ایک دن یہ سب مغرب کی نماز سے
فارغ ہو کر ابھی مصلے پر ہی بیٹھے تھے کہ دور سے کسی ٹرک کے آنے کی آواز
آنے لگی۔ ابھی مکمل اندھیرا نہیں ہوا تھا۔ اس ٹرک کی لائٹس بھی بند تھیں۔یہ
سب چونک کر اٹھے اور ایک طرف کو کھڑے ہو کر ٹرک کو ڈھونڈنے لگے۔
جلد ہی انہیں انڈیا کی طرف سے ایک بڑا سا ٹرک آتا ہوا دکھائی دیا۔ سب کے دل
زور زور سے دھڑکنے لگے۔ دادا جان بھی اپنی نظریں اسی منظر پر ٹکائے ہوئے
تسبیح پڑھ رہے تھے۔ کم و بیش دو منٹ تک وہ اس ٹرک کو اس پل کی طرف آتا
دیکھتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ پل کے عین سامنے آ کرآہستہ ہو گیا۔ ابھی تک
تھوڑی تھوڑی روشنی باقی تھی۔ مگر تمام چرند پرند پہلے ہی اپنے اپنے آشیانوں
کو کوچ کر گئے تھے۔ سب کچھ ساکت تھا۔ سوائے اس ٹرک کے جو خوب چیخیں مار رہا
تھا۔
ٹرک کے ڈرائیورنے پُل پر چڑھنے سے پہلے ایک گیئر بدلا اور پل پر آگے بڑھنے
لگا۔ اس ٹرک کو پل پار کرنے میں کم از کم ایک منٹ تو لگنا ہی تھا۔اس کے
بعدکھلی سڑک تھی جو پاکستان کے اندر تک جاتی تھی۔
سب چپ سادھے ٹرک کو آگے بڑھتا دیکھ رہے تھے۔ ہو نہ ہو یہی وہ لمحہ تھا جس
کا سب کو انتظار تھا۔ ورنہ کئی دنوں سے یہاں بیٹھنے کے باوجود انہوں نے کسی
ٹرک کو تو کیا سائیکل کو بھی اس پل کو پار کرتے نہیں دیکھا تھا۔
اچانک ٹرک رُک گیا۔ سب کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں کہ یہ کیا ہونے جا رہا ہے
۔ ایسے بیچ پل پر ٹرک کے رکنے کی کیا وجہ ہو سکتی تھی۔
کچھ ہوا……ٹرک کے ڈرائیور نے ریورس گیئر لگایا اور ٹرک ریورس ہونے لگا۔ ظاہر
ہے عین پل پر ٹرک کو گھمانا تو ممکن نہ تھا۔
یک دم ایک تہلکہ مچ گیا۔ ہر طرف سے آرمی کے کمانڈوز ہاتھوں میں ٹارچ اور
بڑی بڑی گنیں لئے پل کے چاروں اطراف موجود تھے۔شاید کسی طرح ٹرک ڈرائیور کو
آنے والے خطرے کا اندازہ ہو گیا تھا اسی لئے اس نے ٹرک واپس لے جا نا چاہا۔
مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔
ذولفقار کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ مگر سب افراد سکتے کی سی حالت میں
جہاں جیسے جس حال میں کھڑے تھے وہیں کے وہیں جم گئے۔
کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ان کا اس قسم کے حالات سے بھی سامنا ہو
سکتا تھا۔
’’ اپنے ہتھیار پھینک کر ٹرک سے نیچے اتر آؤ‘‘ کسی نے زور زور سے چیخنا
شروع کر دیا ۔
’’تمھیں ہر طرف سے گھیرا جا چکا ہے‘‘
’’ فرار کا کوئی راستہ نہیں‘‘
ٹرک کو گھیرا جا چکا تھا۔ جو بھی منصوبہ بنایا گیا تھا فیل ہو گیا
