19اگست یوم استقلال ِ افغانستان

افغانستان جس کے جنوب و مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران ، شمال اور مشرق میں چین ، شمال میں ترکمستان، ازبکستان اور تاجکستان واقع ہیں۔ جس طرح افغانستان ایک تاریخی ، مذہبی اور ثقافتی تعلق رکھتا ہے اسی طرح افغانستان کے اپنے پڑوسیوں سے بھی گرہے تاریخی علقات ہیں۔افغانستان کی سرز میں ایرانیوں، یونانیوں ، عربوں ، ترکوں ، برطانیوں ، روسیوں اور حالیہ امریکہ کی جارحیت کا شکار رہا مگر افغانی قوم نے بیرونی طاقت کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔ ایک ملک کے طور اٹھارویں صدیی کے وسط میں احمد شاہ درانی کے دور میں یہ ابھرا ، اگرچہ بعد درانی سلطنت کے کافی حصے اردگرد ممالک کے حصے بن گئے۔8اگست 1919ء میں امان اﷲ خان نے انگریزوں کے صوبہ سرحد میں واقع لق و دق بے آب و گیا و چھوٹے سے شہر تھل پر قبضہ کرلیا ،1949ء میں پاکستان نے تھل ڈیولپمنٹ پروجیکٹ بنایا ، اس طرح اامان اﷲ خان کے قبضے کے تیس برس بعد آباد کاری شروع ہوئی۔1990ء میں شاہ امان اﷲ خان کی قیادت میں انگریزوں سے افغانستان آزاد ہوا ، جس کے بعد افغانستان صحیح معنوں میں ایک ملک بن کر ابھرا ، مگر انگریزوں کے دور میں اس کے بیشتر علاقے حقیقت میں آزاد ہی تھے اور برطانیہ کبھی اس پر مکمل قبضہ نہیں رکھ سکا۔19اگست 1922ء کا دن یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔جبکہ22نومبر1922ء کے دن افغانستان کی آزادی تسلیم کرکے ماہانہ سولہ ہزار روپیہ وظیفہ مقرر کردیا جو موجودہ وقت کے مطابق ماہانہ چار کروڑ روپیہ سے زائد بنتا ہے۔بعض پختون افغان قوم پرست امان اﷲ خان جیسے انگریز دشمن غیور حکمران کیلئے وظیفہ کے نام پروصول رقم پر اظہار ناراضگی کرتے ہیں کہ اگر امان اﷲ خان اس رقم کو قبول نہ کرتا تو اچھا ہوتا ، بلکہ امیر یعقوب خان کے امیر بننے کے دن سے21فروری 1879ء سے21 نومبر 1921ء تک یعنی ساڑھے اکتالیس برس ۔

گو کہ19اگست کا دن افغانستان کیلئے انگریزوں سے آزادی کا دن قرار دیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی آزادی کا دن بدھ22فروری1708ء ہے یعنی جب میرویس غلزئی نے اسے ایران کے قبضے سے آزاد کرکے آزاد افغان کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان قوم کی مکمل تاریخ دیکھی جائے تو 1738ء سے آج تک ترسٹھ سال سے زیادہ غیر پائیدار ، نیم یا مکمل بیرونی جارحیت کی وجہ سے افغانستان کے کچھ حصوں پر بیرونی طاقیتں قابض رہ چکی ہیں۔ افغانستان عملی طور پر گذشتہ 36سال سے زائد مسلسل حالت جنگ میں ہے ، افغانستان کو تباہ و برباد کردیا گیا ہے ، کئی نسلیں تباہ ہوگئیں ۔افغانستان کے پاس تیل یا دوسرے وسائل کی کمی ہے مگر اپنی جغرافیائی حیثیت کے سبب وہ وسطی ایشیا ، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی کے درمیان واقع ہے اسی وجہ سے جنگ لحاظ سے استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اپنا قبضہ جمانے کیلئے افغانستان کی سرزمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی بھی تادیر تک اس مملکت پر قابض نہیں رہ سکا کیونکہ یہاں کی غیور قوم نے بیرونی طاقتوں کو کبھی مضبوط ہونے کا موقع نہیں دیا ، نتیجے میں اس ملک کو کبھی بھی لمبے عرصے کیلئے امن نصیب نہیں ہوسکا ۔