عقیدۂ ختم نبوت اور قادیانی
(syed imaad ul deen, samandri)
احبابِ محراب و منبر،اربابِ فکر
و دانش کے لئے ایک ناقابلِ فراموش تحریر
عقیدۂ ختم نبوت اسلام کا قطعی اور اجماعی عقیدہ ہے اور اسلام کے بنیادی
عقائد میں سے ایک ہے، جس پر ایمان (Belief)لانا بھی ہر مسلمان پرفرض ہے،
یعنی ایک مسلمان اس بات پر ایمان رکھے کہ حضورتاجدار ختم نبوتﷺ اﷲ تعالیٰ
کے آخری نبی اور رسول(Last Among Prophets)ہیں اور سلسلہ نبوت و رسالت حضور
نبی کریم ﷺ پر ختم ہو چکا ہے اور اب آپﷺ کے بعد قیامت تک نہ کوئی نبی آئے
گا نہ کوئی رسول آئے گااورآپ ﷺکی کتاب،شریعت مطہرہ اور تعلیمات تا قیامت
ہدایت اور نجات کا آخری سرچشمہ ہیں، اگر کوئی شخص ہزار بار بھی کلمہ ٔ طیبہ
پڑھے اور دن رات نماز وقیام میں گزارے، لیکن وہ آپ ﷺ کو خاتم النبیین نہیں
مانتا یا آپ ﷺ کے بعد کسی اور کو بھی نبی مانتا ہے تو وہ بلاشبہ کافرہے،
مرتد ہے اور واجب القتل ہے۔
عقیدۂ ختم نبوت کا مفہوم
عقیدۂ ختم نبوت اسلام کے بنیا د ی عقا ئدمیں سے ایک ہے اوراس عقید ہ پر ا
یمان لا نا بھی فر ض ہے ۔عقیدۂ ختم نبوت کا مفہوم یہ ہے کہ: اﷲ تعالیٰ نے
نبوت و رسالت کا جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا تھا وہ سلسلہ
نبوت حضرت محمد ﷺپر ختم کردیا ہے اورآپﷺاﷲ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔اب آپ
ﷺ کے بعدقیامت تک کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔
رسول اﷲﷺ کا خاتم الانبیاء(نبیوں میں آخری نبی اوررسول) ہونا، آپ ﷺ کے بعد
کسی نبی اور رسول کا دنیا میں مبعوث نہ ہونا اور ہر مدعیٔ نبوت (یعنی
مسیلمۂ کذاب سے مرزا غلام احمد قادیانی کذاب تک) کا جھوٹا وکذاب اور کافر
ومرتد ہو نا، ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس پر صحابۂ کرام علیہم الرحمتہ
والرضوان سے لے کر آج تک ہر دور کے تمام مسلمانوں کا قطعی اجماع
(Consesus)اور اتفاق رہاہے۔
کسی شخص کے مسلمان ہونے کیلئے جس قدر باتوں کا ماننا ضروری ہے، وہ سب
امورقرآن پاک نے بڑی تفصیل سے بیان کر دیئے ہیں، اگر حضور سیدعالم ﷺ کے بعد
کسی اور نبی کی بعثت ہوتی تو قرآن میں اس کا بھی ذکر ہو تا اور جب قرآن میں
حضورﷺ کے بعد کسی نبی کی بعثت اور وحی کا ذکر نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ حضور
اکرمﷺ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہو سکتا۔آخر جن باتوں کے ماننے سے صحابہ
کرام اور بعد کے لوگ مومن ہو گئے تو ان چیزوں کاماننا آج کیسے ناکافی
ہوگیا، کیا ان کا اسلام اور تھا اور اب کوئی اوراسلام ہے۔ اگر ہم قرآن کو
ناقص اور اسلام کو ناتمام نہیں مانتے تو ہمیں ماننا ہو گا کہ قرآن کریم نے
جن چیزوں پر ایمان لانے کاحکم د یا ہے، ان کے سوا کسی اور پر ایمان لانا
ہرگز جائز نہیں ہے اور مرزاغلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت چونکہ قرآن کا
حکم اور مامور نہیں ہے،اس لئے اس کا نبی ماننا قرآن، ایمان اور اسلام سب کے
خلاف ہے۔
عقیدۂ ختم نبوت قرآن کی روشنی میں
حضور نبی کریم ﷺ پوری انسانیت کے لئے ابدی صحیفۂ ہدایت (قرآن حکیم) لے کر
آئے۔ آپ ﷺ کی تشریف آوری سے رشد وہدایت اور نبوت ورسالت کا عظیم سلسلہ اپنے
اختتام کو پہنچا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ
نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً۔﴾
ترجمہ: ’’آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین کامل ومکمل کر دیا ہے اور تم پر
اپنی نعمت پوری کر دی اور میں نے تمھارے لئے اسلام کو دین (منتخب اور)پسند
فرمایا ہے‘‘۔
(سورۃ المائدہ: آیت3)
اس آیت مبارک میں اﷲ تعالیٰ نے دین اسلام کی تکمیل اوراسلام کے منتخب شدہ
دین اوررسول اﷲﷺکے آخری نبی ورسول ہونے کا واضح اعلان فرمایا ہے اوراﷲ
تعالیٰ نے آپ ﷺ کے دین کو تمام ادیان سابقہ(Past Religions) کیلئے ناسخ
(Annulling) قرار دیا اور فرمایا کہ جس نے اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو
طلب یا قبول کیا تو وہ ہرگز قبول نہیں کیا جا ئے گا یعنی قیامت تک حضوراکرم
ﷺ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ اور نہ ہی اس شریعت کے بعد کوئی
شریعت آئے گی۔یہاں تک کہ اب اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ظاہری حیات میں
زندہ ہو تے تو وہ بھی آپ ﷺکی شریعت کی پیروی کرتے اور جب قربِ قیامت میں
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا تو وہ بھی آپ ﷺ کی شریعت کی پیروی
اور اتباع کریں گے۔
سورۂ احزاب میں اﷲ تعالیٰ نے آپﷺ کی ختم نبوت کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان
فرما دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ مَاکَانَ مُحَمَّدٌاَبَااَحَدٍمِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ
اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیِْنَ۔﴾
ترجمہ: ’محمد ﷺ تمہارے (بالغ)مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں اور لیکن وہ
اﷲ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں میں سے آخری نبی (Seal of Prophets) ہیں‘‘۔
(سورۃ الاحزاب:آیت40)
آپ ﷺسے پہلے کے نبی اوررسول مختلف علاقوں،قبیلوں اور قوموں کی طرف مخصوص
اوقات میں مبعوث فرمائے گئے لیکن آپ ﷺکی نبوت ورسالت کسی خاص زمانے یا خاص
قوم کیلئے محدودنہیں بلکہ قیامت تک کیلئے ہرزمانے اورہرقوم کیلئے ہے۔سورۃ
الفرقان میں اﷲ تعالیٰ اپنے آخری نبی کی سارے جہاں کے لئے نبوت ورسالت کو
یوں بیان فرماتا ہے۔ ارشادخداوندی ہے:
﴿ تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ
لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا۔﴾
ترجمہ: ’’ بڑی برکت والا ہے وہ رب جس نے فیصلہ کرنے والی کتاب(قرآن ) اپنے
بندہ (حضرت محمد ﷺ)پرنازل کی تاکہ وہ تمام جہانوں کے لئے (اﷲ کے عذاب سے)
ڈر انے والا ہو‘‘۔(سورۃ الفرقان:آیت1)
اسی طرح اور مقام پر حضوراکرم ﷺ کی ختم نبوت اور رسالت عامہ کو اس طرح واضح
کیا گیا ہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ قُلْ یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ
جَمِیْعًا۔ ﴾
ترجمہ: ’’(اے رسولﷺ!) آپ فرمادیجئے کہ اے لوگو!میں تم سب کی طرف اﷲ کا رسول
(اورہادی )بن کرآیاہوں‘‘۔(سورۃ الاعراف: آیت158)
یہ آیت مبارک حضورسیدعالم ﷺ کی رسالت عامہ کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ تمام مخلوقات
(جن وانس وملائکہ وغیرہ) کے لئے اﷲ کے رسول ہیں اور کل جہان آپ ﷺ کی امت
میں داخل ہے ،چاہے وہ امت اجابت ہو یا امت دعوت ہو۔
عقیدۂ ختم نبوت احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں
قرآن کریم کے بعد احادیث مبارکہ میں بھی بے شمار مقامات پرعقیدہ ختم نبوت
کوواضح طورپربیان کیاگیا ہے۔صحیح بخاری کی روایت ہے کہ حضورنبی کریمﷺ نے
فرمایاکہ:’’بنی اسرائیل کی رہنمائی انبیاء کرام کرتے تھے۔
آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا کیونکہ آپﷺ اﷲ تعالیٰکے آخری نبی اور
رسول ہیں۔ چنانچہ حضر ت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ
نے ارشاد فرمایا کہ:
اِنَّ الرِّسَالَہَ وَالنُّبُوَّۃَ قَدِ انْقُطِعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعدِی
وَلَا نَبِیَّ
’’بے شک نبوت اور رسالت میرے بعد منقطع (ختم)ہو چکی ہے،پس میرے بعد نہ کوئی
نبی ہوگا اور نہ کوئی رسول ہوگا‘‘۔(جامع ترمذی،مسندامام احمد )
ایک مسلمان کے لئے آپﷺ کی نبوت پر ایمان لانا اور اس بات کا اقرار کرنا بھی
فرض ہے کہ آپﷺ اﷲ کے آخری نبی ہیں۔ حضور سید عالمﷺ نے صحابہ کرام رضی اﷲ
