مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اپنی فکر انگیز تحریروں ٗ تجزیوں اور تبصروں
کے ذریعے برصغیر کے طول وعرض میں ہر مکتب فکر اور ہر مزاج کے پڑھے لکھے
افراد کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ان کا یہ قلمی اور فکری سفر اخبار :
تاج :سے شروع ہوکر جمعیت علماء ہند کے ترجمان؛ الجمعیت ؛سے چلتا ہوا
ماہنامہ :ترجمان القرآن :تک اپنے قارئین سے خوب خوب داد وصول کرتا رہا ۔بعد
ازاں انہوں نے اپنے ہم فکر اور ہم خیال افراد کو ایک تنظیم اور جماعت کے
پلیٹ فارم پر منظم ہو کر کام کرنے کی دعوت دی ۔چنانچہ اس مقصد کے لیے 26
اگست 1941 ء کوہندوستان کے مختلف حصوں سے اسلامیہ پارک لاہور کے مقام پر 75
افراد اکھٹے ہوئے اور طویل غور وغوض اور مشاورت سے جماعت اسلامی کے نام سے
ایک دینی تحریک قائم کرنے کا اعلان اور آغاز کیا گیا۔اس موقع پر شرکا ء نے
جو ابتدائی سرمایہ اکٹھاکیا تھا وہ 74روپے اور 75 پیسے تھا۔اس موقع پرداعی
دعوت اسلامی کو ہی اس عظیم الشان کام کی سربراہی کے لیے بھی چن لیا گیا۔یوں
سید ابوالاعلےٰ مودودی ؒ اولین داعی کے بعد پہلے اور بانی امیر جماعت
اسلامی بھی قرار پائے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ اپنی کتاب :جماعت اسلامی کا مقصد ٗ تاریخ
اور لائحہ عمل :میں لکھتے ہیں ۔؛جماعت جس مقصد کے لیے قائم کی گئی ہے وہ یہ
ہے کہ انسانی زندگی کے پورے نظام کو اس کے تمام شعبوں(فکر و نظر ٗ عقیدہ
وخیال ٗ مذہب واخلاق ٗ سیرت و کردار ٗ تعلیم وتربیت ٗتہذیب وثقافت ٗ تمدن و
معاشرت ٗمعیشت و سیاست ٗقانون و عدالت ٗ صلح وجنگ اور بین الاقوامی
تعلقات)سمیت خدا کی بندگی اور انبیاء کی ہدایت پر قائم کیا جائے ـ۔یہ مقصد
اول روز سے ہمارے پیش نظر رہا ہے اور آج بھی یہی ایک مقصد ہے جس کے لیے ہم
کام کر رہے ہیں۔اس کے سوا کوئی دوسرا مقصد نہ ہمارے پیش نظر کبھی تھا نہ آج
ہے ٗ ان شاء اﷲ نہ کبھی ہوگا۔آج تک جس کام میں بھی ہم نے دلچسپی لی ہے ٗ جس
حد تک ہماری دانست میں اس کا تعلق اس مقصد سے تھا۔جس چیز کو ہم قائم کرنا
چاہتے ہیں ٗ اس کا جامع نام قرآن کی اصطلاح میں :دین حق : ہے ٗ یعنی وہ
نظام زندگی (دین) جو حق (پیغمبروں کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق اﷲ کی بندگی
و اطاعت ) پر مبنی ہو۔ مگر اس کے لیے کبھی کبھی ہم نے :حکومت الہیہ:کی
اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔جس کا مفہوم دوسروں کے نزدیک چاہے کچھ بھی ہو ٗ
ہمار ے نزدیک صرف یہ ہے کہ اﷲ کو حاکم حقیقی مان کر پوری انفرادی و اجتماعی
زندگی اس کی محکومیت میں بسرکرنا ٗ اس لحاظ سے یہ لفظ بالکل :اسلام : کا ہم
معنی ہے۔اسی بنا پر ہم ان تینوں اصطلاحوں (دین حق ٗ حکومت الہیہ اور اسلام
) کو مترادف الفاظ کی طرح بولتے ہیں ٗ اور اس مقصد کے حصول کی جدوجہد کا
نام ہم نے اقامت دین ٗ شہادت حق اور تحریک اسلامی رکھا ہے۔جن میں سے پہلے
دو لفظ قرآن سے ماخوذ ہیں اور دوسرا لفظ عام فہم ہونے کی وجہ سے اختیار کیا
گیا ہے۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔:دین حق اور اقامت دین کے تصور میں بھی
ہمارے اور بعض دوسرے لوگوں کے درمیان اختلاف ہے۔ہم دین کو محض پوجا پاٹ اور
چند مخصوص مذہبی عقائد و رسوم کا مجموعہ نہیں سمجھتے بلکہ ہمارے نزدیک یہ
لفظ :طریق زندگی: اور :نظام حیات :کا ہم معنی ہے اور اس کا دائرہ انسانی
زندگی کے سارے پہلوؤں اور تمام شعبوں پر حاوی ہے۔ہم اس بات کے قائل نہیں
ہیں کہ زندگی کوالگ الگ حصوں میں بانٹ کر الگ الگ اسکیموں کے تحت چلایا
جاسکتا ہے۔ہمارا خیال یہ ہے کہ اس طرح کی تقسیم اگر کی بھی جائے تو وہ قائم
نہیں رہ سکتی۔کیونکہ انسانی زندگی کے مختلف پہلوانسانی جسم کے اعضاء کی طرح
ایک دوسرے سے ممیز ہونے کے باوجود آپس میں اس طرح پیوستہ ہیں کہ وہ سب مل
کر ایک کل بن جاتے ہیں اور ان کے اندر ایک ہی روح جاری وساری ہوتی ہے۔یہ
اگرخدا اور آخرت سے بے نیازی اور تعلیم انبیاء سے بے تعلق کی روح ہو تو
پوری زندگی کا نظام ایک دین باطل بن کر رہ جاتا ہے اور اس کے ساتھ خدا
پرستانہ مذہب کا ضمیمہ اگر لگا کر دکھا بھی دیا جائے تو مجموعی نظام کی
فطرت بتدریج اس کو مضمحل کرتے کرتے آخر کار بالکل محو کردیتی ہے اور اگر یہ
روح خدا اور آخرت پر ایمان اور تعلیم انبیاء کے اتباع کی روح ہو تو اس سے
زندگی کا پورا نظام ایک دین حق بن جاتا ہے۔جس کے حدود عمل میں نا خدا شناسی
کا فتنہ اگر کہیں رہ بھی جائے تو وہ زیادہ دیر تک پنپ نہیں سکتا۔اس لیے ہم
جب :اقامت دین : کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب محض مسجدوں میں دین
قائم کرنا ٗ یا چند مذہبی عقائد اور اخلاقی احکام کی تبلیغ کر دینا نہیں
ہوتا ٗ بلکہ اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ گھر اور مسجد ٗ کالج اور منڈی
ٗ تھانے اور چھاؤنی ٗ ہائی کورٹ اور پارلیمنٹ ٗ ایوان وزارت اور سفارت خانے
ٗ سب پر اس ایک خدا کا دین قائم کیا جائے ٗجس کو ہم نے اپنا رب اور معبود
تسلیم کیا ہے اور سب کا انتظام اسی ایک رسولﷺ کی تعلیم کے مطابق چلایا جائے
ٗجسے ہم اپنا ہادی مان چکے ہیں۔ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہماری
ہر چیز کو مسلمان ہونا چاہیے۔اپنی زندگی کے کسی پہلو کوبھی ہم شیطان کے
حوالے نہیں کر سکتے۔ہمارے ہاں سب کچھ خدا کا ہے۔شیطان کا کوئی حصہ نہیں ہے
:۔
تشکیل جماعت اسلامی کے دو سال بعد اکتوبر 1943 ء میں در بھنگہ کے اجتماع سے
خطاب کرتے ہوئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے کہا۔: ہمارے لیے خارج سے
بڑھ کر باطن اہمیت رکھتا ہے۔اس وجہ سے محض تنظیم اور محض ایک چھوٹے سے
ضابطہ بند پروگرام پر لوگوں کو چلانے اور عوام کو کسی دھڑے پر لگا دینے سے
