سپریم کورٹ کے ایک معزز جج محترم جواد ایس خواجہ نے گذشتہ
ماہ میں پاکستان میں اردو کے نفاذسے متعلق فیصلہ دیا۔ فیصلہ کا آنا تھا کہ
امی ابو کے بہت ہی لاڈلے قسم کے عوام کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگ گئے۔کیونکہ
ان کو یہ خوف پیدا ہو گیا تھا اور جائز ہوا تھا کہ اگر اردو زبان پاکستان
میں بچے کے کان میں اذان دینے کے بعد سے اسکا جنازہ پڑھنے سے پہلے تک مکمل
طور پر نافذ کر دی گئی تو انکا تیا پانچا ہو جائے گا۔ کیونکہ ان کو اپنی
انگریزی پر ناز ہے، اور یہ انگریزی ان کے آقا کی زبان ہے۔ اور زمینی آقا کب
چاہتا ہے کہ ان کے ذہنی، زبانی غلام کسی بھی لحاظ سے ان سے آزادی حاصل کر
سکیں۔لیکن وہ کیا ہے کہ وقت ضرور بدلتا ہے، اور بدلہ لیتا ہے، چاہے صورتِ
حال کوئی بھی ہو۔ بس اسی طرح ہوا۔ سپریم کورٹ نے حکم صادر کر دیا کہ تین
ماہ کے اندر اندر پورے پاکستان میں اردو کے نفاذ کے لیے کام شروع کر دیا
جائے۔وہ کہتے ہیں نا کہ جو بولے وہی کنڈی کھولے۔ تو جواد ایس خواجہ صاحب نے
بھی سب سے پہلا کام یہی کیا کہ انھوں نے چیف جسٹس کی سیٹ سنبھالتے ہی اردو
میں حلف لیا۔ اس کے بعد آفس کے باہر اپنا نام بھی اردو میں لکھوایا۔
کسی نہ کسی کو تو آغاز کرنا پڑتا ہے۔تو جواد صاحب ابتدأ کر دی۔اب اس کام کو
اوجِ ثریا تک ہم نے پہنچانا ہے۔ اس عوام نے پہنچانا ہے۔ اس پیارے وطن کی
آبادی کا ۵۶ فیصد حصہ پڑھا لکھا ہے۔ اور پڑھے لکھے ہونے کی تعریف ۱۹۸۸ کی
مردم شماری میں یہ کی گئی ہے کہ وہ شخص جو اخبار پڑھ سکتا ہو اور کسی بھی
زبان میں سادہ اور آسان خط لکھ سکتا ہو۔ اس تعریف سے ہٹ کر بہت سے ایسے
افراد بھی اخبار پڑھ سکتے ہیں جو لکھنا نہیں جانتے۔ اخبار پڑھ کر باقاعدہ
سمجھتے بھی ہیں۔ یہ ایک خداداد صلاحیت ہوتی ہے۔اب اﷲ کرے کہ خیر و عافیت سے
پاکستان میں اردو باقاعدہ عملی طور پر نافذ ہو جائے۔ ہر کام چاہے وہ لکھنے
کا ہو، یا پڑھنے کا ہو یا تقریر جھاڑنے کا ہو یا جوشِ خطابت ہو، اردو ہی
اردو نظر آئے تو ان لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا جو صرف اخبار پڑھ سکتے
ہیں۔پہلے تو کوئی سرکاری خط ان کے نام آتا تھا تو وہ بے چارے میرے جیسے کسی
جاہل کے پاس جاتے تھے کہ پڑھ کر اور پھر ترجمہ کر کے سنائے۔ اور جو ترجمہ
میں سناتا تھا وہ پچاس فیصد اس خط کا ترجمہ ہوتا تھا اور پچاس فیصد میرا
اپنا۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ ان کامقصد اس ترجمے سے حل نہیں ہوتا تھا۔ اب
فائدہ ہو گا کہ وہ لوگ خود کسی بھی تحریر کو جو ان کی موجودگی میں لکھی
جائے گی، یا جن پر انھوں نے دستخط کرنا ہو گا، آسانی سے پڑھ لیں گے۔ان کو
آسانی سے نہ سہی، تھوڑی دقت سے ہی ، کم از کم سمجھ تو آئے گی۔
مجھے فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں اور پاکستان کی قومی زبان اردو روانی سے
بولتا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ لہجہ نستعلیق نہیں بنا سکتاکہ مادری زبان کچھ
اور ہے، جوانی کسی اور زبان والوں کے ساتھ گزاری، عملی زندگی میں قدم رکھا
تو انگریزی پلے پڑی۔ لیکن پھر بھی الحمدﷲ دقیق اردو نہ سہی، سلیس اردو سے
کام چلا لیتا ہوں۔ اب جب کہ پاکستان میں اردو کا ان شاء اﷲ عملی طور پر
نفاذ ہونے جا رہا ہے تو مجھے اپنی ذہنی استطاعت پر اتنا بھروسہ ہے کہ جو
دقیق و ثقیل قسم کی اصطلاحات مختلف مضامین کے حوالے سے تحریر کی جائیں گی،
پہلی بار میں نہی تو دوسری، تیسری مرتبہ جب نظر سے گزریں گی تو ان شاء اﷲ
دماغ میں بیٹھ جائیں گی اور سمجھ بھی آئے گی۔ اب بے شک قانونی ، سائنسی،
تکنیکی اصطالاحات میرے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں لیکن جلد یا بدیر وہ
ہمارے قابو میں ہوں گی اور ہم دھڑلے سے اپنی اردو دانی کا رعب آکسفورڈ سے
پڑھنے والوں پر ڈال سکیں گے۔ نہ صرف میرے جیسے موجودہ جوانی ڈھلکے جوان