عنہم سے فرمایا کہ:……’’ قصر نبوت میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی، میرے آنے
سے وہ پوری ہوگئی ہے اور قصر(محل نبوت)مکمل ہو گیا ہے‘‘۔
(جامع ترمذی،مشکوٰۃ المصابیح،مسنداحمد)
ایک حدیث شریف میں حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ:
فُضِّلْتُ عَلَی اْلاَنْبِیَاءِ بِسِتٍّ:اُعْطِیْتُ جَوَامِعُ الکَلِم
وَنُصِرتُ بِالرُّعْبِ ،وَاُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ ،وَجُعَلَتْ لِیَ
الاَرْضُ مَسْجِدًا وَطَھُورًا ،وَاُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَافَّۃً
وَخُتِمَ بِیَ النَّبِیُّوْنَ۔
ترجمہ: ’’ مجھے دیگر انبیاء علیہم السلام پر چھ چیزوں میں فضیلت (فوقیت
)حاصل ہے ، مجھے جوامع الکلم عطا کئے گئے ،میری رعب کے ساتھ مدد کی گئی
،میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں ،میرے لئے (تمام) زمین مساجداور پاک کرنے
والی بنادی گئی ہے، میں تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کربھیجا گیا ہوں اور
میری آمدسے انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم،جامع
ترمذی،مشکوٰۃالمصابیح)
تیس کذاب
حضرت ثوبان رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرمﷺنے فرمایا کہ:
عنقریب میری امت میں تیس(30)کذاب (بہت زیادہ جھوٹے) ظاہر ہوں گے، جن میں سے
ہر ایک اپنے نبی ہونے کا (جھوٹا)دعویٰ کرے گا،حالانکہ میں(اﷲ کا) آخری نبی
ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا‘‘۔(جامع ترمذی،مسند امام احمد)
عقیدۂ ختم نبوت اور اجماعِ صحابہ کرام
قرآن وحدیث کے بعد تیسرا بڑا درجہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے اجماع
(Consensus) کا ہے اور یہ بات تمام مستند ومعتبر روایات (Authentic
Traditions) سے ثابت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کے ظاہری وصال کے بعد کچھ
لوگوں(مثلاً مسیلمۂ کذاب)نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیاتو ہزاروں صحابہ کرام
رضی اﷲ عنہم نے خلیفہ اوّل امیرالمومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ
کی قیادت میں ان سب کے خلاف جہا دا ورقتال کیااوران کی کیفرکردارتک
پہنچایا۔
عقیدۂ ختم نبوت اور اجماع مسلمین
قرآن وحدیث اوراجماعِ صحابہ کے بعد دینی احکام میں علماء امت کے اجما ع
واتفاق کا درجہ آتا ہے،جس کو حجت (Argument Reason) ماناجاتا ہے، اس لحاظ
سے بھی ہم دیکھیں تو پہلی صدی سے لے کر آج(پندرہویں صدی) تک ہر زمانے اور
پوری دنیائے اسلام میں ہر ملک کے علماء کرام اور مسلمانوں کا یہ قطعی عقیدہ
ہے کہ نبی کریمﷺ خاتم النّبیین ہیں، آپﷺ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے
گا اور جو بھی کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے گا اور جو شخص اس کی جھوٹی
نبوت کو تسلیم کرے گا، وہ بھی دائرۂ اسلام سے خارج، کافرومرتد، دشمن اسلام
اورواجب القتل ہے۔
سراج الامت جلیل القدرتابعیامام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اﷲ عنہ
(متوفی150ھ)کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا اور کہا کہ
مجھے موقع دیں کہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کروں۔ اس پر حضرت امام اعظم
ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص اس جھوٹے مدعیٔ نبوت سے نبوت کی
علامت طلب کرے گا تو وہ بھی کافر ہو جائے گا، کیونکہ رسول اﷲ ﷺ یہ فرما چکے
ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا‘‘۔(مناقب امام اعظم:جلد1صفحہ61)
ختم نبوت کا عقیدہ مسلمانوں کا ایک متفقہ اور اجماعی عقیدہ ہے اور تمام
مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ختم نبوت کا انکارکرنے والا کا فر اور مرتد ہے۔ اس
