گلگت بلتستان کے سرکاری محکمے کرپشن کا گڑھ

گلگت بلتستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے قیام کو دوماہ ہونے والے ہیں، لیکن اب تک بیانات اور اعلانات کی حدتک ہی تبدیلی محسوس ہورہی ہے ۔عملی میدان میں کلی طوروہ کچھ نہیں جس کا دعویٰ کیا جا رہا ہے،اگرچہ دوماہ کی مدت زیادہ عرصہ نہیں ہے تاہم کچھ تو تبدیلی نظر آنی چاہئے ۔بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ تبدیلی نہ آنے کے کئی اسباب ہیں ۔پہلا سبب یہ ہے کہ تقریبا دو ماہ کا عرصہ ہونے کے باوجود مقامی بیوروکریسی اور مقامی اسٹبلیشمنٹ نے خوش دلی سے حافظ حفیظ الرحمن کی حکومت کو قبول نہیں کیاہے، اسی لیے مختلف مسائل کھڑے کیے جارہے ہیں۔مثلا گلگت جیسے شہر میں بجلی اور پانی کا اچانک شدید بحران پیدا کرنا،اعلانات کے باوجود سرکاری مشینری کی جانب سے سیلاب اور بارش متاثرین کی بحالی اور ان کی امداد میں دانستہ تاخیر اورعوامی شعبوں میں لوگوں کو پریشان کرنا شامل ہے ۔ضلع دیامر سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق سیلاب متاثرین کی حالت انتہائی تشویشناک حدتک خراب ہے۔ گورنر گلگت بلتستان برجیس طاہر اوروزیر اعلیٰ ؤگلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے مختصر دورہ تو کیالیکن ان کا یہ دورہ صرف دورے کی حد تک رہااور انتظامیہ عملاً متاثرین کی دادرسی ،امداد و بحالی کیلئے اس طرح سرگرم نہیں جس کی ضرورت ہے ۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خود حکومت کے بعض کے وزراء اور ارکان اسمبلی بھی فوٹو سیشن،مبارکباد کی دعوتوں اور پروٹوکول میں ہی مصروف ہیں ۔اگر چہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے گزشتہ ہفتے 100دن کے ہدف کے حوالے سے اپنی پریس کانفرنس میں کئی اہم اعلانات کئے ہیں ،جبکہ اسپیکر قانون ساز اسمبلی حاجی فدا محمد ناشاد کا دعوی ٰ ہے کہ 100دن میں90 فیصد مسائل حل کریں گے۔ موصوف کو یہ علم ہونا چاہیے کہ حکومت کی100 دن کی کارکردگی کا شمار پریس کانفرنس کے روز سے نہیں بلکہ حکومت کے قیام کے روز سے ہوگا اور اس طرح تقریبا 2ماہ کا عرصہ گزر چکاہے اب حکومت کے پاس اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے اور ہدف کے حصول میں سوا ماہ ہی باقی ہے ۔خطے کے موسمی حالات کے حوالے سے بھی حکومت کے پاس سرگرمیاں دیکھانے اور دور دراز علاقوں کے مسائل حل کرنے کیلئے دو سے تین ماہ ہی ہیں کیونکہ نومبر کے وسط سے دوردراز علاقوں سے رابطہ منقطع ہوجاتاہے۔

بیشتر حلقوں کا کہناہے کہ حکومت اگر کرپشن ، بدعنوان افسران اور ملازمین کی گرفت کرے تو آدھے مسائل ازخود حل ہوجائیں گے ،جو دانستہ طور پر مسائل پیدا کر رہے ہیں ،اس بات کی تحقیق کی جائے کہ ایک سے زائد شعبوں میں ملازمت کرنے افراد اور گھوسٹ ملازمین کی تعداد کتنی ہے اور ان کو فوری طور پر فارغ کیا جائے ۔گلگت بلتستان میں کرپشن کا یہ عالم ہے کہ صوبائی وزیر تعمیر ات ڈاکٹر محمد اقبال نے گزشتہ دنوں ایک تقریب کے دوران خود اعتراف کیاکہ’’ ان کا محکمہ انتہائی کرپٹ ہوچکاہے اور ان کے حلقے کیلئے واٹر اینڈ سیوریج کی مد میں ملنے والی 45کروڑ کی رقم محکمہ کے بجائے این جی او کے ذریعے خرچ کی جائے گی‘‘ یہ بات جہاں پر سرکاری محکموں میں کرپشن کا اعتراف ہے وہی پر وزیر موصوف کی جانب سے اپنی ناکامی کا اعتراف بھی ہے ۔کسی ایک حلقے کو ملنے والی رقم کسی این جی اوز کوکام کے لئے دینے کی بجائے محکمے کی اصلاح کرکے کام کرایا جائے تویہ تبدیلی ہے ۔یہ سوال بھی ہے کہ کیا دیگر ممبران بھی این جی اوز کے ذریعے ہی کام کروائیں؟ اگر این جی اوز کے ذریعے ہی کام کرانے ہیں تو محکمیں کس مرض کی دوا ہیں۔ضروت اس امر کی ہے کہ حکومت کو بلاامتیاز کرپٹ عناصر کے خلاف سخت قانونی کاروائی اور مخلص ملازمین کی حوصلہ افزائی کیلئے ضروری اقدام کرنے ہوں گے ۔