642ء میں مسلمانوں نے اس علاقے کو فتح کیا مگر یہاں کے حکمران علاقائی لوگوں کو ہی بنایا۔ پہلے یہ حکمرانی خراسانی عربوں کے پاس رہی ،998ء میں محمودغزنوی ، جسے1146ء میں غوریوں نے شکست دیکرغزنی تک محدود کردیا،یہ سب مسلمان تھے مگر1219ء میں چنگیز خان منگولوں نے افغانستان کو تاراج کیا ، ہرات ، غزنی اور بلخ کو مکمل تباہ کردیا ، بعد میں منگول خود مسلمان ہوگئے حتٰی کہ تیمور نے چودھویں صدی میں ایک عظیم سلطنت قائم کرلی، اسی کی اولاد سے شہنشاہ بابر نے کابل کو سولہویں صدی کے شروع میں پہلی دفعہ اپنا دارالحکومت قرار دیا۔شمالی حصہ پر ازبک، مغربی حصے پر ہرات سمیت ایرانی صفویوں اور مشرقی حصہ پر مغل اور پشتوں قابض رہے ،1709میں پشتونوں نے میرویس خان ھوتک کی قیادت میں صفویوں کے خلاف جنگ لڑی اور 1719ء میں ایرانی بادشاہ نادر شاہ نے انھیں واپس دھکیلا اور ان کے قبضے سے تمام علاقے چھڑائے حتٰی کہ1738میں قندھار اور غزنی پر بھی قبضہ کرلیا جو 1747تک جاری رہا۔پشتونوں اور فارسی بولنے والوں کی یہ کشمکش آج بھی جاری ہے حالانکہ دونوں مسلمان ہیں۔

امیر دوست محمد خان نے کابل کی حکومت1826ء میں سنبھال کر روس اور ایران سے تعلقات بڑھانا شروع کئے کیونکہ پنجاب پر سکھ قابض ہوچکے تھے اور انگریزوں نے اپنی روایتی چالاکی مکاری کے ہاتھوں مجبور ہوکر سکھوں اور دہلی کے شاہ شجاع کے ساتھ ملکر افغانستان میں سازشوں کے جال بُبنا شروع کردئیے تھے۔حالاں کہ دونوں بظاہر انگریزوں کے دشمن تھے لیکن شاہ شجاع انگریزوں کی جانب سے کابل کر قبضے کے سبز باغ کے جھانسے میں آچکا تھا۔انگریز ، روسیوں سے خائف تھا اس لئے اس نے افغانستان میں اپنا ثر قائم کرنے کیلئے مکارانہ سازش بنائی جیسے" عظیم چالبازیوں" (The Great Game)کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔انگریزوں نے دو جنگیں لڑیں ، پہلی جنگ 1842-1839)) اس وقت ہوئی جب ایرانیوں نے ہرات کو لوگوں کے ساتھ ملکر انگریزوں اور روسیوں کو افغانستان سے بے دخل کرنے کیلئے افواج پورے ملک میں روانہ کیں ، انگریزوں نے کابل پر قبضہ کرکے دوست محمد خان کو گرفتار کرلیا ، لیکن افغانیوں نے برطانوی فوج کے ایک حصے کو مکمل طور پر قتل کردیا جو سولہ ہزار افراد پر مشتمل تھی جس میں داستان سنانے کیلئے صرف ایک فرد کو زندہ چھوڑا گیا ، انگریز مدتوں اس زخم کو چاٹتا رہا اور مجبوراََ انگریزوں نے دوست محمد کو رہا کردیا ، بعد میں دوست محمد خان نے ہرات کو بھی فتح کرلیا ، دوسری جنگ 1880-1878اس وقت ہوئی جب امیر شیر علی نے برطانوی سفارت کاروں کو کابل میں رہنے کی اجازت نہیں دی ، اس جنگ کے بعد انگریزوں کی ایما پر1880ء میں امیر عبدالرحمن نے افغانستان کا اقتدار حاصل کرلیامگر عملاََ حکومت کے خارجی معاملات انگریزوں کے پاس رہے۔اسی اثر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انگریزوں نے افغانستان کے ساتھ سرحدوں کے تعین کا معاہدہ کرلیا تاکہ افغان قوم منقسم ہوکر کمزور ہوجائے ، امیر عبدالرحمن کے بیٹے امیر حبیب اﷲ اٖغانستان کے بادشاہ بنے ، افغانستان میں مغربی مدرسے کھلے ، اثر بڑھا ، اگرچہ بظاہر انگریزوں نے افغانستان کو ایک آزاد ملک کے طور تسلیم کیا ۔ 