رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور مبارک اور سوانح عمری -9

رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس عیسائیوں کے ایک وفد کی آمد
جو مسلمان ہجرت کر کے ”حبشہ“ چلے گئے تھے ان کے وہاں رہنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ جب ”حبشہ“ یا ”نجران ‘ کے عیسائیوں کو رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنا وفد مکہ روانہ کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست گفتگو کرسکیں۔ یہ پہلا وفد تھا جو مکہ کے باہر سے آیا اور رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔

نصاریٰ کا یہ وفد20افراد پر مشتمل تھا۔ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ”مسجد الحرام“ میں زیارت و ملاقات سے مشرف ہوا اور اسی جگہ باہمی گفتگو کا آغاز ہوا جب مذاکرات کا سلسلہ ختم ہوا تو رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت کر کے انہیں سنائی اور دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔

عیسائیوں نے جب آیات قرآنی سنی تو ان کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہوگئیں اور دین اسلام قبول کرنے کا انہوں نے شرف حاصل کرلیا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ رسول خدا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے جو اوصاف ان کتابوں میں بیان کیے گئے تھے وہ انہیں آپ کی ذات مبارک میں نظر آگئے تھے۔ مذکورہ وفد جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات سے مشرف ہو کر واپس جانے لگا تو ابوجہل اور قریش کے گروہ نے ان کا راستہ روک لیا اور کہا کہ تم کیسے نادان ہو تمہاری قوم نے تو تمہیں اس مقصد کے لئے بھیجا تھا کہ وہاں جا کر اصل واقعے کی تحقیق کرو اور ان کا جائزہ لو لیکن تم نے بے خوف و خطر اپنے دین و آئین کو ترک کردیا اور محمد کی دعوت کو قبول کرلیا۔

نصاریٰ کے نمائندگان نے کہا کہ ہم تمہارے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے کی غرض سے نہیں آئے تھے، ہمیں ہمارے آئین مسلک پر رہنے دو۔

حضرت ابو طالب علیہ السلام اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہ کی رحلت
جناب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور اصحاب کو شعب ابو طالب سے نجات ملی تو اس بات کی امید تھی کہ مصائب و آلام کے بعد ان کے حالات سازگار ہو جائیں گے اور خوشی کے دن آئیں گے۔ مگر ابھی 2 سال بھی نہ گزرے تھے کہ دو ایسے تلخ اور جانکاہ صدمات سے دوچار ہوئے جن کے باعث رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور اصحاب رسول پر گویا غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اس رنج واندوہ کا سبب حضرت ابو طالب کی رحلت تھی اور اس کے تین دن یا ایک ماہ بعد آپ کی ایثار پسند شریک حیات بھی اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں۔ حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ کو ”حجون“ نامی قریش کے قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔(الصحیح من السیرة النبی ج۲، ص۱۲۸)

حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہ کی رحلت نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو بہت متاثر اور غمگین کیا، چنانچہ آپ نے اس غم و الم کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا”ان چند دنوں میں اس امت پر دو ایسی مصیبتیں نازل ہوئی ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ ان میں سے کس نے مجھے زیادہ متاثر کیا ہے۔“ (یعقوبی)

رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے واجب الاحترام چچا اور وفاشعار شریک حیات کی رحلت کا اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ بہت کم گھر سے باہر تشریف لاتے چونکہ یہ دونوں عظیم حادثات بعثت کے دسویں سال میں واقع ہوئے تھے، لہٰذا ان کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سال کو ”عام الحزن“ یعنی غم و اندوہ کا سال کہا جانے لگا۔ (السیرة الحلبیہ، ج۱، ص ۳۴۷)

حضرت ابو طالب کی مظلومیت
حضرت ابو طالب علیہ السلام کو چونکہ اپنے بھتیجے کے اوصاف حمیدہ کا علم تھا اور اس امر سے بھی واقف تھے کہ آپ کو رسالت تفویض کی گئی ہے، اس لیے وہ نہایت خاموشی سے آپ پر ایمان لے آئے تھے۔ وہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی42 سال سے زیادہ عرصے تک حفاظت و نگرانی کرتے رہے یعنی اس وقت سے جبکہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا سن مبارک8 سال تھا اور اس وقت تک جب آپ 50 سال کے ہوگئے تھے اور چونکہ حفاظت و حمایت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے لہٰذا آپ کے پروانہ وار والہ و شیفتہ تھے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے آسمانی آئین کی ترویج کی خاطر کبھی جان و مال سے دریغ نہیں کیا یہاں تک کہ 80 سال کی عمر میں اس وقت انتقال کیا جبکہ آپ کا قلب خدا اور رسول پر ایمان سے منور تھا۔

جیسے ہی حضرت ابو طالب نے رحلت فرمائی، دشمنوں کے آستینوں میں پوشیدہ ہاتھ بھی باہر نکل آئے اور وہ اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ صدر اسلام کے اس مرد مجاہد و سخت کوش انسان کی موت بحالت کفر واقع ہوئی ہے تاکہ لوگوں کو یہ باور کرائیں کہ رسول کی حفاظت و حمایت ان کا قومی جذبہ تھا۔ جس نے انہیں اس ایثار و قربانی پر مجبور کیا تھا۔