تھا۔اچانک کہیں سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ شاید وہ لوگ جو اس ٹرک کو پاکستان
داخل کرنا چاہتے تھے نمودار ہو گئے تھے۔ انہوں نے ہی فائرنگ شروع کر دی
تھی۔ اب تو سب نیچے بیٹھ گئے کہ کہیں وہ کسی گولی کا نشانہ نہ بن جائیں۔ سب
کے دل کی دھڑکنیں بے قابو ہو گئیں تھیں۔ گھبراہٹ کے مارے سب نے ایک دوسرے
کو کس کے پکڑ رکھا تھا۔
جو لوگ ٹرک کے باڈر پار کرنے میں مدد کر رہے تھے منظرِ عام پر آ گئے۔ اپنے
منصوبے کو پایہء تکمیل تک پہنچتا نہ دیکھ کر وہ اندھا دھند فائرنگ کر نے
لگے۔
اب تو جیسے جنگ شروع ہو گئی۔ فائرنگ کی آوازیں، چیخ و پکار، لوگوں کا
بھاگنا، دوڑنا، چھلانگ لگانا، اعلان کرنا، مارنا ، مرنا……جانے کیا کیا ہوا۔
اس ٹرک نے پھرریورس میں چلنا شروع کر دیا۔ مگر پل کے کنارے توڑ بیٹھا اب تو
اندھیرا بھی ہو چکا تھا۔ ٹرک پل سے گرنے ہی والا تھا کہ اچانک داداجان کھڑے
ہوئے اور اپنے ہاتھوں کو یوں اوپر کو اٹھایا جیسے ٹرک کو سنبھال لیاہو۔
فرشتوں نے فوراََ کھائی میں گرتے ٹرک کو پُل پر پھرکھڑا کردیا اور ٹرک کا
انجن بند ہو گیا۔
دو گھنٹے کی خوفناک جھڑپ کے بعد ماحول پہ کچھ خاموشی طاری ہوئی۔
کچھ پاکستانی فوجی ٹرک کے قریب آئے اور ٹرک ڈرائیور کی لاش لے گئے۔ پھر
دوبارہ کچھ افراد آئے اور ٹرک کو لے گئے۔
باقی جو دشمن کے لوگ مر گئے تھے انہیں بھی کہیں لے جایا جانے لگا ……
اب تک کچھ میڈیا والے اور صحافی حضرات بھی موقع پر پہنچ چکے تھے۔
ساری رات جاگتی آنکھوں تبصرے کرتے گزری۔ سب کے سب گھبرائے ہوئے تھے۔اتنا تو
سب پر ظاہر تھا کہ COASکو خط لکھنے کے باعث میجر اشرف کی انڈیا کے ساتھ
کوئی پرسرار ڈیل ناکام ہو گئی تھی۔ اب یہ سارا کھیل کتنا گھمبیر تھا…… کتنا
خطرناک تھا …… اس ٹرک میں کیا بھرا ہوا تھا …… ان سب باتوں سے پردہ اٹھنے
میں ابھی کچھ وقت لگنا تھا۔
سب ہی آنے والی صبح کا انتظار کر رہے تھے کہ کئی رازفاش ہونے تھے۔
داداجان کی اﷲ سے قربت اور اس ذاتِ باری تعالی کے ہاں ان کے درجات کا عینی
مشاہدہ تو سب کر ہی چکے تھے۔ سب جان چکے تھے کہ داداجان کو در حقیقت کس کام
سے یہاں بھیجا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
صبح سویرے ٹی وی پر خبروں کا ایک طوفان مچ گیا۔ صبح تک نا جانے کتنے
اندرونی اور بیرونی ممالک کے ٹی وی اور پریس رپورٹرز نے اس جگہ پر ڈیرے ڈال
لئے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی میلہ لگ گیا ہو۔
ذولفقار اور باقی تمام لوگ ٹی وی کے آگے آنکھ جوڑے بیٹھ گئے ۔چند گھنٹوں تک