فتنۂ انکارِ ختم نبوت اور دعویٔ نبوت کرنے والے کو جڑ سے اکھاڑنے والے سب
سے پہلے خلیفہ اول امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ہیں،آپ نے اس
فتنۂ انکارِ ختم نبوت کی ہر طرح سے سرکوبی کی اور نبوت کا دعویٰ کرنے والے
مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں ہزاروں جلیل القدرصحابہ کرام نے شرکت
کی، جس میں سینکڑوں حفاظ صحابۂ کرام شہید ہوئے اوربالآخر مسیلمہ کذاب اپنے
کیفرکردار کو پہنچ گیا۔
اسی طرح برصغیر میں جب انگریزوں کی سرپرستی میں قادیانی فتنہ نمودار
ہوااورمرزاغلام احمد قادیانی نے پہلے مصلح ،پھرمجدد ہونے کا دعویٰ کیااور
پھر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیااورآخر میں جا کر نبوت کا دعویٰ بھی
کردیاتوعلماء کرام اور مشائخ عظام نے مرزا قادیانی اور قادیانوں کے خلاف
کفر وارتداد کے فتاویٰ جاری کئے۔ ان میں علامہ فضل حق خیر آبادی، علامہ
احمد اﷲ شاہ مدراسی، مولانا کفایت علی کافی،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان
فاضل بریلوی، مجدد ودین ملت حضرت پیر مہرعلی شاہ گولڑوی چشتی ، مولانا لطف
اﷲ علی گڑھی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ علماء حق نے مرزاقادیانی کی نہ صرف
تکفیر کی بلکہ ہرممکن اس کا تعاقب کرکے مناظرے اور مباہلے کے چیلنج بھی
دیئے اور قبول کئے اوراسے ہرطرح سے اور ہر سطح پرجھوٹا وکذاب
اورکافرومرتدثابت کیا۔
فتنۂ قادیانیت اور علماءِ حق کا تاریخی کردار
جب قادیانی فتنہ نے اہل ایمان کا امن وسکون اور چین وآرام غارت کر کے امت
مسلمہ کی بنیادیں ہلا کررکھ دیں تو علماء حق نے اس کے کفریہ عقائد اور
اسلام شکن سرگرمیوں کے خلاف تحریرو تقریر اور جلسہ وجلوس کے ذریعے کتاب
وسنت کے دلائل وشواہد کے ساتھ ہر محاذ پر مقابلہ کیااور فتنۂ قادیانیت کے
مکروفریب اور دجل و کذب کے پردوں کو چاک کیا۔ علماء حق نے فتنہ قادیانیت کا
شدید تعاقب کیا اور حق گوئی اورجرات وبہادری کی تاریخ رقم کی اور ہردور میں
علماء حق اس فتنہ کے خلاف مومنانہ اورمجاہدانہ کردارادا کیا۔
قادیانیوں سے قطع تعلق اورسوشل بائیکاٹ
قادیانیوں کے کفریہ عقائد کی بناء پر امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت مولانا شاہ
احمدرضا خان بریلوی قدس سرہ نے مرزائی اور مرزائی نوازوں کے بارے میں
تاریخی فتویٰ دیا۔ آپ فرماتے ہیں ……’’قادیانی ، مرتد ومنافق ہیں ۔وہ منافق
ہے کہ کلمہ ٔ اسلام اب بھی پڑھتا ہے ، اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا ہے اور
پھر اﷲ عزوجل یا رسول اﷲ ﷺ یا اس کی نبی کی توہین کرنا یا ضروریاتِ دین میں
سے کسی شۓ کا منکر ہے، اس کا ذبیح(ذبح کیا ہو اجانور) نجس، مردار اور حرام
قطعی ہے…… ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ :
’’ اس صورت میں فرض قطعی ہے کہ تمام مسلمان موت وحیات کے سب علاقے (تعلقات)
ان سے قطع(ختم)کر دیں، بیمار پڑے تو پوچھنے کوجانا حرام، مرجائے تو اس کے
جنازے پر جانا حرام، اسے مسلمانوں کے گورستان(قبرستان) میں دفن کرنا حرام،
اس کی قبر پر جانا حرام ہے‘‘۔(احکامِ شریعت/ فتاویٰ رضویہ:جلد51/6)
قادیانیت کیخلاف پیرمہرعلی شاہ چشتی کاتاریخ سازکردار
تاجدار علم وعرفاں حضرت پیر مہرعلی شاہ گولڑوی چشتی قدس سرہ نے فرمایا کہ :
’’ حضور خاتم النّبیین ﷺ نے مجھے خواب میں حکم فرمایا کہ مرزاغلام احمد
قادیانی غلط تاویلات کی قینچی سے میری احادیث کو ٹکڑے ٹکڑے کررہاہے اور تم
خاموش بیٹھے ہو‘‘۔
چنانچہ پیرسید مہرعلی شاہ رحمتہ اﷲ علیہ ، فتنۂ قادیانیت کی سرکوبی وبیخ
کنی کے لئے میدانِ عمل میں نکل آئے اور مسلمانوں کو اس فتنہ کی شر
انگیزیوں، بدمعاشیوں، ریشہ دوانیوں اور مکروفریب سے اچھی طرح آگاہ کیا۔آپ
کی اس فتنہ کے خلاف دن رات کوششوں سے بدحواس ہو کر قادیانی جماعت کے ایک