ذرائع کے مطابق گلگت بلتستان میں کرپشن اور دیگر بد عنوانیوں کے کی تحقیقات کے لئے ’’وزیر اعلیٰ معائینہ کمیشن‘‘کے نام سے ایک ادارہ کام کر رہا ہے جس نے اب تک مختلف شعبوں کے میں ہونے والی بدعنوانیوں ،غیر قانونی بھرتیوں اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کے حوالے سے کروڑوں روپے خرچ کرکے 150سے زائد تحقیقاتی رپورٹیں تیار کی ہیں ،جو اس وقت وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان کی ٹیبل پر ہیں ،ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض رپورٹوں میں میگا اسکینڈلز کا بھی انکشاف کی گیا ہے ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ان رپورٹوں پر کا رروائی کرے اور ایوان میں پیش کرکے کرپٹ عناصر کو بے نقاب کیا جائے ۔

یہ بات بھی خوش آئندہے کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے سرکاری مصروفیات کے باعث عام ملاقاتوں اور رابطوں کے لئے وقت متعین کیاہے تاہم انہیں میڈیا کے حوالے سے اپنی شیڈول میں کچھ ترمیم کرنی ہوگی کیونکہ گزشتہ دو ماہ کے حوالے سے بیشتر میڈیا نمائندوں کا دعویٰ ہے کہ ان کو مکمل طور پر نذر انداز کیا گیا ہے ، اس ضمن میں بعض میڈیا نمائندوں کو شدید تحفظات بھی ہیں جن کو دور کرنے کیلئے حافظ حفیظ الرحمن کو چاہیے کہ وہ صوبائی حکومت کے محکمہ اطلاعات اور وزیر اعلی ہاوس کے شعبہ اطلاعات کو متحرک اوران کی اصلاح کیلئے اقدام اور مناسب افراد کاانتخاب کریں، دور حاضر میں میڈیا سے زیادہ دوری مشکلات کا سبب بن سکتی ہے ۔یہ اطلاعات بھی ہیں کہ بعض عناصر گلگت شہر میں مصنوعی میڈیا نمائندے پیداکرکے میڈیا ورکزرکو کنارے لگانے میں مصروف ہیں اور اس میں بعض لیگی بھی ملوث ہیں،یہ تجربہ گزشتہ حکومت میں سید مہدی شاہ صاحب نے کیا جومکمل ناکام رہا ۔ وزیر اعلیٰ پر نظررکھیں اورن لیگ کے نام پر کوئی میڈیاورکرز کو تقسیم کرنے کی ساز ش کررہاہے تو اس کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی اورسخت گرفت کریں۔ حکومتی محکمہ اطلاعات کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے،ایسا لگتا ہے کہ یہ محکمہ صرف اشتہارات کی فراہمی تک ہی محدود رہ گیا ہے ، صرف اشتہارات کی فراہمی ہی میڈیا کی ضرورت نہیں بلکہ اطلاعات ہی اصل سرمایہ ہے ۔

گلگت بلتستان میں اس وقت تمام سرکاری محکمیں تباہ ہیں جن کی اصلاح نہایت ضروری،بصورت دیگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیلئے مشکلات کا سامنا ہوگا۔ ویسے بھی پیپلزپارٹی نے حکومتی پالیسیوں کے خلاف نہ صرف احتجاج کا اعلان کیاہے بلکہ آل پارٹیز کانفرنس کا بھی فیصلہ کیاہے تاہم خود پیپلزپارٹی کی مقامی قیادت کو اب تک یہ علم نہیں کہ وہ کون سی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے جارہی ہے،پیپلزپارٹی کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی جماعت کی تنظیم سازی کے ساتھ ساتھ آئندہ ہ انتخابات اور بلدیات کیلئے منصوبہ بندی کرے عوام کو غیر سنجیدہ اور ناقابل عمل نعروں میں الجھانے کے بجائے سنجیدہ اور تعمیری سیاست پر توجہ دے۔یہی عمل مجلس وحدت مسلمین ،اسلامی تحریک پاکستان، جمعیت علماء اسلام اور دیگر جماعتوں کو کرنا ہوگا ،کیونکہ اس وقت خطے میں مثبت اپوزیشن کی ضرورت ہے۔

موجودہ ارکان اسمبلی کے حوالے سے یہ خیال کیاجاتاہے کہ تعلیم یافتہ اور سنجیدہ ہیں لیکن 13اگست کو اسمبلی میں جو ناخوش گوار واقعہ پیش آیا وہ انتہائی افسوسناک ہے ،دو طرفہ غیر ذمہ د ارانہ زبان استعمال کی گئی ہے جو خطے میں لسانی منافرت کا سبب بن سکتی ہے، اس طرح کے اقدام سے گریز کرتے ہوئے خطے کے مجموعی مفاد کو مدنظر رکھناہوگا،اس ضمن میں معذرت کرنے سے قد چھوٹانہیں بلکہ اونچا ہوتا ہے دوطرفہ معذرت کی ضرورت ہے ۔یہ درست ہے کہ خطے میں چار نئے اضلاع کے قیام کے بعد خطے میں دو مزید اضلاع’’ ضلع گوپس یاسین‘‘ اور’’ ضلع داریل تانگیر‘‘ کا قیام وقت کی ضرورت ہے،اس کسی کو اعتراض ہو تووہ غلط ہے ۔ اضلاع کے اضافے کے بعد پورے صوبے میں کثیر الجہتی بنیادوں پر نئی حلقہ بندی ہونی چاہیے تاکہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو، اس ضمن میں وزیر اعلی گلگت بلتستان بھرپور کردار ادا کرسکتے ہیں،انہوں نے جہاں وفاقی حکومت کو چار اضلاع کے قیام پر راضی کیا وہاں مزید دو اضلاع کے قیام پر راضی کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106780 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.