تو کوئی خاص بات ٹی وی پر بیان نہ کی گئی کیونکہ یو سب تو تمام واقعے کے
عینی شاہد تھے۔ انہیں تو بس اس بات سے دلچسپی تھی کہ میجر اشرف کا کیا
ہوا؟؟؟ یہ کیسا منصوبہ تھا؟؟؟اور اس ٹرک میں کیا تھا؟؟؟
آخر کار صبح دس بجے سے خبروں میں کچھ اندر کی باتیں پتا چلنی شروع ہوئیں۔
’’بھار ت کی طرف سے ایک خطرناک جنگی ہتھیاروں سے بھرا ٹرک پاکستان کی سرحد
میں داخل ہوا……‘‘
’’ٹرک میں چھوٹے نیوکلیئر اور کیمیائی ہتھیار بھی بڑی تعداد میں موجود
تھے……‘‘
’’یورینئیم کی کچھ مقدار بھی ٹر ک سے برآمد ہوئی……‘‘
’’…… اس کی علاوہ دیگر خطرناک، جنگی ہتھیار بھی ٹرک سے پرآمد ہوئے‘‘
’’ذرائع کا کہنا ہے کہ فوجی کمانڈوز نے کچھ افراد کو زیرِحراست کر رکھا
ہے‘‘
’’……جبکہ وزیرِ داخلہ نے فوری طور پر انڈین ایمبیسڈر کو اپنے آفس طلب کیا
ہے‘‘
اب سب پر یہ واضح ہو گیا کہ اس ٹرک کے کھائی میں گِر جانے کا کیا مطلب
تھا…… نیوکلئیرویپنز اور کیمیکل ویپنزسے بھرا ٹرک اگر پھٹ جاتا تو اس کا
سیدھا سیدھا مطلب پورے کے پورے شہر کی یک دم تباہی تھی…… شاید کچھ ویسی ہی
تباہی جیسی جاپان میں ایٹم بم گرانے سے آئی تھی…… لاکھوں کی تعداد میں بے
گناہ لوگوں کا موت کے گھاٹ اتر جانا…… درختوں کا جھلس جانا…… حیوانات کا
نابود ہو جانا…… اب سب کو اندازہ ہوا کہ داداجان کا معجزاتی طور پر ٹرک
گرنے سے بچانے کا مطلب ان سب کو کتنی بڑی تباہی سے بچانا تھا ……
’’الحمد ﷲ!‘‘ سب نے یہ جان کر اﷲ کا بہت بہت شکر ادا کیا اور دادا جان کو
اﷲ کا وسیلہ گردانا……
دوسرے دن ذولفقار اور تنظیم کے تمام اراکین کراچی واپس آ گئے تھے۔ ڈاکٹر
سراج الدین نے دادا جان سے درخواست کی کہ وہ تنظیم کے ’امام‘ کا مرتبہ قبول
کریں کیونکہ بلا شک و شبہہ وہ اﷲ کے برگزیدہ بندوں میں سے تھے اوربصارت کے
ساتھ ساتھ بصیرت بھی رکھتے تھے۔
داداجان نے خوش دلی سے یہ ذمہ داری قبول کی اور تنظیم اور اس کے رفقاء کو
اسرارِ دین سکھاتے رہے…… یعنی وہ اﷲ کی باتیں جوپسِ پردہ ہوتی ہیں……
۔۔۔۔۔۔۔
ملک کے حالات ابتر ہونے لگے۔کچھ ہفتوں میں میجر اشرف کی غداری سب کے سامنے
آ گئی اور اس کا کورٹ مارشل ہو گیا ۔
یہ معاملہ ایک چنگاری سے آگ بن گیا…… اور پھر آگ سے ایک المناک دھماکہ……
حقیقت تو صاف ظاہر تھی کہ انڈیا نے پاکستان میں گھُسے کچھ غدار وں اور
دہشتگردوں کے زریعے خوفناک نیوکلئیرجنگی ہتھیار ملک میں بھیجنے کا منصوبہ
بنایا تا کہ ملک دشمن ایجنٹس وقت پڑنے پر انہیں استعمال کر کے پاکستان کو
کمزور سے کمزور ترکر سکیں۔ خاص طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے دہشت گردی میں
