موسمیاتی تبدیلی۔۔۔ کرہ ارض کے لئے ابھرتا ہوا خطرہ

موسمیاتی تبدیلی ہمارے کرہ ارض کے لئے ایک ابھرتا ہوا خطرہ ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں غیرمتوقع طور پر مختلف شدت کی جو آفات اور تباہیاں رونما ہو رہی ہیں۔ وہ اس کا واضح مظہر ہیں۔ پاکستان کو بھی موسمیاتی تبدیلی کے باعث بہت سے اثرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 2010 ء میں آنے والے غیر معمولی سیلاب اور 1999 ء اور 2007 ء کے طوفان اور گزشتہ برسوں میں متواتر بارشوں‘ سیلاب نے اس حقیقت سے خبردار کر دیا تھا کہ ہم کو موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا ہو گا۔2050 ء تک جنوبی ایشیاء کی آبادی 1.5 بلین سے تجاوز کر کے 2.2 بلین ہو جانے کا امکان ہے۔ یومیہ 1.25 ڈالر سے کم میں گزارا کرنے والے جنوبی ایشیائی باشندوں کی تعداد 600 ملین سے بھی زیادہ ہے اور کسی بھی تباہ کن واقعے کی صورت میں لاکھوں افراد مزید غربت اور مصائب کا شکار ہو جائیں گے۔ تیزی سے پگھلتے ہوئے سلسلہ ہمالیہ کی طرف سے ایک بڑا خطرہ خطے پر مون سون اثرات کا غلبہ ہو جانا ہے۔ اگر مشترکہ دریائی نظام کے انتظام کے لئے علاقائی تعاون اور آفات سے مقابلے کے لئے مشترکہ حکمت عملی کا راستہ اپنایا نہیں گیا تو خطے کو آبی موسمیاتی انقلاب کی تمام صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آج کل ایشیاء پر موسمیاتی تبدیلی اور تباہ کاریوں کی نحوست چھائی ہوئی ہے۔ مضمحل کر دینے والی شدت اور تواتر کے ساتھ غیرمعمولی متلون موسم نے اس خطے میں لاکھوں لوگوں کو خستہ حالی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ گنجان آباد جنوبی ایشیا کو آب و ہوا میں تبدیلی سے سنگین تباہی کا خطرہ ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں اس خطے کے 750 ملین سے زیادہ افراد کم از کم ایک قدرتی آفت سے متاثر ضرور ہوئے ہیں۔ گزشتہ چالیس برس میں جنوبی ایشیاء نے 1,333 کے قریب آفات کا سامنا کیا ہے جن میں 980,000 افراد مارے گئے‘ 2.4 بلین جانیں متاثر ہوئیں اور 105 بلین ڈالر مالیت کی املاک کو نقصان پہنچا ہے۔ آبی موسمیاتی آفات کی صورت میں علاقائی تعاون کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ 2014 میں قدرتی آفات کے نتیجے میں دنیا بھر میں تقریباً دو کروڑ افراد نے نقل مکانی کی۔نارویجین ریفیوجی کونسل کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قدرتی آفات کے سب سے بڑے شکار براعظم ایشیا میں گزشتہ سال ایک کروڑ 93 لاکھ افراد (90فیصد) نے نقل مکانی کی۔این آر سی کے ایک ڈائریکٹر الفریڈو زموڈیو کے مطابق سانحات کی نتیجے میں ہونے والی نقل مکانی بڑھ رہی ہے اور خدشہ ہے کہ آنے والی دہائیوں میں صورتحال مزید خراب ہو گی۔رپورٹ کے مطابق، 2008 کے بعد سے، ہر سال اوسطً دو کروڑ 65 لاکھ افراد سانحات کی وجہ سے بے گھر ہوتے ہیں۔اقوام متحدہ کے سائنسی ماہرین کے مطابق گرین ہاوس گیسوں کا اخراج موسموں میں انتہا (شدید گرمی اور طوفانی بارشوں) کا سبب بن رہا ہے۔ چترال میں سیلاب کی وجوہات کے بارے میں ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات غلام رسول کا کہنا تھا کہ گلیشیئرز پر بارشوں سے گلیشیئرز تیزی سے پگھلتے ہیں اور جھیلیں بنتی ہیں اور یہی جھیلیں ندی نالوں میں اونچے درجے کے سیلاب کا باعث بنتی ہیں۔ چترال اور گلگت میں گلیشیرزکے پگھلنے کی پیشگی اطلاع دی جاتی ہے تاہم یہ ہی اطلاعات دورکے علاقوں میں نہیں پہنچتی جس کے باعث وہاں کے لوگ بے خبر رہتے ہیں کسی جگہ ایک دن میں 100 ملی میٹرسے زیادہ بارش ہو تو وہاں نقصان کا خدشہ رہتا ہے۔چترال کے بالائی علاقوں میں بارشوں سے بندوگول ندی میں سیلاب سے ز مینی کٹاو بھی ہوا۔سڑکیں بند ہونے سے لو گوں کوغذائی قلت اورعلاج معالجے کی سہولیات کی کمی کاسامنا کرنا پڑا۔