وفد نے حضرت پیر مہرعلی شاہ چشتی رحمتہ اﷲ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا
کہ آپ مرزا قادیانی سے مباہلہ و مجادلہ کر لیں اور ایک اندھے اور لنگڑے کے
حق میں دعا کریں اور دوسرے اندھے اور لنگڑے کے حق میں مرزا قادیانی دعا
کرے۔
جس کی دعا سے اندھا اور لنگڑا ٹھیک ہو جائیں وہ سچا ہے، اس طرح حق و باطل
کا فیصلہ ہو جائے گا…… حضرت پیر سید مہرعلی شاہ علیہ الرحمتہ نے بڑا تاریخی
اور ایمان افروز جواب دیااورفرمایا کہ…… ’’مجھے یہ بھی منظور ہے اور جاؤ
مرزاقادیانی سے یہ بھی کہہ دو کہ اگر مردے زندہ کرنے ہوں توآجاؤ ،مہرعلی
شاہ مردے زندہ کرنے کے لئے بھی تیار ہے‘‘۔ (ملفوظات طیبہ:صفحہ127)
سچ ہے کہ جو شخص حضور نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت کے تحفظ کے لئے کام کرتا ہے
تو اس کی پشت پرحضور نبی کریم ﷺ کا ہاتھ ہو تا ہے۔ قادیانی وفد یہ جواب پا
کر واپس چلا گیا اور کچھ پتہ نہ چلا کہ مرزا قادیانی اور ان کے حواری کہاں
ہیں؟۔
(تحریک ختم نبوت: از شورش کشمیری)
ناموسِ رسالت ﷺاور غیرتِ اقبال
ایک دفعہ سیدآغا صدر چیف جسٹس نے لاہور کے عمائدین اور مشاہیر کو کھانے پر
مدعوکیا، جس میں مفکر اسلام شاعر مشرق علامہ محمداقبال بھی رونق افروز تھے۔
اتفاق سے اس محفل میں مرزاقادیانی کا خلیفہ حکیم نور الدین بھی بن بلائے
اور بلادعوت آٹپکا تھا۔ جب عاشق رسول علامہ اقبال کی نظر اس کذاب پر پڑی
توغیرتِ ایمانی سے علامہ اقبال کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور ماتھے پر شکنیں
پڑگئیں۔ فوراً اٹھے اور میزبان کو مخاطب کرکے کہا آغا صاحب! آپ نے یہ کیا
غضب کیا کہ باغی ختم نبوت اور دشمن رسول کو بھی مدعو کیا اور مجھے بھی ……
اور فرمایا کہ میں جارہاہوں،میں ایسی محفل میں ایک لمحہ بھی نہیں بیٹھ
سکتا۔ حکیم نورا لدین چور کی طرح حالات بھانپ گیا اورفوراً نودو گیارہ ہو
گیا۔اس کے بعد میزبان نے علامہ اقبال سے معذرت کی اور کہا میں نے اُسے کب
بلایا تھا ،وہ تو خود ہی گھس آیا تھا‘‘۔(بحوالہ: تحریک ختم نبوت اورجے یوپی
کا کردار)
7؍ستمبر1974ء کا تاریخ سازدن
مملکت ِخداداد پاکستان کی آئینی اور پارلیمانی تاریخ میں7ستمبر 1974 کا دن
انتہائی تاریخی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس دن پاکستان کی پارلیمنٹ(قومی
اسمبلی وسینیٹ) نے پوری قوم بلکہ امت مسلمہ کی نمائندگی کرتے ہوئے قائد
اہلسنّت امام شاہ احمد نورانی علیہ الرحمۃ کی زیرقیادت کئی مہینوں کی مسلسل
جدوجہد وتحریک اوراسمبلی کی ضروری کارروائی و بحث و مباحثہ کے بعد آپ کی
قراردادپر مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیرو کارقادیانیوں،مرزائیوں
اور احمد یوں کو متفقہ طور پرکافر ومرتداور غیر مسلم قرار دیا یوں اب
قادیانی آئینی طور پر بھی مسلمانوں سے ایک الگ قوم اور گروہ شمار کئے جاتے
ہیں۔
فتنۂ قادیانیت کیخلاف پاکستان کی قومی اسمبلی میں تاریخی قرارداد
مفکراسلام،امامِ انقلاب،قائد اہلسنّت مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے فتنۂ
قادیانیت کے خلاف پاکستان کی قومی اسمبلی میں جوتاریخ ساز قرارداد پیش کی،
اس کا متن حسب ذیل ہے:
جناب اسپیکر……قومی اسمبلی پاکستان!
ہم حسب ذیل تحریک پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں:
’’ہرگاہ کہ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ قادیان کے مرزا غلام احمد نے آخری
نبی حضرت محمدﷺ کے بعد نبی ہونے دعویٰ کیا…… نیزہرگاہ کہ نبی ہونے کا اس کا
جھوٹا اعلان بہت سی قرآنی آیات کو جھٹلانے اور جہاد کو ختم کرنے کی اس کی
کوششیں، اسلا م کے بڑے بڑے احکام کے خلاف غداری تھی…… نیز ہرگاہ کہ وہ
سامراج کی پیداوار تھا اوراس کا واحد مقصد مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کرنا
اور اسلا م کوجھٹلانا تھا۔