استعمال سے یہ ثابت ہو جاتا کہ پاکستان کے ہاتھوں میں ایٹمی ہتھیار محفوظ
نہیں اور انہیں نیٹو یا یو این او کے سپرد کر دیا جانا چائیے۔ اس طرح بغیر
نیوکلئیر پاور کے پاکستان ہمیشہ کے لئے بھارت کا پِٹھو بن جاتا اور اسرائیل
کو جس واحد اسلامی ملک سے خطرہ ہے وہ بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا۔
انڈیا نے پاکستان کاالزام یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ پاکستان کے ہی کچھ
ایجنٹس بھارت میں کام کر رہے ہیں اور یہ ان کی انڈیا کو پھنسانے کی سازش
ہے۔پاکستان تو ویسے ہی بدنام تھا…… پوری دنیا نے انڈیا کی سائیڈ لے لی
سوائے چائنا اور ترکی کے……
پاکستان اور انڈیا کے مابین سفارتی جنگ اپنے عروج پر پہنچ گئی……حالات بہت
ہی خراب ہو گئے ۔ آئے دن جنگوں کی افواہیں سننے کو ملنے لگیں ……
یہاں تک کہ پہلی اگست کو انڈیا میں ایک 9/11 جیسا واقعہ رونما ہو گیا۔ جس
کا سارا الزام بھارت نے پاکستان کے سر ڈال دیا…… دونوں ممالک کے مابین جنگ
کے خطرات مزید بڑھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔
’’ہم بہت کٹھن وقت سے گزر رہے ہیں……کیا صحیح ہے کیا غلط ،سب سمجھ سے بالا
تر ہے‘‘ امیرِ تنظیم نے ایک امرجنسی میٹنگ بلائی تھی۔
’’یہی دجال کا دور ہے…… سمجھیں جیسے اسٹیج بالکل تیار ہے…… بس دجال کا
نمودار ہونا باقی ہے……‘‘
’’ہمیں آنے والے دنوں کے لئے کوئی فیصلہ کرنا ہو گا‘‘
’’……کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا ……ورنہ مجھے تو ہر طرف سے خون کی بو آ
رہی ہے……‘‘ ، سب ہی ڈرے سہمے بیٹھے تھے۔ دادا جان اور ذولفقار بھی دل تھام
کر امیرِ تنظیم ڈاکٹر سراج الدین کی باتیں سن رہے تھے۔ وہ کوئی انوکھی بات
نہیں کہہ رہے تھے۔ سارا شہر ہی سوگوار اور خوف کے اندیشوں سے گھِرا پڑا
تھا۔
’’یہ تو سب کو معلوم ہی ہے کہ ہماری تنظیم کوئی جنگجو جماعت نہیں…… ابھی تک
تو ہماری ساری کوششیں دعوت و تبلیغ تک ہی محدود رہیں ہیں…… اس سے پہلے کے
کوئی ایسا مرحلہ آتا جس میں اﷲ کی حکومت کے قیام کے لئے طاغوت سے ٹکرانے کی
ضرورت پڑتی، حالات کچھ اور ہی سمت بڑھتے نظر آ رہے ہیں…… ہماری ابھی کسی
قسم کی جنگی تربیت بھی نہیں ہوئی ہے…… اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس دور میں
جنگ کے لئے مخصوص ادارے قائم ہیں اور ہر فرد یہ کام بنا تربیت کے نہیں کر
سکتا……‘‘
’’ہم اس دجالی دور میں رسول اﷲ ؐکے فرمان کے مطابق سورۃ الکھف سے رہنمائی
لیتے ہیں…… ‘‘
’’ جب صدیوں پہلے ایک ایسے ہی دجالی دور میں کچھ اﷲ کے بندے ایمان لے آئے