ہمارا کام نہیں چلتا۔ہمیں ایک عوامی تحریک چلانے سے پہلے ایسے آدمی تیار
کرنے کی فکر کرنی ہے۔جو بہترین اسلامی سیرت کے حامل ہوں اور ایسی اعلیٰ
درجے کی دماغی صلاحیتیں بھی رکھتے ہوں کہ تعمیر افکار کے ساتھ اجتماعی
قیادت کے دوہرے فرائض سنبھال سکیں۔یہی وجہ ہے کہ میں عوام میں تحریک کو
پھیلا دینے کے لیے جاری نہیں کر رہا ہوں بلکہ میری تمام تر کوشش اس وقت یہ
ہے کہ ملک کے اہل دماغ طبقوں کو متاثر کیا جائے اور ان کو کھنگال کر ایسے
صالح ترین افراد کو چھانٹ لینے کی کوشش کی جائے جو آگے چل کرعوام کے لیے
لیڈر بھی بن سکیں اور تہذیب و تمدن کے معمار بھی ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اعتراض بجا ہے
کہ کثیر التعداد عوام کو اس نقشے کے مطابق بلند سیرت بنانے کے لیے مدت
مدیددرکار ہے ٗ مگر ہم اپنے انقلابی پروگرام کو عوام کی اصلاح کے انتظار
میں ملتوی نہیں کرنا چاہتے۔ہمارے پیش نظر کام کا جو نقشہ ہے وہ یہ ہے کہ
عوام کی سربراہ کاری کے لیے ایک ایسی مختصر جماعت فراہم کر لی جائے جس کا
ایک ایک فرد اپنے کریکٹر کی جاذبیت سے ایک ایک علاقے کے عوام کو سنبھال سکے
۔ ۔ ۔ تاکہ ان مرکزی شخصیتوں کے ذریعے سے عوام کی قوتیں مجتمع اور منظم ہو
کر اسلامی انقلاب کی راہ میں صرف ہوں۔یہ ایک ٹھوس ٗ پائیدار اور ہمہ گیر
انقلاب کا لازمی ابتدائی طریقہ ہے۔اس مرحلے کو صبر ہی سے طے کرنا پڑے گا :۔
( روداد جماعت اسلامی ،حصہ اول )
مارچ 1944 ء میں اجتماع دارالاسلام کے موقع پر بانی جماعت نے جو تقریر کی
تھی اس کے حسب ذیل فقرے بھی قابل ملاحظہ ہیں ۔ :اب میں مختصر طور پر آپ کو
بتاؤں گا کہ وہ کم سے کم ضروری صفات کیا ہیں جو اس دعوت کے لیے کام کرنے
والوں میں ہونی چاہئیں۔قبل اس کے کہ آپ باہر کی دنیامیں خدا کے باغیوں کے
مقابلے پر نکلیں ٗ اس باغی کو مطیع بنائیے جو خود آپ کے اندر موجود ہے اور
خدا کے قانون اور اس کی رضا کے خلاف چلنے کے لیے ہر وقت تقاضا کرتا رہتا
ہے۔اگر یہ باغی آپ کے اندر چل رہا ہے اور آپ پر اتنا قابو یافتہ ہے کہ آپ
سے رضائے الہٰی کے خلاف اپنے مطالبات منوا سکتا ہے تو یہ بالکل ایک بے معنی
بات ہے کہ آپ بیرونی باغیوں کے خلاف اعلان جنگ کریں ۔ ۔ ۔ حدیث نبوی ﷺکے
مطابق اپنے آپ کو اس گھوڑے کی طرح بنائیے جو ایک کھونٹے سے بندھا ہوا ہو۔
وہ خواہ کتنا ہی گھومے پھرے ٗ بہر حال اس حد سے آگے نہیں جا سکتا جہاں تک
اس کی رسی اسے جانے دیتی ہے۔ایسے گھوڑے کی حالت اس آزاد گھوڑ ے سے بالکل
مختلف ہوتی ہے جو ہر میدان میں گھومتا ہے ٗہر کھیت میں گھس جاتاہے اور جہاں
ہری گھاس دیکھتا ہے وہیں پوری بے صبری کے ساتھ ٹوٹ پڑتا ہے۔ پس آپ آزاد
گھوڑے کی سی کیفیت اپنے اندر سے نکالیں اور کھونٹے سے بندھے ہوئے گھوڑے کی
کیفیت پیدا کریں :۔ ( روداد جماعت اسلامی ٗ حصہ دوم )
:آپ بحیثیت فرد اور بحیثیت جماعت اپنے نصب العین کے اتنے دل دادہ اور اپنے