مسلسل بارشوں سے دریائے چترال میں سیلابی صورتحال رہی۔مستوج میں سیلابی پانی سیڈان ڈگری کالج کو جزوی نقصان پہنچا ۔سیلاب سے سب ڈویژن مستوج،گرم چشمہ اور وادی کیلاش کی سڑکیں بند ہوگئیں۔جس سے لوگوں کوغذائی قلت اورعلاج معالجے کی سہولیات میں کمی کاسامنا ہوا۔جبکہ متعدد افراد نے اپنے رشتے داروں کے گھروں میں پناہ لی ۔ ڈپٹی کمشنر امین الحق نے ضلع بھر میں فلڈایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے صوبائی اور وفاقی حکومتوں سمیت مختلف سماجی تنظیموں سے بحالی کے کاموں میں تعاون کی اپیل کی تھی۔ مقامی انتظامیہ کیساتھ ساتھ پاک فوج ،ہلال احمر پاکستان کی جانب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔۔ امسال کی بارشوں سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے۔ہزاروں ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہو ئیں۔ہر سال ایسا ہوتا ہے لیکن این ڈی ایم اے ۔۔پی ڈایم اے ،ایرا ایسے ادارے بے خبر سوئے رہتے ہیں اور پھر لکیر پیٹی جاتی ہے۔۔۔دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آفات اور دیگر نقصانات سے بچاو کے لئے تدابیر کی جا رہی ہیں ۔۔ریسرچ بھی زوروں پر ہے لیکن ملک عزیز میں ہر سال اتنی بڑی تباہی کے باوجود راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔جب کہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی مون سون کی شدید بارشیں ہو رہی ہیں اور وہاں ڈیم بھر جانے کے بعد بھارت حسب روایت اضافی پانیہماری جانب آنے والے دریاؤں میں چھوڑ دے گا جہاں پہلے سے سیلابی صورت حال ہونے کے بعد یہ سیلاب زیادہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ سیلاب سمیت قدرتی آفات کو روکا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے آنا ہی ہوتا ہے مگر پیشگی احتیاطی تدابیر سے ان کے اثرات خاصی حد تک کم کئے جا سکتے ہیں ۔ موسمیاتی تبدیلی سے گزرنے والے خطے میں واقع وطن عزیز پاکستان کو بھی ویسے ہی حالات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ وسیع علاقوں کے زیرآب آ جانے کی وجہ سے مسلسل بارشوں نے دہشت پھیلا دی ہے۔ غیر معمولی موسمی تبدیلیوں کے علاوہ ناقص انفراسٹرکچر بھی تباہ کاریوں کی شدت میں اضافہ کرتا ہے۔ پاکستان کو 2005 ء کے زلزلے اور 2010 ء اور 2011 ء کے سیلابوں میں اس صورتحال کا تجربہ ہو چکا ہے۔ موسم کا عالمی اتار چڑھاؤ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے ظہور کے نتیجے میں ماضی میں کی گئی انفراسٹرکچر کی تعمیر اور انتظامی نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ پاکستان میں آب پاشی اور نکاسی آب کا نظام بھی غیرمعمولی بارشوں سے نمٹنے میں کوتاہی کا شکار ہے۔ جس کی زبوں حالی آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ شدید موسمی واقعات کے تواتر کا تقاضا ہے کہ انفراسٹرکچر اور انتظامی بندوبست کی تیز رفتاری کے ساتھ اصلاح کی جائے۔یہ تو حقیقت ہے کہ ہم کالا باغ ڈیم تک نہیں بنا سکے باوجود اس کے کہ بھارت اس کی تعمیر نہ ہونے دینے کے لئے نوشہرہ کے خیر خواہوں کی جیبیں بھر رہا ہے لیکن کب تک باران رحمت ہمارے لئے زحمت بنی رہے گی۔۔کوئی حل اس کا بھی ہے اے چارہ گراں۔۔۔ ملک عزیز میں مون سون بارشوں کا پانی سیلاب کی صورت میں تبائی ،بربادی پھیلانے کے بعد بحیرہ عرب میں جا پہنچتا ہے ۔۔۔حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں ڈیم تعمیر کرنے کے منصوبے بنا رکھے ہیں۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے بارشی پانی کو ذخیرہ کر کے اسے پینے کے قابل بنانے کے ساتھ ساتھ زرعی اراضی کو سیراب کیا جا سکے گا۔۔پتہ نہیں کب؟

Waqar Fani
About the Author: Waqar Fani Read More Articles by Waqar Fani: 73 Articles with 63647 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.