……اور انہوں نے دیکھا کہ جس دور میں وہ جی رہے ہیں وہ فتنوں کا دور ہے اور
اُن حالات میں اﷲ کی اطاعت کرنا ممکن نہیں…… ایمان بچانے کے لئے انہیں اس
کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آیاکہ وہ گوشہ نشیں ہو جائیں…… سَو انہوں نے
اپنا بوریابسترا سمیٹا اور آبادی کو چھوڑ کر ویرانے میں ایک غار میں پناہ
لے لی اور کہا……‘‘
’’اے ہمارے رب! ہمیں اپنی جناب سے رحمت عطا فرما اور صحیح اَمر کی جانب
ہماری رہنمائی کر‘‘
’’……لہذا میں بھی اس دور میں آپ کو شہروں کو چھوڑ کر گاؤں دیہاتوں ، پہاڑوں
کا رُخ کرنے کا مشورہ دیتا ہوں اور خود بھی یہی ارادہ رکھتا ہوں……‘‘
’’جنگ کی صورت میں شہر غارت گر ہوں گے…… شہروں میں پانی اور اناج کی فراہمی
منقطع ہو جائے گی، انتشار اور افراتفری، انارکی اور فساد پھیلے گا…… جبکہ
دیہات خود کفیل ہوتے ہیں…… وہاں کوئی بھوکا نہ رہے گا…… انشاء اﷲ‘‘۔ ’’ ……
اور وہاں آپ کا ایمان بھی سلامت رہے گا…… انشاء اﷲ‘‘۔
’’ اس کے علاوہ میں آپ سب کو کاغذ کے نوٹوں کے بدلے سونا چاندی خریدنے کا
مشورہ دیتا ہوں اور خود بھی اسی پر عمل کروں گا…… آج کا روپیہ کل چلے نہ
چلے کیا پتا!!!‘‘ ڈاکٹر سراج الدین نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور چپ ہو گئے۔
’’کسی کے پاس کوئی اور اچھا مشورہ ہو تو ضرور پیش کرے‘‘۔ وہ کچھ توقف کر کے
پھر بولے۔
’’ آپ سب اپنے اپنے حلقوں میں سے ان افراد کے نام لکھ لیں جو اس ہجرت کا
حصہ بننا چاہتے ہیں…… کسی پر کوئی زبردستی نہیں……‘‘
’’پھر ہم افراد کی تعداد کے حساب سے پورے ملک کے دیہاتوں میں قائم اپنے
حلقوں سے رجوع کریں گے اور ان سے مدد کی درخواست کریں گے‘‘
تمام افراد نے تہہ دل سے امیرِ تنظیم کے مشورے کو قبول کیا۔ پُر فتن دور
میں ہجرت کرنا تو ہمیشہ ہی سے صالحین کا شیوہ رہا ہے۔
ذولفقار ، حسن، دادا جان سب نے تنظیم کے دیگر رفقاء کے ساتھ مل کر ہجرت کا
ارادہ کیا۔
ذولفقار اور حسن کی فیملی ہمیشہ کے لئے پاکستان کے شمالی علاقوں کے پہاڑوں
میں گم ہو گئی۔
کبھی کبھی ذولفقار اپنے بارے میں سوچتا کہ کیسے اﷲ نے ایک لا ابالی لڑکے کو
اپنی اور کھینچ لیا۔ نفسانی خواہشات اور شیاطین کے مکر و فریب انسان کی اﷲ
سے قربت میں کتنی بڑی رکاوٹ ہیں۔ پَر انسان اگر تھوڑی سی محنت کرے اور اﷲ
کی قربت کا طلب گار ہو تو اﷲ اپنی رحمت سے خود ہی اسے اپنی آغوش میں لے
لیتا ہے اور اسے اپنے حضور تک پہنچنے کا سیدھا رستہ بھی دکھا دیتا ہے۔
’’اﷲ جسے چاہتا ہے منتخب کر کے اپنی طرف کھینچ بلاتا ہے۔ اور جو اس کی طرف