نیز ہرگاہ کہ پوری امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ مرزاغلام احمد کے
پیروکار چاہے وہ مرزا غلام احمد کی نبوت کا یقین رکھتے ہوں یا اسے اپنا
مصلح یامذہبی راہنما کسی بھی صورت میں گردانتے ہوں،دائرہ اسلام سے خارج
ہیں……نیز ہرگاہ کہ ان کے پیروکار چاہے انھیں کوئی بھی نام دیا جائے
مسلمانوں کے ساتھ گھل مل کر اوراسلام کا ایک فرقہ ہونے کا بہانہ کرکے
اندرونی اور بیرونی طور پر تخریبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
نیز ہرگاہ کہ عالمی مسلم تنظیموں کی ایک کانفرنس میں جو مکۂ مکرمہ کے مقدس
شہر میں رابطۃالعالم الاسلامی کے زیر انتظام 6تا10اپریل1974ء کو منعقد ہوئی
اور جس میں دنیا بھر کے تمام حصوں سے140مسلمان تنظیموں اور اداروں کے وفود
نے شرکت کی، متفقہ طور پر یہ رائے ظاہر کی گئی کہ قادیانیت ،اسلام اور عالم
اسلام کے خلاف ایک تخریبی تحریک ہے، جو ایک اسلامی فرقہ ہونے کا دعویٰ کرتی
ہے۔
اب اس اسمبلی کو یہ اعلان کرنے کی کارروائی کرنی چاہئے کہ مرزا غلام احمد
کے پیروکار، انھیں چاہے کوئی بھی نام دیا جائے مسلمان نہیں ہیں اور یہ کہ
قومی اسمبلی میں ایک سرکاری بل پیش کیا جائے تا کہ اس اعلان کو مؤثر بنانے
کیلئے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پران کے
جائز حقوق ومفادات کے تحفظ کیلئے احکام وضع کرنے کی خاطر آئین میں مناسب
اور ضروری ترمیمات کی جائیں‘‘۔
7؍ ستمبر1974ء کوپارلیمنٹ کے اندر قائداہلسنّت امام انقلاب مولانا شاہ احمد
نورانی رحمتہ اﷲ علیہ نے مرزاغلام احمد قادیانی اوراس کے پیروکارقادیانیوں
(بشمول احمدی اور لاہوری گروپ) کو کافر ومرتد اور غیرمسلم قراد دینے کیلئے
قرارداد پیش کی، جسے پوری پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ اس وقت
اسمبلی کے اندر موجود دیگر علماء یعنی مفتی محمود صاحب، علامہ عبدالمصطفیٰ
الازہری،مولانا سیدمحمد علی رضوی، مولانا عبدالحق، پروفیسر غفور
احمد،صاحبزادہ احمد رضا قصوری، مولاناظفر انصاری، مولانا نعمت اﷲ کے علاوہ
دیگر ارکان اسمبلی عبدالحمید جتوئی،چوہدری ظہورالٰہی، سردار شیرباز مزاری،
سردار مولا بخش سومرو، حاجی علی احمد تالپور وغیرہ نے بھی اس قرار دادکی
تائید وحمایت کی۔
وسیلۂ شفاعت ونجات
مولاناشاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمۃ کا یہ تاریخ سازکارنامہ اپنی
اہمیت و افادیت کے اعتبار سے اتنا عظیم الشان ہے کہ صدیوں لوحِ تاریخ پر
نقش رہے گااور اسلامی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھاجائے گا۔ مولانا
شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمۃ ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ :
’’اگر چہ پاکستان کی پچھلی اسمبلیوں میں بھی علماء ارکان رہے ہیں، لیکن اﷲ
تعالیٰ نے یہ سعادت مجھے نصیب فرمائی اور مجھے کامل یقین ہے بارگاہِ شفیع
المذنبینﷺ میں میرے لئے یہی سب سے بڑا وسیلۂ شفاعت ونجات ہوگا‘‘۔ (بحوالہ
ماہنامہ’’ النعیم‘‘کراچی)
اسی طرح1972ء میں قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطا ب میں علامہ شاہ احمد
نورانی صدیقی علیہ الرحمۃ نے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کا مطالبہ
کیااور مسلمان کی آئینی وفقہی تعریف میں یہ جملہ کہ’’ مسلمان کیلئے لازم ہے
کہ وہ حضرت محمدﷺ کو ہرلحاظ سے آخری نبی مانتاہو‘‘شامل کرکے قادیانیت پرکا
ری ضرب لگائی۔ قادیانیوں کو خارجِاسلام قرار دینے کی تحریک وقرارداداور
عقیدہ ختم نبوت سے متعلق قانون سازی ، پاکستان کے آئین میں ’’اسلام‘‘ کی
آئینی وفقہی تعریف کو شامل کرنے میں علامہ نورانی نے جو کلیدی اورمرکزی
کردار اداکیا وہ ایک تاریخ سازاور ناقابل فراموش کارنامہ ہے۔
سات دن آٹھ راتیں
فتنۂ قادیانیت اور اس کے ردّ اور سدباب کیلئے ہمیں وہ محنت وجدوجہد، عمل
