مؤثرجواب دینے کاوقت آن پہنچا

یہ ایک حقیقت ہے کہ پچھلی تین دہائیوں سے زائدافغانستان میں ہونے والی شورش اوربے چینی کودنوں ،ہفتوں یامہینوں میں ختم کرنے کاخواب خودکودھوکہ دینے کے مترادف ہے لیکن بہرحال اس خطے میں ہونے والی تبدیلیوں سے جن استعماری قوتوں کے مفادات خطے میں پڑگئے ہیں،ان کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان میں امن کی کوششوں کوہرقیمت پر سبوتاژکیا جائے ۔ افغانستان کے دارلحکومت کابل میں خودکش کارحملہ اورجمعہ کے روزسی آئی اے کے پانچ کنٹریکٹرکوہلاک کرنے کے واقعے نے امریکاسمیت پوری دنیاکوورطۂ حیرت میں مبتلاکردیاہے کہ ملاعمرکے انتقال کے اعلان نے طالبان کے کچھ دھڑوں میں بڑھتے ہوئے اختلاف اور دوسری بہت سی افواہوں کے باوجود ایسامنظم حملہ کس طرح رونما ہوگیالیکن اس کے ساتھ ہی بہترہوتے ہوئے پاک افغان تعلقات کوبھی شدید نقصان پہنچانے کی ناپاک کوشش کی گئی ہے۔

افغان صدراشرف غنی نے اپنی کابینہ میں شمالی اتحادکے وزاراء کے شدیددباؤ پرپاکستان کے خلاف انتہائی سخت بیان داغ ڈالااورعبداللہ عبداللہ نے بھی پاکستان کے خلاف ایک بارپھرانتہائی ترش بیانات کاسلسلہ شروع کرتے ہوئے ایک نیامحاذکھول دیاہے۔اس خود کش حملے کے فوری بعدامریکانے فوری طور پرامن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کیلئے پاکستا ن اورافغانستان پردباؤ بڑھادیا ہے لیکن افغان صدراورعبداللہ عبداللہ نے جس ردّعمل کااظہارکیاہے اس سے مذاکرات کے دوبارہ شروع ہونے میں کچھ مسائل ضرور پیدا ہونے کاامکان ہے اوریہی امن دشمن قوتیں چاہتی ہیں ۔

افغان صدرنے کابل ،قندوزاورملک کے دیگرحصوں میں طالبان کی جانب سے شدیدحملوں کے بعدکابل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران دہمکی کے انداز میں کہاکہ پاکستان سے جنگ کے پیغامات موصول ہورہے ہیں اور اس طرح کے حملے پاکستان میں ہوگئے توپھرکیاہوگا۔ افغان صدرنے کابل میں اپنی پریس کانفرنس میںپاکستان پربراہِ راست الزامات لگائے کہ پاکستان افغانستان میں حالیہ حملوں کاذمہ دارہے۔ پاکستان اسلام کاحامی ہونے کے باوجودافغانستان میں بے گناہ شہریوں کی ہلاکت پرکیوں خاموش ہے۔ افغان حکومت امن مذاکرات چاہتی ہے تاہم مذاکرات اورحملے بیک وقت نہیں ہوسکتے۔اس کے جواب میں طالبان نے ان حملوں کی مکمل ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہاکہ ان کا ہدف غیرملکی ہیں اوررہیں گے ۔

عبداللہ عبداللہ نے بھارتی زبان میں بات کرتے ہوئے اپنے ردّعمل میں توحدہی کردی کہ پاکستان اپنی زمین پردہشتگردوں کی پناہ گاہوں کوتباہ کرنے اور دہشتگردی ختم کرنے کرنے میں ایمانداری سے افغان حکومت کی حمایت سے گریزاں ہے۔گزشتہ چنددنوں میں ملک میں دہشتگرد حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی ۔خودکش حملے میں ملوث یہ دہشتگردتنظیمیں پاکستان میں موجودہیں،ہمیں اسلام آبادسے امیدہے کہ وہ اس سلسلے میں افغان حکومت کا ساتھ دے گا ۔انہوں نے ملاعمرکی پاکستان میں موجودگی اوروفات کامعاملے اٹھاتے ہوئے الزام بھی لگایاکہ اس نے دوسال تک ملاعمرکی موت کوساری دنیاسے چھپائے رکھاجبکہ پاکستان نے ان تمام الزامات کوکلی طورپرمستردکر دیاہے۔