بلکہ ہمارے بچے بھی بہت آسانی سے اردو میں مہارت حاصل کرکے زندگی کے نصابی
میدان میں کامیابیاں سمیٹیں گے۔ میر ا نہیں خیال کہ کوئی کیمبرج یا آکسفورڈ
سے پڑھنے والا اردو میں منعقد کیے گئے کسی امتحان میں ان سے آگے بڑھ سکیں۔
ایک پریشانی جو ابھی تک اردو کے مخالفین کو گھیرے ہوئے ہے کہ پھر ان سکولوں
کا کیا بنے گا جو ایک ایک ماہ کی ایک کلاس کی ہزاروں روپے فیس لیتے ہیں اور
بچوں کو انگریزی میں مسکرا کر ڈانٹتے ہیں اور بچہ سمجھ رہا ہوتا کہ ٹیچر نے
اسے شاباش دی ہے۔ان سکولوں کا کیا بنے گا جس کا سارا نصاب ہی انگریزی میں
ہے۔ تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پہلے اساتذہ کو اردو پڑھانے کی مشق کرائی
جائے، ان کی تربیت کی جائے جو زیادہ نہیں تو ایک ماہ کے عرصہ میں آسانی سے
دی جا سکتی ہے۔جہاں تک نصاب کا تعلق ہے اس میں اصطلاحات کا ترجمہ کرنا ہی
مشکل ہے۔ جہاں تک میرا ناقص علم ہے مقتدرہ قومی زبان کے ادارے نے ، جس کے
بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ اس نے صرف پیسہ کھایا ہے، کیا کچھ بھی نہیں،
اردو زبان کے نفاذ کے لیے بھرپور تیاری کر لی تھی۔ ۱۹۸۸ میں یہ ادارہ
پاکستان میں موجود ہر قانون، اصول و ضوابط کا اردو ترجمہ کر چکا تھا۔ تین،
چار اردو لغات بھی وہ تیار کر چکا تھا۔یہاں تک کہ ہزاروں کی تعداد میں
مختلف تکنیکی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کر چکا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ
بات صحیح ہے یا غلط لیکن میرے علم میں یہ بات کافی عرصہ پہلے آئی تھی اور
اب یاد آئی ہے تو لکھ دیا۔
اﷲ کرے یہ بات درست ہو۔ اگرسچ ہے تو پھر اردو کے نفاذ کا گویا اسی فیصد کام
تو مکمل ہے۔ صرف ان لغات کی نقول تیار کرنی ہیں اور تمام صوبوں کو بھیج
دیں۔ وفاق کو بھیج دیں کہ سب اپنے اپنے دائرہ اختیار میں اس کو پھیلا دیں
اور ساتھ ساتھ میں وہ قوانین و اصول و ضوابط بھی بھیج دیں جو ترجمہ ہو چکے
ہیں۔کیا مضائقہ ہے اگر یہ سب ہو جائے۔ لیکن اگر مقتدرہ قومی زبان کے بارے
میں پیسہ کھانے والی بات درست ہے تو پھر سپریم کورٹ سے تین ماہ کا وقت کم
ہے۔ کیونکہ تین ماہ میں تو صرف چھوٹے موٹے کام ہی ہو سکتے ہیں۔ قوانین کے
تراجم، جرائم سے متعلق قوانین کو اردو میں ڈھالنا بھی ایک کام ہی ہے اور
کافی محنت طلب کام ہے۔لیکن ہمت مرداں مددِ خدا کے مصداق کوئی بھی چیز دنیا
میں ناممکن نہیں۔کامیابی حاصل کرنے کے لیے بس ایک قدم بڑھانا ضروری ہے، اور
پھر قدم بہ قدم ہر گام پر منزل قریب سے قریب تر ہوتی چلی جاتی ہے۔سب کچھ
ممکن ہے، بس ہمت اور حوصلے کی بات ہے، لگن کی بات ہے۔
جناب جواد خواجہ صاحب نے اردو میں چیف جسٹس کا حلف اٹھا کر آغاز تو کر دیا
ہے، لیکن وہ ایک بات مشہور ہے کہ جو بندہ نیک ہوتا ہے اس کی طبعی عمر اتنی
ہی کم ہوتی ہے کہ اسکی نیکیاں انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح جناب
چیف جسٹس بھی ۲۳ دنوں کے لیے کرسئی قاضی القضاء کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔
مجھے انجانا سا خوف محسوس ہوتا ہے کہ ان ۲۳ دنوں میں تواربابانِ اختیار خوب
شد و مد سے اردو کے نفاذ کے لیے ظاہری طور پر کام کرتے نظر آئیں لیکن اُدھر
کرسی گئی، اِدھر اردو گئی نہ ہو جائے۔کیونکہ انگریزی کو آقا کی زبان کی
سمجھنے والے کب چاہیں گے کہ عوام کی سمجھ میں وہ کچھ آجائے جو وہ نہیں
چاہتے۔ لفظوں کے ہیر پھیر سے واضح معنی اخذ کیے جائیں کس کو گوارا ہے؟ کم
از کم گوروں کو تو نہیں۔ آیئے سب مل کر قدم بڑھائیں اور اردو قومی زبان بن
کر دنیا میں پہلے درجے پر پہنچ جائے۔ جب کہ ایک غیر سرکاری نتائج کے مطابق
اردو پہلے سے ہی دنیا کی اول درجے کی زبان ہے۔بچے بچے کی زبان پر کلمہ طیبہ
کے بعد اردو جاری ہو، یا پھر عربی کہ میرے نبی ﷺ کی زبان ہے۔ |