حقیقت ایسی چیز کا نام ہے جس سے
انکار نہیں کیاجا سکتا۔ جیسے سورج کا ہر صبح طلوع ہونا۔ چاند کا چمکنا ،دن
رات کا آنا جانا۔زندگی کی کچھ حقیقتیں خوشگوار ہوتی ہیں اور بعض حقیقتیں
تلخ ہو تیں ہیں جن کا تقریبا ہر انسان کو زندگی میں سامنا کرنا پڑتاہے۔
یہاں ہم کچھ تلخ حقیقتوں کا تذکرہ کرتے ہیں جب بچہ پیدا ہوتا ہے وہ چھوٹاسا
ہوتاہے خود سے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ اس وقت اس کی ماں اسے انتہائی محبت
اورتوجہ کے ساتھ پالتی ہے اس کے آرام کے لئے اپنی نیند تک قربان کر دیتی ہے
بہت سی چیزیں اس لئے کھانا چھوڑ دیتی ہے کی کہیں بچے کی صحت کو نقصان نہ ہو۔
اسی طرح والد بھی دن رات محنت مشقت کر کے بچوں کی پرورش کے لئے تگ و دو
کرتا ہے۔ اپنی خواہشات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے والدین اپنے بچوں کی خواہشات
پوری کرتے ہیں۔والدین بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
پھر بچے بڑے ہوتے ہیں انکی ضرورتیں زیادہ ہوجاتی ہیں والدین بچوں کی تعلیم
کے کیا کیا جتن نہیں کرتے۔لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج کے دور کے بہت سے
نوجوان جب اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ اپنے قدموں پر کھڑے ہوتے ہیں تو وہ اپنی
خواہشات کو والدین کی خواہشات پر قربان کرے کی طاقت نہیں رکھتے۔جیسے والدین
نے بچپن میں ان کے لئے کیا تھا۔ والدین تو بچوں کو اس وقت پالتے ہیں جب
انہیں یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ وہ جب جوان ہوں گے تو نجانے ان کے ساتھ کیسا
برتاؤ کریں گے۔لیکن بچے تو جوانی میں جانتے ہوتے ہیں کہ ہمارے والدین نے
ہمیں کیسے شفقت اور محبت سے پالا تھا ۔کیسے ہماری چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری
کرنے کے لئے اپنی خواہشوں کو قربان کیاتھا۔لیکن افسوس ! آج کا نوجوان
کہتاہے کہ میں سیلف میڈ ہوں یعنی اپنی محنت سے یہ مقام حاصل کیاہے اور وہ
سارا کریڈٹ پل بھر میں ضائع کردیتا۔ وہ شفقت ،محبت اور والدین کی دعائیں جن
کے بغیر کچھ ممکن نہیں تھا۔کیسے اس نے سب کچھ فراموش کردیا۔ والدین کی
نافرمانی، اپنی پسند کی شادی، والدین کو اولڈ ایج ہاوس میں چھوڑ آنا آج کے
دور کی تلخ حقیقتوں میں سے ایک حقیقت ہے۔
ایک اور تلخ حقیقت یہ بھی ہے ہمارا و طن پاکستان جس نے ہمیں نام دیا جس نے
ہمیں مقام دیا شہرت ،دولت اور عزت دی جس کی وجہ سے ہم ا ٓزادی سے سانس لے
رہے ہیں اس کی قدر بھی ہم نہیں کرتے ۔آج ہم یہ تو کہہ دیتے ہیں اس ملک نے
ہمیں کیا دیا! بے روزگاری ، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ اور در در کی ٹھوکریں۔
یقین کریں یہ اس ملک نے ہمیں نہیں دیں یہ ہماری اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے
ہے ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ ہم نے اس ملک کو کیا دیا۔ کیا ہم نے کوئی