اصول و ضوابط کے اتنے پابند ہو جائیں کہ آپ کے گردوپیش جو لوگ کسی نصب
العین کے بغیر بے اصول زندگیاں بسر کر رہے ہیں وہ آپ کی پابند اصول زندگی
کو گوارہ نہ کرسکیں ۔ ۔ ۔ مگر میں بر وقت یہ واضح کردوں کہ یہ ساری کشمکش
اس ذہنیت کے ساتھ ہونی چاہیے کہ جس کے ساتھ ایک ڈاکٹر بیماریوں سے کشمکش
کرتا ہے ۔دراصل وہ بیمار سے نہیں بلکہ بیماری سے لڑتا ہے اور اس کی تمام
جدوجہد ہمدردی کی روح سے لبریز ہوتی ہے:۔(روداد جماعت اسلامی ٗ حصہ دوم )
ہمیں مسلسل اور پیہم سعی اور باقاعدگی کے ساتھ کام کرنے کی عادت ہونی
چاہیے۔ایک مدت دراز سے ہماری قوم اس طریق کار کی عادی رہی ہے کہ جو کام کم
سے کم وقت میں ہو جائے ٗ جو قدم اٹھایا جائے ہنگامہ آرائی اس میں ضرور ہو ٗ
چاہے مہینہ دو مہینہ میں سب کیا کرایا غارت ہو کر رہ جائے۔اس عادت کو ہمیں
بدلنا ہے ۔اس کی جگہ بتدریج اور بے ہنگامہ کام کرنے کی مشق ہونی
چاہیے۔چھوٹے سے چھوٹا کام بھی اگر آپ کے سپر کیا جائے تو بغیر کسی فوری اور
نمایاں نتیجہ کے اور بغیر کسی داد کے آپ اپنی پوری عمر صبر کے ساتھ اس میں
کھپا دیں۔ جہاد فی سبیل اﷲ میں ہر وقت میدان گرم ہی نہیں ہواکرتا ہے اور نہ
ہر شخص اگلی صفوں میں لڑسکتا ہے۔ایک وقت کی میدان آرائی کے لیے بسا اوقات
25 ,25 سال تک لگاتار خاموش تیاری کرنا پڑتی ہے اور اگلی صفوں میں اگر
ہزاروں آدمی لڑتے ہیں تو ان کے پیچھے لاکھوں آدمی جنگی ضروریات کے ان چھوٹے
چھوٹے کاموں میں لگے رہتے ہیں جو ظاہر بین نگاہوں میں بہت حقیر ہوتے ہیں :۔
( روداد جماعت اسلامی ٗحصہ دوم )
محترم قارئین ! جماعت اسلامی محض ایک سیاسی یا مذہبی تنظیم نہیں ہے بلکہ یہ
احیائے اسلام کی عالمی تحریک ہے۔دنیا بھر کی اسلامی تحریکات مولانا سید
ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کو اپنا فکری رہنماء اور قائد سمجھتی ہیں اور وہ سید
مودودی ؒ کے لٹریچر سے استفادہ کرتی ہیں۔سید مودودی ؒ کی کتابوں کے تراجم
دنیا کی بڑی بڑی زبانوں میں ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ بڑی تیزی کے ساتھ جاری
ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کو سمجھنے اور جاننے کے حوالے سے مولانا
سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے عالم دین
ہیں۔مختلف ممالک کی یونیور سٹیوں میں سید مودودیؒ کی کتابیں نصاب میں بھی
شامل ہیں ۔جماعت اسلامی کے ہمہ جہت ٗ بھرپور اور منظم کام کو سمجھنے کے لیے
زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کی کارکردگی اور اثرات پر ایک نظر ڈالنا اور
ان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔کسی بھی جماعت ٗ تنظیم یا تحریک کی قوت ٗ کام ٗ
کارکردگی اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے صرف انتخابات اور ان کے
نتائج ہی واحد پیمانہ نہیں ہیں۔بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کے جو
اثرات پائے جاتے ہیں ٗ ان کا مطالعہ اور تجزیہ بھی غیر جانبداری کے ساتھ
کرناضروری ہے۔یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ جماعت اسلامی کو ئی
فرشتوں کی جماعت نہیں ہے ۔ اس کے عہدیدار اور اسے چلانے والے بھی انسان ہیں
اور ہمارے ہی معاشرے کے عام افراد میں سے ہیں۔مختلف ایشوز اور معاملات کو
سمجھنے اور ان کے بارے میں رائے قائم کرنے یا فیصلہ کرنے میں ان سے بھی
غلطی اور کوتاہی ہو سکتی ہے۔اگر کوئی غلطی واضح کر دی جائے تو رجوع بھی کر
لیا جاتا ہے ۔کسی بات یا فیصلے کو قیادت نے کبھی اپنی انا کا مسئلہ نہیں
بنایا ہے۔تنقیدا ورمحاسبہ کا جتنا اچھا اور کڑا نظام جماعت اسلامی کے اندر
موجود ہے ٗکسی اور جماعت میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں پایا جاتا۔سب سے بڑی
بات اور خوبی یہ ہے کہ اس جماعت میں موروثیت نام کی کوئی چیز کہیں بھی نہیں
ہے۔اس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے اندر
جمہوریت ہے اور ہر سطح کے انتخابات بڑی باقاعدگی اور شفاف طریقے کے ساتھ
کروائے جاتے ہیں۔ یہاں عہدے کی خواہش رکھنے والا یا اس کے لیے کوشش کرنے
والا نااہل قرار پاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عہدے کو ایک ذمہ داری اور تنظیمی
ضرورت سمجھ کر قبول کیا جاتا ہے۔قیادت اور کارکنان میں کوئی دوری یا فاصلہ
نہیں ہوتا۔مقامی سے لے کر مرکزی قیادت تک جس وقت اور جب بھی چاہیں یاضروت
ہو تو رابطہ اور ملاقات کی جاسکتی ہے۔پروٹوکول اور واسطوں یا وسیلوں کی
کوئی دیوار حائل نہیں ہے۔جماعت اسلامی میں پہلے تمام کاموں ٗ مہمات اور
ایشوز کے حوالے سے ہر سطح پرمشاورت اورتیاریوں کا مکمل جائزہ اور بعد ازاں
بھی تنقیدی جائزہ ضرور لیا جاتا ہے ۔اچھے پہلوؤں پر تحسین اور کمزوریوں کی
نشاندہی کر کے آئندہ ان سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔مرکز سے لے کر صوبہ ٗ
ضلع اور زون کی سطح پر منتخب مجالس شوریٰ امیر جماعت اور نظم کی رہنمائی
اور مشاورت کا فریضہ ادا کرتی ہیں۔جماعت اسلامی نے جمہوری طریقے اور ووٹ کے
ذریعے سے انقلاب اور تبدیلی کے راستے کا انتخاب کیا ہوا ہے اور دستور جماعت
میں یہ بات واضح طور پر لکھ دی گئی ہے کہ جماعت اسلامی تبدیلی یا انقلاب کے
لیے کسی قسم کی زیر زمین سرگرمیوں یا خفیہ ذرائع کو اختیار نہیں کرے گی۔یہ
بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ کرپشن سے پاک اور صاف ستھری قیاد ت
صرف اور صرف جماعت اسلامی کے ہاں ہی ملتی ہے۔یہ بات جماعت اسلامی کے افراد
نے ہر دور میں اور ہر قسم کے اعلیٰ سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے بعد ثابت
کی ہے۔ مندرجہ بالا خوبیاں اور صفات ایسی ہیں کہ جماعت اسلامی کے مخالفین
بھی ان کا اعتراف کرتے ہیں ۔ |