یادرہے کہ افغان وزیرداخلہ نورالحق علومی کاآبائی تعلق قندھارسے ہے اوریہ سابق افغان صدرنجیب اللہ کے دورمیں فوج میں لیفٹیننٹ جنرل اوربعدازاں ١٩٨٩ء سے لیکر١٩٩٢ء تک قندھارکے گورنربھی رہے ۔ طالبان کے نئے امیرملااخترمنصورکاتعلق بھی قندھارسے ہے اور موجودہ وزیرداخلہ نے اپنے دورِ حکومت کے دوران ملامنصوراخترکے خاندان اورقبیلے کے بیشتر افراد پربہت ظلم ڈھائے ہیں۔افغانستان کے باخبر ذرائع کادعویٰ ہے کہ''را''نے انتہائی مکاری سے خاندانی اورقبائلی عصبیت کافائدہ اٹھاتے ہوئے نورالحق علومی کو ان حالیہ واقعات میں استعمال کرکے الزام طالبان اورپاکستان پرتھوپ دینے کی سازش تیارکی ۔

ادھرطالبان نے افغان حکومت کومتنبہ کرتے ہوئے کہاکہ اگرطالبان کوتقسیم کرنے اوران میں اختلافات کے پروپیگنڈے کاسلسلہ جاری رہاتو امریکا اور موجودہ کٹھ پتلی حکومت مستقبل میں مزیدخوفناک حملوں کا سامناکرنے کیلئے تیارہوجائے۔طالبان ذرائع کے مطابق ایک طرف توامریکااوراس کی کٹھ پتلی حکومت مذاکرات کیلئے منت سماجت کررہی ہے اوردوسری طرف نہ صرف طالبان کوایک دوسرے کے ساتھ لڑانے کی سازشوں میں مصروف ہے بلکہ طالبان کے خلاف بعض علاقوں میں داعش کومددفراہم بھی کررہے ہیں،موجودہ حکومت کی یہی پالیسی مذاکرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔طالبان ذرائع کاکہناتھاکہ طالبان کے امیرکاانتخاب طالبان کاذاتی معاملہ تھاتاہم افغان حکومت نے امن دشمن قوتوں کے ساتھ مل کراسے ایک ایساایشوبنادیااوراس طرح کی غلط فہمیاں پیداکردیں جس کاجواب دینابہت ضروری تھا،اگر افغان حکومت سمجھتی ہے کہ وہ پاکستان پرالزام اوردہمکیاں دیکراپنے جرائم پرپردہ ڈال کرطالبان کوایسی کاروائیوں سے بازرکھ سکتی ہے تویہ اس صدی کی سب سے بڑی غلطی اوربھول ہے ۔

افغانستان میں طالبان کونہ صرف عوامی حمائت حاصل ہے بلکہ افغانستان کے کئی اہم علاقوں پرطالبان کاقبضہ اورمکمل عملداری ہے۔ایک طرف افغان صدر اشرف غنی کے نائب جنرل رشیددوستم فاریاب میں پشتونوں کوطالبان کا ساتھی قراردیکران کے گھروں اورقیمتی املاک کو آگ لگاکران پرقبضہ کررہے ہیں،ان کی جو تصاویرشائع ہوئی ہیں کہ وہ فرنٹ لائن میں کمانڈکررہے ہیں۔ ازبک اور تاجک جنگجوؤں میں وسیع پیمانے پراسلحہ تقسیم کیاجارہاہے اورانہیں لالچ دیکرطالبان کے خلاف لڑنے پرآمادہ کررہے ہیں جب کہ طالبان ازبک اور تاجکوں کے خلاف جنگ نہیں کررہے بلکہ طالبان کی لڑائی تو امریکیوں اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ہے اوردوستم اس لڑائی میں امریکا کاسب سے بڑا پٹھوہے ۔اگرافغان صدرکوامن میں دلچسپی ہے تو فی الفوراپنے نائب صدرکو برطرف کرکے اس کے خلاف سخت کاروائی کریں۔