ایسا کا م کیا جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا نا م روشن ہوا ہو۔جس نے پوری دنیا
میں ہمیں شناخت دی۔ اس کی قدر و منزلت ان سے پوچھیں جو دیار غیر میں مقیم
ہیں۔اپنے ملک کی قدروقیمت وہاں پتہ چلتی ہے۔
ایک اور تلخ حقیقت کی طرف توجہ فرمائیں۔ جب ہم اپنی بہن ،بیٹیوں کی شادی
کرتے ہیں تو ہماری یہ دعا اور خواہش ہوتی ہے کہ ان کو اپنے سسرال میں کسی
قسم کی پریشانی پیش نہ آئے اور ہر طر ح کا سکون ان کو میسر آئے۔لیکن جب
دوسروں کی بہن ، بیٹیوں کی شادی کر کے انھیں اپنے گھر لاتے تو ہمارا معیار
بدل جاتا ہے ہم چاہتے ہیں یہ ہماری غلام بن کے رہیں۔دنیا بھر کی خرابیاں ہم
ان میں تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں ان کو وہ عزت و احترام ہم نہیں دے پاتے
جس کی وہ حق دار ہوتیں ہیں۔
آج کے ہمارے معاشرے کی ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ آج تربیت کا فقدان ہے جس
طرح ہم آزادانہ ماحول میں اپنی بچیوں کو پروان چڑھاتے ہیں اس میں اکثر بے
راہ روی کا شکار ہو جاتی ہیں اور بڑی آسانی سے فریبوں کے جال میں پھنس جاتی
ہیں اور وہ ان کو سبز باغ دیکھا کر ان سے سب کچھ چھین لیتے ہیں پھر خودکشی
کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسر ا راستہ نہیں ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ ہر بیٹی کی عزت
محفوظ رکھے
ایک بزرگ ذکر کررہے تھے کہ جب لوگوں کے گھر کچے ہوتے تھے تو کبھی کسی کا
ہمسایہ بھوکا نہیں سوتا تھا ایسا ماحول ہوتا تھا کہ ہر کو ئی ایکدوسرے کی
فکر کرتاتھا سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے تھے۔آج بدقسمتی سے اپنے
اپنوں سے کو سوں دور ہوچکے ہیں محبتیں دم توڑچکیں ہیں نفسانفسی کا بازار
گرم ہے آج اگر ایک گھر میں شادی کی خوشیاں منائی جارہی ہیں تو ہو سکتاہے
ساتھ والے گھرمیں میت کے کفن دفن کا انتظام کیا جارہا ہو۔احساس ختم ہو چکا
ہے۔
ایک وقت تھا جب لو گوں کے پاس زیادہ دولت نہیں ہوتی تھی اور وسائل بھی
زیادہ نہیں ہوتے تھے لیکن اس وقت آپس میں محبتیں زیادہ تھیں ایک دوسر ے کا
احسا س ہوتا تھا۔آج دولت زیادہ ہو گئی وسائل زیادہ ہو گئے لیکن نجانے کیوں
محبت کی جگہ نفرت نے لے لی۔بھائی بھائی کا جانی دشمن بنا ہو ا ہے والدین
اپنی اولاد کے ہاتھوں ذلیل ہو رہے ہیں۔
آج کا نوجوان مایوس ہوچکا ہے جس نے محنت کر کے ڈگریاں حاصل کیں لیکن ملازمت
کے مواقع زیادہ نہیں وہ پریشان حال ہے کہ اپنا مستقبل کیسے روشن بنائے۔
ایسی کئی اور بھی تلخ حقیقتیں ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہیں۔ لیکن ان کا
حل محبتوں کے فروغ سے ممکن ہے ہمیں اپنے اند ر دوسر وں کے لئے احسا س پید ا
کرنا ہو گا۔ ہمیں دوسروں کے لیے آسانیاں پید ا کرنی ہوگی۔ آخر میں اشفاق
احمد صاحب کی یہ خوب صورت بات دماغ میں آ رہی ہے
ــ ــــلوگوں میں زندہ وہی رہتے ہیں جو دلوں میں زندہ رہتے ہیں اور دلو ں
میں وہی زندہ رہتے ہیں جو دوسروں میں آسانیاں اور خیر بانٹتے ہیں۔ |