رجوع لاتے ہیں ان کو (بھی) اپنی طرف آنے کا سیدھا رستہ دکھا دیتا ہے‘‘۔
سورۃ شوری آیت۱۳
۔۔۔۔۔۔
انڈیا میں جو دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوا تھا اس نے جلتی پر تیل کا کام
کیا۔
آخرکار باقائدہ طور پر انڈیا نے پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔
یہ اعلان کیا تھا تیسری جنگِ عظیم کا آغاز تھا۔ فوراََ ہی انڈیا ، اسرائیل،
امریکہ اور دوسرے پورپی ممالک نے ایک مضبوط اتحاد بنا لیا۔انڈیا نے اپنا
پہلا حملہ ایک ہی دن لاہور اور کراچی میں کیا اور ہزاروں افراد مارے گئے……
اسرائیلی آبدوزیں بحرہء عرب سے پاکستان نیوی سے لڑ رہی تھیں……جواباََ
پاکستان نے بھی ممبئی سے اپنے حملے کا آغاز کیا……اور چائنا نے بھارت کے
شمالی علاقوں سے بھارت سے چھڑپیں شروع کردی……
ترکی پاکستان کا اتحادی بنا…… ترکی کی ہوائی اور زمینی فوج اسرائیل کی
سرحدوں میں گھُس گئیں……
عرب حکومتیں ڈر کے مارے دُبک کے بیٹھ گئیں تھیں…… تیل کی قیمتیں آسمان سے
باتیں کرنے لگیں اور یورپ کو تیل کی سپلائی بند ہو گئی…… یورپ پورا کا
پوراجام ہو گیا……
ISIS جس نے حال ہی میں اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کیا تھا اسرائیل پر
حملہ کرنے کے بجائے عرب ممالک پر قبضہ کرنے لگی۔
روس بھی میدان میں اتر آیا اور موقع سے فائدہ اٹھا کر ان تمام اراضی پر پھر
قبضہ کرنے لگا جو دوسری جنگ عظیم سے پہلے اس کی سرحدوں کا حصہ تھیں۔
……اور پھر اسرائیل سے ترکی میں تاریخ میں دوسری بار ایٹمی میزائیل چلائے
گئے اور دو بڑے شہر نابود ہو گئے۔
روس اور نارتھ کوریہ نے بھی امریکہ کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کئے اور
انسانیت کی ان گنت تعداد لقمہ ء اجل بن گئی۔
بھارت نے پاکستان اور پاکستان نے بھارت کے خلاف ایٹمی میزائیل چلائے۔
یہ تھی تاریخ کی پہلی نیوکلئیر وار……
دنیا کی ساری آبادی موت کے گھاٹ اتر گئی۔ ما سوائے ان چند لوگوں کے جو کہیں
جنگلوں ، پہاڑوں اور ویرانوں میں پناہ گزیں تھے۔
کھانے پینے کے لالے پڑ گئے…… پانی زہریلا ہو گیا…… اناج کی فصلیں جھلس
گئیں…… مویشی مر گئے…… لوگ پاگل ہو گئے…… ایک دوسرے کو مار کر اپنے مردے
کھانے لگے……ہر سو میں سے ننانویلقمہء اجل بن گئے…… اور جو زندہ بچا وہ اپنا
ماتھا پیٹتا کہ مر کیوں نہیں گیا…… اتنی بڑی تباہی انسانی تاریخ میں نہ
کبھی آئی نہ کبھیآئے گی…… ہرگھرایک قبر اور ہر محلہ ایک قبرستان تھا……
دنیا کیا تھی!!! سمجھو قیامت آ گئی تھی!!!
۔۔۔۔۔۔۔
ختم شُد |