاں والدین کی عزت کی خاطر اپنے آپ کو مار کر انکے منتخب
ساتھی سے سمجھوتہ کر کے ساری زندگی گذار دیتی ہے کہ عورت کا اصل گھر ہوتا
ہی کہاں ہے ۔ شادی سے پہلے والدین ،پھر شوہر یا پھر اولاد کا وہ بچاری تو
ساری زندگی اصل گھر کی متمنی ہی رہتی ہے۔مگر وہ اپنے اولین سچے
پیارکرنیوالے محبوب ساتھی کو کبھی فراموش نہیں کر سکتی ہیں۔ چاہے اس کے
ساتھ کچھ بھی ہو جائے۔لیکن وہ سمجھوتہ کرنے کی جبلت ہونے کی وجہ سے باقی کی
زندگی آسانی سے گذر لیتی ہیں مگرلڑکے ہمیشہ اس کے برعکس ہوتے ہیں کہ
سمجھوتہ کر لینا بہت کم انکی سوچ ہوتی ہے۔ پتانہیں ہم لوگ اپنی اولاد
بالخصوص لڑکیوں کو جینے کا حق کیوں نہیں دیتے ہیں جبکہ ہمارے دین میں اسکی
بھرپوراجازت ہے۔مگر ہم اسلام کو اپنا مذہب قرار دینے والے سچا مسلمان کہنے
والے کبھی بھی دین کی حقیقی تعلیمات پر عمل کرنے کی دل سے کوشش نہیں کرتے
ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے محبت کرنے والے کیوں ایک دوسرے کے زندگی بھر کے ساتھی
نہیں بن سکتے ہیں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ والدین انکا ساتھ دیں وگر نہ انکو
بھاگ کر ایک ہونا پڑتا ہے جو کہ اگرچہ ایک غلط اقدام ہے مگر کوئی صورت نہ
بننے کی وجہ سے اٹھا یا جاتاہے۔ تبھی غیرت کے نام پر قتل کی خبریں بھی
اخبارات کی زنیت بنتی ہیں اب اگر دیکھا جائے تو ایسے لوگ جو غیر ت کے نام
پر اپنی بہن یا اُسکے محبوب کو قتل کرتے ہیں وہ خود کہاں غیرت رکھتے ہیں
اگر ایسا ہوتا تو وہ دین کے احکامات کے مطابق اُنکو جو اسلامی تعلیمات کے
مطابق جائز طور پر ایک دوسرے کیساتھ بندھن میں بندھ جاتے ہیں کو قتل نہ
کریں۔جب والدین بچوں کی پسند کی بجائے اپنے ہی خاندان والوں کو ترجیح دیں
اور شرافت وایمانداری کی بجائے اپنی ضد پوری کرنے کے لئے بچوں کی زندگیوں
کو داؤ پر لگانے کی کوشش کریں تو بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں گھر سے بھاگ کر
کورٹ میرج کرتے ہیں اوردو گھرانوں کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں ۔حالانکہ
ہمارے دین کی اس حوالے سے واضح احکامات ہیں کہ بچوں کی پسند کے بعد انکی
شادیاں کر دی جائیں مگر آجکل کے دور میں باپ کو اپنے بھائی کے ہاں اور ماں
کو اپنی بہن سے بڑھ کر اورکوئی عزیزتر نہیں ہوتا ہے۔اور وہ اپنی من مانی
کرواتے ہیں اوربہت بار ایسا کرنے والوں کا ساتھ کچھ دیر کا ہوتاہے جیسے
والدین کے بنائے ہوئے رشتے بھی کبھی کھبارٹوٹ جاتے ہیں۔ مگر بہت سے جوڑوں
کی ازوداجی زندگی کامیاب بھی رہتی ہے اگر وہ بہت سوچ سمجھ کر زندگی بھر کے
ساتھ کیلئے جیون ساتھی منتخب کیا جائے تو زندگی جنت بن جاتی ہے۔والدین نے
بچوں کی شادیاں کہیں نہ کہیں تو کرنی ہوتی ہیں تو انکی پسند کو مدنظر کیوں
نہیں دیکھا جاتاہے ۔بچوں کے بدلتے اطوار سے انکے بارے میں کچھ جاننا مشکل
نہیں ہوتا ہے مگر بعض اوقا ت خاندان میں شادی کرنا، پیسہ ،شرافت اورمحبت
وغریبی پر غالب آجاتاہے ۔یہاں خصوصاََ مائیں اپنی بیٹیوں کی پسند کو بآسانی
جان سکتی ہیں کہ وہ اکثر ماؤں کے زیادہ قریب ہوتی ہیں اور وہ اُنکے دلی
پسند کے مطابق جیو ن ساتھی کا انتخاب کر سکتی ہیں۔
یقینا والدین بہتر طور پر جانتے ہیں،فیصلے درست کر سکتے ہیں،بہتر جیون
ساتھی منتخب کر سکتے ہیں اس صورت میں جب بچے کسی کو پسند نہ کرتے ہوں مگر
آج کے دورمیں حالات مختلف ہیں والدین کو بچوں کی پسند کو مدنظر رکھنا چاہیے
کیونکہ اسلام بھی اس کی اجازت دیتا ہے۔یہ بھی سوچنے کی بات ہے جناب کہ ہم
کونسا سا باقی اعمال کیلئے دین سے رجوع کرتے ہیں جو اس کام کیلئے کریں،
حالانکہ نکاح تو سنت نبویﷺ ہے۔ باقی تو مستقبل اﷲ نے بہتر کرنا ہوتاہے،
والدین کو بچوں کی پسند پر عمل کرکے اُنکے حق میں دعا کرنی چاہیے کہ والدین
کی دعائیں اولاد کے حق میں قبول ہوا کرتی ہیں۔جب ہم اچھا سوچیں گے تو اچھا
ہوگا مگر ’’جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں‘‘ بننے والی بات بھی تسلیم کرنے والی
ہے مگر یاد رکھئے جیسا عمل ویسا پھل ہمیں ملتا ہے اور بعض اوقات اﷲ تعالیٰ
انسان کی آزمائش بھی کرتاہے۔ اب انسان پر ہے کہ وہ اپنے شعور کے مطابق
فیصلے کرے کہ ایسے ہی اس کو اشرف المخلوقات نہیں کہا گیا ہے ۔پتا نہیں کب
ہم لوگ ہوش کے ناخن لیں گے اور اپنی اولاد کے ساتھ انصاف کریں گے۔ہم حقائق
جان کر بھی بے خبر رہنے کی کوشش کرتے ہیں بعدازں جب سرپر آفت پرْتی ہے تو
ہوش آتا ہے۔آخر میں یہی گذارش والدین سے ہے کہ جب بھی جیون ساتھی کا انتخاب
کریں تو ہر چیز کو مدنظر رکھیں مگر اسقدر بھی نہیں کہ محض مال ودولت اورضد
کیو جہ سے کسی کورد کردیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں سیدھی راہ دکھائے (آمین)۔
|
|