کئی سال ائیر لائن میں کام کر کے
چھوڑ تو دیا لیکن تجربہ اور یادیں تو میرے ساتھ ساتھ ہی ہیں۔ ائیر پورٹ کی
بھی ایک علیحدہ ہی دنیا تھی۔ گھر جا کر سونے کے علاوہ دوستیاں، دلچسپیاں
بھی ائیر پورٹ سے وابستہ ہو کر رہ گئی تھیں۔ کون نمازی ہے کون شرابی، کون
سا لڑکا لڑکی محبت کا کھیل رہے ہیں اور کون شادی کرنے والے ہیں۔ کون ماہانہ
تنخواہ پر گزارا کرتا ہے اور کون روزانہ تنخواہ جتنے پیسے اکٹھے کرتا ہے۔
سب کو سب کے بارے میں سب کچھ پتہ ہوتا تھا۔ سب کے اپنے اپنے گروپس تھے۔ ایک
غیر اسلامی خاندان اور ماحول میں پرورش پانے کے باوجود میں شراب شباب اور
حرام کمائی سے مجھے نفرت تھی۔ لہٰذا میرا بھی ایک گروپ تھا سب سے چھوٹا اور
میرے جیسے لوگوں کا۔ اشعر، شیراز، خرم، راحیل، کامران، ندیم، فریال، عابیہ،
افشین، نسرین، مہ رخ اور میں۔ وقت گزرتا گیا۔ مجھ سمیت سب کی شادی ہو گئی۔
لیکن فریال کی منگنی ٹوٹ گئی۔ فریال کے منگیتر کے گھر والے شادی کرنا چاہتے
تھے۔ لیکن فریال کے والد بیمار تھے بہن بھائی چھوٹے تھے۔ فریال اکیلی کمانے
والی تھی۔ قرضے کا بوجھ تھا۔ فریال نے شادی سے انکار کر دیا۔ چند ماہ بعد
ناگریز وجوہات کی بنیاد پر میری شادی شدہ زندگی کا بھی اختتام ہو گیا میرے
سارے گروپ نے میرے تمام معاملات میں اچھے دوستوں کی طرح میرا ساتھ دیا اور
ایک دو سال بعد میں نے ائیر لائن کی نوکری چھوڑ دی۔ کچھ عرصے بعد فریال نے
بھی نوکری چھوڑ دی اور کسی سے کوئی رابطہ نہ رکھا۔ کئی سالوں بعد میں گلشن
اقبال پارک میں واک کر رہا تھا کہ میں نے فریال کو دیکھا۔ فریال اپنی فیملی
کے ساتھ تھی۔ میں فریال سے اور اس کی فیملی سے ملا اور پھر میں اور فریال
ایک کونے پر علیحدہ بیٹھ گئے۔ فریال نے مجھے بتایا کہ ائیر لائن سے جاب
چھوڑنے کے بعد اس نے دو اور جگہ پر نوکری کی لیکن کہ تنخواہ میں گزارا نہیں
ہو رہا تھا۔ مالی حالات بہت خراب ہو گئے تھے۔ قرض خواہوں نے جھگڑے شروع کر
دئیے تھے۔ لہٰذا اس نے اپنا کاروبار کر لیا تھا اور کاروباری مصروفیات کی
وجھ سے وہ کسی سے رابطہ نہ رکھ سکی تھی۔ لیکن اب اس کے ابو دوبارہ کام پر
جانے لگ گئے تھے۔ بھائی باہر چلا گیا تھا۔ چھوٹی بہن کی شادی ہو گئی تھی
اور یہ کہ اب اس نے اپنا کاروبار ختم کر دیا تھا۔ آجکل وہ گھر پر ہی رہتی
تھی اور بلکل فارغ۔ لیکن کاروبار تھا کیا۔ میں نے بار بار فریال سے پوچھا۔
بس پیسے اکٹھے کرتی تھی۔ فریال کی اس بات پر میری ہنسی نکل گئی۔۔ کام کیا
تھا ۔ فروخت کا۔ لیکن فروخت کیا کرتی تھی۔۔۔میں نے پوچھا۔ آپ نہ
پوچھیں۔۔۔لیکن میں نے اصرار کیا۔ فریال نے اپنے پرس سے ایک کارڈ نکالا۔ اس
پر کچھ لکھا اور مجھ سے کہنے لگی کہ لکھ دیا ہے۔ یہاں سے جا کر دیکھ لیجیے
گا۔ لیکن میں نے اس کے ہاتھ سے کارڈ چھینا اور پڑھ لیا۔ چار لفظ لکھے تھے۔
میں نے پڑھا اور پڑھتا ہی رہ گیا۔ اس دوران فریال تو چلی گئی۔ لیکن وہ چار
لفظ آج بھی میرے سامنے ہیں۔ ’’کپڑوں میں لپٹا جسم’’۔
ہمارے ملک میں خصوصاً مڈل کلاس کے پرائیویٹ ملازمین کے حالات بہت خطرناک
ہیں۔ مڈل کلاس کے پرائیوٹ ملازمین محنت سے کام کرنے کے باوجود اپنے کنبے کی
بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتے۔ ان پرائیویٹ ملازمین کی کم تنخواہوں
کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتا۔ ان پرائیویٹ ملازمین کو اس ملک میں کسی سہولت
کا حقدار نہیں سمجھا جاتا۔ ساری سہولتیں اور تنخواہوں کے اضافے صرف سرکاری
ملازمین کیلئے ہیں۔ یہ پرائیویٹ ملازمین ڈاکہ ماریں، خود کشی کریں یا اپنا
جسم بیچیں کسی کو ان کی کوئی پروا نہیں ہے۔ پرائیویٹ ملازمین کیلئے تو
قانون بھی حرکت میں نہیں آتا ان کیلئے کوئی لانگ مارچ نہیں کرتا۔ میں نے
ایک جرائم پیشہ شخص کو بڑا سمجھایا لیکن وہ ہمیشہ ایک ہی جواب دیتا کہ میں
اپنے اور گھر والوں کے خرچے کہاں سے پورے کروں۔ کاش پرائیویٹ ملازمین کے
مسائل، ان کی تنخواہوں کے بارے میں بھی کوئی خبر آئے ان کے لیے بھی طبی
سہولتوں کے کسی پیکج کا اعلان ہو تاکہ آج کے بعد کوئی فریال چار لفظوں والا
کاروبار کرنے پر مجبور نہ ہو۔ کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |