”واقعہ معراج“ یثرب کے لوگوں کی
دین اسلام سے واقفیت
تاریخ اسلام کے اس دور میں (بعثت سے عہد ہجرت تک) جو اہم واقعات رونما ہوئے
ان میں سے ایک واقعہ معراج بھی ہے۔ یہ کب پیش آیا اس کی صحیح و دقیق تاریخ
کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ یہ بعثت کے چھ ماہ بعد اور بعض
کی رائے میں بعثت کے دوسرے تیسرے، پانچویں، دسویں، گیارہویں یا بارہویں سال
میں رونما ہوا۔ (الصحیح من السیرة ج۱، ص ۲۲۹، ۲۷۰)
جب ہم رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کے بارے میں گفتگو کرتے
ہیں تو ہمارے سامنے دو عنوان آتے ہیں۔ ان میں سے ایک ”اسرائ“ ہے اور دوسرا
” معراج“۔
”اسرائ“ یا” رات“ کے وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا وہ سفر ہے جو
مسجد الحرام سے مسجدالاقصیٰ تک ہوا تھا چنانچہ اس کے بارے میں قرآن مجید کا
صریح ارشاد ہے: ”سبحان الذی اسریٰ بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد
الاقصیٰ الذی بارکنا حولہ لنریہ من آیاتنا“
”پاک ہے وہ ذات جو راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی
جن کے ماحول کو اس نے برکت دی تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔“
جملہ ”سبحان الذی“ اس حقیقت کو بیان کر رہا ہے کہ یہ سفر خداوند تعالیٰ کی
قدرت کے پرتو میں انجام پایا تھا۔
جملہ ”اسریٰ بعبدہ لیلا“ سے یہ مطلب واضح ہے کہ اس سیر کی علت ذات خداوندی
تھی اور اسی سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ رات کے وقت ہوئی، اس کے
علاوہ لفظ ”لیلا“ سے بھی وہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے جو لفظ ”اسریٰ“ سے سمجھ
میں آتا ہے۔ کیونکہ عربی میں یہ لفظ رات کے وقت سفر کے مفہوم میں استعمال
ہوتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ ”سفر“ جسمانی تھا۔ اگر روحانی ہوتا تو اس
کے لئے لفظ ”بعبدہ“ کے ذکر کی ضرورت پیش نہ آتی۔
مذکورہ آیت کی رو سے اس ”سفر“ کا آغاز ”مسجدالحرام“ سے ہوتا ہے اور اختتام
”مسجدالاقصیٰ“ پر اور آخر میں اس سفر کا یہ مطلب بتایا گیا ہے کہ خداوند
تعالیٰ کو اپنی نشانیاں دکھانا مقصود تھیں۔
”معراج“ اور ملکوت اعلیٰ کی سیر کے بارے میں بہت سے محدثین اور مؤرخین کے
نظریات کی بنیاد پر تحقیقات کی جاچکی ہیں، اگرچہ سب کی متفقہ رائے یہی ہے
کہ شب معراج شب اسراء ہی ہے۔ (تاریخ پیغمبر، مولفہ مرحوم امینی ص۱۰۹)
ہر چند مذکورہ بالا آیات سے پورے طور پر یہ مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ لیکن
سورہ ”النجم“ کی آیت اور بہت سی ان روایات کی مدد سے جو معراج کے متعلق ہم
تک پہنچی ہیں یہ ثابت ہو جاتا ہے۔
چنانچہ علامہ مجلسی مرحوم متعلقہ آیات بیان کرنے کے بعد معراج کے بارے میں
لکھتے ہیں:”رسول خدا کا بیت المقدس کی جانب عروج کرنا اور وہاں سے ایک ہی
رات میں آسمانوں پر پہنچنا اور وہ بھی بدن مبارک کے ساتھ ایسا موضوع ہے جس
کے بارے میں ایسی آیات اور متات شیعہ سنی روایات ہم تک پہنچی ہیں جو اس
واقعے کے وقوع پر دلالت کرتی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار کرنا یا روحانی معراج
کی تاویل پیش کرنا یا اس واقعے کا خواب میں رونما ہونا اس بات کو ظاہر کرتا
ہے کہ کہنے والے نے پیشوایان دین کی کتابوں کا کم تتبع کیا ہے اور یا یہ
بات اس کی ایمان کی کمزوری و ضعف اعتقاد پر مبنی ہے۔ (بحار، ج۸، ص۲۸۹)
حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد قریش کا ردعمل
حضرت ابوطالب کی رحلت کے بعد قریش کی گستاخیاں بڑھ گئیں اور وہ بہت زیادہ
بے باک ہوگئے، پہلے سے کہیں زیادہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو آزار
و تکلیف پہنچانے لگے، دین اسلام کی تبلیغ کے لئے انہوں نے آپ پر سخت
پابندیاں لگا دیں اور اس کا دائرہ بہت محدود کر دیا چنانچہ نوبت یہاں تک