پیہم اور کردار ادا کرنا ہوگا جو ہمارے بزرگوں اوراسلاف نے ادا کیا تھا۔
مجاہد ملت مردغازی مولانا عبدالستار خان نیازی رحمتہ اﷲ علیہ کو1953کی
تحریک ختم نبوت میں پروانۂ شمع ختم نبوت کا کرادادا کرنے پر سزائے موت کا
حکم ہوا مگر جیل کی قید،صعوبتیں اور پھر موت کی سزا سن کر آپ نے جس عزم
وحوصلہ اور جرأت واستقامت اور جذبہ ایمانی کا مظاہرہ کیا، وہ تاریخ ِعشق
رسالت ﷺکا ایک روشن باب ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’ جب تحریک ختم نبوت کے مقدمہ کے بعد میری رہائی ہوئی اور پریس والوں نے
میری عمر پوچھی تو میں نے کہا کہ…… ’’ میری عمر وہ سات دن اور آٹھ راتیں
ہیں جو میں نے ناموس مصطفیﷺ کے تحفظ کی خاطر پھانسی کی کوٹھڑی میں گزار دی
ہیں، کیونکہ یہی میری زندگی اور باقی شرمندگی ہے، مجھے اپنی اس زندگی پر
ناز ہے‘‘۔
اس وقت مملکت خدداد پاکستان کے علاوہ مملکت سعودی عرب، ملائیشیاء، مصر،
انڈونیشیاء اور دیگر کئی مسلم ممالک کی حکومتوں نے بھی قادیانیوں
کوکافراورغیرمسلم قرار دے دیا ہے، حتی کہ جنوبی افریقہ کی ایک غیر مسلم
عدالت نے بھی قادیانیوں کوغیر مسلم قرار دیا ہے۔ مسئلہ قادیانیت اور تحفظ
عقیدۂ ختم نبوت وناموس رسالت ﷺ سے نئی نسل کوآگاہ کرناہمارا قومی، دینی اور
ملی فریضہ ہے بلکہ ہمارے ملک وملت اور مملکت خداداد کی داخلی اور خارجی
بقاء وسلامتی اوراستحکام کا لازمی تقاضا ہے۔
امید ہے کہ اس سلسلہ میں ملکی اخبارات ،رسائل اورالیکٹرانک میڈیا کے
ایڈیٹرز،اینکرزاورکالم نویس بھی اپنا اپنا قومی ومذہبی کردار ضرور ادا کریں
گے اور اس فتنہ سے نوجوان نسل کو آگاہ کرتے رہیں گے تا کہ ہماری نوجوان نسل
اس فتنہ کی سازشوں اورچالوں سے محفوظ رہ سکے اور اس کا خاطر خواہ مقابلہ کر
سکے۔
ہدایت اور صراط مستقیم کا راستہ
جب مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تو بہت سے ناواقف
اور سادہ لوح لوگ فتنہ ٔ قادیانیت کو سوچے سمجھے بغیر اس سے وابستہ ہو گئے۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے قرآن پاک کی جعلی اور من گھڑ ت تفسیر اور نبوت
کی خود ساختہ (بنائی ہو ئی ) اقسام بیان کر کے سادہ لوح لوگوں کو یہ باور
کرایا کہ اس کا دعویٔ نبوت مسلمانوں کے اجتماعی اور اتفاقی عقیدۂ ختم نبوت
سے متضاد اور متصادم نہیں ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، لیکن اب چونکہ
پوری اُمت ِ مسلمہ نے قادیانیوں کو کافر وغیر مسلم قرار دے دیا ہے
اورپاکستان میں اس کی سرکاری اور آئینی حیثیت بھی منوالی ہے تو اب ان حضرات
کو (جو مرزا قادیانی کو نعوذباﷲ مسیح موعود یا نبی یامجدد مانتے ہیں) یہ
سوچنے اور سمجھنے کا موقع ضرور ملے گا کہ محض چند لاکھ قادیانیوں کے مقابلے
میں کروڑوں اربوں مسلمان جھوٹے نہیں ہو سکتے۔
معلوم ہو نا چاہئے کہ کروڑوں مسلمانوں کے خلاف قادیانیوں نے (انگریزوں کی
سرپرستی اور سازش میں)جو ایک الگ راستہ اختیار کیا ہے تو وہ ہدایت اور صراط
مستقیم کیسے ہو سکتا ہے ؟سوال ہی پیدا نہیں ہو تا کہ کروڑوں اربوں مسلمانوں
کے خلاف راستہ اختیار کرنے پر یہ لوگ صحیح راستے پر ہوں بلکہ اس عقیدے پر
تو دنیا بھر کے تمام مسلما ن چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ سے قائم ودائم ہیں
جب کہ قادیانی حضرات کا یہ عقیدہ تو ایک صدی پہلے کا بنایا ہوا اور گھڑا
ہوا ہے،لہٰذا کئی صدیوں پر محیط مسلمانوں کا یہ اجماعی اور اتفاقی عقیدہ
کیسے غلط ہو سکتا ہے؟لہٰذا تسلیم کرنا پڑے گا کہ قایادنی حضرات کا یہ عقیدہ
نہ صرف خود ساختہ ومن گھڑت ہے بلکہ انگریز وں کی سازش کا منہ بولتا ثبوت
ہے۔
بہت حدتک یہ ممکن ہے کہ اس موڑ پر آکر نئے قادیانی حضرات کا ذہن رخ بدلے
اوروہ اسلام کے اس اجماعی اور اتفاقی عقیدۂ ختم نبوت پر غور وفکر کریں اور