حضرت ابو طالب کے ایمان لانے پر شک و شبہ پیدا کرنے میں جو محرک کار فرما تھا اس کی مذہبی عقیدے سے زیادہ سیاسی اہمیت تھی۔ بنی امیہ کی سیاسی حکمت عملی کی اساس چونکہ خاندان رسالت کے ساتھ دشمنی و کینہ توزی پر قائم تھی اس لیے انہوں نے بعض جعلی روایات پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کر کے حضرت ابو طالب کو کافر مشہور کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ ابو طالب کو کافر ثابت کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ان کے فرزند عزیز حضرت علی علیہ السلام کو عظمت و فضیلت کے اعتبار سے دوسروں پر فوقیت و برتری حاصل نہیں ہے۔ اگر حضرت ابو طالب حضرت علی علیہ السلام کے والد بزرگوار نہ ہوتے تو وہ ہرگز اس بات کا اتنا زیادہ چرچا نہ کرتے اور نہ ہی اس قدر نمایاں طور پر اتنا جوش و خروش دیکھاتے۔

کوئی بھی ایسا انصاف پسند شخص جسے تاریخ اسلام کے بارے میں معمولی سی بھی واقفیت ہوگی اور پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اس عظیم حامی اور مددگار کی جدوجہد سے لبریز زندگی کے بارے میں علم رکھتا ہو گا وہ اپنے دل میں حضرت ابوطالب کے بارے میں ذرا بھی شک و شبہ کو راہ نہ دے گا۔

اس کی دو وجہ ہیں۔۔۔(اوّل) یہ کہ اگر کوئی شخص قومی تعصب کی بنا پر کسی دوسرے شخص یا قبیلے کی حمایت و پشتیبانی کرے تو یہ ممکن ہے کہ اسے ذرا سی دیر میں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے لیکن یہ اس امر کا باعث نہیں ہوسکتا کہ وہ شخص 40 سال تک نہ صرف حمایت و پشت پناہی کرے بلکہ اس شخص کا پروانہ وار شیفتہ بھی ہو۔(دوم) یہ کہ حضرت ابو طالب کے اقوال و اشعار، اخبار پیغمبر اور امامت آئمہ معصومین علیہم السلام اس وہم و گمان کی تردید کرتے ہیں اور اس بات پر متفق ہیں کہ رسول خدا کی حمایت کا اصل محرک ان کا وہ راسخ عقیدہ اور محکم ایمان تھا جو انہیں رسول پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات پر تھا۔

چنانچہ امام زین العابدین (علیہ السلام) کی مجلس میں حضرت ابو طالب کا ذکر آگیا تو آپ نے فرمایا”مجھے حیرت ہے کہ لوگوں کو حضرت ابو طالب کے ایمان میں شک و تردد ہے۔ کوئی ایسی عورت جس نے دین اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرلیا وہ اپنے کافر شوہر کے عقد میں نہیں رہ سکتی ہے جبکہ حضرت فاطمہ بنت اسد ان اوّلین خواتین میں سے تھیں جو دین اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئیں چنانچہ جب تک حضرت ابو طالب زندہ رہے وہ ان سے جدا نہ ہوئے۔“

حضرت محمد امام باقر علیہ السلام سے حضرت ابو طالب کے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا”اگر حضرت ابو طالب کے ایمان کو ترازو کے ایک پلے میں رکھا جائے اور دوسرے پلے میں دیگر لوگوں کے ایمان کو رکھ کر تولا جائے تو یقیناً حضرت ابو طالب کے ایمان کا پلہ بھاری رہے گا۔ کیا آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے بعض لوگوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ حضرت ابو طالب کی جانب سے فریضہ حج ادا کریں۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ای الحدید، ج۱۴، ص ۶۸)

اسی ضمن میں حضرت امام صادق علیہ السلام نے رسول خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت ابو طالب کا ایمان اصحاب کہف کے ایمان کی طرح تھا، اگرچہ وہ لوگ دل سے ایمان لے آئے تھے مگر زبان سے اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ ان کے اس عمل کا خداوند تعالیٰ انہیں دوگنا اجر دے گا۔

حضرت ابو طالب نے دین اسلام کی ترویج و تبلیغ کے لیے جو خدمات انجام دیں ان کے بارے میں ابن ابی الحدید لکھتے ہیں ۔

کسی شخص نے حضرت ابو طالب کے ایمان سے متعلق کتاب لکھی اور مجھ سے کہا کہ اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کروں اور اس پر اپنے ہاتھ سے کچھ لکھوں۔ میں نے کچھ اشعار اس کتاب کی پشت پر لکھ دیئے جن کا مضمون یہ تھا”لولاابو طالب و ابنہ لما مثل الذین شخصا فقاما فذاک بمکة آوی و حامی و ہذا بیثرب جس الحماما“ (ابن ابی الحدید ص ۸۳، ۸۴)

ترجمعہ”اگر ابو طالب اور ان کے فرزند علی نہ ہوتے تو دین اسلام ہرگز قائم نہیں ہوسکتا تھا۔ باپ نے مکے میں پیغمبر کی حمایت کی اور بیٹا یثرب میں موت کی حد تک آگے بڑھ گیا۔“

۔۔۔۔۔ جاری ۔۔۔۔۔۔
نوٹ ۔۔۔۔۔ قارئین آپ کی قیمتی آراء راقم کے لئے باعث عزت و رہنمائی ہوگی ۔
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 122476 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More