پہنچی کہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حج کے زمانے کے علاوہ اپنے دین و آئین
کی تبلیغ نہیں کرسکتے تھے۔
رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ”جب تک ابوطالب زندہ رہے
قریش مجھے ایسی گزند نہیں پہنچا سکے جو میرے لیے سخت ناگوار ہوتی۔“ (السیرة
النبویہ، ج۲، ص ۵۸)
اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت ابوطالب کی وفات کے بعد قریش کی جانب سے
ایذا رسانی اور شکنجہ کشی کی واردات میں اضافہ ہوگیا تھا۔ مگر ان سختیوں
اور پابندیوں کے باوجود رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان مہینوں میں جو
ماہ حرام قرار دیئے گئے تھے موقع غنیمت سمجھتے اور اس سے زیادہ سے زیادہ
فائدہ اٹھاتے، چنانچہ حج کے تین ماہ کے دوران ”عکاظ“ محجنہ“ اور ”ذوالمجاز“
کے بازاروں کے علاوہ جہاں بھی لوگ جمع ہوتے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
ان کے پاس تشریف لے جاتے۔ وہاں سردارانِ قبائل نیز سربرآوردہ اشخاص سے
ملاقات کرتے اور ہر ایک کو آسمانی آئین کی دعوت دیتے تھے۔
ان ملاقاتوں کی وجہ سے ہر چند رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کی
جاتی اور ان کے بعد سردارانِ قبائل کا ردعمل ظاہر ہوتا۔ لیکن مخالفت اور
ردعمل کے باوجود یہ ملاقاتیں نہایت ہی مفید اور ثمر بخش ثابت ہوئیں۔ کیونکہ
کوئی بھی فرد یا قبیلہ ایسا نہ ہوتا جو مکہ میں داخل ہوتا اور اس تک کسی نہ
کسی طرح رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا پیغام نہ پہنچتا،
چنانچہ فریضہ حج کے ادا کرنے کے بعد جب وہ لوگ واپس اپنے اپنے گھروں کو
جاتے تو وہ اس دعوت و ملاقات کو دوران حج کے اہم واقعے یا خبر کی صورت میں
دوسروں کے سامنے بیان کرتے۔
قبیلہ بنی عامر بن صعصہ ان مشہور قبائل میں سے تھا جس کے افراد کو رسول
خداصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے وحدت پرستی کی دعوت دی۔
”بیحر“ ابن فراس کا شمار اس کے قبیلے کے سربرآوردہ اشخاص میں ہوتا تھا۔ اسے
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شہرت اور قدر و منزلت کے بارے میں کم و
بیش علم تھا۔ اس نے جب یہ بات سنی تو کہنے لگا: ”خدا کی قسم! اگر قریش سے
میں اس نوجوان کو حاصل کرلوں تو اس کے ہاتھوں میں عرب کو نگل جاؤں گا۔(یعنی
اس کے ذریعہ دنیوی مال و متاع حاصل کروں گا۔“
چنانچہ یہ سوچ کر وہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے
لگا کہ اگر ہم تمہارے ہاتھ پر بیعت کرلیں اور تمہارا خدا ہمیں تمہارے
مخالفین پر کامیاب بھی کر دے تو کیا تمہاری قوم کی رہبری و سرداری ہمیں
واگذار کر دی جائے گی؟ اس پر رسول خدا نے فرمایا: ”یہ خدا کا کام ہے وہ جسے
اہل سمجھے گا اسے جانشین مقرر کرے گا۔“
بیحرہ نے جب رسول اللہ سے یہ جواب سنا تو کہنے لگا کہ ہم تمہاری خاطر عربوں
سے جنگ کریں اور جب کامیاب ہو جائیں تو قوم کی رہبری دوسروں کے ہاتھوں میں
چلی جائے ایسی جنگ اور رہبری سے ہم باز آئے۔ (السیرة النبویہ، ج۱، ص ۱۶)
رسول اکرم کی اس گفتگو کے اہم نکات
عام مشاہدہ ہے کہ اہل سیاست اقتدار حاصل کرنے سے قبل عوام و قوم سے بڑے بڑے
وعدے کرتے ہیں۔ جنہیں وہ کبھی پورا نہیں کرتے۔ لیکن پیغمبر اکرم صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے موجودہ سیاست کی روش کے برعکس قبیلہ ”بنی عامر“ کی اس
شرط پر کسی قسم کا وعدہ نہیں کیا۔
قول پیغمبر اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ مسئلہ امامت امر الٰہی پر منحصر ہے
اور خداوند تعالیٰ جسے اس کا اہل سمجھے گا اسے پیغمبر کا جانشین مقرر کرے
گا۔
۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔
نوٹ۔۔۔ محترم قارئین آپ کی قیمتی آراء باعث عزت و رہنمائی ہو گی ۔ |