1907ء میں امیر حبیب اﷲ خان نے انگریزوں کی دعوت پر برطانوی ہند کا دورہ بھی کیا اور اس عمل کو سخت نا پسند کیا گیا اور امیر حبیب اﷲ کو اس کے رشتے داروں نے20فروری1919ء کو قتل کردیا ، اس کے قتل کے بعد امیر امان اﷲ خان بادشاہ بن گیا اور انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی مگر19اگست1919کو اس کے اور انگریزوں کے درمیان راولپنڈی میں ایک معاہدہ ہوا جس میں انگریزوں نے افغانستان پر اپنا کنٹرول ختم کیا اور اختیار واپس کردیا اسی وجہ سے افگانستان کی یوم آزادی کا دن 19اگست1919ء کے طور پر 2007ء میں یوم استقلال یا جشن کابل منایا گیا۔جس میں ایک بڑی سرکاری تقریب میں پاکستان کے صدر ، وزیر اعظم ، گورنر بلوچستان خیبر پختونخوا اوپر پختون قوم پرست رہنماؤں کے علاوہ افغان جرگہ کے 600 اراکین نے بھی شرکت تھی۔لیکن کیا واقعی یہ افغانستان کی آزادی کا دن ہے ، تاریخ افغان تو یہ ثابت نہیں کرتی ۔ ماضی کی سینکڑوں سال کی تاریخ میں جھانکنے کے بجائے اپنے حال پر ہی نظر ڈال لیتے ہیں کہ27 دسمبرسال 1979ء روسی جارحیت )ماسکو میں بیبرک کارمل کا افغانستان میں اقتدار حاصل کرنے کا دن)کے اگلے ہی دن 85ہزار روسی افواج نے افغانوں کی آزادی ختم کردی اور بعد میں پندرہ لاکھ سے زائد افغان جاں بحق ہوئے، لاکھوں عورتیں بیوہ ، بچے یتیم ، اور لاکھوں جمانی معذور اور زہنی مریض بن گئے ، ستر لاکھ افغانی افغانستان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔یا پھر 27دسمبر1996ء جب ملا محمد عمر نے افغانستان سے فرنگیوں کے نمائندوں کو قائم کرکے خلافت کی بنیاد رکھنے چاہی یا پھردنیا کے نزدیک مذہبی انتہا پسندوں کی خلافت ہونے کا دن جب16اپریل2001 ء امریکہ نے افغانستان کی آزادی ختم کرکے حامد کرزئی کو 22دسمبر2001ء میں اپنے نمائندے کی حیثیت سے افغانستان کا صدر بنا دیا۔افغانستان حقیقی معنوں میں آزاد کب ہوا کب آزادی سلب ہوئی ، کب اس پر قبضہ ہوا اور پھر اس کی آزادی ہوئی، کیا اب بھی افغانستان آزاد ہے ، لیکن دسمبر کا مہینہ افغانستان کی تاریخ میں آزادی و جارحیت کا مہینہ ضرور ہے۔آج افغانستان ، پاکستان کیلئے حامد کرزئی کی پالیسی دوبارہ اپنا رہا ہے ۔لیکن اس کا کیا فائدہ ، افغانستان پر ہمیشہ بیرونی جارحیت ہوتی رہی ہے ۔ایران ،یونانیوں ، عربوں ، ترکوں ، برطانیوں ، روسیوں اور حالیہ امریکہ نے ہی افغانستان کو تاراج کیا ہے ، پاکستان اپنی خارجہ پالیسی استعماری طاقتوں سے آزاد کرانے میں مصروف ہے اس مرحلے پر افغانستان کو پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ افغانستان کے ساتھ پاکستان بھی امریکہ ، بھارت ، روس اور ایران کے افغانستان کے غلبے کی منصوبہ بندیوں سے آزاد ہوسکے۔پر امن افغانستان اور پر امن پاکستان کی حقیقی آزادی جب ہی کہلائی جائے گی جب بیرونی استعماری طاقتیں پاکستان اور افغانستان کو اپنی سازشی منصوبوں اور جارحیت سے باز آجائیں۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 662056 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.