عبداللہ عبداللہ کے نائب استادمحقق فرقے کی بنیادپر اسلحہ تقسیم کررہے ہیں اور ہزارہ برادری کوطالبان کے خلاف اکسارہے ہیں،اگروہ طالبان کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں تو طالبان کی جوابی کاروائی کوفرقہ وارانہ رنگ دیکربیرونِ ممالک سے پیسے بٹورنے کاایک نادرموقع مل جائے گا، اس لئے افغان صدرکوچاہئے کہ وہ جنرل دوستم کے خلاف کاروائی کریں جبکہ عبداللہ عبداللہ استادمحقق کو عہدے سے ہٹائیں۔Ghani & Abdullah دوسری طرف طالبان نے کہاہے کہ ہلمندمیں کئی فوجی ان کے ساتھ مل چکے ہیں۔ طالبان نے ان تمام فوجیوں کے نام بھی جاری کردیئے ہیں اور کہاہے کہ مزیدفوجی بھی جلدشامل ہورہے ہیں۔طالبان کایہ بھی کہناہے کہ حال ہی میں مری میں ہونے والے مذاکرات میں جنگ بندی پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا،اس لئے طالبان کاروائیوں میں آزادہیں۔ اگرطالبان کاروائی نہ کریں اورامریکاکو آپریشن مڈنائٹ کی آزادی ہوتویہ کیسے ممکن ہے کہ افغان عوام اپنادفاع بھی نہ کرے، اس لئے طالبان ،افغانستان میں مزید کاروائیاں کریں گے۔

دوسری جانب حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی کوملٹری آپریشن کمانڈر مقرر کرنے کے بعد گراؤنڈپرموجودکمانڈرمزیدحملوں کا ارادہ رکھتے ہیں۔سراج الدین حقانی کو افغانستان میں جنگ کے طویل تجربات اورمنصوبہ بندی حاصل ہونے کی وجہ سے ان کی حکمت عملی بھی کامیاب رہی ہے،جس طرح خوست میں سی آئی اے کے پانچ کنٹریکٹرزکو ہلاک کیاتھا،اسی طرح گزشتہ جمعہ کے روزکابل میں پانچ سی آئی اے کے اہلکاروں کواس وقت ہلاک کردیاگیاتھاجب وہ بکتربندگاڑیوں کے قافلے میں کابل ائیر پورٹ سے امریکا جانے والے تھے۔ طالبان نے حملے کی فوٹیج بھی جاری کی ہیں جس میں امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں کی تباہ شدہ گاڑی کے ڈھانچے دکھائے گئے ہیں۔افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہدکے مطابق میڈیانے نہ صرف ان گاڑیوں کی تصاویر دکھائی تھیں جوافغان حکومت کی تھیں جبکہ امریکی سی آئی اے کی گاڑیوں کی تصاویرفوٹوگرافرزنے تولی تھیں لیکن انہیں جاری نہیں کیاگیالیکن ان کے پاس اس واقعہ کی پوری فلم موجودہے اوروہ جلداس کوریلیزبھی کردیں گے۔

ادھرپاکستان،چین اورایران کی کوششوں کے بعد طالبان کے نئے امیرملا اختر منصور کی افغان حکومت سے امن بات چیت جاری رکھنے پر رضامندی کے اظہارکے بعدپاکستان نے رواں ماہ کے آخرمیں تیسرے دور کے مذاکرات کیلئے تیاریاں شروع کردی ہیں۔پاکستان کے مشیر قومی سلامتی وخارجہ امور سرتاج عزیزکا کہنا ہے کہ افغان حکومت اورطالبان کے مذاکرات کی بحالی سے ہی تشددکم ہوگا،اسی لئے کابل میں پاکستانی سفیرابرارحسین کوطلب کیا گیاتھا۔پاکستان میں افغان سفیربھی بعض اہم شخصیات سے رابطوں میں مصروف ہیں۔مذاکرات میں امریکااورچین بطورمبصرجبکہ پاکستان ثالث کے طورپرشریک ہے لیکن ان مذاکرات کوایک مرتبہ پھرسبوتاژکرنے کیلئے اٹک میں حالیہ خود کش حملے میں پنجاب کے وزیرداخلہ شجاع خانزادہ کی ہلاکت کے بعدمذاکرات مؤخرہوسکتے ہیں۔ اب یقینا ''را''کومؤثرجواب دینے کاوقت آن پہنچاہے!
 
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390153 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.