اگروہ نہیں سوچتے تو ہم انھیں غور وفکراورسوچنے کی دعوت دیتے ہیں اور اس
موقع پر یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کے سامنے ازسر نو اسلام پیش کیا جائے
اور انھیں بتا یا جائے کہ حضور تاجدار ختم نبوت حضرت محمدمصطفیﷺپر اﷲ
تعالیٰ نے نبوت ورسالت کا عظیم سلسلہ ختم کر دیا ہے، لہٰذا آپ ﷺ کے بعد اگر
کوئی کسی قسم کی نبوت اور نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ اپنے دعویٰ میں
جھوٹا وکذاب ہے اور کافر وغیر مسلم ہے اور اس کو ماننے والا بھی اسی طرح کا
کافر ومرتد اورغیر مسلم ہے۔ البتہ پہلے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت پیش کی
جائے اور عقیدۂ ختم نبوت کے بارے میں ضرور آگاہ کرکے حجت قاطعہ(Decisive
Evidence)اور مضبوط دلائل (Strong Proofs) قائم کرنے چاہئیں پھر بھی اگر وہ
ایمان نہ لائیں اور اسلام قبول نہ کریں تو پھر ان سب (قادیانیوں، مرزائیوں
اور احمدیوں) سے ہرسطح پرقطع تعلق وسماجی مقاطعہ (Social Boycott) کرنا ہر
مسلمان پر فرض ہے۔
قادیانیوں کو دعوت اسلام
قادیانی حضرات کو چاہئے کہ وہ دوبارہ اسی دینِ حق اور ملت اسلامیہ کی طرف
لوٹ آئیں جسے حضور خاتم الانبیاءﷺ لے کرآئے ہیں اور جس دین میں حضور اکرم ﷺ
کے بعد کسی اور نبی کی بعثت کاکوئی تصور بھی نہیں ہے۔ ایک ایسے جھوٹے اور
کذاب شخص کی خاطر اپنا دین وایمان اور زندگی وآخرت کو کیوں برباد کریں کہ
جس کا کلام متضاداورجھوٹا، جس کا کردارشرمناک،جس کی ہر پیشین گوئی غلط اور
جھوٹی، جس کی زندگی کفار وانگریزوں کی چاپلوسی، جس کا ہرقول وفعل جھوٹ
وفریب اورمکاری سے بھرپور اور جس کی زندگی اورموت دونوں عذابِ الٰہی کی
بھیانک صورت تھیں۔
ہم انتہائی عاجزی اور دردمندی کے ساتھ قادیانی حضرات سے یہ گزارش کرتے ہیں
کہ ایمان ایک انتہائی قیمتی اوربے بہا دولت ہے، اس عظیم دولت کو اس شخص پر
لٹاکرضائع نہ کریں، جس کی نبوت تو کیا ایمان بھی ثابت نہیں ہے۔ آئیں اور
جلد آئیں جعلی ونقلی اور بنائی ہوئی نبوت کو چھوڑ کر صرف اﷲ تعالیٰ کے آخری
نبی ورسول حضرت محمد مصطفیﷺ کی نبوت کو تسلیم کریں جس کی نبوت ہر قسم کے شک
وشبہ سے بالکل پاک، دلائل سے معمور اورآئندہ بعثت کے ختم ہونے کی علامت ہے۔
وہ عظیم الشان نبی جو حوض کوثر کامالک، شفیع المذنبین، رحمۃ للعالمین اور
سید المرسلین وخاتم النّبیین ﷺہے۔اسے چھوڑ کر کسی جھوٹے وکذاب اور کافر
وغیر مسلم شخص کو نبی مان لینا ہرگز ہدایت اور نجات کا راستہ نہیں ہے۔
پس اے راہِ حق کے طلب گارو! اگر تم واقعی حق وصداقت کی تلاش رکھتے ہو تو
قادیان اور جھوٹے قادیانیوں کو چھوڑ کر انتہائی سچے اور صادق وامین نبی
محمد عربیﷺ اور آپ کے غلاموں کی صف میں آجاؤ اور ایمان واسلام کی لازوال
اور انمول دولت دوبارہ پاکر جنت الفردوس میں محلات وباغات کے حق دار بن
جاؤ۔
یاد رکھنا چاہئے کہ نیکی اور نیک کام میں ہرگزہرگز دیر اورسوچ نہیں کرنی
چاہئے اوریہ صرف ایک نیکی اور نیک کام ہی نہیں بلکہ ایمان اور جنت الفردوس
ایسی ابدی حیات کا کام ہے، لہٰذا جس قدر جلدی ممکن ہو ایمان اور اسلام کی
طرف لوٹ دوبارہ لوٹ آئیں۔ آپ کو تمام مسلمان نہ صرف دل سے خوش آمدید
(Welcome) کہیں گے بلکہ آپ کے دست وبازوبن کر اﷲ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺکے
بعدآپ کے حامی وناصر اور معاون ومددگاربنیں گے۔
آخر میں میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو راہِ حق اور صراطِ
مستقیم پر چلنے اور اس پر قائم ودائم رکھے تا کہ ہم اسلام کی تبلیغ واشاعت
اور ناموس وعظمت رسالتﷺ کی حفاظت وپاسبانی کیلئے اپنا تن من دھن قربان کرتے
رہیں اور یہ سب کچھ بارگاہِ خداوندی اوردربار ِمصطفوی ﷺمیں قبول ہو جائے۔
آمین ثم آمین فتح بابِ نبوت پر بے حد درود
ختم دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام |
|